کیا آئی ایم ایف پروگرام پاکستان میں بار بار بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا باعث بنے گا؟

بی بی سی اردو  |  Jul 15, 2024

Getty Images

بجلی کے حوالے سے عرصہ دراز تک پاکستان میں کہا جاتا تھا کہ اس کے آنے اور جانے کا وقت مقرر نہیں۔ لیکن گذشتہ کچھ عرصے سے پاکستانی عوام اب یہ دہائی دیتے سنائی دیتے ہیں کہ بجلی کی قیمتیں بڑھنے کا اب کوئی وقت مقرر نہیں۔

اتوار کو گھریلو صارفین کے لیے ایک بار پھر بجلی کے بنیادی ٹیرف میں 7.12 روپے تک اضافہ کیا گیا۔

اس اعلان سے دو روز قبل جمعے کو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سات ارب ڈالر کا سٹاف لیول معاہدہ طے پایا جس کا مقصد پاکستان میں معاشی استحکام لانا اور افراط زر میں کمی لانا ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق 37 ماہ کے قرض پروگرام کی حتمی منظوری ادارے کا ایگزیکٹو بورڈ دے گا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ نئے قرض پروگرام میں پاکستان معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے ’توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنا اور توانائی کے نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ، لاگت میں کمی کرنے والے فیصلہ کن اصلاحات، اور پیداواری صلاحیت میں مزید غیر ضروری توسیع سے گریز کے ذریعے مالیاتی خطرات کو کم کرنا‘ شامل ہے۔

اگرچہ پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام سے ’پاکستان میں مالیاتی اور مانیٹری پالیسی کو مضبوط بنانے کے اقدامات کے ساتھ ساتھ ٹیکس بیس کو وسیع کیا جائے گا۔‘

تاہم عوام میں یہ خدشات پائے جاتے ہیں کہ آئی ایم ایف پروگرام سے بجلی سمیت توانائی کے شعبے میں قیمتیں بہت بڑھ سکتی ہیں۔

ہم نے تجزیہ کاروں سے یہ جاننے کی کوشش کی کہ رواں سال آئی ایم ایف پروگرام کی توجہ پاکستان میں توانائی کے شعبے کی طرف کیوں ہے اور کیا اس کا مطلب بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ ہے؟

پاکستان میں بجلی کی قیمتوں میں بار بار اضافہ کیوں؟Getty Images

14 جولائی کو پاور ڈویژن کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق بجلی کے بنیادی ٹیرف میں سات روپے 12 پیسے تک اضافے ہوا ہے۔ بجلی کی قیمتوں میں حالیہ اضافے کے بعد اب گھریلو صارفین کے لیے بجلی کی فی یونٹ قیمت 48 روپے 84 تک پہنچ چکی ہے۔

ماہانہ 201 سے 300 یونٹس تک استعمال کرنے والے صارفین کے ٹیرف میں 7.12 روپے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد فی یونٹ قیمت 34.26 روپے ہے۔ ماہانہ 301 سے 400 یونٹس استعمال کرنے والے صارفین کے ٹیرف میں 7.02 روپے اضافہ ہوا ہے جس کے بعد ان کے لیے فی یونٹ قیمت 39.15 روپے ہے۔

جبکہ ماہانہ 200 یونٹ سے کم استعمال کرنے والے گھریلو صارفین کو آئندہ تین ماہ کے لیے اس اضافے سے مستثنٰی قرار دیا گیا ہے۔

پاکستان میں حالیہ برسوں میں بجلی کی قیمتوں میں لگ بھگ دو گنا اضافہ ہو چکا ہے اور اس اضافے نے عام آدمی کی جیب پر بھی اسی حساب سے بوجھ ڈالا ہے۔

اس سوال کے جواب میں ماہر معاشیات اور خیبر حکومت کے مشیر خزانہ مزمل اسلم کا کہنا ہےکہ موجودہ حالات میں حکومت 1400 سے 1500 ارب روپے سبسڈی دے رہی ہے جبکہ 400 سے 500 ارب سالانہ سرکولر ڈیٹ دے رہے ہیں۔

’ہم بہت زیادہ کپیسیٹی پیمنٹ ادا کرتے ہیں دوسرا بجلی پر ٹیکس بہت ادا کرتے ہیں اور تیسرا بجلی کی چوری کی جاتی ہے تو یہ تین چیزیں ہیں جن کی وجہ سے بجلی کی لاگت میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

Getty Images

حکومت کے معاشی اصلاحات کے دعوؤں کے باوجود بجلی کی قیمت بڑھانے کے فیصلے سے عام صارف کتنا متاثر ہو گا؟

