بالی وڈ کے معروف گلوکار مکیش کا موسیقی کا سفر ایک شادی سے شروع ہوا تھا جب وہ دلی میں اپنی بہن کی شادی میں گا رہے تھے۔ اس محفل میں فلمی دنیا کے دو افراد بھی موجود تھے۔ ان میں سے ایک ہدایتکار تارا ہریش تھے۔
انڈین شادیوں میں باراتیوں کو خوش رکھنے کی بہت سی کوششیں کی جاتی ہیں۔ مکیش کو ہارمونیم بجانے اور شادی میں مہمانوں کے لیے گانا گانے کا کہا گیا۔
برسوں پہلے مکیش نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’اگلے دن وہ صاحب ان کے گھر پہنچے۔ وہ میرے والد سے ملے اور کہا کہ آپ کے صاحبزادے میں بہت صلاحیت ہے۔ ہمارے والد کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ گانا کسے کہتے ہیں، نہ ہم جانتے تھے۔
’ہم اس وقت میٹرک میں پڑھ رہے تھے۔ والد نے مجھ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں؟ میں نے کہا کہ یہ فلموں کے بہت مشہور لوگ ہیں۔‘
'والد نے ان سے پوچھا: ’آپ کیا چاہتے ہیں‘ تو انھوں نے کہا کہ وہ سہگل سے بڑا نام کمائیں گے۔
اس وقت انھوں نے اس فلم میں اداکارہ نلنی جیونت کو ہیروئن کے طور پر کاسٹ کیا تھا اور اس کے ساتھ کام کر رہے تھے۔
انھوں نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا تھا جب نلنی کی دوسری فلم شروع ہوئی تو انھوں نے ہمارے والد کو ٹیلی گرام بھیجا۔ انھوں نے کہا کہ جب یہ لوگ اتنا اصرار کر رہے ہیں تو شاید تمھارے پاس واقعی ٹیلنٹ ہے۔ اس لیے جاؤ اور ایک بار اپنی قسمت آزماؤ۔‘
اس وقت مکیش کی عمر 16 سال تھی۔ مکیش بمبئی پہنچ گئے لیکن وہ فلم ناکام ہو گئی۔ انھیں نوکری سے نکال دیا گیا اور کمپنی بھی بند ہو گئی۔کچھ دنوں تک وہ شیئر بروکر کا کام کرتے رہے تو کبھی خشک میوہ جات فروخت کرتے رہے۔ انھوں نے کئی پیشوں میں قسمت آزمائی۔
1942 میں پلے بیک سنگنگ شروع کی اور پھر مکیش کا گلوکاری کا کیریئر شروع ہوا۔
فلم ’پہلی نظر‘ میں بڑا بریک
پہلے اداکار موتی لال اپنی فلموں میں اپنے گانے خود گاتے تھے لیکن فلم پہلی نظر میں انھوں نے فیصلہ کیا کہ ان کا گانا ایک پلے بیک سنگر گائے گا۔ مکیش نے وہ گانا ریکارڈ کرایا۔
لیکن جب فلم مکمل ہوئی تو وہ گانا فلم سے ہٹا دیا گیا۔
مکیش نے بی سی سی کو بتایا کہ ’ہم فلم کے پروڈیوسر مظہر خان کے پاس گئے اور ان سے پوچھا کہ آپ نے یہ گانا کیوں ہٹا دیا؟ تو انھوں نے کہا کہ موتی لال اکثر چنچل کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ اداس گانا ان کے کردار کے مطابق نہیں ہوگا۔ اور ہمارا دل ٹوٹ گیا۔‘
'ہم نے ان سے کہا، مظہر بھائی! ہماری درخواست ہے کہ آپ اس گانے کو فلم میں رہنے دیں۔ انھوں نے کہا کہ بھائی یہ گانا نہیں چلے گا، یہ بور کرتا ہے۔‘
لیکن کافی جدوجہد کے بعد وہ اس پر راضی ہوگئے کہ گانے کو ایک ہفتے تک فلم میں رکھیں گے۔ اگر لوگوں کو یہ گانا پسند آیا تو وہ اسے جاری رکھیں گے، ورنہ فلم سے ہٹا دیں گے۔
