BBC
کزبانو بلوچ کا گھرگوادر کے قدیم علاقے میں واقع ہے جو حالیہ بارشوں میں مکمل منہدم ہوگیا ہے، ان کی ایک بیٹی ہے اور داماد درزی کے پاس دیہاڑی پر کام کرتا ہے۔
کزبانو فش ہاربر روڈ کے قریب واقع گھر میں رہتی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پورے 16 گھنٹے بارش ہوئی تو پھر پانی آیا اور یہ بہت زیادہ پانی تھا۔ کزبانو کے مطابق سنہ 2012 کے طوفان سے یہ بڑا طوفان تھا۔
بارش کے ساتھ ساتھ سڑک کا پانی بھی گھر کے اندر آگیا۔ نتیجے میں کزبانو کا گھر، باورچی خانہ اور سڑک کی طرف بنی ہوئی ایک دکان منہدم ہو گئی۔
کزبانو نے گھر منہدم ہونے کے بعد کرائے کے مکان میں رہائش اختیار کی ہوئی ہے۔
BBCگوادر میں غیر معمولی بارشیں
محکمہ موسمیات کے مطابق یہ غیر معمولی بارشیں تھیں۔ فروری کے آخر اور مارچ کی ابتدا میں ایک ہفتے کے دوران تقریباً 250 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی اس سے قبل گوادر میں مارچ کے مہینے میں بارش کا ریکارڈ 38 ملی میٹر تھا۔
قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق ان حالیہ بارشوں سے 450 گھروں کو مکمل اور 8200گھروں اور عمارتوں کو جزوی نقصان پہنچا ہے۔
ان بارشوں کی وجہ سے گودار شہر نے ایک تالاب کی شکل اختیار کرلی، لیکن ایسا پہلی بار نہیں ہوا سنہ 2005سے لے کر سنہ 2024 تک گوادر پانچ بار زیر آب آچکا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ سیلابی صورتحال صرف بارشوں کی وجہ سے ہے یا اس میں گوادر کی تیز رفتار ترقی اور منصوبہ بندی کا بھی عمل دخل ہے۔
بی بی سی نے ان ہی سوالات کے جوابات جاننے کی کوشش کی ہے۔
BBCپانی کی فطری گزر گاہیں بند
گوادر ماہی گیروں کی ایک بستی تھی لیکن اس بستی اور اس کے ارد گرد اس وقتتیزی کے ساتھ تبدیلیاں رونما ہونے لگیں جب سنہ 2007 میں سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف نے یہاں بندرگاہ کا افتتاح کیا، جس کی تعمیر چین نے کی تھی۔
چین اور پاکستان کے درمیان جب سنہ 2015 میں اقتصادی راہداری یعنی سی پیک کے منصوبے کا اعلان ہوا تھا تو گوادر اس منصوبے کا دل بن گیا۔
اس پسماندہ علاقے کو دوسرا ’شینزن‘ بنانے کا دعویٰ کیا گیا جو کبھی گوادر کی طرح مچھیروں کی بستی ہوا کرتا تھا لیکن اس وقت یہ چین کا تیسرا بڑا شہر ہے۔
BBC
کوہ باطل کی گود میں بننے والی بندرگاہ نے مقامی لوگوں کی نقل و حرکت کو تو محدود کیا لیکن بارشوں کے پانی کے راستے میں بھی رکاوٹیں ڈال دیں۔
جب میں کوہ باطل اور بندر گاہ کے درمیان واقع گورنمنٹ ہائی سکول گوتری بازار پہنچا تو میدان کے ساتھ ساتھ سکول کے اندر بھی پانی موجود پایا۔ سکول ہیڈ ماسٹر محمد حسن نے مجھے گیلے رجسٹرڈ دکھائے اور ہاتھ سے اشارہ کیا کہ سامنے والا کمرہ کمپیوٹر لیب ہے، جس میں موجود تمام کمپیوٹرز پانی میں ہیں۔