اس پر معاشی امور کے صحافی شہباز رانا کا کہنا تھا کہ دو سال سے حکومت کی جانب سے بجلی کی بنیادی قیمت میں ’سو فیصد اضافہ‘ کیا گیا ہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر اس سال کی بات کی جائے تو رواں سال مجموعی طور پر 12 روپے فی یونٹ تک اضافہ سامنے آ چکا ہے۔‘

شہباز رانا نے مزید کہا کہ ’پچھلے سال بجلی کے بنیادی ٹیرف میں آٹھ روپے فی یونٹ اضافہ ہوا۔ اس سے پچھلے سال پی ٹی آئی کی حکومت کے وقت میں بھی اس میں ایک اضافہ آیا تھا۔‘

’ابھی جو بجٹ آیا اس میں تین روپے 95 پیسے سے لے کر سات روپے 12 پیسے فی یونٹ اضافہ ہوا ہے جو 14 فیصد سے لے کر 51 فیصد تک بنتا ہے۔‘

یاد رہے کہ 100 سے 200 یونٹس استعمال کرنے والے پاکستان کے غریب ترین طبقے کے لیے وزیر اعظم شہباز شریف نے بجلی کے ٹیرف میں اضافے سے تین ماہ کے لیے ریلیف دیا ہے اور ان صارفین کے لیے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم اکتوبر سے ہو گا۔

200 یونٹس سے زیادہ بجلی استعمال کرنے والےصارفین کے لیے قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم جولائی سے ہو گا اور شہباز رانا کے مطابق ’یہ اچھا خاصا بوجھ ہے۔ اس میں کمرشل اور گھریلو صارفین سے ایک سال میں اضافی وصولیاں 580 ارب روپے سے زائد کی کی جائیں گی۔‘

دوسری جانب مزمل اسلم کہتے ہیں کہ اس سے مزید غربت بڑھے گی۔

’آئی ایم ایف کہہ رہا ہے کہ ٹارگٹڈ سبسڈی دیں جو بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دی جائے گی۔ مزمل اسلم نے دعویٰ کیا کہ 50 فیصد عوام 300 یونٹ تک بجلی استعمال کرتی ہے ۔ یہ 12 کروڑ عوام بنتے ہیں۔ ان پر 43 فیصد تک بجلی کا بوجھ ڈالا گیا ہے۔

ان کے مطابق ’83 لاکھ افراد بے نظیر انکم سپورٹ میں ہیں تو باقی کروڑوں لوگوں کا کیا ہو گا۔‘

انھوں نے اپنی بات کے لیے مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ ’ایک تندور پر بھی جب پنکھا لائٹ جلنے سے بجلی کا بل بڑھے گا تو روٹی کی قیمت پر اثر پڑے گا۔ اسی طرح گروسری سٹورز ہیں، کپڑا بنانے کے کارخانے تو جہاں جہاں بجلی کا استعمال ہو گا وہاں وہاں چیزوں کی قیمت بڑھے گی۔ دوسری جانب صارفین کی قوت خرید ہی کم ہو گی جس سے یہ مہنگی اشیا فروحت ہونا بھی مشکل ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیےبجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےنیپرا کی بجلی کی قیمت میں اضافے کی تجویز، کیا ’پیک آورز‘ بھی بڑھیں گے؟بجلی کے بل میں ’چھپے‘ وہ ٹیکس جو حکومت آپ سے وصول کر رہی ہے’پاور سیکٹر معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے‘Getty Images

بجلی کے ٹیرف کو سمجھنے کے بعد اب واپس اس سوال پر آتے ہیں کہ آخر آئی ایم ایف کے معاہدے اور بجلی کے نرخوں میں اضافے کا آپس میں کیا تعلق ہے؟

دو روز قبل آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان ہونے والے سٹاف لیول معاہدے میں توانائی کے شعبے کی عملداری کو بحال کرنے اور توانائی کے نرخوں کی بروقت ایڈجسٹمنٹ پر زور دیا گیا ہے۔

معاہدے میں یہ نکات بھی شامل ہیں کہ پاکستان کو توانائی کے شعبے کے لیے مالیاتی رسک کو محدود کرنا ہوگا اور توانائی کے شعبے میں اصلاحات کے ذریعے توانائی کی لاگت میں کمی کرنا ہو گی۔

صحافی اور تجزیہ کار شہباز رانا کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی پاور سیکٹر پر توجہ اس لیے ہے کہ ’اس وقت پاور سیکٹر معیشت پر بوجھ بنا ہوا ہے۔ آئی ایم ایف، حکومت اور باقی اداروں کا خیال ہے کہ جب تک پاور سیکٹر مستحکم نہیں ہو گا تب تک توانائی کے شعبے کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔‘

