’جے اور ویرو‘: جنگل میں ’علاقے کی لڑائی‘ جو یہاں راج کرنے والے شیروں کی طاقتور جوڑی توڑنے کا باعث بنی

بی بی سی اردو  |  Aug 02, 2025

جے اور ویرو دو شیروں کی وہ مشہور جوڑی ہے جو انڈیا کی ریاست گجرات کے گھنے جنگل اور وائلڈ لائف پارک ’گر‘ میں آنے والے سیاحوں کی دلچسپی اور توجہ کا مرکز بنی رہی ہے۔

تاہم جنگل کی بادشاہی پر قبضہ کرنے والے دیگر شیروں کے حملے نے اس جوڑی کی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور یوں اب دلوں پر راج کرنے والی شیروں کی اس جوڑی کی یادیں تصاویر اور ویڈیو کلپس کی صورت میں باقی رہ گئی ہیں۔

گر نیشنل پارک اور جنگلی حیات کی پناہ گاہ کے سپرانٹینڈنٹ موہن رام نے بی بی سی گجراتی کو بتایا کہ اس سال جون میں جنگل میں جے ویرو کی سلطنت پر قبضہ کرنے کی نیت سے دو دیگر شیر جوڑوں نے مختلف اوقات میں جے اور ویرو پر حملہ کیا جس سے وہ دونوں زخمی ہو گئے۔

حملے کے تقریباً ایک ہفتہ بعد ویرو کی موت ہو گئی جبکہ حملہ آور شیروں کے ساتھ مقابلے کے بعد دو ماہ بعد جے بھی 29 جولائی کو مر گیا۔

موہن رام نے کہا کہ ’اس جوڑی میں ویرو جو کہ اپنے ساتھی کے مقابلے میں کم عمر تھے 11 جون کو مر گئے جبکہ جے کا گذشتہ دو ماہ سے ساسن میں علاج چل رہا تھا لیکن 29 جولائی کو ان کی بھی موت ہو گئی اور یوں جے اور ویرو کی جوڑی ختم ہو گئی۔‘

موہن رام نے کہا کہ جے اور ویرو کی جوڑی نے تقریباً پانچ سال قبل ساسن کے قریب گر جنگل کے ایک بڑے علاقے میں اپنی ’سلطنت‘ قائم کی تھی جو گر جنگل میں ان کا کسی بھی شیر کی سب سے بڑے علاقے پر مشتمل قبضہ تھا۔

گر ویسٹ وائلڈ لائف ڈپارٹمنٹ کے ڈپٹی کنزرویٹر برائے جنگلات پرشانت تومر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ شیر سیاحوں میں بہت مقبول تھے اور سیاحوں نے ہی ان کا نام جے اور ویرو رکھا تھا۔

جے ویرو کی ’بادشاہت‘ گر کے جنگل میں کہاں واقع تھی؟

گر جنگل کو انتظامی سہولت کے لیے دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے یعنی گر ایسٹ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ اور گر ویسٹ وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ۔

ان دونوں محکموں کا عملہ جنگلات اور جنگلی حیات کے تحفظ اور دیکھ بھال کا ذمہ دار ہے۔

اس کے علاوہ ساسن وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ بھی گر کی جنگلی حیات کے تحفظ اور تحفظ کے لیے کام کر رہا ہے۔

ساسن وائلڈ لائف ڈیپارٹمنٹ کے جنگلات کے ڈپٹی کنزرویٹر موہن رام نے بی بی سی کو بتایا کہ جے اور ویرو نے ایک اتحاد بنایا اور تقریباً پانچ سال قبل مغربی گر وائلڈ لائف ڈویژن میں دوسرے شیروں کو شکست دے کر اپنی سلطنت' قائم کی۔

ان کا علاقہ مشرق میں کاشیا، ددھالا اور جمبوتھلا سے مغرب میں ملانکا کینیڈی پور تک پھیلا ہوا تھا جبکہ شمال میں کیرمبا ڈیکڈی نتالیہ سے جنوب میں رائدی تک پھیلا ہوا تھا۔

موہن رام کے مطابق ’ان کا علاقہ تقریباً 140 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا تھا اور اس علاقے میں تقریباً 15 شیرنیوں کا گھر تھا۔‘

جوڑے کی سیاحوں میں مقبولیت

شیروں کی اس جوڑی کی سیاحوں میں مقبولیت کیسے ہوئی؟ اس سوال کے جواب میں موہن رام نے بی بی سی کو بتایا کہ اس کے پیچھے ایک سے زیادہ وجوہات ہیں

