پاکستان کی حکومت نے تمام وزارتوں اور سرکاری محکموں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے لیے ’فتنہ الخوارج‘ جیسے الفاظ کا استعمال کریں۔
پاکستان کی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف نے پیر کو ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومتنے حال ہی میں ایک اہم مراسلے کے ذریعے ٹی ٹی پی کو ’فتنہ الخوارج‘ کے نام سے نوٹیفائی کیا ہے جس کے بعد اس دہشتگرد تنظیم کو اسی نام سے لکھا اور پکارا جائے گا کیونکہ ’یہ ایک فتنہ ہے اور اس کا دین اسلام اور پاکستان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘
حکومت کی جانب سے گذشتہ ہفتے جاری کیے گئے نوٹیفکیشن میں پاکستان کی وزارت داخلہ نے تمام سرکاری محکموں کو یہ بھی احکامات دیے کہ تمام سرکاری دستاویزات میں کالعدم دہشتگرد تنظیموں سے منسلک افراد کے لیے ’مفتی‘ یا ’حافظ‘ جیسے القابات نہیں استعمال کیے جائیں بلکہ ان کے ناموں سے پہلے لفظ ’خارج‘ کا استعمال کیا جائے۔
وزارتِ داخلہ کے مطابق ’اس تبدیلی کا مقصد اس تنظیم (ٹی ٹی پی) کی اصل فطرت اور نظریات کی عکاسی کرنا ہے۔‘
یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سرکاری سطح پر ان الفاظ کے استعمال سے پاکستان کو شدت پسندی کے خلاف جنگ اور ٹی ٹی پی کے خلاف جاری لڑائی میں کیا مدد مل سکتی ہے؟
لیکن اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے بی بی سی نے تحقیق کی مدد سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ خوارج کی اصطلاح کب اور کیسے وجود میں آئی؟ اور خوارج کون تھے؟
خوارج کی اصطلاح کب وجود میں آئی اور وہ کون تھے؟Getty Images
خوارج اسلام کے پہلے فرقے کے پیروکار ہیں جن کا اردو دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق مسلمانوں کی سیاسی تاریخ میں کردار یہ تھا کہ انھوں نے متواتر بغاوتیں کیں۔
بعض روایات ہیں کہ خوارج کی ابتدا دورِ نبوی ہی میں ہو گئی تھی۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم کے مطابق خوارج کا جد امجد ذوالخویصرہ تمیمی تھا، جو پیغمبر اسلام کے ساتھ گستاخی سے پیش آیا۔ اس پر انھوں نے اسے سخت وعید فرمائی تھی۔
حدیث کا مفہوم ہے کہ ایک موقع پر پیغمبر اسلام نے ان کے متعلق فرمایا تھا کہ ’یہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے پار نکل جاتا ہے۔‘
چھید کر پار ہو جانے والے تیر کو عربی زبان میں المارق کہتے ہیں چونکہ پیغمبر اسلام نے ان کے دین سے نکل جانے کو اسی سے مشابہت دی ہے اس لیے انھیں مارقہ کہا جاتا ہے لیکن خوارج اپنے لیے اس لقب کو پسند نہیں کرتے۔
بعد ازاں مسلمانوں کے تیسرے خلیفہ کے دور میں ان کی فکر پروان چڑھی اور پھر چوتھے خیلفہ کے دورِ میں ان کا عملی ظہور منظم صورت میں سامنے آیا۔
دائرہ معارف اسلامیہ کی آٹھویں جلد میں لکھا ہے کہ ’یہ لوگ جنھوں نے سب سے پہلے اختلاف کیا الحروریہ یا المُحکمہ (لا حُکم الااللہ، یعنی اللہ کے سوا کوئی حُکم نہیں دے سکتا) کہنے والے کہلائے۔ پھر اس نام کے وسیع مفہوم میں بعد کے تمام خوارج شمار ہو نے لگے۔‘