Getty Imagesانیل بسواس نے مکیش کو پہلا بریک دیا تھاانیل بسواس کے ساتھ بحث
اس گانے کی بھی ایک دلچسپ کہانی ہے۔ اس گانے کی ریکارڈنگ ایچ ایم وی سٹوڈیو میں کی جانی تھی۔ تاریخ اور وقت سب طے ہو چکا ہے۔ لیکن مکیش آخری وقت میں لاپتہ ہو گئے۔ وہ تھوڑا سا گھبرا گئے تھے۔ چنانچہ ہمت بحال کرنے کے لیے انھوں نے ایک قریبی بار میں شراب پینا شروع کر دیا تھا۔
دوردرشن کے مشہور پروڈیوسر شرد دت نے اپنے ایک مضمون میں لکھا تھا کہ ’مکیش نے ایک بار شراب پینی شروع کی تو وہ پیتے رہے، دوسری طرف موسیقار انیل بسواس کا صبر جواب دیتا جا رہا تھا۔ جب انھوں نے دریافت کیا تو انھیں بتایا گیا کہ شاید مکیش ایک بار میں بیٹھے شراب پی رہے ہیں تو انیل بسواس فوراً وہاں پہنچے اور انھیں تقریباً گھسیٹتے ہوئے سٹوڈیو لے گئے۔
'وہ انھیں باتھ روم میں لے گئے، ان کا سر واش بیسن میں ڈالا اور پوری رفتار سے نل کھول دیا۔ جب مکیش کا نشہ پانی سر پر پڑنے سے تھوڑا کم ہوا تو انھوں نے معذرت کی اور کہا 'دادا، اس کے لیے کوئی اور دن رکھ لیں۔میں آج ریکارڈنگ میں اتنا اچھا نہیں گا سکوں گا۔‘
انیل بسواس نے انھیں زوردار تھپڑ مارا اور دھمکی دی کہ اگر انھوں نے گانا نہیں گایا تو وہ انھیں سب کے سامنے ماریں گے۔ بالآخر مکیش کو وہ گانا گانا پڑا اور ریکارڈنگ مکمل ہو گئی اور وہ بھی ایک ہی ٹیک میں۔ وہ گانا تھا ’دل جلتا ہے تو جلنے دے۔۔۔‘
اس گانے کے ساتھ مکیش ایک ایسے سفر پر نکلے جہاں سے انھیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا پڑا۔
سہگل کا ہارمونیم
اس گانے میں کندن لال سہگل کے انداز کی واضح جھلک دیکھی جا سکتی ہے۔ ایک طرح سے انھوں نے یہ گانا بالکل ان کے انداز میں گا کر سہگل کو خراج تحسین پیش کیا۔ تاہم لتا منگیشکر اور کشور کمار بھی سہگل کے عقیدت مند تھے۔
یتندر مشرا لتا منگیشکر کی سوانح عمری ’لتا سُر گتھا‘ میں لکھتے ہیں کہ ’لتا نے مجھے بتایا تھا، مکیش بھیا اس معاملے میں خوش قسمت تھے کہ بعد میں سہگل صاحب نے انھیں اپنا خاص ہارمونیم دیا تھا۔
’سہگل صاحب جب گاتے تھے تو اسی ہارمونیم پر بجاتے تھے۔ وہ اب بھی مکیش بھیا کے گھر پر موجود ہے۔‘
مکیش اور راج کپور کی جگل بندی
اگرچہ مکیش نے دلیپ کمار اور منوج کمار کے لیے بہت سے گانے گائے لیکن ان کا راج کپور سے قریبی تعلق رہا۔
1964 میں انھوں نے راج کپور کے بارے میں لکھا تھا کہ ’میں راج کپور کو پچھلے 25 سالوں سے جانتا ہوں، آپ اسے 'سلور جوبلی دوستی' بھی کہہ سکتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ راج کپور نے ہمیشہ میری تعریف کی۔ انھوں نے میری تنقید بھی کی۔ جہاں وہ میری خوبیوں کی تعریف کر کے کبھی سیر نہیں ہوتےوہیں اگر میری خامیاں نظر آتیں تو اس پر تنقید بھی کرتے تھے۔‘