ہیڈ ماسٹر محمد حسن کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ یہ بارشیں پہلی بار ہوئی ہیں اس سے قبل بھی شدید بارشیں ہوتی تھیں لیکن پانی سمندر میں چلا جاتا تھا۔
ان کے مطابق ’پہلے جیٹی بنی اس کے بعد پورٹ بنا اور پھر ایکسپریس وے بنایا گیا اس کی وجہ سے پانی آبادیوں کی طرف آرہا ہے۔ پہلے پانی کے فطری راستے ہوتے تھے، جہاں سے پانی گزر کر سمندر میں گرتا تھا لیکن انھوں نے راستے بند کر دیے اور متبادل راستے نہیں بنائے۔ ظاہر ہے پانی کو راستہ تو چاہیے، اس نے پورا رخ آبادی کی طرف کردیا اور نتیجتاًگھر بھی مسمار ہوئے۔‘
گوادر بندرگاہ کے اطراف میں کنکریٹ کی دیوار تھی جو آبادی کو الگ کرتی ہے۔ ملا بند کے علاقے میں ایک کونے سے دیوار کو توڑا گیا تھا تا کہ بارش کے پانی کی نکاسی ہوسکے لیکن یہ پہلی بار نہیں ہوا۔ گذشتہ بارشوں میں بھی اس طرح دیوار گرا کر پانی گزارا گیا اور دوبارہ دیوار بنا دی گئی۔
BBC
گوادر ڈویلپمینٹ اتھارٹی کے چیف انجینیئر سید محمد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ پہلے پانی کا بہاؤ پورٹ والے علاقے میں ہوتا تھا بعد میں وہاں اوپن ڈرین بنایا گیا جو بند تھا۔ ان کے مطابق یہ ڈرین کیوں بند تھا یہ پورٹ والے ہی جانتے ہیں، اس کی وجہ سے پورا پانی قبرستان سے ہوتے ہوئے ملا بند کے علاقے میں آ گیا۔
ساحل سمندر کے سامنے میرین ڈرائیور کے نام سے ایک چوڑی اور چھ رویہ طویل سڑک بنائی گئی ہے، جس نے علاقے کی خوبصورتی میں تو اضافہ کیا لیکن آبادی اور سمندر کے درمیان ایک بند کی شکل اختیار کرلی۔
گوادر میں پہلی ترجیح بندرگاہ اور اس کے بعد اس سے منسلک انفراسٹرکچر ہے۔ سنہ 2018 میں حکومت نے بندرگاہ سے کارگو کی آمدرفت کے لیے ایک چھ رویہ والا 19 کلومیٹر کا مشرقی ایکسپریس وے بنایا، جس سے صورتحال مزید سنگین ہوگئی۔ اس ایکسپریس وے کی سطح آبادی سے اونچی تھی۔ دوسرا مقامی لوگوں کے مطابق اس سے پانی کی نکاسی کی قدرتی گزر گاہیں بھی بند ہوگئیں۔
میونسپل کارپویشن کے چیئرمین شریف میانداد کہتے ہیں اس کو میگا سٹی، دبئی سٹی، سی پیک سٹی پکارا جاتا ہے لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس سے پہلے والا جو گوادر تھا وہ اس سے بہتر ہوتا تھا کیونکہ جب بھی بارش ہوتی تھیں تو یہ پانی سمندر میں چلا جاتا تھا۔
دائیں طرف دیمی زر اور بائیں طرف پدی زر ہے ان دونوں راستوں سے پانی سمندر میں نکل جاتا تھا لیکن دونوں اطراف میں جو ترقی کے نام پر سڑکیں بنائی گئیں ان میں تعمیر کے وقت میمرین پلاسٹک کی شیٹس لگائی گئی ہیں تاکہ سمندر کا پانی نہ آئے لیکن بارش کا پانی بھی وہاں نہیں جا پا رہا ہے۔
BBCسیوریج نظام کی عدم دستیابی
