’ہم کالی بھیڑیں نہیں ’بمبل بِی‘ ہیں‘: عمران خان کا ویڈیو لِنک کے ذریعے سپریم کورٹ میں پیشی کا احوال

بی بی سی اردو  |  May 30, 2024

چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بینچ نے جمعرات کی دوپہر جب قومی احتساب بیورو (نیب) آرڈیننس میں ترامیم کے خلافدائر کردہ اپیلوں پر سماعت کا آغاز کیا تو سابق وزیر اعظم اور بانی پاکستان تحریک انصاف عمران خان ویڈیو لنک کے ذریعے سپریم کورٹ کے کورٹ روم نمبر 1 میں موجود تھے۔

خیال رہے کہ پارلیمان سے منظور ہونے والی نیب ترامیم کو سپریم کورٹ کے ایک تین رُکنی بینچ نے کالعدم قرار دیا تھا۔ تین رُکنی بینچ کے اس فیصلے کے خلاف حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر رکھی ہے۔

جمعرات کو اس کیس پر ہونے والی سماعت کے دوران عدالتی حکم پر سابق وزیر اعظم عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کو یقینی بنایا گیا تھا۔ اس کیس پر ہونے والی گذشتہ سماعت کے دوران عمران خان کی فوٹیج لیک ہونے کی وجہ سے آج کورٹ روم نمبر ون میں کافی سختی کی گئی تھی۔

وکلا اور صحافیوں کو اپنے موبائل کورٹ روم سے باہر جمع کروانے کا حکم دینے کے ساتھ ساتھ پولیس اہلکار کسی بھی قسم کے الیکٹرانک ڈیوائس کورٹ روممیں لے کر جانے کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔

عمران خان ویڈیو لنک پر آئے تو انھوں نے نیلے رنگ کی شرٹ اور سرمئی رنگ کی پینٹ پہنی ہوئی تھی۔

سابق وزیر اعظم کے ہاتھ میں نیلے رنگ کی تسبیح تھی، جسے وہ بار بار اپنی انگلیوں کے گرد گھما رہے تھے۔

سماعت کے ابتدا پر صوبہ خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل نے آج ہونے والی عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ کرنے کی استدعا کی۔ اس ضمن میں ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کی جانب سے دائر کردہ درخواست کو سپریمکورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے چار ایک کی اکثریت سے مسترد کر دیا۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شاہ فیصل نے اپنی درخواست پر دلائل دینا شروع ہی کیے تھے کہ بینچ میں موجود جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اُن کی ذاتی رائے ہے کہ اس عدالتی کارروائی کی لائیو سٹریمنگ ہونی چاہیے، تاہم اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ انھیں لائیو سٹریمنگ سے متعلق کسی قسم کی درخواست کا کوئی علم نہیں ہے۔

اس سے پہلے کہ اطہر من اللہ مزید کوئی ریمارکس دیتے، چیف جسٹس نے عدالتی کارروائی کو روکتے ہوئے کہا کہ ’ہم آدھے گھنٹے‘ میں آتے ہیں۔ اس پر کمرہ عدالت میں موجود کچھ وکلا نے تبصرہ کیا کہ جسٹس اطہر من اللہ کو اتنی جلدی اس معاملے پر اپنی رائے نہیں دینی چاہیے تھی۔ ان وکلا کی رائے میں پہلے وہ ایڈووکیٹ جنرل کو اپنی بات تو پوری کر لینے دیتے اور اس کے بعد اگر عدالت چاہتی تو اٹارنی جنرل سے رائے لینے کے بعد اس درخواست پر فیصلہ دے سکتی تھی۔

Getty Images

ایک گھنٹے کے بعد سپریم کورٹ کا پانچ رکنی لارجر بینچ دوبارہ عدالت میں داخل ہوا اور انھوں نے ایڈووکیٹ جنرل کی لائیو سٹریمنگ سے متعلق درخواست چار ایک سے مسترد کرنے کا فیصلہ سُنایا۔

اس درخواست کے مسترد ہونے کے بعد دو گھنٹے تک عدالتی سماعت جاری رہی اور اس دوران وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل جاری رکھے جبکہ عمران خان اس دوران نوٹس لیتے رہے۔

اس مرتبہ تو عمران خان کے پاس کاغذ اور لکھنے کے لیے قلم بھی تھا جبکہ گذشتہ سماعت کے دوران وہ صرف دلائل کو سُن رہے تھے اور انھیں کچھ بولنے کا موقع نہیں ملا تھا۔

جب وفاق کے وکیل مخدوم علی خان نے اپنے دلائل مکمل کر لیے تو اٹارنی جنرل روسٹم پر آئے اور انھوں نے کہا کہ وہ مخدوم علی خان کے دلائل کو اپناتے ہیں۔

سماعت کے دوران نیب آرڈیننس میں ترامیم سے متعلق صدارتی آرڈیننس کا ذکر بھی آیا جس پر وفاق کے وکیل نے کہا کہ وہ اس کی حمایت نہیں کرتے کیونکہ قانون سازی پارلیمان کے ذریعے ہوتی ہے، آرڈیننسز کے ذریعے نہیں ہوتی۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے وکیل فاورق ایچ نائیک نے کہا کہ انھوں نے اس صدارتی آرڈیننس کو چیلنج کیا ہوا ہے، تو چیف جسٹس نے فاروق ایچ نائیک کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ انھیں (فاروق نائیک) کو شرمندہ نہیں کرنا چاہتے کیونکہ ان آرڈیننسز پر جن قائم مقام صدر نے دستخط کیے ہیں اس کا تعلق اُن ہی کی جماعت (پاکستان پیپلز پارٹی) سے ہے۔

