چیف جسٹس کو دھمکی دینے پر کارروائی کا اعلان مگر ’یہ معاملہ بھی ٹی ایل پی سے مذاکرات پر ختم ہوسکتا ہے‘

بی بی سی اردو  |  Jul 29, 2024

Getty Imagesٹی ایل پی سمیت متعدد مذہبی جماعتیں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے کے خلاف گذشتہ کئی دنوں سے احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہیں

پاکستان کے صوبہ پنجاب کے شہر لاہور کی پولیس نے مذہبی سیاسی جماعت تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے مرکزی نائب صدر ظہیر الحسن کے خلاف چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو دھمکی دینے اور مذہبی منافرت پھیلانے کے الزام میں مقدمہ درج کیا ہے۔

پیر کو ٹی ایل پی کے ایک ترجمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ظہیر الحسن کو پنجاب کے شہر اوکاڑہ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ تاہم لاہور پولیس کی جانب سے ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

لاہور کے تھانہ قلعہ گجر سنگھ میں درج ہونے والی ایف آئی آر کے متن کے مطابق ظہیر الحسن نے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف لوگوں کو اشتعال دلانے کی کوشش کی۔

مقدمے میں انسدادِ دہشتگردی ایکٹ، مذہبی منافرت، فساد پھیلانے، عدلیہ پر دباؤ ڈالنے کی دفعات کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کو دھمکی، کارِ سرکار میں مداخلت اور قانونی فرائض کی انجام دہی میں رُکاوٹ ڈالنے سے متعلق دفعات شامل کی گئی ہیں۔

بی بی سی کو دستیاب ایک ویڈیو میں یہ دیکھا جاسکتا ہے کہ ٹی ایل پی کے رہنما ظہیر الحسن ایک اجتماع کے دوران چیف جسٹس کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کر رہے ہیں۔ 6 فروری کو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے دو رکنی بینچ نے توہینِ مذہب کے الزام میں قید ایک شخص کو رہا کرتے ہوئے اس کے خلاف درج ایف آئی آر سے توہینِ مذہب کی دفعات 298C اور 295B حذف کرنے کا حکم دیا تھا۔

ٹی ایل پی سمیت متعدد مذہبی جماعتیں اس فیصلے کے خلاف گذشتہ کئی دنوں سے احتجاجی ریلیاں نکال رہی ہیں۔

فروری میں سپریم کورٹ نے پریس ریلیز میں کہا تھا کہ ’الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا پر اس فیصلے کی غلط رپورٹنگ کی گئی ہے جس سے غلط فہمیاں پیدا کی جا رہی ہیں اور ایسا تاثر دیا جا رہا ہے کہ جیسے سپریم کورٹ نے دوسری آئینی ترمیم میں مسلمان کی تعریف سے انحراف کیا ہے۔‘

اس حوالے سے پاکستان کی مرکزی حکومت کی جانب سے بھی ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ پیر کو وزیرِ دفاع خواجہ آصف کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال کا کہنا تھا کہ ’ہم کابینہ کی جانب سے سب کو بتانا چاہتے ہیں کہ ریاست کسی کو قتل کے فتوے جاری کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔‘

وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے ٹی ایل پی کے رہنما کی تقریر کا حوالے دیتے ہوئے کہا کہ ’اگر عدلیہ آئینی معاملات پر فیصلے دے رہی ہے تو اس میں دھمکی دینے کی کوشش کو ناکام بنایا جائے گا، ملک میں آئین کی حکمرانی اور انصاف کا بول بالا ہونا چاہیے۔‘

خادم رضوی سے سعد رضوی تک: تحریک لبیک کے پُرتشدد دھرنوں اور ’کامیاب‘ معاہدوں کے چھ سالتحریک لبیک پاکستان: کیا ملک میں بزور بازو مطالبات منوانے کی روش کا راستہ ہموار کیا گیا؟لبیک، لبیک اور پھر لبیک

وزیرِ منصوبہ بندی احسن اقبال نے ٹی ایل پی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’یہ وہ طبقہ ہے جنھیں 2017 اور 2018 میں سیاسی ایجنڈے کے تحت کھڑا کیا گیا تھا۔‘ خیال رہے کہ 2018 میں پولیس کے مطابق ٹی ایل پی کی حمایت کرنے والے ایک شخص نے احسن اقبال پر حملہ کیا تھا جس میں وہ زخمی ہوئے تھے۔

حالیہ معاملے پر ٹی ایل پی کا موقف جاننے کے لیے بی بی سی نے پارٹی رہنما عمیر الاظہری سے رابطہ کیا ہے لیکن انھوں نے ظہیر الحسن کے بیان پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارا موقف مرکزی امیر (سعد حسین رضوی) بیان کرتے ہیں، مرکزی امیر کی گفتگو کے بعد کسی اور کے بیان کی کوئی اہمیت نہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ انھیں ذاتی طور پر ظہیر الحسن کی گرفتاری کا علم نہیں لیکن اس حوالے سے ’آگے کا لائحہ عمل‘ جماعت کے سربراہ سعد حسین رضوی طے کریں گے۔