راج کپور کی بیٹی ریتو نندا اپنی سوانح عمری ’شو مین: دی ون اینڈ اونلی راج کپور‘ میں لکھتی ہیں کہ ’راج کپور کہتے تھے، میری روح مکیش ہے، میں صرف ایک جسم ہوں، وہی ہے جس نے مجھے آواز دی اور مجھے بنایا۔ جب اس نے اس دنیا کو الوداع کہا تو مجھے لگا کہ میری زندگی میں ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جسے میں کبھی پر نہیں کر سکتا۔‘
مکیش: انڈیا کا ’پہلا عالمی گلوکار‘ جس کے گیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی دھوم مچا رہے ہیںمحمد رفیع جو دھنوں سے کھلونوں کی طرح کھیلتے تھےنہ جانے کتنے لڑکے محمد رفیع سے ملنے بھاگے ہوں گے؟Getty Imagesگجراتی برہمن لڑکی سے شادی
مکیش سادگی پسند شخص تھے۔ ان کے بیٹے نتن مکیش یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’انھیں اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا لیکن کپڑے، کولون اور ان کی الماری میں موجود ہر چیز مہنگی نہیں تھی۔ ایک بار دنیا کی سیر پر روانہ ہونے سے پہلے ان کی بڑی بیٹی نے انھیں مہنگے جوتے تحفے میں دیے تھے۔ وہ انھیں اپنے ساتھ نہیں لے گئے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنے پیروں میں اتنی قیمتی چیز کبھی نہیں پہنی، بعد میں ان کی موت کے بعد، میری ماں نے مجھے وہ جوتے دیے۔‘
مکیش نے دسویں جماعت کا امتحان پاس نہیں کیا تھا۔ انھوں نے پشتو سکول میں تعلیم حاصل کی اور صرف اردو میں لکھنا پڑھنا جانتے تھے۔ وہ ہندی پڑھنا نہیں جانتے تھے۔ ان کے تمام گیت اردو میں لکھے جاتے تھے۔ لیکن وہ انگریزی اچھی طرح بول سکتے تھے۔
نتن بتاتے ہیں کہ ’میری ماں اور مکیش کی بیوی سرل ترویدی گجراتی برہمن تھے اور مکیش گوشت کھانے والے کائستھ ذات کے تھے۔ جب ان کے گھر والوں کو ان کی محبت کا علم ہوا تو انھوں نے سرل کو ایک کمرے میں بند کر دیا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ غیر ذات میں سبزی خور اور شراب نوشی کرنے والے سے شادی کرے۔ میرے والد رات بھر بارش کے پانی میں بھیگ بھیگ کر ان کے گھر کے سامنے کھڑے رہتے تھے، تاکہ وہ ان کی ایک جھلک دیکھ سکیں۔ آخر کو 22 جولائی 1946 کو دونوں نے ایک مندر میں شادی کر لی۔ وہ مکیش کی سالگرہ کا دن بھی تھا۔ ان کے لیے وہ فلم 'ہمالیہ کی گود میں' کا گیت 'چاند سی محبوبہ ہو میری۔۔۔' گایا کرتے تھے۔‘
Getty Imagesکرکٹر چندرشیکھر مکیش کے بڑے مداح تھےکرکٹ کھلاڑی چندر شیکھر مکیش کے بہت بڑے مداح تھے
دو ہندوستانی کھلاڑی پرکاش پڈوکون اور عظیم سپن بولر بھاگوت چندر شیکھر مکیش کی آواز کے دیوانے تھے۔