’شیروں کے اس جوڑے نے گر جنگل کے اس سیاحتی علاقے پر 80 فیصد سے زیائد قبضہ کر رکھا تھا جہاں سیاحوں کو سفاری پر لے جایا جاتا ہے۔ قدرتی طور پر یہ شیر سیاحوں کو بہت زیادہ نظر آتے تھے۔‘

’اس کے علاوہ یہاں پر شیرنیوں کا ایک بڑا گروہ تھا جو سیاحوں کو دکھائئ دیتیں تاہم خاص بات یہ تھی کہ یہ دونوں شیربہت طاقتور اور پرکشش تھے جو دیکھنے والوں پر گویا سحر طاری کر دیتے۔ گہرا تاثر چھوڑا۔ ان کی عمر تقریباً نو سال تھیں اور یہ بہت جوان تھے۔‘

جب انڈین وزیر اعظم نریندر مودی نے اس سال مارچ میں ساسن کا دورہ کیا اور گر کے جنگل میں سفاری پر گئے تو انھوں نے گبھی وہاں جے اور ویرو کو دیکھا۔

موہن رام نے بتایا کہ جنگل کا وہ علاقہ جہاں ان دونوں شیروں کا راج تھا وہ جنگل کا بڑا اور زرخیز حصہ ہے۔ اس میں پانی کے قدرتی ذرائع، شیرنیاں اور چیتل سمیت دیگر سبزہ کھانے والے جانور بھی بڑی تعداد میں ہیں جو شیروں کی خوراک ہوتے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے ایک ملازم نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جے کا کوٹ (بالوں بھری کھال) بہت بڑی اور خوبصورت تھی۔ دونوں نر قدوقامت میں بہت بڑے لگتے تھے۔‘

’وہ جنگل کے کنارے واقع دیہاتوں میں گھومتے اور شکار بھی کرتے تھے۔ لیکن ہم نے انھیں کبھی کسی انسان پر حملہ کرتے نہیں دیکھا۔ ہمارا خیال تھا کہ اس جوڑے کا راج اگلے تین سال تک رہے گا، لیکن شاید زخمی ہونے کے بعد جدا ہونے میں علیحدگی نے انھیں بہت نقصان پہنچایا ہو گا۔‘

جے ویرو سے پہلے ’رام اور شیام‘ اور ’دھرم ویر‘ کی جوڑی بھی گر جنگل میں مشہور تھی۔

تاہم جنگل کے ایک رینجر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اُس وقت گر میں شیروں کی آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، اس لیے علاقے پر قبضے کے لیے لڑائیاں بھی نسبتاً کم ہوتی تھیں۔ لیکن جے اور ویرو کو اپنے علاقے کی حفاظت کے لیے زیادہ محنت کرنی پڑی۔‘

موہن رام نے بتایا کہ جے اور ویرو اصل میں نتالیہ وید (ایک چراگاہ) کے رہنے والے تھے۔ اس لیے محکمہ جنگلات کے مقامی ملازمین انھیں ’ویدی والا‘ کے نام سے پکارتے تھے۔

شیروں کی للکار اور حملہ

موہن رام کہتے ہیں کہ جے اور ویرو عام طور پر جنگل میں اپنے علاقے میں ایک ساتھ گھومتے تھے۔ وہ اکثر اکٹھے گرجتے اور دوسرے شیروں کو دور رہنے کی تلقین کرتے۔

موہن رام نے کہا ’ایک دن اپنے علاقے میں گشت کرتے ہوئے ویرو جے سے الگ ہو گیا، جس کے نتیجے میں جب جے، ددھالا اور ڈیڈکڈی کے درمیان کے علاقے میں اکیلا تھا تو دو دیگر شیروں نے اسے للکارا اور تینوں کے درمیان لڑائی چھڑ گئی۔

’اکیلا ہونے کی وجہ سے جے ان دونوں شیروں کا سامنا نہیں کر سکا اور حملہ آور شیروں نے اسے پیٹھ پر کاٹ لیا جس کی وجہ سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ یکم جون کو جے کو علاج کے لیے ساسن منتقل کیا گیا۔‘

موہن کے مطابق ’چار دن بعد یعنی چار جون کو دوسری سمت سے دو اور شیروں نے گندھاریہ اور کیرمبا کے درمیان گھنے جنگل میں ویرو کو للکارا۔ اکیلے ہونے کے باوجود ویرو نے دونوں شیروں کا مقابلہ کیا لیکن اس لڑائی میں ویرو کو بھی اپنے بڑے بھائی جیسے ساتھی جے کی طرح شدید چوٹیں آئیں۔‘

