BBC
یحییٰ خان شنواری کے لیے پانچ مئی کے بعد سے ہر لمحہ کسی اذیت سے کم نہیں کیونکہ وہ شدید گرمی میں بلوچستان کے سرحدی شہر چمن میں کھلے آسمان تلے اپنے پھنسے ہوئے کنٹینر کے ساتھ موجود ہیں۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ پر بڑی مال بردار گاڑیوں کی بندش کی وجہ سے یحییٰ اور ان کا کنٹینر چمن میں پھنسے ہوئے ہیں۔
اپنے کنٹینر کے سامنے بیٹھے یحییٰ شنواری نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے اس خدشے کا اظہار کیا کہ اگر ’شاہراہ کو نہیں کھولا گیا تو وہ عید پر گھر بھی نہیں جا سکیں گے۔
شاہراہ کی بندش سے چمن اور افغانستان جانے والی گاڑیوں کی بڑی تعداد کوژک کی پہاڑی اور چمن شہر میں پھنسی ہوئی ہیں جس کی وجہ سے ان کے ڈرائیور اور عملے کے دیگر افراد ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔ ان ٹرکوں اور کنٹینرز کی مجموعی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
یحییٰ خان شنواری کا کہنا ہے کہ پیسے ختم ہونے کے باعث انھیں کھانے پینے کے حوالے سے بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
اس بین الاقوامی شاہراہ کو چار مئی سے دھرنے کے شرکا نے بڑی مال بردار گاڑیوں کے لیے بطور احتجاج بند کر رکھا تھا۔ یہ دھرنا گذشتہ سال 21 اکتوبر سے افغانستان آمدورفت کے لیے حکومت پاکستان کی جانب سے پاسپورٹ کی شرط کے نفاذ کے خلاف دیا جا رہا ہے۔
دھرنے کے شرکا کا کہنا ہے کہ اس شرط کی وجہ سے چمن کے ہزاروں افراد سے ان کا روزگار چھین لیا گیا ہے جس کی وجہ سے وہ نہ صرف احتجاج کو جاری رکھنے بلکہ اس میں شدت لانے پر بھی مجبور ہیں۔
سرکاری حکام کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش ہے کہ اس معاملے کو مذاکرات کے ذریعے حل کیا جائے۔
BBCبین الاقوامی شاہراہ کو بند کرنے کی وجہ کیا بنی؟
چمن میں صنعت اور معاش کے دوسرے بڑے ذرائع نہ ہونے کی وجہ سے گذشتہ کئی دہائیوں سے یہاں سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کے معاش اور روزگار کا انحصار افغانستان کی سرحدی منڈیوں پر ہے جو صوبہ قندھار کے سرحدی علاقے سپین بولدک میں ہیں۔
مزدور روزانہ قومی شناختی کارڈ کی بنیاد پر سرحد پار سفر کرتے ہیں۔ تاہم اکتوبر میں حکومت پاکستان کی جانب سے چمن سے بھی آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کے نفاذ کے بعد ان افراد کی افغانستان آمدورفت کا سلسلہ بند ہو گیا۔
اس کے خلاف گذشتہ سال 21 اکتوبر سے دھرنا جاری ہے مگر اب اس میں شرکا کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ چار مئی کو چمن شہر کے قریب کوئٹہ کی جانب گڑنگ کے مقام پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی شاہراہ کو بند کر دیا گیا۔
دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی نے بتایا کہ اگرچہ پاسپورٹ کی شرط کے باعث روزانہ باب دوستی سے آمد و رفت کرنے والے ہزاروں مزدور اور چھوٹے دکاندار اپنے معاش اور روزگار سے محروم ہوئے تاہم گھوڑا گاڑی والے محنت کشوں کا کسی طرح گزارا ہو رہا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’مگر چار مئی سے پہلے سرکاری حکام کے اقدامات کے باعث ان محنت کشوں کا بھی کام بند ہو گیا جو روزانہ بمشکل ہزار بارہ سو کما کر اپنے گھر کا چولہا جلاتے تھے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’جب یہ لوگ روزگار سے محروم ہو گئے تو انھوں نے چمن میں ایف سی کے قلعے کے باہر پر امن احتجاج شروع کیا۔‘
صادق اچکزئی کے مطابق چار مئی کو مبینہ طور پر ایف سی کی فائرنگ سے دو مزدور ہلاک ہوئے جس پر ذمہ داران کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا اور شاہراہ کو بند کیا گیا۔
