Getty Imagesاس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ میں گیس لیک کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوچکے ہیں
بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے عبدالہادی اور ان کے بچے گھر میں گیس لیک سے ہونے والے دھماکے میں زندہ بچ گئے مگر جھلس جانے کے باعث وہ ایک اذیت ناک صورتحال سے دوچار ہیں۔
اس دھماکے میں عبدالہادی، ان کی بیوی اور چھ بچے زخمی ہوگئے تھے جن میں سے پانچ کی حالت تشویشناک ہے۔
بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں ایک کمرے میں اپنے ساتھ زیر علاج اپنے بچوں کی جانب اشارہ کرنے کی کوشش کرتے ہوئے عبدالہادی نے کہا کہ ’وہ لمحہ میرے خاندان کے لیے قیامت سے کم نہیں تھا کیونکہ اس نے ہمیں برباد کردیا۔‘
اس سال رمضان کے پہلے دو دنوں میں کوئٹہ کے چارمختلف علاقوں میں سحری کے اوقات میں گھروں میں گیس لیکیج کے واقعات کے نتیجے میں تین افراد ہلاک اور 15 سے زائد زخمی ہوگئے تھے۔
لوگ ان واقعات کا الزام گیس کمپنی پر عائد کرتے ہوئے کہتے ہیں یہ واقعات گیس کی ناہموار سپلائی کی وجہ سے پیش آتے ہیں۔
تاہم، گیس کمپنی کے حکام اس الزام کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ ان کے مطابق لوگوں کی بے احتیاطی ایسے واقعات کا سبب بنتی ہے۔
’معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف کس طرح سہہ رہے ہیں‘
عبدالہادی اور ان کے دو بچے ایک ہی کمرے میں زیر علاج ہیں جبکہ ان کی اہلیہ اور چار دیگر بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہے۔
عبدالہادی نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ کے ساتھ سحری کی تیاری کے لیے رات کو ڈھائی تین بجے کے قریب اٹھے تھے۔ ’جیسے ہی چولہہ جلانے کے لیے ماچس کی تیلی جلائی تو ایک زوردار دھماکہ ہوا جس کے نتیجے میں گھر کے تمام افراد شدید زخمی ہوگئے جبکہ گھر کو بھی بہت زیادہ نقصان پہنچا۔‘
عبدالہادی اپنے بچوں کو لے کر بہت پریشان ہیں۔ ان کے ساتھ موجود ان کا چھوٹا بچہ زخموں کی تکلیف کی وجہ سے لیٹ بھی نہیں پا رہا تھا۔
’میں جس اذیت سے گزر رہا ہوں وہ مجھے پتہ ہے۔ معلوم نہیں یہ معصوم بچے زخموں کی تکلیف اور درد کو کس طرح سہہ رہے ہیں۔‘
عبدالہادی اپنے گھر کے واحد کفیل ہیں اور اپنے بچوں کے لیے روزی روٹی کا انتظام کرنے کے لیے رکشہ چلاتے ہیں۔
وہ اپنے کرائے کے گھر کی مرمت کو لے کر بھی پریشان ہیں۔
'گیس دھماکے نے میرے چچا زاد بھائی کا گھر ہی اجاڑ دیا'
بدھ کو کوئٹہ میں شیخ ماندہ کے علاقے میں گیس لیکیج کی وجہ سے ایک ہی خاندان کے تین افراد ہلاک اور دو شدید زخمی ہوگئے تھے۔
ہلاک ہونے والوں میں 32 سالہ شفیع اللہ اور ان کے دو بچے شامل ہیں جبکہ ان کی بیوی اور ایک بچہ شدید زخمی ہیں جو بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ کے آئی سی یو میں زندگی کی جنگ لڑرہے ہیں۔
زخمیوں کی تیمارداری کے لیے شفیع اللہ کے چچازاد بھائی فیض اللہ وہاں موجود تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ ان کے چچا زاد بھائی کے گھر والے سحری کی تیاری کے لیے اٹھے تھے کہ ان کے کمرے میں گیس بھرنے کی وجہ سے دھماکہ ہوا۔