مراد بلوچ ماہی گیر ہیں۔ سنہ 2010 کی بارشوں میں ان کے گھر کے تین کمرے منہدم ہوگئے تھے۔ حالیہ دنوں ہونے والی بارشوں میں دوبارہ ان کے گھر کے دو کمروں سمیت واش روم اور باورچی خانے میں دراڑیں پڑ گئی ہیں، جب ان سے ملاقات ہوئی تو وہ گھر سے جنریٹر کی مدد سے پانی باہر سڑک پر نکال رہے تھے۔
مراد بلوچ نے بتایا کہ انھوں نے اپنی گنجائش کے مطابق پہلے بالٹی سے پانی نکالا لیکن تھک گئے۔ مقامی کونسلرز کے پاس گئے کہ جنریٹر دو تو انھوں نے جواب دیا کہ پیٹرول دستیاب نہیں۔
مراد بلوچ نے اپنا پیٹرول خریدا۔ دوستوں اور پڑوسیوں سے پائپ کے ٹکڑے جمع کرکے ایک طویل پائپ بناکر پانی کی نکاسی کی۔
مراد بلوچ کو یہ سب کاوشیں اس لیے کرنا پڑیں کیونکہ ان کے علاقے میں سیوریج کا نظام فعال نہیں۔
حالیہ بارشوں سمیت گذشتہ 15 برس میں جب بھی ابر کرم ہوتا ہے تو شہر سے پانی کی نکاسی خندق لگا کر کی جاتی ہے۔ دوسرا طریقہ پائپوں کے ذریعے اس کو اگلی منزل تک پہنچانا ہے۔ گودار ڈویلپمنٹ اتھارٹی بھی اسی طریقہ کار کو اپناتی ہے۔ اس صورتحال میں سڑکیں دوبارہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔
سنہ 2004 میں گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کے وقت شہر کا ماسٹر پلان بنایا گیا، جس میں شہری ڈھانچے کے لیے وفاقی حکومت نے 25 ارب روپے دینے کا اعلان کیا تھا۔
جی ڈی اے حکام کے مطابق 20 سال گزرنے کے بعد بھی صرف نصف رقممل سکی ہے لیکن اس میں بھی شہر کے ڈرینیج اور سیوریج کے لیے رقم شامل نہیں تھی۔
بلوچستان میں ڈاکٹر مالک بلوچ کی حکومت آنے کے بعد گوادر کی نکاسی آب کے نظام کے لیے صوبائی حکومت نے 13.5 ملین روپے مختص کیے، جس میں سے ابھی صرف نصف رقم جاری ہو سکی ہے اور ایک فیز مکمل ہوا۔
جی ڈی اے کے چیف انجنیئر سید محمد کے مطابق انھوں نے 8.5 کلومیٹر ڈرینج اور 16 کلومیٹر سیوریج کی تعمیر کی، جو اولڈ ٹاؤن کے 15 سے 16 فیصد علاقے کو کور کر رہا ہے، اس تعمیر میں انھوں نے اولیت ان علاقوں کو دی جہاں پانی کھڑا رہتا تھا۔ ان کے دعوے کے مطابق جہاں جہاں انھوں نے لائنیں ڈالیں وہاں پانی نکل گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیے’29 گھنٹے لگاتار بارش‘ بلوچستان کے ضلع گوادر کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا، اس غیر معمولی بارش کی وجہ کیا بنی؟گوادر میں سیلابی صورتحال: ’ادھر کوئی ترقی نہیں، صرف اللہ کا نام ہے‘بلوچستان: گوادر، کیچ میں شدید بارشوں سے املاک کو نقصانBBCآگے بڑھتا سمندر اور زیر زمین پانی
الھداد بلوچ کے گھر کے اندر اور گلی میں پانی موجود تھا۔ وہ گھر کے اندر بالٹی سے پانی نکالتے مگر دوبارہ پانی داخل ہو جاتا۔ انھوں نے بتایا کہ وہ شام تک پانی نکالتے ہیں پھر صبح دوبارہ پانی جمع ہو جاتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ زیر زمین پانی کی سطح بلند ہوگئی ہے جس کی وجہ ایک طرف سیوریج اور ڈرینیج کا پانی راستہ نہ ملنے کی وجہ سے ’سیپیج‘ ہو رہی ہے تو دوسری طرف سمندری کٹاؤ ہے جس کا پانی آگے بڑھ گیا ہے۔
