پاک سیٹ ایم ایم ون: لاکھوں روپے کا سیٹلائٹ انٹرنیٹ کیا پاکستان میں عام آدمی کے لیے ’گیم چینجر‘ ثابت ہو گا؟

بی بی سی اردو  |  May 31, 2024

پاکستان کی خلائی ایجنسی سپارکو (سپیس اینڈ اپر ایٹماسفئیر ریسرچ کمیشن) نے آج ملک کا جدید ترین کمیونیکیشن سیٹلائٹ ’ایم ایم ون‘ (PAKSAT MM1) خلا میں بھیج دیا ہے۔

سیٹلائیٹ چین کے شی چانگ سیٹلائٹ لانچ سینٹر سے خلا میں بھیجا گیا، پانچ ٹن وزنی سیٹلائٹ جدید ترین مواصلاتی آلات سے لیس ہے۔

سپارکو کے مطابق سیٹلائٹ سے پاکستان کےطول وعرض میں تیز ترین سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کی جاسکے گی، سیٹلائٹ زمین سے 36000 کلومیٹر کی اونچائی پر خلا میں داخل کیا جائے گا۔

سپارکو کا کہنا ہے کہ یہ سیٹلائٹ رواں برس جولائی کے آخر یا اگست کے آغاز سے سروسز فراہم کرنا شروع کرے گا اور اس سے ملک کے دور دراز علاقوں میں بھی انٹرنیٹ کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے گا۔

یاد رہے کہ مئی کے مہینے میں ہی پاکستان نے چین کے خلائی راکٹ چینگ ای سکس کی مدد سے چاند کے مدار میں اپنا پہلا سیٹلائٹ ’آئی کیوب قمر‘ بھیجا تھا اور اس سے پاکستان چاند کے مدار میں سیٹلائٹ بھیجنے والا چھٹا ملک بن گیا۔

سپارکو کے عہدیدار پاک سیٹ ایم ایم ون کو پاکستان کے لیے ’گیم چینجر‘ قرار دے رہے ہیں۔ یہ سیٹلائٹ کیسے پاکستان میں انٹرنیٹ کی دنیا کو تبدیل کرے گا اور کیا عام آدمی کو بھی اس تک رسائی حاصل ہو گی؟

اس بارے میں بات کرنے سے پہلے ہم یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ اس سیٹلائٹ کی خصوصیات کیا ہیں اور یہ کیسے کام کرے گا؟

’ایم ایم ون‘ کی خصوصیات کیا ہیں؟

سپارکو میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز ڈاکٹر امتنان الحق قاضی نے بتایا کہ ’ایم ایم ون‘ دراصل مواصلاتی سیارہ ہے۔

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’مواصلاتی سیارے سٹیشنری مدار میں لانچ کیے جاتے ہیں۔ سٹیشنری مدار زمین کے گرد موجود ایسے مدار ہیں، جو 36 ہزار کلومیٹر کی بلندی پر موجود ہوتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ایسے سیٹلائٹ کا وزن تین سے پانچ ٹن ہوتا ہے اور یہ زمین کے تقریباً 30 سے 35 فیصد حصے کے اوپر کمیونیکیشن سروسز ایک جگہ سے دوسری جگہ پہنچانے میں کام آتے ہیں۔‘

ڈاکٹر امتنان الحق کے مطابق ’ایم ایم ون‘ سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ پڑوسی ممالک، پورا ایشیا جبکہ یورپ اور افریقہ کے کچھ ملکوں میں بھی کام کرے گا۔‘

لیکن یہ سیٹلائٹ کرے گا کیا؟

اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر امتنان الحق نے بتایا کہ ’اس سیٹلائٹ میں ایسے آلات نصب ہیں، جہاں پاکستان کے دور دراز علاقوں اور اوپر جن ممالک کا ذکر کیا گیا ہے، جہاں زمینی انٹرنیٹ دستیاب نہیں یہ وہاں اپنی سروسز فراہم کر سکے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ ’اس سیٹلائٹ کی وجہ سے زمینی انٹرنیٹ پر آپ کا انحصار ختم یا کافی حد تک کم ہو جاتا ہے اور کمیونیکیشن سروسز بہت بہتر ہو جائیں گی۔‘

