Getty Images
پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) گذشتہ دو دنوں سے تنقید کی زد میں ہے جس کی وجہ عمران خان کی ایک ٹویٹ بنی ہے جس میں انھوں نے لوگوں کو سقوطِ ڈھاکہ سے متعلق حمود الرحمان کمیشن رپورٹ پڑھنے کا مشورہ دیا ہے۔
27 مئی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر عمران خان کے اکاؤنٹ سے ایک ویڈیو ٹویٹ کی گئی اور لکھا گیا کہ کہ ’ہر پاکستانی کو حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کا مطالعہ کرنا اور یہ جاننا چاہیے کہ اصل غدار تھا کون، جنرل یحییٰ خان یا شیخ مجیب الرحمان۔‘
عمران خان گذشتہ تقریباً ایک سال سے راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قید ہیں، انھیں متعدد مقدمات میں سزائیں سنائی جا چکی ہیں جبکہ ان کے خلاف مزید مقدمات کی سماعت بھی جاری ہیں۔ عمران خان جیل میں ہونے کے سبب اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس خود استعمال نہیں کرتے اور تحریک انصاف کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے ممبران چلاتے ہیں۔
عمران خان اور تحریک انصاف کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹس سے حمود الرحمان کمیشن رپورٹ سے متعلق ہونے والی ٹویٹس پر تنقید کرنے والوں کا الزام ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے بانی ’فوج کو بدنام‘ کر رہے ہیں اور ’اشتعال انگیزبیانیے کو ہوا‘ دے رہے ہیں۔
گذشتہ روز عمران خان کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ ہونے والی اس ویڈیو پر ردِعمل دیتے ہوئے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ’عمران (خان) نیازی کا مکروہ چہرہ بے نقاب ہو چکا ہے، وہ پاک فوج کو بدنام کرتے ہیں اور مجیب الرحمان کو ہیرو قرار دیتے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی جانب سے بھی عمران خان کے سوشل میڈیا پر جاری بیان پر ردِعمل دیا گیا اور پارٹی کی سینیٹر شیری رحمان نے کہا کہ ’عمران خان کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر جس طرح کی بیان بازی کی جا رہی ہے وہ تشویشناک ہے، تحریکِ انصاف مسلسل نفرت اور اشتعال کے بیانیے کو ہوا دے رہی ہے۔‘
اس بڑھتی تنقید کو دیکھتے ہوئے منگل کی شام پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان کا کہنا تھا کہ عمران خان ’اپنی ٹویٹ کے ہر لفظ کو نہیں دیکھتے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان کی جانب سے 1971 یعنی سقوطِ ڈھاکہ کا ذکر سیاسی تناظر میں کیا گیا تھا۔‘
بیرسٹر گوہر نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ 1971 میں بھی ایک جماعت کی اکثریت کو نہیں مانا گیا تھا اور اسمبلی کا سیشن نہیں بُلایا گیا تھا۔ ’جو 1971 میں ملک کے ساتھ ہوا تھا وہی اب بھی کیا جا رہا ہے۔ یہ یہ ہمارا بیانیہ ہے۔ ہم عوامی لیگ نہیں ہیں اور نہ خان صاحب شیخ مجیب ہیں۔‘
’مسلح افواج کے بارے میں کچھ چیزیں نامناسب ہیں‘Getty Imagesشیخ مجیب الرحمان عوامی لیگ کے سربراہ تھے
پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان جیل میں قید ہیں اور پارٹی کی جانب سے پالیسی بیان صرف چیئرمین بیرسٹر گوہر، قائدِ حزبِ اختلاف عمر ایوب اور عمران خان کے چیف آف سٹاف شبلی فراز دے سکتے ہیں۔
انھوں نے کہا کہ ’جو بیرسٹر گوہر نے بات کی وہ بالکل صحیح ہے کہ یہ ایک سیاسی تناظر میں کی گئی بات تھی جس کا مقصد یہ سمجھانا تھا کہ عوام کی جانب سے ملنے والے میڈیٹ کی عزت کی جائے۔‘