دائرہ کے مطابق یہ چھوٹا سا گروہ بعد کے انحرافات کی وجہ سے رفتہ رفتہ بڑھتا رہا خاص طور پر جب محاکمے کا فیصلہ ان کی توقعات کے برعکس ہوا ( یہ واقعہ غالباً فروری مارچ 658 کا ہے)۔
دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق اس فرقے میں وہ لوگ تھے جو حضرت علی کی کوفہ میں موجود فوج سے خفیہ طور پر نکل کر ابن وہب کی فوج میں شامل ہو گئے تھے انھیں کوفے سے باہر نکلنے (خروج) کی وجہ سے ’خوارج‘ کا نام دیا گیا (یعنی وہ لوگ جنھوں نے خروج کیا یا باہر نکلے)۔
’ایک اور نام جو معلوم ہوتا ہے کہ خوارج نے خود کو دیا، الشُراۃ ہے۔ اس کے معنی ہیں بیچنے والے۔ یعنی وہ لوگ جنھوں نے اپنی جانوں کو خدا کے راستے میں بیچ ڈالا۔‘
’خوارج نے جلد ہی اپنے انتہائی تعصب اور تنگ نظری کا اظہار پے در پے انتہا پسند اعلانات اور دہشت ناک افعال کی صورت میں کیا۔‘ رفتہ رفتہ خارجی فوج کی قوت تشدد پسند اور فتنہ انگیز عناصر کے شامل ہونے سے بڑھتی گئی۔ بہت سے غیر عرب بھی ان میں شامل ہو گئے۔
دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق حضرت علی نے اس بڑھتے خطرے کو دور کرنے کے لیے ان سے جنگ کی۔
اس دور میں خوارج کا طریقہ جنگ گوریلا وار کی طرز پر تھا یعنی وہ چھاپہ مار حملے کرتے تھے۔ ’وہ کسی علاقے میں تیزی سے یلغار کرتے، غیر محفوظ شہروں پر اچانک حملہ کر دیتے، اس کے بعد وہ اسی تیزی سے واپس چلے جاتے تاکہ سرکاری فوج کے تعاقب سے بچ نکلیں۔‘
دائرہ کی تحقیق ہے کہ یزید اول کے مرنے کے بعد جو خانہ جنگی ہوئی اس کے خلفشار میں خارجی تحریک نے بہت زیادہ زور پکڑا۔
جب اموی عہد کے اواخر میں مرکزی حکومت میں انحطاط آیا تو خوارج نے دوبارہ غارت گری شروع کر دی۔
غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ ڈیلَس امریکہ سے منسلک محقق نعیم احمد بلوچ کہتے ہیں کہ خوارج کا مکمل خاتمہ نہ ہو سکا تھا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ عباسی دور میں بظاہر ان کا خاتمہ ہو گیا مگر اصل میں وہ زیرِ زمین چلے گئے۔
دائرہ معارف اسلامیہ کے مطابق خوارج میں شاعری اور خطابت کا ذوق بھی پایا جاتا تھا لیکن وہ اپنی اخلاقی تشدد پسندی میں بہت مبالغہ کرتے ہیں۔ ’اگر کسی شخص سے کوئی گناہ کبیرہ سرزد ہو جائے تو اس کے مومن ہونے سے انکار کرتے ہیں بلکہ اسے مرتد تصور کرتے ہیں۔‘
’ان کی جماعت کا انتہا پسندانہ حصہ، جس کی نمائندگی ازارقہ کرتے ہیں، یہ کہتا ہے کہ جو کوئی اس طرح کافر ہو جائے وہ اسلام کے دائرے میں دوبارہ داخل نہیں ہو سکتا اور اس کے ارتداد کے جرم میں اس کی بیویوں اور بچوں سمیت قتل کر دینا چاہیے۔ وہ ان مسلمانوں کو جو خارجی نہیں مرتد سمجھتے ہیں۔‘
نعیم احمد بلوچ کا کہنا ہے کہ خوارج سے اتفاق کرنے والے اور ان کی نسل کے افراد اب بھی مراکش، یمن اور مصر میں پائے جاتے ہیں ۔
’حال ہی میں القاعدہ، داعش اور طالبان کے بعض گروہ بھی خارجی اصولوں پر اور ان کے عمل کو درست سمجھتے ہوئے ان ہی کی طرح اپنی گوریلا وار جاری رکھے ہوئے ہیں۔ وہ خوارج ہی کے اصول پر تمام مسلمان دنیا کی حکومتوں کو کافر اور ان کے خلاف کارروائی کو درست سمجھتے ہیں۔‘