پُرتشدد مظاہروں میں ملوث جماعت جس کے کئی بار حکومت کے ساتھ مذاکرات ہوئے

یہ پہلا موقع نہیں جب ملک میں ٹی ایل پی کی سرگرمیوں پر کسی حکومت نے اعتراض اُٹھایا ہو۔

ماضی میں بھی حکومتیں مذہبی جماعت کے خلاف کارروائی کا عندیہ دے چکی ہیں لیکن ہر بار ٹی ایل پی کے احتجاج کی صورت میں پاکستانی حکام کو ان کے مطالبات ماننے پڑے ہیں۔ اس کی سب سے تازہ مثال رواں ماہ کا دھرنا ہے جس پر حکومت نے ان سے اسرائیلی اشیا کے بائیکاٹ پر مذاکرات کیے۔

خیال رہے 2017 میں ٹی ایل پی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں فیض آباد پر دھرنا دیا تھا۔ مذہبی جماعت نے اس وقت کے وزیرِ قانون زاہد حامد پر الزام لگایا تھا کہ انھوں نے اراکینِ پارلیمنٹ کے حلف نامے میں تبدیلی کی ہے۔

Getty Images2017 میں ٹی ایل پی نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں فیض آباد پر دھرنا دیا تھا

قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ٹی ایل پی کے کارکنان کے درمیان تقریباً دو ہفتوں تک جاری جھڑپوں کے بعد یہ دھرنا اس وقت ختم ہوا جب پاکستانی حکومت اور ٹی ایل پی کے درمیان آئی ایس آئی کی ثالثی میں مذاکرات ہوئے اور وزیرِ قانون زاہد حامد نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔

ماضی میں ن لیگ کے متعدد رہنماؤں نے الزامات عائد کیے تھے کہ ٹی ایل پی کو اس وقت کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ نے جماعت کے ووٹ بینک کو توڑنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ ٹی ایل پی متعدد بار اس الزام کی تردید کر چکی ہے۔

اس کے بعد 2021 میں سابق وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت نے ٹی ایل پی پر انسدادِ دہشتگردی ایکٹ کے تحت پابندی عائد کی تھی۔ تاہم تقریباً سات مہینوں بعد پُرتشدد احتجاجی مظاہروں کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کو پابندی کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔

اپنے قیام کے بعد ٹی ایل پی دو عام انتخابات میں حصہ لے چکی ہے اور ملک کی ایک بڑی مذہبی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ گیلپ کے انتخابی تجزیے کے مطابق سنہ 2018 کے عام انتخابات میں ٹی ایل پی نے تقریباً 22 لاکھ، جبکہ 2024 کے انتخابات میں تقریباً 28 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے۔

ٹی ایل پی کے رہنماؤں کی تقریریں اور دھرنے متعدد بار پاکستان میں موضوع بحث رہے ہیں۔ ظہیر الحسن کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف تقریر کے بعد ایک بار پھر لوگ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز تقاریر کے معاملے پر پاکستانی حکومت پر تنقید کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

سندھ یونیورسٹی سے منسلک پروفیسر ڈاکٹر عرفانہ ملّاح کہتی ہیں کہ ’وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہیں اور ٹی ایل پی انھیں کُھل کر دھمکیاں دے رہی ہے، ذرا سوچیے کہ یہ ملک کے عام شہری کے لیے کتنا خطرناک ہو سکتے ہیں۔‘

سوشل میڈیا پر ٹی ایل پی رہنما کی ویڈیو گردش کر رہی ہے اور اکثر صارفین کی جانب سے اس کی مذمت کی جا رہی ہے۔ ’ایکس‘ پر ایک صارف نے لکھا کہ ’آخر مذہب کو ہتھیار بنا کر کب تک ریاستِ پاکستان کو یرغمال بنایا جاتا رہے گا؟ اگر فیصلے سے اختلاف ہے تو چیلنج کریں۔ سیدھا سیدھا دھمکانا، یہ کہاں کا دین ہے؟‘

Getty Imagesظہیر الحسن نے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دھمکی آمیز تقریر کی ہےکیا حکومت ٹی ایل پی کے خلاف کارروائی کرنے جا رہی ہے؟

پاکستان کے وزیرِ قانون اعظم نذیر تارڑ اس حوالے سے کہتے ہیں کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اشتعال انگیز اور دھمکی آمیز تقریر کے معاملے پر گرفتاریاں بھی ہوں گی اور حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا۔