پذیر بلوچ جیولوجسٹ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سطح سمندر میں اضافہ ہو رہا ہے۔ سیوریج اور ڈرینیج نظام موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو وہ غیر فعال ہے۔ ان بارشوں سے پہلے ہی یہاں پانی کی زیر زمین سطح بلند تھی۔ اس وجہ سے پانی دوبارہ باہر آرہا ہے۔
BBC
ان کے مطابق ’آبادی کے ساتھ تعمیرات میں اضافہ ہوا ہے جس وجہ سے پانی کی جو فطری گزرگاہیں تھیں وہ تبدیل ہوگئیں۔ اس کے ساتھ ساتھ پانی کی طلب بڑھی ہے، جس کے لیے لوگ زیر زمین پانی کو بھی استعمال کر رہے ہیں۔ جیسے ہی اوور پمپنگ ہوتی ہے سمندر کا پانی خود بخود آگے بڑھ جاتا ہے، جو زمینی تبدیلیاں آئیں ہیں جو نشیبی علاقے ہیں وہ زمین میں دھنستے جارہے ہیں۔‘
گوادر ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے چیف انجنیئر سید محمد کہتے ہیں کہ صورتحال قابل تشویش ہے شہر کے اولڈ ایریاز میں ڈیڑھ فٹ کے بعد سمندر کا پانی نکل آتا ہے۔ کئی مقامات پر انھوں نے راتوں رات نکاسی آب کرکے ڈرین بنائی ہے۔ اگر گھر کی بنیاد بھی رکھیں تو اس کے لیے بھی زیر زمین پانی کی نکاسی کرنا پڑتی ہے۔ آبادی گنجان ہوگی تو ظاہر ہے کہ زمین پر وزن بڑھ جائے گا۔ پہلے کچے گھر تھے اب لوگ کنکریٹ کے پکے مکانات بنا رہے ہیں۔
گوادر بندرگاہ کا انتظام پورٹ اتھارٹی کے پاس ہے اور باقی شہر کی منصوبہ بندی گودار ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے پاس ان دونوں کے درمیان ایک اور ادارہ ہے۔۔ میونسپل کمیٹی گوادرِ، جو مقامی لوگوں کا منتخب نمائندہ ادارے ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ منصوبہ بندی تو میگا سٹی کی ہے لیکن بلدیاتی نظام ایک دیہی قصبے کا ہے جس کے پاس نہ وسائل ہیں اور نہ پانی کی نکاسی کا کوئی انتظام۔
گوادر میں پینے کے پانی کا فقدان ہے۔ یہاں پہلے سوال یہ تھا کہ یہ پانی کہاں سے آئے گا۔ اب یہ سوال بھی سنگین ہوچکا ہے کہ یہ استعمال شدہ پانی کہاں جائے گا کیونکہ بین الاقوامی ایئرپورٹ، نئے رہائشی منصوبے اور فری زون میں صنعتیں لگتی ہیں تو ان کے پانی کی بھی نکاسی ہونی ہے۔
گوادر میں صحت کا نظام نہ ہونے کے برابرگوادر: ’مفاد پرست منفی پراپیگنڈہ کر رہے ہیں‘’مچھیروں کی مایوسی کی وجہ ان کی توقعات ہیں‘’گجہ‘ جو گوادر کے سمندر کو ’بانجھ‘ کر رہا ہے: ’ہم ٹرالر مافیا کا مقابلہ نہیں کر سکتے، ان کے پاس بندوقیں ہوتی ہیں‘’29 گھنٹے لگاتار بارش‘ بلوچستان کے ضلع گوادر کو آفت زدہ قرار دے دیا گیا، اس غیر معمولی بارش کی وجہ کیا بنی؟گوادر میں سیلابی صورتحال: ’ادھر کوئی ترقی نہیں، صرف اللہ کا نام ہے‘