ادھر سیکیورٹی فورسز کے ایک سینیئر اہلکار نے فائرنگ کے روز نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بی بی سی کو بتایا تھا کہ مظاہرین کی جانب سے پتھراؤ کیا گیا تھا تاہم ایف سی اور پولیس کے اہلکاروں نے قلعے کے باہر مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے صرف لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی شیلنگ کی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف سی کے اہلکاروں نے کسی پر گولی نہیں چلائی تھی۔
BBCخیبرپختونخوا کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور حاجی فقیر محمد آفریدی نے کہا کہ وہ 22 روز سے چمن میں ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں
خیال رہے کہ مشتعل مظاہرین نے پانچ مئی کو شہر میں تمام سرکاری اور نجی بینکوں کو تالا لگانے کے علاوہ وفاقی محکموں کے بعض دفاتر کو بھی تالے لگائے۔ جن دفاتر کو تالا لگایا گیا ہے ان میں پاسپورٹ آفس، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام اور نادرا کے دفاتر بھی شامل ہیں۔
چار مئی کی رات سے افغانستان اور پاکستان کے درمیان افغان ٹرانزٹ ٹریڈ اور دوسری تجارت نہ صرف بند ہوگئی ہے بلکہ بڑی تعداد میں گاڑیاں بھی پھنس گئی ہیں۔
دھرنے کے شرکا نے چمن کے لیے لائی جانے والی سبزیوں اور پھلوں کو خراب ہونے سے بچانے کے لیے یہ رعایت دی ہے کہ ان کو کوژک کی پہاڑی پر بڑی گاڑیوں سے اتار کر چھوٹی گاڑیوں میں چمن منتقل کیا جائے۔
اسی طرح چمن کے تاجروں کے لیے لائی جانے والی دوسری اشیا کو بھی چھوٹی گاڑیوں میں چمن پہنچایا جاتا ہے جس کے باعث روزانہ اجرت کی بنیاد پر محنت مزدوری کرنے والوں کو روزگار کا ایک موقع مل گیا ہے۔
کوژک کے مقام پر ایک ڈرائیور ظہیر جانی نے بتایا کہ ’راستہ چمن کے عوام نے اس لیے بند کیا ہے کہ سرحد کو ان کے روزگار کے لیے دوبارہ کھولا جائے۔‘
انھوں نے بتایا کہ بڑی مال بردار گاڑیوں کی بندش سے بڑی گاڑیوں نے چمن کے لیے مال لانا بند کیا ہے جس سے چمن میں نہ صرف اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے بلکہ ان کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔
BBCکوژک کے مقام پر ایک ڈرائیور ظہیر جانی نے بتایا کہ ’راستہ چمن کے عوام نے اس لیے بند کیا ہے کہ سرحد کو ان کے روزگار کے لیے دوبارہ کھولا جائے‘’اگر یہ شاہراہ بند رہی تو عید منانے کے لیے گھر بھی نہیں جا سکیں گے‘
شاہراہ کی بندش سے اس وقت جو لوگ زیادہ مشکل سے دوچار ہیں وہ بڑی مال بردار گاڑیوں کے ڈرائیور اور ان کا عملہ ہے۔ ان میں سب سے زیادہ مشکل سے وہ لوگ دوچار ہیں جن کی گاڑیاں افغانستان یا چمن جاتے ہوئے کوژک میں پھنس گئی ہیں کیونکہ وہ اب بڑی گاڑیوں کو کسی ہوٹل وغیرہ پر نہیں لے جاسکتے۔
پھنسے ہوئے ڈرائیوروں میں چمن سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور محمد ایوب بھی شامل ہیں۔ اپنے کنٹینر کے سایے میں نماز پڑھنے کے بعد انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہاں پانی بھی نہیں ہے۔‘
انھوں نے دور ریلوے کی ایک انسٹالیشن کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم پینے اور وضو کے لیے پانی وہاں سے لاتے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میرا گھر چمن میں ہے لیکن میں اپنے کنٹینر کی وجہ سے نہ گھر جاسکتا ہوں اور نہ ہی یہاں سے کنٹینر کو کسی ہوٹل یا محفوظ مقام تک لے جاسکتا ہوں۔‘
