پولیو کے مرض کا شکار ہونے والے لیکن بعد میں ’لوہے کے پھپیپھڑوں والا انسان‘ کے نام سے پہچانے جانے والے پال الیگزینڈر 78 برس کی عمر میں چل بسے ہیں۔
پال کو سنہ 1952 میں پولیو ہوا جب ان کی عمر صرف چھ برس تھی اور اس کی وجہ سے ان کا جسم گردن سے نیچے مفلوج ہو گیا۔ اس وجہ سے وہ خود سے سانس لینے کے قابل بھی نہیں رہے تھے۔ اس لیے ڈاکٹرز نے انھیں ایک دھاتی سیلنڈر میں رکھا جہاں انھوں نے اپنی باقی کی تمام عمر گزاری۔
اسی حالت میں رہتے ہوئے انھوں نے نہ صرف قانون کی ڈگری حاصل کی بلکہ اس کی پریکٹس بھی کی۔ انھوں نے اپنی یاداشتوں کی ایک کتاب بھی شائع کروائی۔
ایک عطیہ جمع کرنے والی ویب سائٹ نے پال کی موت کی خبر اپنی ویب سائٹ پر ایک پوسٹ میں شائع کی۔
پوسٹ کے مطابق ’پال کالج گئے، وکیل بنے اور کتاب شائع کی۔ پال ایک لاجواب مثالی کردار تھے۔ ‘
ان کے بھائی فلپ الیگزینڈر انھیں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ ’گرم جوش اور خوش طبع انسان تھے جن کے چہرے پر ہمیشہ ایک بڑی سے مسکراہٹ ہوتی، جسے دیکھ کر لوگ فوری اطمینان محسوس کرتے تھے ۔‘
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ اور میں عام بھائیوں کی طرح تھے، ہم لڑتے تھے، کھیلتے تھے، ہم پیار کرتے تھے، ساتھ جشن مناتے، ہم ایک ساتھ کانسٹرٹس میں جاتے۔‘
فلپ اس بات کی تعریف کرتے ہیں کہ ان کے بھائی کس قدر خود کفیل تھے حالانکہ وہ ایک بیماری سے نمٹ رہے تھے جس نے انھیں روزمرہ کے کام جیسے کے کھانا کھانے تک سے معذور کر دیا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’وہ اپنے کام کے ماہر تھے، اپنی مدد کرنے والے لوگوں کی مدد کرنے میں۔‘
پال کی صحت حالیہ ہفتوں میں خراب ہوئی تو دونوں بھائیوں نے یہ آخری ایام ساتھ گزارے اور ساتھ آئس کریم کھائی۔
فلپ کہتے ہیں ’ان کے آخری لمحات میں ان کے ساتھ ہونا قابلِ اعزاز بات ہے۔‘
Getty Imagesطب کی دنیا میں یہ لوہے کے پھیپھڑے 1960 کی دہائی میں وینٹیلیٹرز سے تبدیل کر دیے گئے ’لوہے کا گھوڑا‘
سنہ 1952 میں جب وہ بیمار ہوئے تو ان کے آبائی قصبے ڈیلس کے ڈاکٹرز نے ان کا آپریشن کیا اور ان کی جان بچائی لیکن پولیو کی وجہ سے ان کا جسم خود سانس لینے کے قابل نہیں رہا۔
اس کی وجہ سے انھیں نام نہاد لوہے کے پھیپھڑے میں رکھا گیا جو کہ ایک دھاتی سیلنڈر تھا اور وہ ان کے جسم کو گردن تک ڈھانپے ہوئے تھا۔
یہ پھیپھڑا جسے وہ اپنا ’لوہے کا گھوڑا‘ کہتے تھے انھیں سانس لینے میں مدد کرتا تھا۔ یہ ہوا کو اندر کھینچتا جس سے پھیپھڑوں میں ہوا بھرتی اور اور پھر ہوا بھی باہر نکالتا اس طرح پھیپھڑے سانس لینے کا عمل جاری رکھتے۔
پولیو کے کئی مریض جنھیں ’لوہے کے پھیپھڑے‘ میں رکھا گیا وہ بچ نہیں پائے لیکن پال دہائیوں تک زندہ رہے۔ اس کے بعد 1950 کی دہائی میں پولیو ویکسین ایجاد ہوئی اور مغربی دنیا سے اس بیماری کا خاتمہ ہو گیا۔
پال نے سکول پاس کرنے کے بعد سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1984 میں انھوں نے آسٹن یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی اور دہائیوں تک قانون کی پریکٹس کی۔
Getty Imagesپولیو کے کئی مریض جنھیں لوہے کے پھیپھڑے میں رکھا گیا وہ بچ نہیں پائے لیکن پال دہائیوں تک زندہ رہے
انھوں نے سنہ 2020 میں اخبار گارڈین کو بتایا تھا ’میں جانتا تھا کہ میں اپنی زندگی کے ساتھ کچھ کر لوں گا اور یہ ایک ذہنی چیز ہو گی۔‘
اسی سال ان کی یاداشتوں پر مبنی ایک کتاب شائع ہوئی جسے لکھنے میں انھیں آٹھ برس لگے۔ اسے لکھنے کے لیے انھوں نے ایک پلاسٹک کی ڈنڈی کو کی بورڈ پر ٹائپ کرنے کے لیے استعمال کیا اور کچھ حصہ وہ اپنے دوست کو بول کر لکھواتے رہے۔
پال کے بھائی فلپ کہتے ہیں کہ ان کی کتاب شائع ہونے کے بعد انھیں احساس ہوا کے ان کے بھائی پوری دنیا میں لوگوں کے لیے کس قدر متاثر کن حیثیت رکھتے تھے۔
طب کی دنیا میں یہ ’لوہے کے پھیپھڑے‘ 1960 کی دہائی میں وینٹیلیٹرز سے تبدیل کر دیے گئے لیکن الیگزینڈر اسی سلینڈر میں رہے کیونکہ ان کے بقول انھیں اب اس کی عادت ہو گئی ہے۔
ان کا نام گینیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں بھی ہے بطور ایسے شخص کے شامل ہے، جو طویل عرصے تک لوہے کے پھیپھڑے میں رہا۔
’معذوری ہی زندگی نہیں، زندگی کا حصہ ہے‘’ٹانگیں کام نہیں کرتیں تو رکشہ کیسے چلاتے ہو‘وہیل چیئر پر موجود لڑکی ماں بن سکتی ہے تو آپریشن کا مشورہ کیوں