’نابالغ افراد‘: جب نو عمروں کو وی سی آر کرائے پر لانے کے جنون نے مشکل میں پھنسایا

بی بی سی اردو  |  Jun 24, 2024

BBC

پاکستان میں رواں برس بھی عیدالاضحیٰ کے موقع پر کچھ نئی فلمیں ریلیز ہوئی ہیں اور ان میں ایک فلم ’نابالغ افراد‘ آج کل نوجوانوں میں زیر بحث ہے۔

اس فلم کے ہدایت کار نبیل قریشی کے مطابق فلم نے عید کی چھٹیوں کے دوران ملک بھر میں 2.1 کروڑ کا بزنس کر لیا ہے اور فلم بینوں کو یہ فلم متاثر کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

فلمی جریدوں کے مطابق اس فلم کو محدود بجٹ کے ساتھ صرف 17 دنوں میں بنایا گیا ہے۔ اس فلم کے مرکزی کرداروں میں نوجوان اداکار ثمر جعفری اورعاشر وجاہت شامل ہیں۔

نبیل قریشی کی یہ فلم ’نا بالغ افراد‘ دو نو عمر بچوں کی کہانی ہے جو بہت معصوم ہیں۔ ان کا تعلق نوے کی دہائی سے ہے اور فلم اسی دور کی عکاسی کر رہی ہے۔

فلم میں عاشر بطور مظہر جبکہ ثمر فخر کا کردار نبھا رہے ہیں۔ فلم میں ان دونوں بچوں کو فلم دیکھنے کے لیے وی سی آر کرائے پر لینا پڑتا ہے۔ اس وقت چیزیں اس طرح میسر نہیں تھیں جیسے آج ہیں۔ ان کی معصومیت آج کے دور کے بچوں سے دس گنا زیادہ ہے۔ اسی معصومیت اور ’کول‘ بننے کے دباؤ کی وجہ سے انھیں کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

بی بی سی نے اس فلم کی نوجوان کاسٹ سے بات کی ہے اور یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ وہ اس فلم اور اپنے کیرئیر کے متعلق کیا رائے رکھتے ہیں۔

فلم کے مرکزی کرداروں میں سے ایک مظہر کا کردار نبھانے والے عاشر اس فلم سے ملنے والی شہرت کے متعلق کہتے ہیں کہ ’جب اوپر والا نوازتا ہے تو وہ آسانی سے واپس بھی لے سکتا ہے۔ مجھے اس بات سے ڈر لگتا ہے کہ کہیں میرے رویے میں کوئی تبدیلی نہ آ جائے۔ کہیں میں وقت سے پہلے کام سے تنگ نہ آجاؤں۔‘

جب کہ ثمر جعفری کا کہنا ہے کہ ’آپ کی زندگی میں ایک ایسی فیملی کا ہونا بہت ضروری ہے جو آپ کو عاجزی اور انکساری میں رکھے۔ ایسے دوست بہت ضروری ہیں جو آپ کو کچھ سمجھتے نہ ہوں۔‘

BBCثمر جعفری کہتے ہیں کوئی بھی کام آپ کو تب تک نہیں ملتا جب تک آپ اپنی صلاحیت نہ دکھا دیںنادیہ جمیل اور ’خوشبو میں بسے خط‘: ’سوشل میڈیا پر موجود لوگ غیر ہیں مگر انھی کی دعاؤں نے سہارا دیا‘عتیقہ اوڈھو: اس عمر میں محبت کے بغیر شادی جیسا رسک نہیں اٹھا سکتےیمنٰی زیدی: ’ڈرامہ تیرے بن کے رومانوی سین پہلے بھی سکرین پر دکھائے گئے مگر ان میں جذبات کی شدت کم تھی‘عاشر اور ثمر نے نوے کی دہائی کے کردار کیسے نبھائے؟

عاشر اور ثمر نئے دور میں بڑے ہونے والے نوجوان ہیں۔ انھوں نے نوے کی دہائی کو نہیں دیکھا۔ پھر کیسے نبھائے ان دونوں نے اپنے کردار؟

بی بی سی کے اس سوال پر عاشر کہتے ہیں کہ ’ہم نوے کی دہائی میں بڑے تو نہیں ہوئے ہیں لیکن ہم پر اس دور میں ریلیز ہونے والی کئی فلموں کا اثر ہے۔ جیسے کہ کامیڈی کلاسک، ’انداز اپنا اپنا‘۔ ہمارے بڑوں نے بھی ہمیں اس دور کے قصے سنائے ہیں کہ ان کے زمانے میں کیا ہوتا تھا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’آج کا دور بہت بہتر ہے۔ ہم جس دور میں بڑے ہوئے ہیں اس میں سوشل میڈیا نے ہمیں کئی مواقع فراہم کیے ہیں۔ میرے اور ثمر جیسے میوزک سے متاثر لڑکوں کے لیے سوشل میڈیا ایک بہت اہم ذریعہہے اپنا آرٹ دنیا کے کسی بھی کونے تک پہنچانے کے لیے۔

’پہلے کے زمانے میں یہ ممکن نہیں تھا کہ کوئی بھی لڑکا اپنا ٹیلینٹ دکھائے اور کہیں بھی پہنچ جائے۔‘

عاشر اور ثمر اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتے ہیں۔ ان دونوں نے مختلف گانوں کے ’کورز‘ گائے ہیں جن کو کافی پسند کیا گیا ہے۔

