عراق میں تین پاکستانیوں کو سزائے موت: ’بھائی مزدوری کرنے گیا تھا، وہ دہشت گردی کیسے کر سکتا ہے؟‘

بی بی سی اردو  |  Aug 05, 2024

’ہمیں نہیں یاد کتنے دن اور ہفتے گزر چکے ہیں بھائی سے بات ہی نہیں ہوئی۔ بس کبھی کھبار کوئی پاکستانی عراق سے اطلاع دیتے ہیں مگر وہ بھی خوش خبری نہیں دکھ کی اطلاع ہوتی ہے۔ میرا بھائی تو محنت مزدوری کرنے گیا تھا ہمیں یقین نہیں آتا کہ وہ کسی کو قتل کرسکتا ہے یا دھشت گردی کرسکتا ہے۔ ‘

یہ کہنا ہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع سرگودھا کی رہائشی ارم منیر کا جن کے بھائی حیدر علی، ان کے خالہ زاد اور گوجرانوالہ کے رہائشی عمر فاروق سمیت شعیب اختر نامی پاکستانی شہریوں کو عراق کے دارالحکومت بغداد میں مختلف الزامات کے تحت پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔

عراق کی رسافہ سنٹرل کورٹ عدالتکے تین رکنی ججوں پر مشتمل بینچ نے پاکستانیوں عمر فاروق، حیدر علی اور شعیب اختر کو دو الگ الگ مقدمات میں مجرم قرار دیتے ہوئے سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ تاہم اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل کا حق حاصل ہے۔

واضح رہے کہ حال ہی میں پاکستان کے وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے سینیٹ کمیٹی کو بتایا تھا کہ ’تقریبا 50 ہزار پاکستانی عراق میں موجود ہیں جو مقدس مقامات کی زیارت کرنے جاتے ہیں اور واپس نہیں آئے۔ ‘

سفارت خانے کے ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ عدالتی کارروائی کے دوران پاکستانی سفارت خانے کا عملہ شریک ہوا تھا اور اس کارروائی کے دوران تینوں ملزمان نے اقرار جرم کرلیا تھا۔ سفارت خانے کے ذرائع کے مطابق عراق کی پولیس نے ان سے پاکستانیوں کی تصدیق چند ماہ قبل کروائی تھی۔

تاہم شعیب اختر کے والد محمد اختر کا دعویٰ ہے کہ ان کے بیٹے کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور عدالتی کاروائی کے دوران ان کو صفائی کا موقع نہیں دیا گیا۔

ان پاکستانی شہریوں پر کیا الزام تھا اور یہ عراق میں کیا کر رہے تھے؟ بی بی سی نے ان افراد کے اہلخانہ سے اس بارے میں بات کی تاہم پہلے جانتے ہیں کہ عدالت میں کیا ہوا۔

عدالت کے فیصلے میں کیا کہا گیا ہے؟

عراقی عدالت نے عمر فاروق، حیدر علی اور شعیب اختر کو انسداد دہشت گردیکے قوانین کے تحت سزائے موت سناتے ہوئے شعیب اختر کو ’دہشت گرد گروپ بنانے، شکایت کندہ شہاب کاظم حسن پر فائرنگ اور اس کی دوکان لوٹنے کے جرم‘ میں سزا سنائی۔

فیصلے میں ایک اور مقدمہ کا ذکر کرتے ہوئے عدالت نے قرار دیا ہے کہ ’ملزم کو آفسیر ہیمن کریم احمد کو قتل کرنے کے جرم میں سزائے موت دی جاتی ہے۔‘

عدالتی فیصلے میں مزید تفصیلات دستیاب نہیں ہیں تاہم عراقی میڈیا میں ایک واقعے کے حوالے سے رپورٹ کیا گیا کہ ایک پاکستانی شہری نے مبینہ طور پر ہجوم میں عراقی شہریوں پر فائرنگ کی جس کے نتیجے میں پیڑولنگ پر موجود ایک افسر ہیمن کریم احمد ہلاک ہوگیا۔