انھوں نے بتایا کہ گیس لیکیج نے تو ان کے چچازاد بھائی کے پورے گھر کواجاڑ کررکھ دیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ گھر کے تین افراد اس واقعے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ بچ جانے والوں کے متعلق یہ نہیں معلوم کہ وہ کس حالت میں زندہ رہیں گے۔
BBCعبدالہادی کی اہلیہ اور پانچ بچوں کو زخموں کی شدت کے باعث برن وارڈ کے آئی سی یو میں رکھا گیا ہے
فیض اللہ کا کہنا کہ وہ یہ تو نہیں جانتے کہ کمرے میں گیس کس طرح بھر گئی تھی لیکن یہ حقیقت ہے کہ گیس کے پریشرمیں کمی کے باعث کبھی کبھی جلتے ہوئے ہیٹر اور چولہے بند ہوجاتے ہیں۔
اس سال، رمضان کی پہلی سحری کے موقع پر گھروں میں گیس لیکیج کی وجہ سے ہونے والے دھماکوں کے نتیجے میں تین خاندان کے 15 سے زائد افراد زخمی ہوئے۔ جبکہ دوسرے روز سحری کے دوران واقعات میں تین افراد ہلاک ہوئے۔
کوئٹہ کے دو سرکاری ہسپتالوں بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال اور سنڈیمن پرووینشل ہسپتال میں برن وارڈز قائم ہیں۔
سنڈیمن ہسپتال میں 20 بستروں پر مشتمل برن وارڈ نے گذشتہ سال کام شروع کیا ہے جس کے اعداد و شمار کے مطابق رواں سال جنوری سے 14 مارچ کے درمیان گیس لیکیج کے باعث آگ سے جھلسنے سے مجموعی طور پر 43 افراد زخمی حالت لائے گئے تھے جن میں سے سات ہلاک ہوگئے۔
بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے برن وارڈ میں گیس لیکیج سے ہونے والی ہلاکتوں کے واقعات کا الگ سے ریکارڈ دستیاب نہیں۔
تاہم گذشتہ سال کوئٹہ میں گیس لیکیج کے واقعات میں ایک درجن سے زائد افراد کی ہلاکت کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔
بجلی، گیس کے ہیٹر استعمال کرتے ہوئے کیا حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں؟: موسم سرما میں کام آنے والے چند مشورے’ہمارے لیے تو پرانا دور واپس آ گیا‘: گیس کی قلت جو شہریوں کو نت نئے تجربات پر مجبور کر رہی ہےگیس لیکیج کا ذمہ دار کون؟
متاثرہ افراد اور ان کے لواحقین اکثر ان واقعات کے لیے سوئی سدرن گیس کمپنی کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گذشتہ کئی سالوں سے گیس پریشر کم ہونے یا گیس کی بندش کی صورت میں گیس ہیٹر اور چولہے خود بخود بند ہوجاتے ہیں۔
متاثرین کے مطابق ہیٹر وغیرہ خود بخود بند ہونے کے بعد اگر لوگ ان کو بند کرنا بھول جائیں تو گیس کی فراہمی بحال ہونے کے بعد گھروں میں گیس بھرجانے سے ایسے حادثات پیش آتے ہیں۔
سوئی سدرن گیس کمپنی بلوچستان کے جنرل مینیجر محمد انور بلوچ نے حادثات کی سب سے بڑی وجہ لوگوں کی بے احتیاطی کو قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ گیس کمپنی کی ذمہ داری کسی بھی صارف کے گھر کے میٹر تک ہے۔
انھوں نے کمپنی کی جانب سے گیس بند کیے جانے کے دعوے کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسا کرنے سے پائپ لائن میں ہوا بھرجاتی ہے جو پائپ لائنوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بن سکتی ہے۔ اس ہی لیے کمپنی گیس کی فراہمی بند کرنے کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
