بے رحم سرد ہواؤں میں گھری پانچ پاکستانی کوہ پیماؤں کی ایک ٹولی جولائی کے اواخر میں کے ٹو کے ڈیتھ زون یا ’موت کی گھاٹی‘ میں ایک دوسرے سے بہت ہی کم فاصلے پر انتہائی خطرناک سفر کرتے ہوئے آہستہ آہستہ نیچے آ رہی تھی۔
یہ ٹیم کے ٹو سر کر کے نہیں بلکہ ایک لاش لیے نیچے آ رہی تھی اور جلد ہی تاریخ رقم کرنے والی تھی۔
یہ پوری ٹیم ہی بہت تھک چکی تھی کیونکہ کے ٹو کے ’بوٹل نیک‘ یعنی ڈیتھ زون پر جہاں سے کوہ پیما جلد از جلد نکلنے کی کوشش کرتے ہیں وہاں پر انھیں کئی گھنٹے گزارنے پڑے اور اس دوران لاش نکالنے کی کوشش میں کئی گھنٹے کدال بھی چلانی پڑی۔
یوں یہ ٹیم کوہ پیما حسن شگری کی لاش کو نکال کر بیس کیمپ تک لانے میں کامیاب ہو سکی۔
کے ٹو دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی ہے مگر اس کا شمار دنیا کی خطرناک ترین چوٹیوں میں کیا جاتا ہے جبکہ اس کے ’بوٹل نیک‘ کو انتہائی خطرناک سمجھا جاتا ہے۔
سطح سمندر سے 8611 میٹر کی بلندی پر واقع کے ٹو کا ’بوٹل نیک‘ کے نام سے مشہور مقام تقریباً 8000 میٹر سے شروع ہوتا ہے اور کوہ پیماؤں کی اصطلاح میں اسے ’ڈیتھ زون‘ یا موت کی گھاٹی کہا جاتا ہے جہاں بقا کے چیلنجوں میں نمایاں اضافہ ہوتا ہے۔
جب پانچ رکنی پاکستانی کوہ پیماؤں کی ٹیم بوٹل نیک سے حسن شگری کی لاش کو نکالنے کی کوشش کر رہی تھی تو اس وقت پاکستانی خواتین کوہ پیماؤں کی ٹیم کی قیادت کرنے والے امتیاز چوٹی سر کرنے کے بعد واپسی کے سفر پر تھے۔
امتیاز کہتے ہیں کہ ’بوٹل نیک سے کوہ پیماؤں کا اوپر جانا اور نیچے اترنا انتہائی خطرناک عمل ہوتا ہے جبکہ پاکستانی کوہ پیماؤں کی اس ٹیم نے کئی گھنٹے بوٹل نیک پر گزار کر اور اپنے ساتھ ایک لاش کو نکال کر ناممکن سمجھے جانے والے کام کو ممکن کر دکھایا ہے۔‘
الپائن کلب آف پاکستان کے جنرل سیکرٹری کرار حیدری کوہ پیماؤں کی اس کاوش کو تاریخی فتح قرار دیتے ہیں۔
’پاکستانی کوہ پیماؤں نے کے ٹو فتح کرنے کے 70 سال بعد تاریخ رقم کر دی ہے۔ انھوں نے وہ کر دکھایا جو اس سے پہلے نہیں ہوا تھا۔‘
کرار حیدری کے مطابق حسن شگری کی لاش کو فوجی ہیلی کاپیٹر کے ذریعے آبائی علاقے پہنچا دیا گیا ہے۔ جہاں پر ان کی تدفین بھی ہو چکی ہے جبکہ حسن شگری کی لاش کو نیچے لانے والے پانچوں کوہ پیما خیریت سے ہیں اور اس وقت بیس کیمپ پر ہیں۔
یاد رہے کہ پاکستان کے ریکارڈ یافتہ کوہ پیما محمد علی سدپارہ بھی بوٹل نیک پر حادثے کا شکار ہوئے تھے جس کے بعد ان کے بیٹے ساجد سدپارہ ان کی لاش کو بوٹل نیک سے نیچے کیمپ فور تک لانے میں کامیاب ہوئے تھے، تاہم لاش کو واپس لانے میں دشواری کے باعث انھیں کے ٹو پر ہی دفنا دیا گیا تھا۔
’مشن پر جانے کا فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے کیا‘