محمد ایوب کو اپنی مشکلات کے مقابلے میں زیادہ پریشانی گاڑی اور کنٹینر کی ہے کیونکہ ان کے بقول کھڑی گاڑی پر لوڈ پڑنے سے اس کے ٹائروں کے علاوہ گاڑی کو نقصان پہنچے گا۔
چمن شہر میں ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے ڈرائیور یحییٰ شنواری نے بتایا کہ ’ہمارا کوئی قصور نہیں ہے لیکن ہم لوگ دوسروں کے مسائل کی وجہ سے یہاں پھنس گئے ہیں۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’اگر چمن کے لوگوں کے مسائل ہیں تو حکومت کو چاہیے کہ ان کو مذاکرات کے زریعے حل کرے تاکہ ہماری اور تمام لوگوں کی مشکلات کا خاتمہ ہو۔‘
انھوں نے کہا کہ ’پانچ مئی سے ہم ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں اور ہمارے بچے پوچھ رہے ہیں کہ عید آرہی ہے ہمارے لیے کپڑے اور قربانی کے لیے جانور کب خریدیں گے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ شاہراہ بند رہی تو ہم بچوں اور گھر والوں کے لیے کچھ خریدنا دور کی بات ہے ہم ان کے ساتھ عید منانے کے لیے گھر بھی نہیں جا سکیں گے۔‘
ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے دوسرے ڈرائیور حاجی فقیر محمد آفریدی نے کہا کہ وہ 22 روز سے چمن میں ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس جو پیسے تھے وہ بھی خرچ ہو گئے ہیں جبکہ گاڑیوں کی بندش سے ’سیٹھ کے پاس بھی نہ خرچے کے لیے پیسے ہیں اور نہ تنخواہوں کے لیے۔ بعض گاڑیوں پر قسطیں بھی واجب الادا ہیں۔‘
ڈرائیوروں نے یہ شکایت بھی کہ وہ ایک مشکل صورتحال سے دوچار ہیں لیکن ان کو تسلی دینے یا کوئی مدد کرنے کے لیے کوئی حکومتی نمائندہ نہیں آیا۔
چمن: حکومت اور مظاہرین کے نمائندوں میں مذاکرات کامیاب، دھرنا ختمسرحد پار کرنے کے لیے پاسپورٹ کی شرط: ’چمن کے لوگوں کو خیرات نہیں اپنے خون پسینے کی کمائی چاہیے‘پاکستان کی سرحدوں پر پابندیاں اور چمن کی تاریخ کا طویل احتجاجشاہراہ کی بندش سے کتنا نقصان ہوا؟
گڑنگ جہاں دھرنے کے شرکا نے شاہراہ کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کی ہے وہاں ہماری ملاقات چمن دھرنا کمیٹی کے ترجمان صادق اچکزئی سے ہوئی۔
جب ان کی توجہ لوگوں بالخصوص پھنسی ہوئی گاڑیوں کے عملے کی مشکلات کی جانب دلائی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم انسان ہیں اور ہمیں لوگوں کی مشکلات اور پریشانی کا احساس ہے لیکن ہم مجبور ہیں۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’پاسپورٹ کی شرط کے خلاف ہمارا پرامن دھرنا طویل عرصے سے جاری تھا لیکن پر امن مظاہرین پر گولی چلا کر ہمیں سخت قدم اٹھانے پر مجبور کیا گیا۔‘
مگر اس سب سے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز کے ساتھ ساتھ حکومت کو بھی نقصان ہو رہا ہے۔
چمن میں کسٹمز کلیئر ایجنٹ، پاکستان اور افغانستان کے جوائنٹ چیمبر آف کامرس اور چمن چیمبر آف کامرس کے سابق سینیئر نائب صدر محمد غنی نے بتایا کہ 4 مئی سے پھنسے ہوئے ٹرکوں اور کنٹینروں کی تعداد دو ہزار سے زیادہ ہے۔
ان کے مطابق اس سے ٹرانسپورٹرز کو کرایے کی مد میں بے تحاشا نقصان ہو رہا ہے اور مجموعی نقصان کروڑوں میں بلکہ اربوں میں ہے۔
انھوں نے بتایا کہ پاکستان سے چاول، آلو، سبزی اور فروٹ کے علاوہ دیگر مصنوعات افغانستان اور وسطی ایشائی ریاستوں کو جا رہی تھیں جو اب تعطل کا شکار ہیں۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ افغانستان سے مصنوعات پاکستان آنے کے علاوہ اس راستے سے افغان تاجروں کا مال انڈیا اور خلیجی ممالک جا رہا تھا۔ افغانستان اور پاکستان کے درمیان امپورٹ اور ایکسپورٹ کی اشیا کے علاوہ بیرونی ممالک سے افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا سامان بھی اسی راستے سے افغانستان جاتا تھا۔