’اگر مرمت کے سلسلے میں کسی علاقے میں گیس بند کی جاتی ہے تو کمپنی کی جانب سے اس بارے میں علاقہ مکینوں کو باقاعدہ اطلاع دی جاتی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں گھروں میں جلتے ہیٹرز یا چولہوں کے بند ہوجانے کی اصل وجہ صارفین کی جانب سے کمپریسرز کا غیر قانونی استعمال ہے۔
’اگر ایک محلے کے 100 میں سے 70 گھروں میں کمپریسر کا استعمال کیا جاتا ہے تو لامحالہ باقی تیس گھروں میں گیس یا تو بند ہوگی یا اس کی پریشر میں کمی واقع ہوگی۔‘
انور بلوچ کا دعوٰی ہے کہ آج کل ہائی سپیڈ کمپریسر کا استعمال کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے بہت سے گھروں میں گیس مناسب پریشر کے ساتھ نہیں پہنچ پاتی ہے۔
انھوں نے بتایا کہ کمپنی کمپریسرز پر لگی پابندی کو یقینی بنانے کے لیے انتظامیہ کو باقاعدہ لیٹرز لکھے ہیں اور خود بھی کمپریسر کے استعمال کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے 6 ہزار کے لگ بھگ کمپریسرز برآمد کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پائپ لائن سے میٹر تک اگر گیس لیکیج ہے تو کمپنی اس کی ذمہ دار ہے لیکن اگر گھر کے اندر کوئی لیکیج ہے یا اس سے کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو اس کی بنیادی وجہ لوگوں کی بے احتیاطی ہے۔
انور بلوچ کا کہنا تھا کہ جب کہیں بھی گیس کے حوالے سے کوئی واقعہ پیش آتا ہے تو ہم اس کو ویسے نہیں چھوڑ دیتی ہے بلکہ کمپنی کا ایک سیکشن باقاعدہ اس کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات کرتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اب تک گھروں یا دوسرے مقامات پر جو واقعات پیش آتے رہے ہیں، ان کی صارفین کی غفلت سچر بے احتیاطی ہی۔
وہ کہتے ہیں کہ لوگ ہیٹرز اور چولہوں میں ربڑ کے پائپ کے ساتھ کلپ استعمال نہیں کرتے جس کے نتیجے میں پائپ باآسانی نکل جاتے ہیں اور کمروں میں گیس بھرجاتی ہے۔
انور بلوچ نے بتایا کہ دیکھا گیا ہے کہ لوگ مناسب کلپ لگائے بغیر کئی پائپ جوڑتے ہیں جو کہ پیر لگنے یا کسی ٹکر کی وجہ سے نکل کر حادثے کا سبب بن جاتے ہیں۔
انکا کہنا تھا کہ لوگ سونے سے پہلے اپنے ہیٹر یا چولہوں کو نہیں دیکھتے کہ آیا وہ سہی سے بند ہیں یا نہیں اور پھر نیند سے بیدار ہونے کے بعد کمرے میں گیس کی بو محسوس ہونے کے باوجود اس کے اخراج کا مناسب انتطام کیئے بغیر ہیٹر وغیرہ آن کردیتے ہیں۔
اپنے بات کو ثابت کرنے کے لیے گزشتہ دنوں پیش آنے والے ایک واقعے کی وائرل ویڈیو کا حوالہ دیتے ہیں۔ اس ویڈیو میں ’ایک شخص یہ کہہ رہا ہے کہ انھیں کمرے میں گیس کی بو محسوس ہوئی لیکن اس کے باوجود انھوں ماچس جلائی۔‘
انھوں نے بتایا کہ اکثر گھروں میں پائپ لائن کئی سال سے لگی ہوتی ہیں جن کی دیکھ بھال کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اگر کہیں سے لیکیج ہے تو ان پائپ لائنوں کو ہٹا دینا یا ان کی مرمت کرنی چائیے۔
ان کا کہنا تھا کہ لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے کمپنی نہ میڈیا میں اشتہارات چلاتی ہے بلکہ کوئٹہ میں تو سردیوں میں دو سے تین روزہ مہم بھی چلاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس مہم کے دوران سیمنار وغیرہ کے انعقاد کے علاوہ مساجد کے خطیبوں سے بھی گزارش کی جاتی ہے کہ وہ اپنے خطبوں میں لوگوں کو اس سلسلے میں آگاہ کریں۔