’اس سیٹلائٹ کے اندر ہائی فریکوینسی بینڈز کے اندر رابطے کرنے کی صلاحیت ہو گی، جس کا مطلب ہے کہ اس کی بدولت انٹرنیٹ کی رفتار تیز کرنے میں بہت مدد ملے گی۔‘

ڈاکٹر امتنان الحق قاضی کا دعویٰ ہے کہ انٹرنیٹ فراہم کرنے والی جو کمپنیاں اس انٹرنیٹ کے ذریعے صارفین کو سروسز فراہم کریں گی، ان کی سروس میں بہت زیادہ بہتری آئے گی۔

پاکستان میں پہلے سے دستیاب انٹرنیٹ

سیٹلائٹ کے ذریعے ملنے والا انٹرنیٹ پاکستان میں پہلے سے دستیاب انٹرنیٹ سروسز سے کیسے مختلف ہو گا؟

اس سوال کا جواب جاننے سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں انٹرنیٹ کی سہولت عام طور پر کیسے فراہم کی جاتی ہے؟

پاکستان میں بنیادی طور پر دو طرح کے انٹرنیٹ دستیاب ہیں:

کیبل انٹرنیٹ: اس میں آپٹیکل فائبر کیبل کو زیر زمین بچھایا جاتا ہے اور پھر جگہ جگہ اس کے ذریعے انٹرنیٹ کنیکشن فراہم کیا جاتا ہے۔ اس کی عام مثال پی ٹی سی ایل (پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن) یا نیا ٹیل (Nayatel) جیسی سرکاری اور نجی کمپنیاں ہیں۔ ان کمپنیوں کے اپنے مراکز (ہب) ہوتے ہیں، جہاں سے وہ بین الاقوامی قوانین کے تحت انٹرنیٹ لیتی ہیں اور آگے اپنے صارفین میں مہیا کرتی ہیں۔

موبائل نیٹ ورک: مختلف موبائل کمپنیاں بھی اپنے صارفین کو انٹرنیٹ کی سہولت فراہم کرتی ہیں، جن کو ’ڈیٹا سروس‘ کہا جاتا ہے۔ موبائل فون کمپنیوں کے جگہ جگہ ٹاور لگے ہوتے ہیں اور ان ٹاورز کے سگنلز کے ذریعے صارفین کو وائر لیس انٹرنیٹ کی سروس ملتی ہے۔

یہ بھی پڑھیےدنیا کو تبدیل کر دینے والا انٹرنیٹ پاکستان میں کب اور کیسے آیا؟بال جتنی باریک شیشے کی ٹیوبز جن کے سہارے آپ کا انٹرنیٹ چلتا ہےسیٹلائٹ انٹرنیٹ کیا ہوتا ہے؟

ایک تیسری قسم سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی ہے جو پاکستان میں زیادہ عام تو نہیں لیکن دوسرے ممالک کی ٹیلی کام کمپنیوں کے ذریعے اس کی فراہمی بھی ممکن ہے۔ اس کے تحت دوسرے ممالک کی بہت سی کمپنیوں نے اپنے سیٹلائٹ لانچ کیے ہوتے ہیں، جو خاص کر کے ڈیٹا سروسز فراہم کرتی ہیں۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں بھی دو طرح کی انٹرنیٹ سروسز ہوتی ہیں:

وی سیٹ (VSAT): اس میں کسی چھت یا گراؤنڈ میں ڈش انٹینا لگا کر سروس فراہم کی جاتی ہے۔ وی سیٹ سروس آپ کو کسی مختص مقام جیسے دفاتر وغیرہ میں انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے۔

موبائل انٹرنیٹ سروس: چھوٹی پورٹ ایبل (ایک جگہ سے دوسری جگہ لے کر جانے والی) ڈیوائسز (جیسے ہینڈ سیٹ، موبائل یا لیپ ٹاپ کے سائز کی ڈیوائس) کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کیا جاتا ہے۔ آپ ان ڈیوائسز کو کہیں بھی ساتھ لے کر جا سکتے ہیں اور انھیں کھول کر کہیں بھی انٹرنیٹ استعمال کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں کون سی کمپنیاں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کر رہی ہیں؟