پاکستان پر گہری نظر رکھنے والے مبصرین کا کہنا ہے کہ ملک میں حکومتیں ٹی ایل پی کے خلاف ایکشن لینے سے گریزاں نظر آتی ہیں کیونکہ متعدد بار یہ گروہ ثابت کر چکا ہے کہ اس کے پاس سڑکوں پر لوگوں کو جمع کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

انتہا پسند گروہوں پر نظر رکھنے والے ادارے خُراسان ڈائری سے منسلک محقق ریکارڈو ولے کہتے ہیں کہ ’ٹی ایل پی نے متعدد مرتبہ ثابت کیا ہے کہ وہ ملک بھر میں طاقت رکھتے ہیں، متعدد مرتبہ اس تنظیم نے سڑکوں پر اپنے حامیوں کو بڑی تعداد میں نکالا ہے، احتجاج کیے ہیں اور دھرنے دیے ہیں۔‘

ریکارڈو ولے کے مطابق ٹی ایل پی کے رہنما قومی اور بین الاقوامی معاملات کا استعمال کرتے ہوئے خود کو پاکستان کے سیاسی اور معاشرتی حلقوں میں نمایاں رکھنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

’ان تمام عوامل کے سبب پاکستان اس بات پر مجبور ہے کہ اس تنظیم کے ساتھ نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملی کا استعمال کرے۔‘

ماضی میں ٹی ایل پی کے دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کے دوران پُرتشدد واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔

ریکارڈو ولے اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’ٹی ایل پی ایک عسکری تنظیم تو نہیں ہے لیکن اس میں کچھ ایسی علامات ضرور نظر آتی ہیں جو کہ منظم عسکری تنظیموں میں نظر آتی ہیں۔‘

ٹی ایل پی اپنے قیام کے بعد سے اب تک توہین مذہب کے معاملے پر متعدد احتجاجی ریلیوں کا انعقاد کر چکی ہے اور بعض اوقات ان مظاہروں کے سبب پاکستان کے دیگر ممالک سے تعلقات پر بھی فرق پڑا ہے۔

’انڈر دا گن: پولیٹیکل پارٹیز اینڈ وائلنس اِن پاکستان‘ کی مصنفہ اور نیویارک میں البانی سٹیٹ یونیورسٹی سے منسلک اسسٹنٹ پروفیسر نیلوفر صدیقی کہتی ہیں کہ ’ٹی ایل پی کے طاقتور ہونے کی سادہ وجہ تو توہینِ مذہب کے حوالے سے اس گروہ کے نظریات ہیں، لیکن یہ اس جماعت کے مقبول ہونے کی واحد وجہ نہیں۔‘

Getty Images2024 کے انتخابات میں ٹی ایل پی نے تقریباً 28 لاکھ ووٹ حاصل کیے تھے

ان کے مطابق ’متعدد کمزور تنظیمی ڈھانچوں والی جماعتوں کے بیچ میں ٹی ایل پی ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جو کہ کافی منظم ہے۔‘

خیال رہے ٹی ایل پی کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر سے ہے۔ نیلوفر صدیقی کے مطابق بریلوی مکتبہ فکر میں یہ احساس تیزی سے بڑھ رہا تھا کہ ملک میں ان کی جگہ دیوبندی اور اہل حدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے لے لی ہے اور ٹی ایل پی اس احساس محرومی کا فائدہ اُٹھانے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کے بعد حکومت انتہاپسندی کی روک تھام کے لیے کیا حکمت عملی اپنائے گی؟

خُراسان ڈائری سے منسلک محقق ریکارڈو ولے کہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے ظہیر الحسن کے خلاف مقدمے کے اندراج کے بعد پاکستانی حکومت ٹی ایل پی سے نمٹنے کے لیے مختلف حکمت عملی اپنائے لیکن ’ایسا بھی ہوسکتا ہے کہ یہ معاملہ بھی ماضی کی طرح مذاکرات پر ختم ہو اور ٹی ایل پی اپنی سرگرمیوں کو جاری رکھے۔‘

پروفیسر نیلوفر صدیقی کا خیال ہے کہ پاکستان کو درپیش انتہاپسندی کے خطرات اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتے ’جب تک ایسے گروہوں سے نہ نمٹا جائے جو تشدد اور اشتعال انگیزی کو اپناتے ہیں۔‘

’ایسا نہ کرنے سے مقامی سطح پر انفرادی رہنماؤں کی طاقت بڑھے گی اور ایسے نظریات کو پنپنے کے لیے مزید جگہ ملے گی۔‘

وائلنٹ ایکسٹریمزم بل 2023: انتہا پسندی کی روک تھام سے متعلق قوانین کی موجودگی میں نئے بل کا مقصد کیا تھا؟مذاکرات کی رات تحریک لبیک اور حکومت کے درمیان معاملات کیسے طے پائے؟فرانسیسی سفیر کے بےدخلی کا مطالبہ پورا کرنا مشکل ہے، باقی مطالبات پر اتفاق ہے: شیخ رشید
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More