Getty Imagesآگ کی وجہ سے جھلس کر زخمی ہونے کی صورت میں پندرہ سے بیس منٹ تک زخم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے رہنا چائیےگیس لیک کے حادثات سے کیسے بچا جائے؟
انور بلوچ نے بتایا کہ اس بات کو لازمی بنایا جائے کہ ہر ہیٹر اور چولہے کے ساتھ منسلک ربڑ کے پائپ کو کلپ لگا کر محفوظ کیا جائے۔
کلپ کو اچھی طرح ٹائٹ کرنا چاہیے تاکہ کسی طرح کی کی لیکیج کا اندیشہ نہ ہو۔
ان کا مشورہ ہے کہ سونے سے پہلے گھروں میں یا دفاتر میں کام ختم کرنے کے بعد تمام ہیٹرز اور چولہوں کو بند کردیں۔
وہ کہتے ہیں کہ نیند سے بیدار ہونے کے بعد یا بند گھر میں داخل ہونے کے بعد اگر گیس کی بو محسوس ہو تو قطعاً ماچس کی تیلی یا بجلی جلانے سے گریز کریں اور فوری طور پر گیس کے اخراج کو یقینی بنائیں۔
وہ کہتے ہیں کہ اگر جلتا ہوا ہیٹر یا چولہہ بند ہوجائے تو ان کو کھلا نہ چھوڑیں۔ گیس کی بحالی کی صورت میں ہی ان کو آن کرنا چاہیے۔
اس کے علاوہ، گھروں میں لگے گیس کے لوہے یا ربڑ کے پائپوں کا وقتاً فوقتاً جائزہ لیتے رہیں اور ان کی مرمت میں کبھی تاخیر سے کام نہ لیں۔ ان کا مشورہ ہے کہ معیاری ہیٹروں اور چولہوں کےاستعمال کو یقینی بنائیں۔
دھماکے سے جھلسنے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے؟
بولان میڈیکل کمپلیکس ہسپتال کے ڈاکٹر محمد بلال نے بتایا کہ گیس یا کسی اور آگ کی وجہ سے جھلس کر زخمی ہونے کی صورت میں پندرہ سے بیس منٹ تک زخم پر ٹھنڈا پانی ڈالتے رہنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ درد کو کم کرنے کے لیےاس پر ٹوتھ پیسٹ، مہندی یا کوئی اور مواد نہیں لگانا چاہیے۔
ڈاکٹر بلال کا کہنا ہے کہ ٹوتھ پیسٹ یا اس طرح کے دیگر مواد نہ صرف زخم کو گہرا کرتے ہیں بلکہ ان کو صاف کرنا بھی طبی عملے کے لیے ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زخمی شخص کو فوری طور برن وارڈ یا قریبی طبی مرکز پہنچانا چاہیے کیونکہ جلنے کی صورت میں انسان کے جسم کے متاثرہ حصے سے پانی کا اخراج ہوتا ہے۔ جسم میں پانی کی کمی کے باعث متاثرہ شخص شاک میں جاسکتا ہے۔
برن وارڈ کے ڈاکٹر مبارک کہتے ہیں کہ آگ لگنے کی صورت میں سب سے پہلے اس کے سورس کو بند کرنا چاہیے کیونکہ ایسا نہ کرنے کی صورت میں خود ریسکیو کرنے والوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اگر کسی شخص کے جسم بڑا حصہ متاثر ہو تو یہ جان لیوا بھی ہوسکتا ہے، اس لیے ایسے مریض کو طبی مرکز پہنچانے میں بالکل تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
ایک دوسرے کو بچانے کی کوشش میں خاندان کے چار افراد ہلاک: ’چار پیاروں کی موت نے پورا خاندان اجاڑ دیا‘بجلی، گیس کے ہیٹر استعمال کرتے ہوئے کیا حفاظتی اقدامات کرنے چاہییں؟: موسم سرما میں کام آنے والے چند مشورےکچھ لوگ دوسروں کے مقابلے میں زیادہ سردی کیوں برداشت کر سکتے ہیں؟سردی کے موسم میں ٹھنڈ اور فلو سے بچنے کی 10 آسان احتیاطی تدابیر