بالی وڈ فلموں کے ’بے رحم اور شیطان صفت‘ ولن جو اصل زندگی میں نرم مزاج اور ہنس مکھ ہیں

بی بی سی اردو  |  Jul 21, 2024

Getty Images

ہر فلم میں ایک ہیرو ہوتا ہے تو ایک ولن، جتنا اہم کہانی میں ہیرو ہوتا ہے اتنا ہی اہم ولن بھی ہوتا ہے کیونکہ اس کے بغیر ہیرو کو اپنے کردار کے جلوے دکھانے کا موقع نہیں ملتا۔

دورِ حاضر میں ہیرو کا کردار ادا کرنے والے بڑے نام ولن کے کرداروں میں بھی ہٹ ہو جاتے ہیں کیونکہ بقول ان کے اس کردار میں پرفارم کرنے کا موقع زیادہ اچھا تھا۔ لیکن ایک وہ وقت بھی تھا جب ولن کا کردار ادا کرنا بہت اچھی یا قابل قبول بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔

یہ 1971 کی بات ہے جب فلم شرمیلی ریلیز ہوئی تھی۔ ششی کپور پہلے ہی ہٹ تھے لیکن رنجیت کے لیے یہ ایک بڑا بریک تھا جو اس فلم میں ولن بنے۔

جب وہ گھر تو ان کی ماں نے روتے ہوئے کہا کہ ان کے بیٹے نے خاندان کی بدنامی کی ہے اور ان کے والد امرتسر جا کر کسی کو منھ دکھانے کے لائق نہیں رہے۔

آخرکار یہ ہوا کہ رنجیت اداکارہ راکھی کو اپنے گھر لے آئے اور انھیں اپنے گھر والوں کو یہ یقین دلانا پڑا کہ راکھی کو ان سے کوئی شکایت نہیں ہے اور وہ صرف اداکاری کر رہی ہیں۔ تب بھی ان کی ماں راکھی سے معافی مانگتی رہیں۔

رنجیت نے خود یہ کہانی کتاب ’بیڈ مین: بالی وڈ کے آئیکونک ولنز‘ میں شیئر کی ہے۔ فلمی صحافی روشمیلا بھٹاچاریہ نے یہ کتاب ہندی سنیما کے 13 بڑے ولنز پر لکھی ہے۔

رنجیت ایک بہت اچھے پینٹر ہیں اور کالج فٹ بال ٹیم کے اچھے گول کیپر تھے۔ این ڈی اے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ وہاں سے نکالے گئے اور پھر ہندی فلموں کے ولن بن گئے۔

پران، جیون، اجیت، پریم چوپڑا، کے این سنگھ، رنجیت، امریش پوری، ڈینی، انوپم کھیر، امجد خان، شکتی کپور سے لے کر گلشن گروور تک کئی نام ولن کی فہرست میں شامل ہیں۔

سکرین پر دکھائے جانے والے ان ولنز کا ڈراؤنا روپ اتنا مؤثر ہوا کرتا تھا کہ حقیقی زندگی میں بھی لوگ ان سے ڈرتے تھے اور گھر والے ناراض ہوتے تھے۔

روشمیلا بھٹاچاریہ کی کتاب بیڈ مین میں ایسی کئی کہانیاں ہیں۔

گلشن گروور کتاب میں بتاتے ہیں کہ 1983 کی فلم اوتار میں انھوں نے اپنے والدین کو پیسوں کے لیے گھر والوں سے نکال دیا، جب میرے پڑوسی فلم دیکھ کر آئے تو وہ روز میرے گھر سے کہتے کہ ’تمھارا مہذب بیٹا بگڑا ہوا، ناشکرا ہو گیا ہے۔‘

’اور وہ دن دور نہیں جب وہ پیسوں کے لیے اپنے حقیقی والدین کو گھر سے باہر پھینک دے گا۔ میری ماں کو شروع میں فلمیں سمجھ نہیں آتی تھیں اور وہ بہت روتی تھیں۔‘

شاعر پریم چوپڑا

سکرین پر یہ ولن بھلے ہی ظالم، بے رحم اور شیطان صفت کیوں نہ ہوں لیکن حقیقی زندگی میں ان کی شخصیت کے بہت سے دلچسپ پہلو ہیں اور ہر کوئی اپنے حصے کی جدوجہد کے بعد یہاں تک پہنچا ہے۔

2023 میں فلم اینیمل میں نظر آنے والے پریم چوپڑا ایک اچھے شاعر ہیں اور انھیں پریم آوارہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔

فلموں میں جدوجہد کرتے ہوئے انھوں نے بیک وقت ٹائمز آف انڈیا کے سرکولیشن ڈیپارٹمنٹ میں کئی سالوں تک خفیہ طور پر کام کیا تاکہ وہ اپنی روزی کما سکیں۔ پھر بالآخر وہ فلم ’وہ کون تھی‘ (1964) میں بطور ولن ہٹ ہو گئے۔

بالی وڈ کے دو اور مشہور ولن ڈینی اور امریش پوری بھی کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ کئی فلموں میں انھوں نے ولن کا کردار نبھایا اور بطور ولن ان کے ڈائیلاگ آج بھی دہرائے جاتے ہیں۔