ایک سوال میں جواب میں انھوں نے کہا کہ ’باقی کچھ چیزیں جو اس ویڈیو میں مسلح افواج کے بارے میں تھیں انھیں میں نامناسب ہی کہوں گا۔‘
علی محمد خان مزید کہتے ہیں کہ پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان ایک ’ناپسندیدہ شخصیت‘ ہیں اور ’میرے خیال میں ان کا موازنہ عمران خان سے کرنا عمران خان کے ساتھ زیادتی ہے کیونکہ عمران خان ایک محب وطن پاکستانی ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’عمران خان اِس وقت جیل میں ہیں، جب تک وہ اپنے منھ سے کوئی بات نہیں کرتے یا ان کی بات چیئرمین بیرسٹر گوہر نہیں کرتے تب تک اس کی حقیقت پر سوالیہ نشان اُٹھ سکتے ہیں۔‘
پی ٹی آئی کے مرکزی ترجمان رؤف حسن نے بھی بدھ کو ایک پریس کانفرنس کے دوران اس معاملے پر گفتگو کی اور کہا کہ حمود الرحمان کمیشن رپورٹ میں فوج سے متعلق کہیں بھی کوئی غلط بات نہیں لکھی لیکن اس میں جنرل یحییٰ خان کے بارے میں ضرور لکھا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کی سوشل میڈیا ٹیم کے افراد جماعت کی قیادت کے بیانات سے اتفاق نہیں کرتے۔
پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم کے ایک متحرک رکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا کہ ’عمران خان صاحب نے یہی کہا کہ حمود الرحمان پڑھیں اور تاریخ آپ کو بتائے گی کہ اصل غدار کون تھا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’قیادت پر دباؤ اس لیے آ رہا ہے کہ ویڈیو میں اجتماعی قتل کا ذکر ہے۔ مشرقی پاکستان میں اجتماعی قتل ہوئے تھے اور اس پر خان صاحب کی ہمیشہ واضح پوزیشن رہی ہے۔‘
واضح رہے کہ عمران خان کے اکاؤنٹ سے ٹویٹ کی گئی ویڈیو میں بھی مشرقی پاکستان میں ہونے والی ’خونریزی‘ کا ذمہ دار پاکستانی فوج کے اس وقت کے سربراہ جنرل یحییٰ خان کو ٹھہرایا گیا ہے۔
کیا پی ٹی آئی کو کیا نقصان ہو سکتا ہے؟
پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان کہتے ہیں کہ ان کی جماعت کا مؤقف یہ ہی ہے کہ تمام ادارے بشمول مسلح افواج اپنے آئینی دائرے میں رہ کر کام کریں۔
ان کے مطابق ’عمران خان خود بھی کہہ چکے ہیں کہ ملک کو ان (عمران خان) سے زیادہ پاکستان فوج کی ضرورت ہے۔‘
پاکستانی فوج کے سابق افسر لیفٹننٹ جنرل (ریٹائرڈ) نعیم خالد لودھی کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کا ذہن ایسا ہے کہ وہ اپنے رہنما کی بات کو ہی سچ سمجھتے ہیں۔
’اس لیے ایسا نہیں ہو گا کہ سوشل میڈیا پوسٹ یا میڈیا پر ہونے والی تنقید کے سبب وہ عمران خان یا پی ٹی آئی کو چھوڑ دیں۔‘
تاہم ان کا ماننا ہے کہ دیگر جماعتیں ضرور اس کو وجہ بنا کر پی ٹی آئی کے خلاف سیاسی پوائنٹ سکورنگ کر سکتی ہیں۔
’ماضی میں اس سے ملتی جلتی باتیں پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہان نے بھی کی ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’شک و شبے والی بات یہ ہے کہ یہ بات (ٹویٹ) عمران خان کی طرف سے آئی تھی یا نہیں۔‘
’ایسے لوگ بھی موجود ہو سکتے ہیں نہ صرف پی ٹی آئی کے اندر بلکہ باہر بھی جو پی ٹی آئی کو نقصان پہنچانے کے لیے ان کے نام پر یہ مہم شروع کر سکتے ہیں، اور گوہر صاحب نے خود عندیہ دیا ہے کہ یہ پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مزید حالات خراب کروانے کے لیے بھی ہو سکتا ہے۔‘
سنہ 1971 میں مشرقی پاکستان کے اہم واقعات مغربی پاکستان میں کیسے رپورٹ ہوئے؟جنرل نیازی سمیت پاکستانی جنگی قیدیوں کی انڈین جیلوں میں زندگی کیسی تھی؟1971 کی جنگ: جب امریکہ نے انڈیا کو ڈرانے کے لیے اپنا جنگی بیڑہ بھیجا