’ہم اسے علاج کے لیے ساسن لائے اور انھیں ایک دوسرے کے قریب رکھا لیکن 11 جون کو ویرو کی موت ہو گئی۔‘

ایسے حملے کتنے عام ہیں

اس قسم کے حملے کو شیروں کے درمیان علاقے کی اندرونی لڑائی کہا جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کی لڑائیاں شیروں کی زندگی کا لازمی حصہ ہیں۔ شیر اپنی حدود خود طے کرتے ہیں اور ان کے اندر رہتے ہیں۔

شیر اور شیرنی اپنے علاقے اسی طرح سلطنت قائم کرتے ہیں۔ ایک شیر ایسے علاقوں کو اکیلا قائم کر سکتا ہے یا کسی مخصوص علاقے میں دوسرے شیروں کے ساتھ اتحاد بنا کر غلبہ قائم کر سکتا ہے جن کے ساتھ اس کی بچپن سے دوستی ہے۔

شیرنی عموماً ایک گروہ میں رہتی ہیں جن میں ایک سے زیادہ ممبر ہوتے ہیں اور ان میں مائیں، بہنیں، بیٹیاں، چھوٹے بچے وغیرہ شامل ہوتے ہیں۔

ایک شیر کے پاس ایک سے زیادہ شیرنیاں باعث فخر ہوتی ہیں۔ شیر اپنے قائم علاقے میں شیرنی کے ساتھ مل کر اپنے نسب کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

لیکن اپنے علاقےکی حدود کا تعین کرنے کے لیے شیروں کی لڑائی معمول کی حصہ سمجھی جاتی ہے۔

شیر نے اس شخص کو ہی مار ڈالا جو کئی برس سے اس کی دیکھ بھال کر رہا تھاآدم خور شیروں کے جزیرے: جہاں شکار بننے کے باوجود لوگ شیر کی پوجا کرتے ہیںانڈیا کے جنگل میں ’40 دن تک بھوکی پیاسی‘ بندھیامریکی خاتون: شوہر نے نہیں بلکہ خاتون نے اپنے آپ کو خود باندھ کر رکھا، پولیسشیر جو شکار کے قریب پہنچ کر رک جاتا تھا

اس کے علاوہ شیروں کے نر بچے جب بلوغت سے گزر کر جوان ہو جاتے ہیں تو انھیں شیر اور شیرنی کے گروہ سے نکال دیا جاتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ شیر اپنے خونی رشتہ داروں کے ساتھ جنسی تعلقات سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں تاکہ جینیاتی بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔

خاندان سے نکالے گئے نوجوان شیر اپنا علاقہ قائم کرنے کے لیے نئے علاقے میں چلے جاتے ہیں۔ اسی طرح اگر کسی دوسرے خاندان سے نکالا گیا کوئی اور جوان شیر ان کے ساتھ مل جائے تو ایسے دو شیر بھی مل کر مشترکہ علاقے پر اپنا تسلط قائم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

محکمہ جنگلات کے ملازمین کا کہنا ہے کہ جے اور ویرو نے بھی اسی طرح اپنی ’بادشاہت‘ قائم کی۔

شیر اپنی جوانی میں زیادہ طاقتور ہو جاتے ہیں اور وہ ان شیروں کو للکارتے ہیں جو ان کے علاقےمیں موجود ہوتے ہیں اورنتیجتاً لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔

موہن رام نے مزید کہا کہ

’ گو کہ جے پر علاج کا اچھا اثر ہوا اوراس کی صحت میں بہتری آئی اور اس نے چلنا بھی شروع کر دیا۔ ایک موقع پر ہم نے جئے کو واپس جنگل میں چھوڑنے کے بارے میں سوچنا بھی شروع کر دیا۔ لیکن پھر اس کی صحت خراب ہونے لگی اور جانوروں کے ڈاکٹروں کی تمام تر کوششوں کے باوجود جے کا انفیکشن ٹھیک نہیں ہو سکا۔ اور یوں وہ بھی 29 جولائی کو مر گیا۔‘

جیت سے بادشاہی ہار سے تنہائی

ایسی لڑائیوں میں کبھی علاقے پر راج کرنے والا شیر جیت جاتا ہے تو کبھی اسے چیلنج کرنے والے نوجوان شیر کی فتح ہوتی ہے۔

عام طور پر کمزور شیر حریف شیر کی طاقت سے شکست کھا کر لڑائی میں پیچھے ہٹ جاتا ہے اور بھاگ جاتا ہے۔ اگر ’بادشاہ‘ شیر کو بھاگنا پڑے تو اس کی باقی زندگی عام طور پر تنہائی میں گزرتی ہے۔