کیپٹن ملند ہستک اپنی کتاب ’مائی کلوز انکاؤنٹرز ود دی وائس آف مکیش‘ میں لکھتے ہیں کہ ’دلچسپ بات یہ تھی کہ کنڑ بولنے والے چندر شیکھر مکیش کے زیادہ تر گانوں کو نہیں سمجھتے تھے اور نہ ہی انھیں کلاسیکی یا ہلکی موسیقی کا زیادہ علم تھا۔ تب بھی وہ مکیش کی طرف متوجہ ہوئے اور ان کے گانوں میں مکیش سے ملنے کی خواہش اس وقت پوری ہو گئی جب وہ ہندوستانی ٹیم میں منتخب ہو گئے اور وہ کرکٹ کھیلنے کے لیے اکثر بمبئی آنے لگے۔
’ان میں سے ایک سفر کے دوران ان کےدوست ایم جے راجو انھیں مکیش سے ملنے ریکارڈنگ سٹوڈیو لے گئے۔ اس کے بعد دونوں میں گہری دوستی ہو گئی۔ جیسے ہی چندر شیکھر بمبئی پہنچتے سب سے پہلے مکیش کو فون کرتے۔ سنہ 1975 میں جب انڈین کرکٹ ٹیم ویسٹ انڈیز کے خلاف بمبئی میں ایک ٹیسٹ میچ کھیل رہی تھی تو مکیش نے پوری ٹیم کو اپنے گھر پر رات کے کھانے پر مدعو کیا تھا۔‘
Getty Imagesمکیش کے بیٹے نتن مکیشبیرون ملک بھی مقبول
مکیش نہ صرف انڈیا بلکہ بیرون ملک بھی کافی مقبول تھے۔ جب مشہور اناؤنسر جسدیو سنگھ 1980 کے اولمپکس کی کوریج کے لیے ماسکو گئے تو انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ وہاں مکیش کے گانے کتنے مقبول تھے۔
جسدیو سنگھ نے لکھا: ’بازاروں میں کتنی بار یہ پہچانتے ہوئے کہ میں اپنی پگڑی سے ہندوستانی ہوں، روسی لوگ بے سُرے انداز میں گانا شروع کر دیتے ’آوارہ ہوں۔۔۔‘ 1984 میں جب انڈین خلاباز راکیش شرما خلا سے واپس آرہے تھے تو آرکٹک میں ریاست کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے گزرتے ہوئے میں نے دیکھا کہ مکیش کے گانوں کی آڈیو کیسٹیں کئی دکانوں کے باہر لگے چھوٹے سپیکروں پر چل رہی ہیں۔‘
زندہ دل اور اچھا انسان
مکیش بہت ہینڈسم تھے۔ صاف گو، لمبے، خوش مزاج اور ملنسار۔ مکیش کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک تہذیب یافتہ اور خوش مزاج انسان تھے۔
مجروح سلطان پوری نے ایک بار ان کے بارے میں لکھا تھا: ’میرے خیال میں ہمارے گلوکاروں میں اتنا سماجی اور گھریلو کردار کوئی نہیں ہے۔‘
'ایک بار مکیش نے ایک اچھا سویٹر پہنا ہوا تھا۔ میں نے بات کرتے ہوئے ان سے کہا، مکیش صاحب یہ سویٹر بہت اچھا ہے۔ جب میں اپنی گاڑی کی طرف لوٹا تو دیکھا کہ وہی سویٹر میری گاڑی میں رکھا ہوا تھا، مجروح صاحب یہ صرف آپ کے لیے ہے۔
گلوکاروں میں مکیش سے زیادہ الفاظ اور اس کے احساس کو سمجھنے والا کوئی نہیں تھا۔
لتا منگیشکر دھن کے بعد الفاظ کو اہمیت دیتی تھیں جبکہ مکیش لفظ اور دھن دونوں کو یکساں اہمیت دیتے تھے۔
مقبولیت کا راز
کچھ حلقوں میں کہا گیا کہ مکیش کی آواز کی حد ہے۔ ایک خاص نوٹ کے بعد یہ فلیٹ ہونے لگتی ہے۔
سینیما کے مشہور صحافی ہریش تیواری لکھتے ہیں کہ ’کبھی کبھی مکیش کلاسیکی موسیقی کے پیچ و خم کے ساتھ اپنی فطری رفتار کو برقرار رکھنے میں ناکام رہتے تھے۔ وہ پیچیدہ تان یا لمبے لمبے آلاپ لینے سے قاصر رہتے تھے۔ ان کی آواز کی ایک اور کمزوری تھی کہ وہ کافی لچکدار نہیں تھی، وہ کسی ایک سر کی باریکی کو بیان کرنے کے لیے ایک نوٹ پر ٹھہر نہیں سکتی تھی۔