یہ مشن ایک پوری ٹیم کی جانب سے کیا گیا تھا جس کی پروجیکٹ لیڈر نائیلہ کیانی تھیں۔ عمران علی گراؤنڈ پر وسائل مہیا کر رہے تھے جبکہ پانچ کوہ پیما جن میں دلاور سدپارہ، اکبر حسین سدپارہ، ذاکر حسین سدپارہ، محمد مراد سدپارہ اور علی محمد سدپارہ شامل تھے لاش کو واپس لانے والی ٹیم میں شامل تھے۔
محمد مراد سدپارہ اس ٹیم کے ممبر ہیں اور اکثر اوقات پورٹر کی خدمات انجام دیتے ہیں۔ وہ پانچ مرتبہ کے ٹو پر مہم کا حصہ بن چکے ہیں۔
محمد مراد سد پارہ کے مطابق وہ سب نائلہ کیانی کے ساتھ کے ٹو کی صفائی مہم پر کام کر رہے تھے۔
اس دوران نائلہ کیانی نے انھیں بتایا کہ ’حسن شگری کا خاندان چاہتا ہے کہ ان کی لاش کو نیچے لایا جائے تاکہ وہ اسلامی طریقے سے حسن شگری کی تدفین کر سکیں۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’یہ ایک خطرناک مشن تھا۔ اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا تھا کہ آٹھ ہزار میٹر کی بلندی سے کسی لاش کو لایا گیا ہو۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے اس پر سوچا اور ساتھیوں سے مشورہ کیا۔ اس سے پہلے گذشتہ سال میں اس ٹیم میں شامل تھا جو سات ہزار میٹر کی بلندی سے ایک لاش کو نیچے لایا تھا مگر حالیہ مشن بوٹل نیک پر تھا۔‘
محمد مراد سد پارہ کہتے ہیں کہ تمام دوستوں نے اس مشن کو قبول کرنے کا فیصلہ دماغ سے نہیں دل سے کیا تھا۔
’یہ ٹھیک ہے کہ یہ ہمارا پیشہ ہے۔ مگر بوٹل نیک سے لاش کو تلاش کر کے لانے کے بارے میں سوچیں تو پہلے یہی خیال آتا ہے کہ کوہ پیمائی اور پھر کے ٹو پر یہ کھیل بہت خطرناک ہے۔ مگر بوٹل نیک سے لاش کو لانا یہ تو بہت ہی زیادہ خطرناک ہے۔‘
’مگر ہم نے اپنے دل سے سوچا کہ حسن شگری ہمارا پیٹی بھائی تھا۔ اس کے بال بچے اب بھی تڑپ رہے ہوں گے۔ ویسے بھی دنیا میں کوئی کام ایسا نہیں جو ناممکن ہو اور ہر ناممکن سمجھا جانے والا کام کبھی نہ کبھی ممکن ہو ہی جاتا ہے۔‘
Getty Images’منفی 50 ڈگری میں لاش کی گھنٹوں تک تلاش‘
محمد مراد سد پارہ کہتے ہیں کہ ’ہم اس وقت بیس کیمپ پر ہیں جبکہ لاش کو 31 جولائی کو کیمپ تھری سے فوجی ہیلی کاپٹر کے ذریعے سے پہنچا دیا گیا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے مشن کو آٹھ دن ہو چکے ہیں۔ ہمیں یہ تو پتا تھا کہ بوٹل نیک پر ہمارا وقت کے ٹو کو سر کرنے والوں سے زیادہ لگ سکتا ہے مگر ہمیں یہ اندازہ نہیں تھا کہ ہمیں اتنا زیادہ وقت لگ جائے گا۔ بوٹل نیک پر ہمیں 24 گھنٹے لگ گئے۔‘
محمد مراد سدہ پارہ کا کہنا تھا کہ ’آٹھ ہزار میٹر پر پہنچ کر ہر کوئی کوشش کرتا ہے کہ ایک دو گھنٹے میں وہاں سے نکل جائے۔ وہاں پر منفی 50 ڈگری ہوتا ہے۔‘
خیال رہے کہ ڈیتھ زون میں سب سے زیادہ وقت گزارنے کا ریکارڈ نیپال کے پیمبا گلجئین شرپا کے پاس ہے جو سنہ 2008 میں دو کوہ پیماؤں کو بچانے کے لیے 90 گھنٹے تک کے ٹو کے ڈیتھ زون میں رہے۔