فیصلے کے مطابقملزمان 31 جولائی کو سنائے جانے والے فیصلے کے 30 دن کے اندر وفاقی عدالت میں فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

حال ہی میں پاکستان کے وزیر مذہبی امور چوہدری سالک حسین نے بھی سینیٹ کمیٹی کو بتایا کہ ’تقریبا 50 ہزار پاکستانی عراق میں موجود ہیں جو مقدس مقامات کی زیارت کرنے گئے اور واپس نہیں آئے۔ ‘

پاکستان کی وزارت خارجہ کے مطابق 519 پاکستانی عراق کی مختلف جیلوں میں قید ہیں۔

بی بی سی کو عراق کے شہر ٖغداد میں موجود ایک پاکستانی تاجر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ گذشتہ چند سال میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد نے عراق کا رخ کیا۔

ان کے مطابق اکثریت ایسے پاکستانیوں کی ہے جو ’کم پڑھے لکھے مگر ہنر مند ہیں، میکنک، الیکڑیشن، جنریٹر میکنک، گاڑیوں کے مستری، راج مستری اور دیہاڑی پر کام کرنے والے۔‘

’عراق میں مقدس مقامات کی زیارت کے نام پر پاکستانیوں کو آسانی سے ویزہ مل جاتا ہےاور وہ عراق پہنچ کر غائب ہوجاتے ہیں اور یہاں پر کوئی کام کاج تلاش کرلیتے ہیں۔‘

یورپ جانے کا خواب جس نے دو دوستوں کو ایرانی اغوا کاروں کے چنگل میں پھنسا دیابارزان کمال مجید: بی بی سی نے یورپ کو انتہائی مطلوب انسانی سمگلر ’بچھو‘ کو کیسے تلاش کیا’کسی نے بتایا عراق میں مزدوروں کے لیے اچھے مواقع ہیں‘

حیدر، ان کے کزن عمر اور شعیب بھی ان لوگوں میں ہی شامل تھے۔

حیدر کی بہن ارم منیر کا کہنا تھا کہ ان کے بھائی اور خالہ زاد دونوں اپنے اپنے شہروں میں مزدوری کرتے تھے۔

’کسی نے بتایا کہ عراق میں مزدوروں کے لیے اچھے مواقع ہیں اور زیادہ خرچہ بھی نہیں ہے۔ وہاں مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ویزہ آسانی سے مل بھی جاتا ہے۔‘

ارم نے بتایا کہ ’پہلے میرا خالہ زاد گیا، پھر میرا بھائی بھی چلا گیا۔‘ ان کا کہنا ہے کہ ابھی دونوں کو گئے ہوئے چند ہی دن ہوئے کہ ان کی گرفتاری کی اطلاع ملی۔ وہ تقریبا چھ ماہ سے جیل میں تھے۔

’چند دن پہلے اطلاع ملی کہ ان کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ہے۔‘ اس دوران ’ایک دفعہ بھی ہماری بات نہیں ہوئی۔ ہمیں کچھ پتا نہیں وہ کس حال میں ہیں۔‘

ارم منیر کا کہنا تھا کہ ’میرے والد فالج کی وجہ سے بیمار ہوگئے تھے۔ بھائی کی وجہ سے ہی ہمارا گھر چلتا تھا۔ ہم چھ بہن بھائی ہیں۔‘

ایک اور پاکستانی شہری عمر فاروق کے والد واجد علی نی بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’میں سوچ سوچ کر پریشان ہورہا ہوں کہ جس بچے کو کبھی روزی روٹی کمانے ہی سے فرصت نہیں تھی، جس نے کبھی ساری زندگی کسی کو کچھنہیں کہا، وہ کیسے کسی کو قتل کرسکتا ہے یا دہشت گردیمیں شامل ہوسکتا ہے؟‘