اس حوالے سے ہم نے متحدہ عرب امارات کی کمپنی تھرایا (Thuraya) کے پاکستان میں جنرل مینجر طاہر محمود سے بات کی۔

طاہر محمود نے واضح کیا کہ ابھی تک کوئی ایسی پاکستانی کمپنی نہیں جو ملک میں سیٹلائٹ کے ذریعے انٹرنیٹ فراہم کرتی ہے بلکہ پاکستان میں جو کمپنیاں سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کر رہی ہیں وہ دوسرے ممالک کی ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی فراہمی زیادہ تر متحدہ عرب امارات کی ٹیلی کمیونیکشین کمپنی ’یا سیٹ‘ (YAHSAT) کے ذریعے ہو رہی ہے اور چار پانچ سال قبل اس نے تھرایا (موبائل اور انٹرنیٹ سروس فراہم کرنے والی کمپنی) کو بھی خرید لیا تھا۔

’یا سیٹ کی سیٹلائٹ کوریج میں پاکستان بھی آتا ہے، اگر ان کے موبائل فون یا انٹرنیٹ ڈیوائس کوئی بیرون ملک سے پاکستان لاتا ہے تو انھیں استعمال کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہاں ان کا نیٹ ورک میسر ہے۔‘

تاہم انھوں نے کہا کہ سپارکو کے سیٹلائٹ لانچ کرنے کے بعد پاکستان میں مختلف کمپنیاں بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ فراہم کر سکیں گی۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ کیسے مختلف ہو گا؟

پاکستان میں انٹرنیٹ سروس منقطع ہونے پر آپ نے اکثر سنا ہو گا کہ زیر زمین بچھائی جانے والی کیبل کو نقصان پہنچا ہے، جس کی وجہ سے انٹرنیٹ چلا گیا۔ اکثر اوقات موبائل کمپنیوں کی سروس بند ہو جانے سے بھی لوگ موبائل ڈیٹا سے بھی محروم ہو جاتے ہیں۔

تو اس کا حل سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں موجود ہے۔

سپارکو میں پروجیکٹ مینجر کے عہدے پر فائز حسن بھٹی نے ’ایم ایم ون‘ کو ’گیم چینجر‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس سے پورے پاکستان اور ملک کے دور دراز علاقوں میں نہ صرف تیز رفتار انٹرنیٹ فراہم کیا جا سکے گا بلکہ اس سے ملک میں کمیونیکشین کی سرکاری اور نجی کمپنیاں بھی مستفید ہوں گی۔

’ہم بلوچستان، کشمیر میں بیٹھے لوگوں کو بھی انٹرنیٹ فراہم کریں گے، ایسے علاقے جہاں زمینی انٹرنیٹ نہیں پہنچا، وہاں پر بھی لوگوں کو انٹرنیٹ مل سکے گا۔‘

دوسری جانب عام انٹرنیٹ اور سیٹلائٹ انٹرنیٹ کا موازنہ کرتے ہوئے تھرایا (Thuraya) کے جنرل مینجر طاہر محمود نے کہا کہ ’آپ مرسڈیز کار کا مقابلہ ہوائی جہاز کے ساتھ نہیں کر سکتے جبکہ مرسڈیز ایک بہت اچھی کار ہے لیکن وہ ہوائی جہاز کی طرح اڑ تو نہیں سکتی۔‘

انھوں نے کہا کہ سٹیلائٹ سے ملنے والا انٹرنیٹ زیادہ قابل بھروسہ ہوتا ہے۔

’ہم دیکھتے ہیں کہ سمندر میں کیبل کٹ گئی یا موبائل سروس بند ہو گئی، تو اس سے انٹرنیٹ کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جبکہ سیٹلائٹ انٹرنیٹ میں اس طرح کے مسائل کا امکان کم سے کم ہوتا ہے۔‘

Getty Imagesآپٹیکل فائبر کیبل کو زیر زمین بچھایا جاتا ہے اور پھر جگہ جگہ اس کے ذریعے انٹرنیٹ کنیکشن فراہم کیا جاتا ہےکیا سیٹلائٹ انٹرنیٹ عام آدمی کی پہنچ میں ہو گا؟