مراد کہتے ہیں کہ ’حفاظتی آلات کے علاوہ جیکٹ وغیرہ تو موجود تھے مگر ہاتھ پاؤں کا حرکت کرنا، چلنا پھرنا یہ سب انتہائی دو بھر ہو جاتا ہے۔‘
محمد مراد سد پارہ کہتے ہیں کہ ’ہماری منزل کے ٹو کو سر کرنا نہیں تھا۔ بوٹل نیک پر پہنچ کر پہلے ہمیں لاش کو تلاش کرنا تھا۔
’ہمیں اندازہ تو تھا اور ہمیں بہت سے لوگوں نے بتایا بھی تھا کہ لاش کس مقام پر ہو سکتی ہے۔ اس مقام پر پہنچ کر ہم نے تلاش کا کام شروع کیا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمیں پتا تھا کہ حسن شگری نے کون سی اور کس رنگ کی جیکٹ پہن رکھی تھی۔ وہاں پر جب تلاش کا کام شروع کیا تو ہمیں ان کی جیکٹ کا ایک ٹکڑا نظر آیا۔‘
’دو دو منٹ کے لیے کدال چلاتے تھے‘
اس ٹیم میں ذاکر حسین سدپارہ بھی شامل تھے جو اس سے قبل بھی دو مرتبہ کے ٹو پر جا چکے ہیں۔
ذاکر حسین سدپارہ کہتے ہیں کہ حسن شگری کی لاش برف میں چار فٹ تک دبی ہوئی تھی۔ برف کو اوپر سے تھوڑا ہٹایا تو اس کے بعد جمی ہوئی برف تھی جس کو آپ آئس بھی کہہ سکتے ہیں جس کو کدال کے ساتھ ہٹنا بہت مشکل کام تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’آٹھ ہزار میٹر کی بلندی اور پھر بوٹل نیک پر ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر رکھنا پڑتا ہے۔ اور یہاں ہمیں کدال چلانا تھی۔ اتنی بلندی پر یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ پاؤں ادھر سے ادھر رکھا تو بندہ گیا۔ ہم لوگ بلند و بالا پہاڑوں کے رہنے والے ہیں۔ مگر ہم میں سے کوئی بھی کدال دو منٹ سے زیادہ نہیں چلا سکتا تھا۔ ہر کوئی دو منٹ تک کدال چلاتا اور پھر آرام کرتا تھا۔‘
ذاکر حسین سدپارہ کے مطابق وہ لوگ تین گھنٹے تک وہاں پر کدال چلاتے رہے۔ جس کے بعد چار فٹ آئس سے حسن شگری کی لاش نکالنے کے قابل ہوئے۔ اس کے بعد ڈیڈ باڈی کو بیگ میں ڈالا گیا اور اب نیچے اترنے کا مرحلہ تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ لاش کو نیچے لانے کے لیے ہم پہلے ہی سے ڈیڑھ سو میٹر فالتو لمبی رسی لے کر گئے تھے۔ ہمیں لاش کے لیے الگ سے رسی لگانی تھا۔ واپسی کے سارے راستے 10 سے 15 میڑ رسی لگاتے رہے تھے۔
کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟علی سدپارہ کے ساتھی جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون مل گیا’ہاتھ پاؤں سن ہو گئے تھے‘
ذاکر حسین سدپارہ نے کوہ پیمائی کی تکنیک کے تناظر میں اس مشکل سفر کی کہانی بیان کی۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’کوہ پیمائی کے دوران کوہ پیماؤں کو آپس میں فاصلہ رکھنا ہوتا ہے۔ یہ انتہائی لازمی ہوتا ہے فاصلہ نہ ہو تو خطرہ بہت بڑھ جاتا ہے۔ مگر ہم آپس میں فاصلہ نہیں رکھ سکتے تھے کیونکہ ہمیں لاش کو اٹھانا، رسی سے باندھنا اور بہت سے کام کرنا ہوتے تھے۔