یہ بھی پڑھیےیاجوج ماجوج اور انھیں ’روکنے والی‘ دیوار کا تصور کیا ہے؟اسلام سمیت مختلف مذاہب میں دجال کا تصور کیا ہے؟AFP’فتنہ الخوارج‘ جیسے الفاظ کا استعمال ٹی ٹی پی کو کیا نقصان پہنچائے گا؟
خطے میں شدت پسند گروہوں پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار اور ’جنگ نامہ‘ کے مصنف فخر کاکا خیل نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ تنازعات کے دوران زبان کی بڑی اہمیت ہوتی ہے اور ماضی میں اس زبان کے اثرات بھی دیکھے گئے ہیں۔
وہ روس اور افغانستان کی جنگ کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ روس کے خلاف لڑنے والوں کو ’جہادی‘ کہا جاتا تھا اور یہ لفظ ایک احترام کا لفظ تھا جسے مقدم جانا جاتا تھا۔
’لیکن جیسے جیسے اہداف بدلتے ہیں، تنازع کے دوران استعمال ہونے والی زبان میں بھی تبدیلی آ جاتی ہے۔‘
فخر کاکاخیل کے مطابق بعد میں ان ہی ’جہادیوں‘ کے لیے مغربی میڈیا ’دہشتگرد‘ کا لفظ استعمال کیا کرتا تھا لیکن اب پھر طالبان کے لیے عسکریت پسند یا مسلح گروہ جیسے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں۔‘
یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ سرکاری سطح پر فتنہ الخوارج جیسے الفاظ کے استعمال سے پاکستان کو شدت پسندی کے خلاف جنگ اور ٹی ٹی پی کے خلاف جاری لڑائی میں کیا مدد مل سکتی ہے؟
فخر کاکا خیل کہتے ہیں کہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں صحافیوں کو ٹی ٹی پی کی جانب سے دباؤ کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور ’وہ کہتے تھے کہ اگر آپ پاکستانی فوجی اہلکاروں کے لیے شہید کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو ہمارے لیے بھی کریں۔‘
’پھر یہ حل نکالا گیا کہ فریقین کے لیے جاں بحق کا لفظ استعمال کیا جائے۔‘
تجزیہ کار مزید کہتے ہیں کہ تنازعات کے دوران استعمال ہونے والی زبان کے اثرات عوامی سطح پر بھی ہوتے ہیں۔
’جب ایک لفظ بار بار استعمال ہوتا ہے تو وہ زبان زدِ عام ہوجاتا ہے، اس سے ایک فریق کو تکلیف تو ہوتی ہے جیسا کہ ٹی ٹی پی کو ہوتی تھی کہ ہمیں شہید کیوں نہیں لکھا جاتا۔‘
دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت کے ان احکامات کا مقصد بیانیے کے محاذ پر ٹی ٹی پی سے مقابلہ کرنا ہے۔
امریکہ میں واقعہ تھنک ٹینک نیو لائنز انسٹٹیوٹ فار سٹریٹیجی اینڈ پالیسی کے سینیئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’پاکستانی ریاست اس گیم میں انتہائی تاخیر سے آئی ہے لیکن دیگر لوگ یہ سب دہائیوں سے کر رہے ہیں۔‘
’دراصل یہ ٹی ٹی پی کو اس کی حیثیت سے محروم کرنے کی کوشش ہے۔‘
’فتنہ الخوارج‘ اور ’خارجی‘ جیسے الفاظ کے استعمال کے حوالے سے کامران بخاری کہتے ہیں کہ ’یہ اصطلاحات اسلام کی آمد کے ابتدائی زمانے میں انتہا پسندوں کے خلاف استعمال ہوتی تھیں۔ مجھے نہیں لگتا کہ ان کا اب استعمال مؤثر ہو گا کیونکہ یہاں لوگ ان اصطلاحات کے حوالے سے زیادہ نہیں جانتے۔‘
جنگ بندی کے باوجود حملے، پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مذاکرات کی حقیقت کیا؟معروف سلفی عالم مولوی ولی ثاقب کے قتل کے محرکات کیا ہو سکتے ہیں؟پاکستان نے افغانستان میں ’ٹی ٹی پی‘ کے خلاف کارروائیوں کا اعلان کیوں کیا؟