شہباز رانا کے مطابق ’پاور سیکٹر میں گورنس کے مسائل ہیں جنھیں بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کر کے حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ ماضی میں بھی ناکام رہا ہے اور اس بار بھی یہ نتیجہ خیز نہیں ہوگا۔‘

شہباز رانا کے مطابق ’جن وجوہات کی وجہ سے بوجھ بڑھایا گیا ہے، وہ اب تک ویسی کی ویسی ہی ہیں۔‘

آئی ایم ایف کیا چاہتا ہے؟Getty Images

حکومت کے معاشی اصلاحات کے دعوؤں کے باوجود اضافی بوجھ عوام کو ہی کیوں سہنا پڑ رہا ہے، اس بارے میں ہم نے ماہر معاشیات اور سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل سے بات کی ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ پاکستان سرکولر ڈیٹ (گردشی قرضے) میں اضافہ نہ کرے۔ ’سرکولر ڈیٹ بنیادی طور پر ڈیٹ نہیں بلکہ پاور سیکٹر کے نقصانات ہیں۔۔۔ آئی ایم ایف کہتا ہے کہ تم ان نقصانات میں اضافہ نہ کرو۔‘

وہ کہتے ہیں کہ یہ قرضے اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ حکومت بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کو ادائیگیاں نہیں کر پاتی لہذا آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ اس میں مزید اضافہ نہ ہو۔

ان کا کہنا ہے کہ ’بجلی کی لاگت اتنی زیادہ آ رہی ہے تو اس کے دو طریقے ہیں کہ یا تو آپ لاگت کو عوام پر منتقل کر دیں جو آج کل حکومت کر رہی ہے یا کوشش کریں کہ لاگت کم ہو جائے تو ان کے لیے اصلاحات کی ضرورت ہے جو حکومت نہیں کرنا چاہ رہی۔‘

وہ کہتے ہیں ’جہاں اصلاحات نہیں ہوتیں وہاں لاگت بڑھ جاتی ہے، لہذا نقصان ہوتا ہے اور بجلی کی قیمت بڑھ جاتی ہے۔‘

مفتاح کے مطابق اس کا حل یہی ہے کہ پاور سیکٹر میں اصلاحات کی جائیں مگر ’ہم حکومت کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔‘

وہ اس کی مثال دیتے ہیں کہ ’ہم درآمدی کوئلے سے بجلی بنا رہے ہیں۔ لوکل تھر کا کوئلہ لے رہے ہوتے تو اس میں کوئلے کی قیمت ایک تہائی کم ہوتی۔ اسی طرح ہم نے بجلی پیدا کرنے والے زیادہ پلانٹ لگا دیے اگر اس سے کم ہوتے تو کپیسیٹی اتنی خالی نہ پڑی ہوتی۔‘

سابق وزیر خزانہ نے کہا کہ حکومت کہتی ہے آپ بجلی لگائیں ہم خریدیں نہ خریدیں آپ کو 60 فیصد بجلی کے پیسے دیں گے۔

’اب لوگوں نے پلانٹس لگا دیے، حکومت سردیوں میں تو نہیں خرید پا رہی لیکن اس کا سود اس کے پیسے تو حکومت کو دینا پڑ رہا ہے۔ اس سے نقصان بڑھ رہا ہے۔‘

ان کے مطابق پاور سیکٹر کو ہر سال ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن میں 18 فیصد نقصان آتا ہے جو بعض تقسیم کار کمپنیوں میں 30 سے 40 فیصد تک ہے اور اس کا بوجھ ہر صورت عوام پر آتا ہے۔

مفتاح اسماعیل نے بتایا کہ ’دس فیصد بل نہیں ا رہے باقی 90 فیصد کو ان کے بھی بل دینا پرتے ہیں۔ بہت سی جگہوں پر جیسے کشمیر قبائلی علاقے اور بلوچستان میں ٹیوب ویلز سے سستی بجلی کے معاہدے ہیں جس کی قیمت باقی عوام دیتی ہے۔‘

انھوں نے حکومت کی بعض پالیسیوں پر کری تنقید بھی کی۔

’غلط پالیسی یہ بھی ہے کہ صنعت کو سستے قرضے دے کر سولر لگوا دیے تو اس کی ڈیمانڈ کم ہو جاتی ہے۔ اب صنعت بہت بڑا کنزیومر ہے تو وہ 40 روپے فی یونٹ خریدنے والا جب کم لے رہا ہے تو پھر گھریلو صارفین کی قیمت بڑھانی پڑتی ہے۔‘