’ہم یہ سفر بہت سست رفتار سے کر رہے تھے اس دوران کئی مرتبہ لینڈ سلائیڈنگ ہوئی، برف اور پتھر گرے اور ہم بال بال موت کے منھ سے نکلے۔ سب سے مشکل مرحلے کا سامنا ہمیں تقریباً سات ہزار میٹر کی بلندی پر کرنا پڑا۔‘
محمد مراد سد پارہ کا کہنا تھا کہ بوٹل نیک سے نکل آئے تو ہمیں ایک اور مصیبت کا سامنا تھا۔ یہ موسم کی خرابی تھی۔ طوفانی ہوائیں شروع ہو چکی تھیں۔ اپنی جگہ سے ہلنا بھی مشکل ہو چکا تھا۔ ایک قدم نہیں چل سکتے تھے۔ ہمارے ہاتھ پاؤں سُن ہو گئے تھے اور اوپر سے برفانی تودے گرنا شروع ہو گئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم وہاں پر اس طوفان میں نو گھنٹے تک پھنسے رہے تھے۔ دوپہر سے شام ہوئی موسم ٹھیک ہوا تو ہم نے دوبارہ اپنے سفر کا آغاز کیا۔ اب رات کا اندھیرا تھا۔ ایک ایک قدم پھونک پھونک کر رکھنا تھا۔ بس کسی نہ کسی طرح رات کو دس بجے ہم لوگ کیمپ تھری پر پہنچ گئے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’وہ وقت یاد آتا ہے تو اب بھی سوچتے ہیں کہ ایک قدم بھی غلط جاتا تو ہم بھی زندہ انسان سے لاشیں بن جاتے۔ شاید پھر کوئی بوٹل نیک اور کے ٹو سے کسی اور کی لاش کو نکالنے کی جرات نہ کرتا۔‘
چین اور پاکستان کے درمیان آسمان سے باتیں کرتی ہوئی چوٹیوں پر مشتمل قراقرم پہاڑی سلسلے کی اس چوٹی پر حالات اتنے غیر موافق ہیں کہ اسے ایک طویل عرصے سے ’خونخوار چوٹی‘ کہا جاتا ہے۔
’خاندان نے لاش واپس لانے کی درخواست کی تھی‘
حسن شگری گذشتہ سال پورٹر کی خدمات انجام دیتے ہوئے کے ٹو پر حادثے کا شکار ہو کر ہلاک ہو گئے تھے۔
ان کی موت کے حوالے سے ایک ویڈیو وائرل ہوئی تھی جس میں دیکھا جا سکتا تھا کہ بوٹل نیک پر حسن شگری کی لاش پڑی ہوئی ہے اور کوہ پیماؤں کی لمبی قطار اس مقام سے گزر رہی ہے۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے پر کوہ پیما کمیونٹی کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا تھا۔
پاکستان کی ممتاز خاتون کوہ پیما نائلہ کیانی کا کہنا ہے کہ ’حسن شگری کی جس طرح موت ہوئی تھی اس پر مجھے بہت دکھ تھا۔ دنیا بھر میں جہاں بھی کوہ پیمائی سکھائی جاتی تھی وہاں پر بتایا جاتا ہے کہ اگر کسی کو مدد کی ضرورت ہو تو اس کی مدد ضرور کرنی چاہیے، بھلے اس کے لیے اپنی مہم کو بھی ترک کیوں نہ کرنا پڑے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’جبکہ حسن شگری پر سے سو، سو لوگ پھلانگ کر جاتے تھے۔ اس کو صرف پورٹر ہی سمجھا گیا تھا اور قریب سے گزرنے والے یہ سوچتے ہوں گے کہ ان کی کامیاب مہم جوئی خراب نہیں ہونی چاہیے۔ مجھے لگا کہ حسن شگری کے ساتھ اچھا نہیں ہوا تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ابھی حال ہی میں انھوں نے کے ٹو کو ماحولیاتی تبدیلی سے بچانے کے لیے صفائی مہم شروع کر رکھی ہے۔