حال ہی میں عاشر کا اپنا گانا ’صدقے‘ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار بھی کافی مقبول ہوا۔

ثمر کے پچھلے کام پر نظر ڈالی جائے تو ان کے پہلے ہی ڈرامے کو کافی پزیرائی ملی۔ ڈرامے کا نام ’مائی ری‘ تھا جو کم عمری میں شادی کے موضوع پر مبنی تھا۔ ناظرین نے جہاں اس ڈرامے کو سراہا وہاں کچھ موقعوں پر اس پر تنقید بھی کی۔

ثمر نے بی بی سی سے گفتگو کے دوران بتایا کہ ’میرے جیسا آرٹسٹ جس نے ابھی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری میں اپنے کریئر کا آغاز ہی کیا ہے، اس کے لیے اس فلم کا حصہ ہونا کسی خواب سے کم نہیں ہے۔

’ہماری انڈسٹری کے کتنے ایسے اداکار ہیں جو بڑے عرصے سے ڈراموں میں کام کر رہے ہیں اور بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ ان کو ابھی تک سینیما میں چانس نہیں ملا۔‘

ساتھ ہی ثمر نے یہ بھی کہا کہ یہ کردارانھیں اپنی قابلیت کی وجہ سے آفر ہوا۔ ’کوئی بھی کام آپ کو تب تک نہیں ملتا جب تک آپ اپنی صلاحیتیں نہ دکھا دیں۔ عوام بھی اس کو تبھی قبول کرتی ہے جب ان کو وہ چیز اچھی لگتی ہے۔‘

BBCحال ہی میں عاشر کا اپنا گانا ’صدقے‘ پاکستان میں ہی نہیں بلکہ سرحد پار بھی کافی مقبول ہوا

عاشر کے والدین پاکستان کی انٹرٹینمنٹ انڈسٹری سے کافی عرصے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ان کے والد وجاہت رؤف ہدایت کار ہیں۔

’نا بالغ افراد‘ عاشر کی چوتھی فلم ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا انھیں اس فلم میں مرکزی کردار ملتا اگر ان کے والد انڈسٹری کا حصہ نہ ہوتے تو ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں وہ خود اس انڈسٹری کا حصہ ہی نہ ہوتے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’میرے والد کی وجہ سے میرا اس کام میں آنا آسان ہوا۔ اگر میرے والد اس فیلڈ سے جڑے نہ ہوتے تو میں شاید کبھی اس کام میں آتا ہی نہیں۔ لیکن نبیل بھائی جیسے ہدایت کار میرٹ کے بغیر کام نہیں کرتے۔ اگر میں کردار کے مطابق نہ ہوتا تو میرا نہیں خیال کے وہ مجھے کاسٹ کرتے۔ کاش ماں باپ اپنے بچوں کا کریئر بنا سکتے۔ آپ کو خود ہی خون پسینہ بہانا پڑتا ہے۔‘

انڈسٹری میں جگہ بنانے کے لیے اچھی شکل و صورت و قد کاٹھکتنے اہم ہیں؟

ثمر کا کہنا ہے کہ ناظرین کے لیے لُکس( شکل صورت و قد کاٹھ) معنیٰ رکھتے ہیں۔ ان کو اداکار کو سکرین پر قبول کرنے میں وقت لگتا ہے۔

’البتہ میرے لیے سکرین پر اچھا لگنا اتنا معنیٰ نہیں رکھتا۔ میں چاہتا ہوں نیچرل لگوں۔ میں بالوں میں ڈرائر نہیں لگواتا، آئی براؤز نہیں بنواتا۔ لوگ آپ کو صرف خوبصورتی کی وجہ سے نہیں دیکھتے۔ اگر آپ کو کام نہیں آتا تو شکل و صورت کا کوئی فائدہ نہیں۔‘

عاشر کا کہنا ہے نہ صرف پاکستان میں بلکہ دنیا بھر میں او ٹی ٹی پلیٹ فارمز ( نیٹ فلکس ، ایمازون پرائم وغیرہ) کی وجہ سے اب کہانیاں بدل رہی ہیں۔

’اگلے تین چار سال میں یہ مزید واضحہوجائے گاکہ اداکار کو سکرین پر بہت اچھا لگنا ضروری ہے۔‘

عاشر بالی وڈ کے بادشاہکہلائے جانے والے شاہ رخ خان کے بہت بڑے فین ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ وہ ان کے ساتھ کسی بھی کردار میں کام کریں۔

ثمر البتہ بالی وڈ کے نامی گرامی ہدایت کار کرن جوہر کے ساتھ کام کرنے کے خواہش مند ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ وہ امتیاز علی اور عالیہ بھٹ کے ساتھ کام کرنے کی بھی خواہش رکھتے ہیں۔

نادیہ جمیل اور ’خوشبو میں بسے خط‘: ’سوشل میڈیا پر موجود لوگ غیر ہیں مگر انھی کی دعاؤں نے سہارا دیا‘یمنٰی زیدی: ’ڈرامہ تیرے بن کے رومانوی سین پہلے بھی سکرین پر دکھائے گئے مگر ان میں جذبات کی شدت کم تھی‘بارہواں کھلاڑی: 'ہمیں لگتا تھا کہ ہم بوڑھے اور ماہرہ خان زیادہ جوان ہیں‘مائی ری: ’شکر ہے تم نے عائشہ والی بے وقوفی نہیں کی، تم اپنے لیے کھڑی ہوئیں مایا‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More