ڈاکٹر امتنان الحق کے مطابق سیٹلائٹ کی لانچ کے بعد چھ سے سات ہفتے ٹیسٹنگ کے لیے ہوتے ہیں۔ اس دورانیے میں مختلف ٹیسٹ کر کے جانچ کی جاتی ہے کہ لانچ کے دوران اس میں کوئی مسائل تو پیدا نہیں ہوئے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ سیٹلائٹ رواں برس جولائی کے آخر یا اگست کے آغاز سے کمرشل سروسز فراہم کرنا شروع کرے گا۔

سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی لاگت پر بات کرتے ہوئے طاہر محمود نے بتایا کہ عام انٹرنیٹ (کیبل اور موبائل انٹرنیٹ) کے مقابلے میں اس کی قیمت کہیں زیادہ ہے۔

’اگر آپ وی سیٹ (VSAT) والا انٹرنیٹ لگوانا چاہتے ہیں تو آج کل اس کی لاگت تقریباً چار لاکھ روپے ہے۔ اس قیمت میں ڈش انٹینا کو نصب کرنے سے انٹرنیٹ کی فراہمی تک تمام سروسز شامل ہوتی ہیں۔ جس طرح آپ عام انٹرنیٹ کے لیے ماہانہ پیکج لیتے ہیں تو وی سیٹ کے کم سے کم ماہانہ پیکج کی قیمت پانچ ہزار روپے تک ہے اور دیگر چارجز وغیرہ ملا کر آپ کا ماہانہ بل دس ہزار روپے تک پہنچ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ڈیڑھ سے دو لاکھ روپے تک کا ماہانہ پیکج بھی ہوتا ہے لیکن یہ آپ کے استعمال پر منحصر ہے کہ آپ کون سا پیکج لینا چاہتے ہیں۔‘

طاہر محمود نے بتایا کہ اگر آپ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے لیے موبائل ڈیوائسز خریدنا چاہیں تو اس کی لاگت دس سے گیارہ لاکھ روپے ہے۔

’ایک لیپ ٹاپ سائز کی ڈیوائس آپ کو اتنے پیسوں میں ملے گی جبکہ اس کے ماہانہ پیکج کی قیمت الگ ہو گی۔‘

پاکستان میں سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی مارکیٹ کے حوالے سے بات کرتے ہوئے طاہر محمود نے کہا کہ کارپوریٹ سیکٹر کے چند شعبوں میں سے کچھ سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی طرف جا سکتے ہیں۔

’اس میں این جی اوز، اقوام متحدہ کے دفاتر، تیل اور گیس کے شعبوں کو سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہماری مسلح افواج اور ایجنسیوں کو بھی سیٹلائٹ انٹرنیٹ کی ضرورت ہوتی ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’سپارکو کے اس پروجیکٹ سے بھی یہی ادارے مستفید ہو سکتے ہیں کیونکہ انھیں اس کی ضرورت ہے اور وہ یہ انٹرنیٹ لگوانے کی استعداد بھی رکھتے ہیں۔ عام آدمی اور کسی ادارے کے بجٹ میں فرق ہوتا ہے اور ادارے سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے لیے اپنا بجٹ بڑھا بھی سکتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہماری سوسائٹی کسی بھی چیز کی قیمت کے بارے میں اچھی خاصی سوچ بچار کرتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہو گا کہ سپارکو اپنے سیٹلائٹ کے ذریعے فراہم کرنے والے انٹرنیٹ کو مارکیٹ میں پہلے سے موجود سیٹلائٹ انٹرنیٹ کے مقابلے میں کس قیمت پر فروخت کرتا ہے۔‘

طاہر محمود کے مطابق اس کے علاوہ سیٹلائٹ سے ملنے والی انٹرنیٹ سروس کی کوالٹی بھی اہم کردار ادا کرے گی۔

ڈی این ایس کیا ہے اور کیا یہ سینٹرلائزیشن پاکستانی انٹرنیٹ صارف کا جینا دو بھر کر سکتی ہے؟وہ لوگ جو انٹرنیٹ کو صرف استعمال کرنے سے پیسے کماتے ہیںانٹرنیٹ نگرانی کے قواعد: ’حکومت کو ناقدین کے گرد گھیرا تنگ کرنےمیں آسانی ہو گی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More