انھوں نے کہا کہ ’اگر یہ راستہ بند ہوجائے گا تو اس کا پاکستان کو یہ نقصان ہوگا کہ افغان تاجر اپنی مصنوعات باہر بھیجنے یا باہر سے اشیا منگوانے کے لیے ایران میں چابہار اور بندر عباس کا رُخ کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے چمن سے ماہانہ کسٹمز میں سوا ارب سے دو ارب روپے کا ریونیو جمع ہو رہا تھا لیکن جب سے یہ دھرنا شروع ہوا ہے اس وقت سے ملک کو ملنے والا یہ ریونیو نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔‘
حکومت دھرنا ختم کروانے کے لیے کیا کر رہی ہے؟
چار مئی کو پیش آنے کے واقعے کے بعد وزیر اعلیٰ بلوچستان نے دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کے لیے وزیر داخلہ میر ضیا اللہ لانگو پر مشتمل ایک وفد کو بھیجا لیکن شاہراہ کو کھولنے کے حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
صادق اچکزئی نے بتایا کہ ’ہمیں وفد کی جانب سے کہا گیا کہ دیگر مسائل اور مشکلات پر بات چیت کے لیے پہلے شاہراہ کو کھول دیا جائے لیکن دھرنے کے شرکا کی جانب سے یہ مطالبہ دہرایا گیا کہ پاسپورٹ کی شرط کو ختم کرنے کا نوٹیفیکیشن جاری کیا جائے تو ہم شاہراہ کو کھولنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔‘
اس وفد کے بعد یہ کہا گیا کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی دھرنے کے شرکا سے مذاکرات کے لیے خود جائیں گے لیکن تاحال وزیر اعلیٰ یا کوئی اور حکومتی عہدیدار نہیں گیا۔
تاہم ایک پریس بریفنگ کے دوران وزیر اعلیٰ نے بین الاقوامی بارڈر سے پاسپورٹ کے ذریعے آمدورفت کے لیے وفاقی حکومت کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہنا تھا کہ پاکستان اور افغانستان دو الگ الگ خودمختار ممالک ہیں اس لیے دنیا کے دیگر ممالک کی طرح خیبر پختونخوا کے بعد بلوچستان میں بھی سرحدی شہر چمن سے آمدورفت کے لیے پاسپورٹ کی شرط کو لاگو کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ ’جب تقسیم کے بعد پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس سے صرف پشتون تقسیم نہیں ہوئے بلکہ بلوچ ، پنجابی اور سندھی بھی تقسیم ہوئے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ آپ کہیں پاسپورٹ کے بغیر سفر کریں۔ ہم بغیر پاسپورٹ کے اپنے مقدس مقامات پر سعودی عرب نہیں جا سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’چمن بارڈر سے پاسپورٹ کی شرط کے بعد وہاں پاسپورٹ آفس بنایا گیا اور نادرا آفس اور پاسپورٹ آفس میں عملے اور سہولیات کو بڑھایا گیا تاکہ لوگوں کے پاسپورٹ جلدی بنیں۔‘
حکومت بلوچستان کے ترجمان شاہد رند نے بی بی سی کو بتایا کہ وزیر اعلیٰ کی پالیسی واضح ہے کہ لوگوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے اس مسئلے کو حل کیا جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت نے موجودہ حکومت سے قبل ملکی مفاد اور اس کی سکیورٹی کو پیش نظر رکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ اور اس وقت کی بلوچستان کی حکومت نے اس فیصلے کی تائید کی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کی حکومت کی یہ کوشش ہے کہ کوئی ایسی کارروائی نہ کی جائے جو پرتشدد ہو بلکہ حکومت کی ہر ممکن کوشش ہے کہ مذاکرات کے ذریعے ہی چمن کے تمام مسائل کو حل کیا جائے۔
پاکستان کی سرحدوں پر پابندیاں اور چمن کی تاریخ کا طویل احتجاجسرحد پار کرنے کے لیے پاسپورٹ کی شرط: ’چمن کے لوگوں کو خیرات نہیں اپنے خون پسینے کی کمائی چاہیے‘چمن: حکومت اور مظاہرین کے نمائندوں میں مذاکرات کامیاب، دھرنا ختم