ڈینی ایک اچھے گلوکار ہیں اور وہ گلوکار بننے کے ارادے سے ہی اپنے گھر سے نکلے تھے۔ ڈینی نے کشور کمار، آشا بھوسلے سے لے کر لتا منگیشکر جیسی مشہور گلوکاروں کے ساتھ کئی ہندی فلموں میں گانے گائے ہیں۔

دوسری جانب فلموں میں نام کمانے سے پہلے امریش پوری نے سرکاری نوکری کی اور ساتھ ہی ساتھ تقریباً 20 سال تھیٹر بھی کیا۔ انھیں 1979 میں سنگیت ناٹک اکادمی ایوارڈ بھی ملا تھا، جس کے بعد ان کا فلمی کریئر شروع ہوا۔

Getty Imagesڈینی ایک اچھے گلوکار ہیں اور وہ گلوکار بننے کے ارادے سے نکلے تھےراج کپور سے لڑائی اور پران کی صلح

فوٹو گرافی کا شوق رکھنے والے پران پہلے فوٹوگرافر کے اسسٹنٹ کے طور پر کام کرتے تھے، پھر پنجابی فلموں میں ہٹ ہیرو اور بعد میں ولن بنے۔ لیکن اصل زندگی میں وہ فلموں والے ولن کے کردار کی منفی تصویر سے بالکل ہٹ کر ایک مختلف شخصیت کے مالک تھے۔

کئی سال پہلے سینئر فلم نقاد جے پرکاش چوکسی نے مجھے بتایا، ’ایک دن اچانک پران صاحب نے مجھے فون کیا اور پوچھا کہ کیا آپ راج کپور کے تینوں بیٹوں رشی، رندھیر اور راجیو کو میرے گھر لا سکتے ہیں کیونکہ میں ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ ’میں نے ایسا ہی کیا۔ بعد میں پران جی نے مجھے بتایا کہ دراصل فلم بوبی کی شوٹنگ کے دوران ان کی راج کپور سے لڑائی ہوئی تھی جس کا انھیں افسوس ہے۔‘

’اسی کی تلافی کے لیے پران جی نے راج کپور کے بچوں کو بلایا اور ان کے ساتھ وقت گزارا۔ یہ بھی ان کا ایک پہلو تھا۔‘

پہلے زمانے میں ولن یا اینٹی ہیروز کو اخلاقیات کے سخت پیمانے پر پرکھا جاتا تھا۔

مصنفہ روشمیلا بھٹاچاریہ کہتی ہیں، ’1950 میں، سپر سٹار اشوک کمار نے فلم سنگرام میں ایک منفی کردار ادا کیا تھا جس میں وہ غیر قانونی کاروبار کرتے ہے، قتل کرتے ہے اور بالآخر اپنے ہی پولیس افسر باپ کے ہاتھوں مارے جاتے ہی۔‘

فلم کو 16 ہفتوں کی شاندار نمائش کے بعد روک دیا گیا تھا اور اس وقت کے مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ مورار جی دیسائی نے بمبئی کے پولیس کمشنر کو اشوک کمار کے گھر بھیجا تھا کہ وہ انھیں سمجھائیں کہ ’یوتھ آئیکون ہونے کے ناطے انھیں ایسے کردار نہیں کرنا چاہیے۔‘

ویسے تو اب فلم کا ہیرو اکثر ولن ہوتا ہے، مثال کے طور پر 1993 کی بازیگر میں شاہ رخ ہیرو تھے اور شاہ رخ ہی ولن تھے جو اپنی گرل فرینڈ کو پلک جھپکتے میں مار ڈالتے ہیں۔

ڈاکو سے سٹائلش بزنس مین تک - بدلتے ہوئے ولن

کہا جاتا ہے کہ فلم میں ولن جتنا مضبوط اور موثر ہوتا ہے آخر میں ہیرو اتنا ہی کامیاب ہوتا ہے۔ ولن کی شکل، ساکھ اور رویہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہا ہے۔

50 کی دہائی میں ساہوکار ولن ہوا کرتا تھا۔ اس کی ایک مثال 1957 میں ریلیز ہونے والی مدر انڈیا سے سکھیلالا ہے جس کا کردار اداکار کنہیا لال نے ادا کیا تھا۔ بعد میں پران جیسے سٹائلش ولن آئے جو سگریٹ کے دھوئیں سے چھلے بناتے تھے۔

اپنے وقت کے مشہور ولن اجیت پر کتاب لکھنے والے اقبال رضوی نے کچھ عرصہ قبل بی بی سی سے بات کی تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ایک زمانے میں ولن ڈاکو ہوا کرتے تھے یا اس سے پہلے بھی، زمیندار یا گاؤں کے ساہوکار، لیکن 70 کی دہائی میں جب اجیت جیسے اداکار ولن بنے تو ہندوستانی معاشرہ بدلنے لگا۔‘