'لیکن ان تمام خامیوں کے باوجود وہ سننے والوں کے دل میں یہ یقین پیدا کرنے میں کامیاب رہے کہ گلوکاری کے فن سے ناواقف کوئی بھی شخص مکیش کے گانے بڑی آسانی سے گا سکتا ہے، یہی وجہ تھی کہ وہ اپنے مداحوں میں مقبول ہوئے۔‘
Getty Imagesمکیش کی سخاوت
مکیش کی سخاوت کے کئی قصے مشہور ہیں۔ وہ اکثر شرڈی میں سائی بابا مندر جایا کرتے تھے۔ ایک بار وہ وہاں رکشے پر سوار تھے اور رکشہ والا ان کا ایک گانا گا رہا تھا، 'گائے جا گیت ملن کے، تو اپنی لگن کے۔۔۔‘
مکیش نے رکشے والے کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرتے ہوئے کہا انھیں یہ گانا پسند نہیں آیا۔ رکشہ والے کو اتنا برا لگا اور اس نے اتنی زور سے بریک لگائی کہ مکیش تقریباً گرتے گرتے بچے۔
رکشہ والے نے کہا کہ یہ گانا عظیم گلوکار مکیش نے گایا ہے اور میں ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہیں سن سکتا۔ مکیش نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’میں وہی مکیش ہوں۔‘
کیپٹن ملند ہستک لکھتے ہیں کہ ’اب چونکنے کی باری رکشہ والے کی تھی، اس نے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو یہ گانا گا کر دکھاؤ۔ مکیش نے جب وہ گانا گایا تو رکشہ والے کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے۔ اس نے مکیش کو اپنے رکشے پر پورے شرڈی کی سیر کرائی۔پھر انھوں نے رکشہ والے سے پوچھا کہ کیا رکشہ ان کا اپنا ہے تو رکشے والے نے کہا نہیں۔ اس کے نہیں کہنے پر مکیش نے اسے نہ صرف رکشہ خرید کر دیا بلکہ ان کے گھر گئے اور ان کے لیے کپڑے اور برتن بھی خریدے۔
امریکہ میں وفات
26 اگست 1976 کو مکیش اور ان کے بیٹے نتن مکیش نے پہلی بار امریکہ کے ڈیٹرائٹ میں ایک کنسرٹ میں ایک ساتھ گایا۔
اگلے دن 27 اگست کو مکیش کو دل کا دورہ پڑا اور انھیں اسے ہسپتال لے جایا گیا۔
جب انھیں آئی سی یو میں لے جایا گیا تو وہ اپنے ہاتھ میں ہردے ناتھ منگیشکر کی بیوی بھارتی کی طرف سے دی گئی رامائن پکڑے ہوئے تھے۔ لیکن وہ آئی سی یو سے زندہ باہر نہ آ سکے اور 40 منٹ کے اندر ہی دم توڑ گئے۔ اس وقت ان کی عمر صرف 53 سال تھی۔
ہیروں اور کرکٹ کی دلدادہ لتا منگیشکر جن کے گلے میں سُروں کا جادو بستا تھامکیش: انڈیا کا ’پہلا عالمی گلوکار‘ جس کے گیت دنیا کے کئی ممالک میں آج بھی دھوم مچا رہے ہیںانڈین گلوکار کے کے کی وفات: ’میٹھی آواز‘ والا گلوکار جس کے ’ہر گانے کی دل میں علیحدہ جگہ ہے‘'گلوکار بہت ہیں مگر میوزک کا معیار وہ نہیں رہا'وہ نوجوان جو جسٹن بیبر اور آریانہ گرانڈے کے مقابل آ سکتا ہے