’حکومت کوئی نیا حل نہیں سوچ رہی۔ سندھ میں بہت سی جگہ ونڈ پاور لگے ہیں جن میں کوئی فیول استعمال نہیں ہوتا بلکہ وہ ہوا سے چلتے ہیں۔حکومت پاکستان نے ونڈ پاور کے سارے پیسے دیے ہوئے ہیں تو جو بجلی سندھ سے ملے گی وہ مفت ملے گی لیکن آپ کے پاس ٹرانسمیشن سسٹمنہیں اس لیے وہ بجلی لے نہیں سکتے۔‘

’اضافے کا آئی ایم ایف کے معاہدے سے کوئی تعلق نہیں‘

وزیر توانائی اویس لغاری بجلی کی قیمت میں حالیہ اضافہ اور آئی ایم ایف کے معاہدے کا آپس میں تعلق ہونے کی نہ صرف نفی کرتے ہیں بلکہ ان کے اندازے کے مطابق چھ ماہ بعد بجلی کی موجودہ قیمت میں تین گنا تک کمی بھی ہو سکتی ہے۔

اویس لغاری کا کہنا ہے کہ ’ہر سال ہر ملک میں بنیادی ٹیرف کا آئندہ سال کے لیے اندازہ لگایا جاتا ہے۔ انٹرسٹ ریٹ اور روپے کی ویلیو کو سامنے رکھ کر ٹیرف کے اندازے لگائے جاتے ہیں۔ یہ وہ عناصر ہیں جو ہمارے ٹیرف میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‘

’صارفین کو اگلے چھ ماہ اس لیے اضافہ دکھائی دے گا کیونکہ جون 2024 تک جو پچھلے ٹیرف میں فرق آیا تھا اس کے چارجز آئندہ چھ ماہ تک وصول کیے جائیں گے یہ بجلی کے ٹیرف کا نظام ہے۔‘

ایک جانب جہاں مفتاح اسماعیل نے بی بی سی کے سوال پرکہا تھا کہ انھیں تو اگلے دو سال میں بجلی کی قیمت میں کمی ہوتی نہیں دکھائی دے رہی۔ تو دوسری جانب اویس لغاری نے دعویٰ کیا کہ جنوری کے مہینے میں بجلی کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔

’اگر ہمارےروپے اور ڈالر کی قیمت اور انٹرسٹ ریٹ کے اندازے درست ہوئے اور یہ دونوں ایک ہی رہے تو قیمتیں نہیں بڑھیں گی بلکہ اس میں تین فیصد کمی آئے گی۔‘

انھوں نے اپنی بات کو مزید واضح کرتے ہوئے کہا کہ ’اس کیلکولیشن میں پاکستان کا انٹرسٹ ریٹ 18 فیصد رکھا ہے اور جو ڈالر اور روپے کی قدر کا اندازہ لگا رکھا ہے۔ اس میں تبدیلی نہ آئی تو ہم چپ ماہ بعد آج کی قیمت سے کمی دیکھ رہے ہیں۔‘

انھوں نے واضح کیا کہ ٹیرف میں کمی بیشی کی ایک وجہ فیول چارجز ہوتے ہیں۔ ’عالمی منڈی میں فیول کی قیمتوں کے حساب سے ہر ماہ فیول چارجز کا فرق ہر مہینے ٹیرف میں الگ کیلکیولیٹ کیا جاتا ہے‘

بی بی سی کے ایک اور سوال کے جواب میں اویس لغاری کا کہنا تھا کہ ’دو کروڑ 40 لاکھ گھرانے ایسے ہیں جو صفر سے لے کر 200 یونٹ تک بجلی استعمال کرتے ہیں اور جن کے لیے آئندہ تین ماہ کا ریلیف دیا گیا ہے۔ اگر ان کو ریلیف نہ دیا جاتا تو ان صارفین پر 50 ارب کا بوجھ آتا۔‘

بجلی کا وہ ’ایک اضافی یونٹ‘ جو آپ کے بل میں دوگنا اضافے کی وجہ بنتا ہےبجلی کی قیمت میں اضافہ: ’کھانا کھائیں یا بل دیں، خودکشی حرام نہ ہوتی تو کب کے مر چکے ہوتے‘اگر پاکستان میں مہنگائی واقعی کم ہوئی ہے تو عام آدمی کے لیے صورتحال اب بھی پریشان کن کیوں؟گھر کی چھت پر سولر پینلز کی تنصیب سے بجلی کا بل ’زیرو‘ کرنے کا طریقہ کیا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More