’پھر ہمارا تعارف ایک ولن سے کرایا جاتا ہے جو مہذب ہے، اندھا دھند گولی نہیں چلاتا، سوٹ پہنتا ہے اور کمان رکھتا ہے۔ وہ بہت آرام سے اور تحمل سے بات کرتا ہے۔ اس کی طرف دیکھ کر یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ آدمی اتنا برا بھی ہو سکتا ہے۔‘

Getty Imagesولن پونیت اسر اور امیتابھ بچن کے درمیان ایکشن سین کے دوران امیتابھ بچن شدید زخمی ہو گئےجب پونیت اسار لوگوں کے اصلی ولن بن گئے

مصنفہ روشمیلا بھٹاچاریہ کہتی ہیں کہ کبھی کبھی ولن کو اپنی مقبولیت کا دوسرا رخ بھی دیکھنا پڑتا ہے۔

1983 میں فلم قُلی میں ولن پونیت اسر اور امیتابھ بچن کے درمیان ایکشن سین کے دوران امیتابھ بچن شدید زخمی ہو گئے۔ جس کے بعد وہ موت اور زندگی کی کشمکش میں رہے۔

پونیت اسر نے 2013 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ قُلی کے بعد انھیں کئی سالوں تک مناسب کام نہیں ملا اور ناظرین نے بھی انھیں مسترد کر دیا۔

ایک حادثے نے انھیں لوگوں کی نظر میں اصلی ولن بنا دیا تھا۔

اگر ہم ولن کے موضوع کو آگے لے جائیں تو ایک وقت تھا کہ فلموں میں پریم چوپڑا راجیش کھنہ کے حریف بنے تو رنجیت 80 کی دہائی میں امیتابھ بچن کے حریف بن گئے۔

رنگ برنگی قمیض، قمیض کے بٹن نیچے تک کھلے، گلے میں سونے کا لاکٹ اور یہ ولن نہ صرف لوٹ مار کرنے سے باز نہیں آیا بلکہ ہیروئن کے ساتھ بدتمیزی بھی کرتا رہا۔

اس دوران ڈاکٹر ڈانگ (کرما) اور شکل (شان) جیسے ڈان اور مجرم بھی تھے جن کے پاس نئی قسم کے گیجٹس تھے۔ سکرین پر ان کی انٹری ہی بتا دیتی تھی کہ کچھ غلط ہونے والا ہے۔

گبر سنگھ کے بغیر شعلے کا تصور نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ 1992 میں صرف 51 سال کی عمر میں انتقال کر گئے۔ اس سب کے درمیان سکم سے آئے اور بالکل مختلف نظر آنے والے ڈینی نے دھرماتما، ہم جیسی فلموں میں بھی جگہ بنائی۔

ولن سے کامیڈین تک

تاہم وقت کے ساتھ ساتھ بہت سے ولن مثبت یا مزاحیہ کردار کرنے لگے۔ قادر خان اور شکتی کپور (کرائم ماسٹر گوگو) کی آمد کے ساتھ ہی مزاحیہ ولن سکرین پر آئے۔

حالانکہ روشمیلا بھٹاچاریہ کا خیال ہے کہ ولن کو اچھا اداکار ہونا چاہیے لیکن اصل ولن وہی ہے جو ذہن میں خوف اور نفرت پیدا کرے۔

کبھی لوگوں میں خوف پیدا کرنے والے پران نے بعد میں فلم اپکار (1965) کے گانے ’قسمیں وعدے پیار وفا‘ میں ملنگ چاچا کا کردار ادا کرکے سب کو رلا دیا۔

یہ ولن جتنے مشہور تھے ان کے ڈائیلاگ بھی اتنے ہی مشہور تھے۔ ہیرو ہو یا نہ ہو، فلم میں ولن کے پاس ضرور کوئی نہ کوئی پنچ لائن تھی۔

امجد خان کو بہترین مزاحیہ کردار کا ایوارڈ ملا

شروع میں بات امجد خان کی تھی۔ تو آئیے ان ہی پر بات ختم کرتے ہیں۔

ولن بننے سے پہلے امجد خان چائلڈ ایکٹر تھے، آصف کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر تھے، وہ ایکٹرز گلڈ کے صدر بھی رہے جنھوں نے فلم انڈسٹری کے کئی تنازعات حل کیے اور کئی فلموں کے ہدایت کار بھی رہے۔

منفی کرداروں کے لیے نہیں لیکن انھیں بہترین معاون اداکار (دادا اور یارانہ) اور بہترین مزاحیہ کردار (ماں کسم) کے لیے تین بار فلم فیئر ایوارڈ ملا۔

ڈینی: وہ ولن اداکار جس نے امیتابھ کے چھوڑے ہوئے رول سے اپنے کریئر کا آغاز کیابالی وڈ کے ’نفیس ولن‘ جنھوں نے فلمی شخصیات سے قربت حاصل کرنے کے لیے پشتو آزمائی’جب میں ولن بنتا ہوں نا تو میرے سامنے کوئی ہیرو ٹِک نہیں سکتا‘ فلم جوان میں شاہ رُخ ہیرو ہیں یا پھر خوفناک ولن؟’ولن آف دی ملینیئم‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More