’اس سلسلے میں ہمارے ساتھ ایک بڑی ٹیم کام کر رہی ہے۔ اس مہم کے حوالے سے جب حسن شگری کے اہل خانہ بالخصوص ان کی بیوہ اور والدہ کو پتا چلا تو انھوں نے اس سلسلے میں خصوصی گزارش کی تھی۔‘
نائلہ کیانی کا کہنا تھا کہ ’حسن شگری کا خاندان ابھی بھی چاہ رہا تھا کہ ڈیڈ باڈی ہر صورت نیچے آئے اور ان کی بیوہ اور والدہ کی اس سلسلے میں شدید خواہش تھی مجھ سے اپنی ملاقات کے دوران وہ رو رو کر یہ گزارش کر رہی تھیں کہ ہمیں اس سلسلے میں کچھ کرنا چاہیے۔‘
کے ٹو کی بلندی 8611 میٹر ہے جو کہ دنیا کی بلند ترین چوٹی ایورسٹ سے صرف دو سو میٹر کم ہے لیکن موسم سرما میں یہاں پر یہ چوٹی انتہائی خطرناک ہو جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس موقع پر سوچا کہ ہمیں کم از کم ایک پیغام ضرور پہچانے کی کوشش کرنی چاہیے کہ ’بھلے کوئی پورٹر ہو یا کوہ پیما جان سب کی قیمتی ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’کچھ وجوہات اور واقعات کی بنا پر نیپال اور دوسرے ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں کم کوہ پیما آتے ہیں۔ تاثر یہ بھی ہے کہ پاکستان میں تربیت یافتہ کوہ پیما یا پورٹر موجود نہیں ہیں۔‘
نائلہ کیانی کا کہنا تھا کہ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ غیر ملکی کوہ پیما اپنے ساتھ دوسرے ممالک کے پورٹر یا کوہ پیما لے کر آتے ہیں۔ ہمارے پورٹر کو بہت کم اجرت ملتی ہے جو کہ شاید اس وقت دو ہزار ڈالر ہے جبکہ باہر سے آنے والے کوہ پیما دس ہزار ڈالر تک وصول کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر دور کرنے، اعتماد سازی بحال کرنے اور دنیا کو یہ دکھانے کے ہمارے لوگ بہت زیادہ بہادر، تجربہ کار ہیں۔ کچھ تربیت کی کمی ہو سکتی ہے مگر ان کی صلاحیتوں پر کوئی شک نہیں ہے۔
نائلہ کیانی کا کہنا تھا کہ اس مقصد کے لیے انھوں نے بہت ہی ماہر اور تجربہ کار ٹیم چنی تھی۔
انھوں نے بتایا کہ ’مراد نے ایک سال میں دو مرتبہ بغیر آکسیجن کے کے ٹو سر کی تھی۔ ذاکر کئی سالوں سے کامیاب مہم جوئی کر اور کروا رہے ہیں۔ اکبر اور دلاور نے پچھلے سال براڈ پیک کی رسّی فکس کی تھی۔ رسّی فکس کرنا دو بندوں کا کام نہیں ہوتا ہے۔ علی بھی بہت تگڑا ہے۔ کے ٹو ان کا دیکھا بھالا ہے۔‘
کے ٹو پر تین گھنٹے تک رسی سے لٹکے رہنے والے محمد حسن: ’جاتے ہوئے انھیں زندہ دیکھا، واپسی پر لاش سے گزر کر آئے‘کے ٹو کا ’ڈیتھ زون‘ کیا ہے اور کوہ پیما وہاں کتنے گھنٹے زندہ رہ سکتے ہیں؟علی سدپارہ کے ساتھی جان سنوری کا کیمرہ، گارمین ڈیوائس اور فون مل گیا