اگر ایک جوان نر شیر لڑائی ہار جاتا ہے تو وہ ہمیشہ دوسرے حملے یا ’بادشاہ‘ شیر کی تلاش میں رہتا ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسی لڑائیاں بعض اوقات جان لیوا بھی ہو سکتی ہیں۔

ایسی ہی ایک جنگ میں، جے اور ویرو نے جیت کر سیاحتی علاقے کے بیشتر علاقوں پر اپنی ’بادشاہت‘ قائم کر لی تھی۔

محکمہ جنگلات کے ایک اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ اُس وقت دو اور نر شیر علاقے پر حاوی تھے۔ جے اور ویرو کینیڈی پور-نتالیہ وی ڈی سے آئے تھے اور انھوں نے دوسرے دو ’بادشاہ‘ نر شیروں کو للکارا تھا۔ لڑائی میں جے ویرو نے اس وقت کے ’بادشاہ‘ نر شیروں کو شکست دی تھی لیکن یہ لڑائی جان لیوا نہیں تھی۔

اب گر میں جے ویرو کی جگہ کون لے گا

موہن رام کا کہنا ہے کہ عام طور پر محکمہ جنگلات کے اہلکار زخمی شیروں کو ریسکیو نہیں کرتے اور آپس میں لڑنے والے شیروں کو علاج کے لیے نہیں لے جاتے کیونکہ اس طرح کی لڑائیاں ’قدرتی توازن‘ اور ’سروائیول آف دی فٹیسٹ‘ کی فطری ترتیب کا حصہ سمجھی جاتی ہیں۔

موہن رام نے کہا ’لیکن ہم نے جے اور ویرو کے لیے غیر معمولی اقدامات کیے تھے۔ ان کا ریوڑ بہت بڑا تھا۔ جب ان پر حملہ کیا گیا تو ان کے ریوڑ میں بہت سے چھوٹے بچے تھے۔ اگر یہ حاوی اور طاقتور نر شیر مر جاتا تو بڑی تعداد میں بچوں کے مرنے کا امکان تھا۔ اس لیے ہم نے جے اور ویرو کو بچانے اور ان کا علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔‘

موہن رام کا کہنا ہے کہ جب جے ویرو پر حملہ ہوا تو گندھاریہ کے علاقے میں چار شیرنیاں اور ان کے10 بچے تھے۔ جے اور ویرو ان بچوں کے باپ تھے۔ اسی طرح دوسرے علاقے میں شیرنی کے ایک اور گروپ کے پاس بھی سات بچے تھے۔

’عام طور پر کسی علاقے پر قبضہ کرنے کے بعد شیر اس علاقے میں پچھلے شیروں کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو مار ڈالتے ہیں جو ابھی چھوٹے ہوتے ہیں تاکہ ان کا کوئی حریف نہ ہو اور اس علاقے کی شیرنی جلد ہی حاملہ ہونے کے لیے تیار ہو جائے۔‘

موہن رام نے بی بی سی کو بتایا کہ ’چونکہ گندھاریا گروپ کے بچے بہت چھوٹے ہیں، اس لیے شیرنیاں ان کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہی ہیں۔ شیرنی بچّوں کو نئے شیروں سے بچانے کے لیے بھاگی لیکن ان میں سے دو بچے قدرتی وجوہات کی بنا پر مر گئے ہیں۔‘

’اب اس علاقے میں دو شیروں کے بچے دیگر شیروں کے حملے سے ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ پانچ نوجوان جو بلوغت کو پہنچ چکے ہیں اپنی جان بچانے کے لیے چھپے ہوئے ہیں۔ ہم کچھ شیروں کی دھاڑ سن سکتے ہیں لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اب جے ویرو کی سلطنت پر کون ’حکمرانی‘ کرتا ہے۔‘

شیر نے اس شخص کو ہی مار ڈالا جو کئی برس سے اس کی دیکھ بھال کر رہا تھاانڈیا کے جنگل میں ’40 دن تک بھوکی پیاسی‘ بندھیامریکی خاتون: شوہر نے نہیں بلکہ خاتون نے اپنے آپ کو خود باندھ کر رکھا، پولیسآدم خور شیروں کے جزیرے: جہاں شکار بننے کے باوجود لوگ شیر کی پوجا کرتے ہیںشیر جو شکار کے قریب پہنچ کر رک جاتا تھاشیر اور چیتے سے کیسے بچا جا سکتا ہے؟’جنگل کی ماں‘ کہلائے جانے والے باؤباب درخت ہزاروں سال تک کیسے زندہ رہے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More