شعیب اختر کے والد محمد اختر کے چار بچے ہیں اور وہ خود ڈرائیور ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’جب سے بیٹا گیا ہے، اس وقت سے کام پر بھی نہیں جا سکتا اور جمع پونجی بھی لٹا بیٹھا ہوں۔ میرا تو اپنا گھر بھی نہیں ہے، کرایہ پررہتا ہوں۔ بیٹے نے عراق جانے سے پہلے کہا تھا کہ وہاں جا کر پیسے بھیجے گا تو اپنا گھر بنا لیں گے۔‘

’وکیل فیس کے نام پر بھی فراڈ ہوگیا‘

محمد اختر کہتے ہیں کہ تینوں کی عراق میں گرفتاری کے بعد ان کا رابطہ عمر فاروق اور حیدر منیر کے خاندان کے ساتھ ہوا لیکن اپنے بچوں کی مدد کی کوشش میں ان کے ساتھ ایک فراڈ بھی ہوا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’عراق کے ایک پاکستانی نے بہت ہمدردی دکھائی تھی۔ اس نے کہا کہ اپنا وکیل نہیں کرو گے تو بچوں کو سزا ہوجائے گی۔ اس نے کہا کہ وہ وکیل کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‘

’اس نے کہا شروع میں ساڑھے تین لاکھ پاکستانی روپیہ دینا ہوں گے بعد میں فیس کو کم کروا لے گا۔ ہم نے پیسے اکھٹے کیے، میں نے تو کچھ قرض لیا اور کچھ پیسے شعیب کی ماں نے بچائے ہوئے تھے وہ دیے۔ مگر بعد میں پتا چلا کہ فراڈ ہوگیا ہے۔‘

ارم منیر کہتی ہیں کہ ’ہم نے وکیل کی فیس کے پیسے پتہ نہیں کیسے اکھٹے کیے تھے۔ ایک نہیں کئی لوگوں سے قرض لیا مگر بعد میں پتا چلا کہ جس پاکستانی نے پیسے منگوائے، وہ فراڈ تھا۔ ‘

واجد علی کہتے ہیں کہ ’جب ہمنے پیسے بھجوا دیے تو اس نے موبائل نمبر ہی بند کردیا۔ اب تک وہ نمبر نہیں کھلا۔ ہم کیا کرسکتے ہیں، بچوں کے مقدمے کو اللہ کے حوالے کردیا تھا۔‘

ارم منیر کہتی ہیں کہ ’عدالت میں تو ہمارا وکیل بھی نہیں تھا۔ وکیل بھی حکومت والوں کا تھا۔ ہمیں پاکستان میں بہت لوگوں نے بتایا تھا کہ حکومتی وکیل کبھی بھی کیس کو اچھے سے نہیں لڑتے ہیں۔ وہ ہمیشہ اپنی حکومت ہی کی طرف کی بات کرتے ہیں۔ ‘

واجد علی کہتے ہیں کہ ’مزدور کا بیٹا جس نے دو جماعتیں نہیں پڑھیں۔ وہ کسی سازش کا شکار تو ہوسکتا ہے مگر وہ دہشت گرد نہیں ہوسکتا ہے۔ ایسا ممکن نہیں ہے۔‘

محمد اختر کہتے ہیں کہ ’ہمیں کچھ پتا نہیں کہ عدالت میں کیا ہوا۔ وہاں کی پولیس نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ ہمیں کبھی کسی نے کوئی تفتیش نہیں دکھائی اور نہ ہی ہمیں پتا ہے کہ ان پر کس دہشت گردی کے الزامات ہیں۔ ہمیں تو جو کچھ پتا چلا ہے وہ سوشل میڈیا یا وہاں پر موجود کچھ پاکستانیوں نے بتایا ہے جب کہ وہ پاکستانی بھی ان کی بات کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اور اب تو وہ فون بھی نہیں اٹھاتے ہیں۔‘

’سعودی نظامِ انصاف کے جال میں پھنسے پاکستانی قیدی‘مصر میں چھ پاکستانیوں کی سزائے موت عمر قید میں ’تبدیل‘: ’میرا شوہر اپنے بیٹے کو سینے سے نہیں لگا سکا‘’عمرے کا جھانسہ دے کر موت کے منہ میں دھکیل دیا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More