یاد رہے کہ گذشتہ دنوں صدر آصف علی زرداری کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ اور قائم مقام صدر یوسف رضا گیلانی نے نیب ترامیمی آرڈیننس جاری کیا تھا جس میں جسمانی ریمانڈ کی مدت چودہ دن سے بڑھا کر 40 دن کر دی گئی تھی۔

اس دوران جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم (شہباز شریف) یہ کہہ رہے ہیں کہ عدلیہ میں کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں اور اگر ایسا ہے تو انھیں کہیں کہ وہ ان کے خلاف ریفرنس لے کر آئیں جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے یہ بات حاضر سروس ججز کے بارے میں نہیں کی۔

یاد رہے کہ جسٹس اطہر من اللہ پاکستان مسلم لیگ نواز کے 28 مئی کو ہونے والے جنرل باڈی اجلاس کے دوران کی گئی شہباز شریف کی تقریر کے تناظر میں بات کر رہے تھے جہاں انھوں نے عدلیہ میں کالی بھیڑوں سے متعلق الزام عائد کیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم کالی بھیڑیں نہیں بلکہ بمبل بی ہیں۔‘

سماعت کے آغاز پر جب دلائل جاری تھے تو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ آج کی سماعت کے دوران بھی شاید عمران خان کو بولنے کا موقع نہیں ملے گا۔ تاہمسماعتکے دوران جب عدالت نے دیگر درخواست گزاروں سے پوچھا کہ وہ دلائل مکمل کرنے میں کتنا وقت لیں گے تو اس دوران چیف جسٹس نے ویڈیو لنک پر موجود عمران خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’مسٹر خان کیا آپ مجھے سُن پا رہے ہیں؟‘ جس پر عمران خان نے جواب دیا کہ وہ انھیں سُن پا رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے عمران خان سے پوچھا کہ انھیں دلائل دینے میں کتنا وقت درکار ہو گا جس پر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ آدھا گھنٹہ لیں گے کیونکہ عمران خان کے بقول یہ ایک ’سپریم نیشنل انٹرسٹ‘ (انتہائی قومی مفاد) کا کیس ہے۔

انھوں نے چیف جسٹس کو راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کے حالات بھی بتائے اور اُن کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک کی بابت بھی آگاہ کیا۔

پی ٹی آئی سے مذاکرات سے انکار: ’فوج نے ماضی کی غلطیاں دہرانے کی بجائے سدھارنے کا سبق سیکھ لیا‘تحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت سے متعلق چہ مگوئیوں کی وجہ کیا ہے؟عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی: تین گھنٹے سماعت میں ایک لفظ بولنے کی نوبت نہ آئی

عمران خان نے کہا کہ انھیں اڈیالہ جیل میں قید تنہائی میں رکھا گیا ہے جبکہ جیل کے اندر کوئی لائبریری بھی نہیں ہے اور اس کے علاوہ ان کے پاس کیس کی تیاری کے لیے کوئی کتابیں بھی موجود نہیں ہیں، جس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت اس ضمن میں انھیں (عمران خان کو) تمام سہولتیں فراہم کرے گی۔

Getty Images

عمران خان کی درخواست پر عدالت نے خواجہ حارث اور دو دیگر وکلا کو کیس کی تیاری کے سلسلے میں عمران خان سے ملاقات کروانے کے احکامات جاری کیے۔

عمران خان نے عدالت کو مخاطب کرتے ہوئے جیل میں ہونے والی انسانی حقوق کی پامالیوں کا ذکر کیا اور کہا کہ ’ایک کرنل جیل میں ون ونڈو آپریشن چلا رہا ہے۔‘

سابق وزیر اعظم نے عدالت کے سامنے دعویٰ کیا کہ جیل میں اُن سے کون ملاقات کرے گا، اس کا فیصلہ وہی کرنل کرتے ہیں۔ عمرانخان اس بارے میں مزید بھی گفتگو کرنا چاہتے جب چیف جسٹس نے انھیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس بارے میں بات کسی اور وقت کر لیں۔

اگرچہ اس موقع پر عمران خان بولتے رہے لیکن بظاہر جیل کے اندر سے اُن کا مائیک بند کردیا گیا اور سابق وزیر اعظم کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کا مائیک بند ہو گیا ہے، ان کا منھ چلتے ہوئے نظر آتا رہا۔

اس کارروائی کے بعد عدالت نے ان اپیلوں پر سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی۔

آج کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمران خان کو ویڈیو میں دیکھنے کے بجائے اپنے سامنے موجود مائیک کی طرف ہی دیکھ کر ہی بات کر رہے تھے۔

یاد رہے کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس عمران خان کے دورِ حکومت میں بنایا گیا تھا جس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث اُس وقت کے چیف جسٹس گلزار احمد نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ایسا کوئی بھی مقدمہ سننے سے روک دیا تھا جو عمران خان سے متعلق ہو۔

عمران خان کی سپریم کورٹ میں پیشی: تین گھنٹے سماعت میں ایک لفظ بولنے کی نوبت نہ آئیایل این جی ریفرنس: نیب کی ایک بند فائل دوبارہ کیسے کھلی؟نو مئی 2023: احتجاج، جلاؤ گھیراؤ اور کریک ڈاؤن کی پسِ پردہ کہانیتحریک انصاف اور اسٹیبلشمنٹ میں مفاہمت سے متعلق چہ مگوئیوں کی وجہ کیا ہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More