وہ ماں جس نے ’مورفین دے کر اپنے سات سالہ بیٹے کی زندگی ختم کی‘

بی بی سی اردو  |  Jul 09, 2024

سنہ 1981 کی یہ کہانی ایک ایسی ماں کی ہے جنھوں نے اپنے سات سال کے بیٹے کو درد کش دوا مورفین کی بھاری ڈوز دے کر ان کی زندگی ختم کرنے کا اعتراف کیا تھا۔

انٹونیا کوپر کے بیٹے ہیمش کینسر کی بیماری میں مبتلا تھے اور انھیں ناقابل علاج قرار دیا گیا تھا جس کے بعد انٹونیا نے ان کی زندگی ’پُرسکون انداز میں ختم‘ کی تھی۔

رواں ہفتے انٹونیا 77 سال کی عمر میں وفات پا گئی ہیں۔ وہ چھاتی، لبلبے اور جگر کے کینسر میں مبتلا تھیں۔

اپنی وفات سے قبل انھوں نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ وہ انگلینڈ میں یوتھنیزیا (اسسٹڈ سوسائیڈ یا اپنی مرضی سے خودکشی کرنے) سے متعلق قوانین تبدیل کرانا چاہتی ہیں۔

اسسٹڈ سوسائیڈ کے ذریعے ناقابل علاج بیماری میں مبتلا شخص خودکشی کرنے میں مدد حاصل کرتا ہے۔ انگلینڈ میں اس پر پابندی ہے۔

ہیمش کی کہانی

انٹونیا کوپر کے بیٹے ہیمش کی عمر پانچ برس تھی جب ان میں کینسر کی ایک نایاب قسم نیورو بلاسٹوما کی تشخیص ہوئی۔ یہ بیماری اکثر بچوں کو متاثر کرتی ہیں۔ ابتدائی طور پر بتایا گیا کہ ان کے پاس زندگی کے صرف تین ماہ باقی ہیں۔

انٹونیا کے مطابق 16 ماہ تک ہسپتال میں ’ظالمانہ‘ علاج کے بعد بیٹے کی زندگی کچھ حد تک بڑھائی گئی مگر اسے اگلے برسوں کے دوران بہت درد برداشت کرنا پڑی۔

وہ یاد کرتی ہیں کہ ’ہیمش نے آخری رات مجھے بتایا کہ انھیں بہت زیادہ درد ہوتی ہے۔ میں نے پوچھا کیا آپ چاہتے ہیں کہ میں آپ کا درد ختم کر دوں؟ انھوں نے جواب دیا جی پلیز۔

’میں نے ان کے کیتھیٹر کے ذریعے انھیں درد کش دوا مورفین کی ایک بھاری ڈوز دی جس سے ان کی زندگی خاموشی سے ختم ہو گئی۔‘

PA Media

بی بی سی نے ان سے پوچھا تھا کہ کیا ان کے بیٹے کو یہ معلوم تھا کہ وہ ان کی زندگی ختم کرنے والی ہیں۔

اس پر انھوں نے کہا کہ ’ہیمش نے مجھے بتایا تھا کہ وہ تکلیف میں ہیں اور میں نے ان سے درد ختم کرنے کا پوچھا تھا۔ مجھے یقین ہے اس لمحے ہیمش کو معلوم تھا کہ کیا ہونے والا ہے۔‘

’میں آپ کو یہ نہیں بتا سکتی کہ ایسا کیسے ممکن ہے۔ میں اس کی ماں تھی اور وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ میں اس سے محبت کرتی تھیں، میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ یہ درد برداشت کرے۔ مجھے لگتا ہے کہ اسے معلوم تھا کہ وہ کہاں جا رہا ہے۔‘

’یہ صحیح فیصلہ تھا۔ میرا بیٹا بے حد تکلیف میں تھا اور میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس سے مزید گزرے۔‘

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ قتل کا اعتراف کر رہی ہیں تو انھوں نے ہاں میں جواب دیا۔ ’ہیمش کی زندگی پُرسکون انداز میں ختم کرنے کے 43 سال بعد بھی اگر مجھے اس کے نتائج کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ایسا جلد کیا جائے کیونکہ میں بھی مر رہی ہوں۔‘

ہیمش کی ماں کی موت

ہمیش کی موت کی چار دہائیوں بعد انٹونیا کوپر خود بھی ناقابل علاج کینسر میں مبتلا تھیں۔ ہیمش کے درد نے اسسٹڈ سوسائیڈ سے متعلق ان کی رائے تبدیل کی تھی۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہم اپنے پالتو جانوروں کے ساتھ ایسا نہیں کرتے (انھیں تکلیف برداشت کرنے نہیں دیتے)۔ تو ہم انسانوں کے ساتھ ایسا کیوں کریں گے؟‘

تاہم اسسٹڈ سوسائیڈ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو یہ انتخاب کرنے کے قابل ہونا چاہیے کہ کب اور کیسے مرنا ہے تاکہ مشکلات سے بچا جا سکے۔

جبکہ ناقدین کا کہنا ہے کہ اگر قانون کو تبدیل کیا گیا تو اس سے کمزور افراد پر زندگی ختم کرنے کے لیے دباؤ بڑھے گا کیونکہ وہ اپنے خاندانوں پر مالی یا جذباتی بوجھ نہیں بننا چاہیں گے۔

برطانوی پارلیمنٹ کے ارکان نے حال ہی میں اس معاملے پر بحث کی۔ برطانیہ کی حکومت نے کہا کہ یہ حکومتی پالیسی کا نہیں بلکہ انفرادی معاملہ ہے۔

ایک بیان میں ٹیمز ویلی پولیس نے کہا کہ وہ 1981 میں سات سالہ لڑکے کی موت سے متعلق رپورٹس سے آگاہ ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’ابتدائی مرحلے میں پولیس ان رپورٹس کی انکوائری کر رہی ہے اور یہ انکوائری جاری رہنے کے دوران مزید تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘

بی بی سی نے انٹونیا کوپر کی موت کے بعد پولیس سے رابطہ کیا ہے۔

ہیمش کی موت کے بعد 1982 میں کوپر، ان کے شوہر اور ایک دوسرے جوڑے نے اس کینسر کے بارے میں آگاہی پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کوپر نے ایک کتاب کے ذریعے بیمار بچوں کے والدین اور پروفیشنلز کی مدد کرنے کی کوشش کی ہے۔

برطانیہ میں گذشتہ 15 برسوں کے دوران ایسے 190 کیسز کراؤن پراسیکیوشن سروس کو بھیجے گئے ہیں تاہم صرف چار پر کامیاب پراسیکیوشن ممکن ہوئی ہے۔ اکثر کو پراسیکیوشن کے لیے آگے نہیں بھیجا گیا۔

’یوتھنیزیا‘ کیا ہے اور اس کی اجازت کہاں کہاں ہے؟’یوتھنیزیا‘: نیدرلینڈز کے سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ نے اکٹھے موت کو گلے لگا لیا، ’70 برس کے ساتھ کا بےخوف اختتام‘خوشگوار زندگی گزارنے والے جوڑے نے مہلک انجیکشن لگوا کر موت کو گلے لگانے کا فیصلہ کیوں کیا؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More