کیسے پتا چلایا جائے کہ تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کی گئی ہے یا وہ مصنوعی ذہانت سے بنائی گئی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 13, 2024

Getty Images

اب اپنی آنکھوں پر بھروسہ کرنا مشکل ہوتا جا رہا ہے کیونکہ آنکھیں جو بظاہر دیکھرہی ہیں درحقیقت چیزیں ویسی نہیں ہیں۔

ہم ایک ایسے دور اور ایسی دنیا میں جی رہے ہیں جہاں تصویروں کو صرف چند کلکس کے ذریعے ڈیجیٹل طور پر تبدیل کیا جا سکتا ہے یا مصنوعی ذہانت (اے آئی) کے ذریعے مکمل طور پر شروع سے بنایا جا سکتا ہے۔

تصاویر کو جوڑنے اور ایک دوسرے کا متبادل بنانے کے لیے استعمال کی جانے والی تکنیک انتہائی نفیس ہو چکی ہے اور ہم ’ہائپر ریئلسٹک‘ جعلی کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔

ایسی تصاویر غلط معلومات پھیلانے کا باعث بن سکتی ہیں اور انتخابات جیسے اہم معاملوں میں رائے عامہ کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔

حال ہی میں ویلز کی شہزادی اور ان کے بچوں کی ایک تصویر کو اس خدشے کے پیش نظر نیوز ایجنسیوں نے ہٹا لیا کہ ان کے ساتھ ’چھیڑ چھاڑ‘ ہوئی ہے۔ اس معاملے کے اس طرح سامنے آنے کے بعد اصلی نقلی کی بحث پہلے سے کہیں بڑھ گئی ہے۔

تو کیا ہمارے پاس کوئی ایسا طریقہ ہے جس سے یہ پتا چلایا جا سکے کہ تصویر کے ساتھ چھیڑ چھاڑ ہوئی ہے یا اسے پوری طور پر مصنوعی ذہانت کی مدد سے تیار کیا گیا ہے۔

عکس اور سائے

غیر معمولی روشنی ایک ایسی علامت ہے جو اکثر بتا دیتی ہے کہ تصویر میں تبدیلی کی گئی ہے۔ مثال کے طور پر لوگوں کی آنکھوں میں روشنی کے پوائنٹس کو چیک کریں، آپ کو اکثر ان کی آنکھوں سے روشنی نکلتی نظر آئے گی۔ اگر سائز اور رنگ محل وقوع کے ساتھ مماثل نہیں ہیں، یا اگر وہ آنکھوں کے درمیان مختلف نظر آتے ہیں، تو یہ تصویر مشکوک ہو سکتی ہے۔ جس طرح سے موضوع اور اشیا کسی تصویر میں انعکاس کی سطحوں پر ظاہر ہوتے ہیں وہ بھی اہم سراغ فراہم کر سکتے ہیں۔

ہو سکتا ہے کہ تصویر میں موجود اشیا کے سائے اگر ایک سے زیادہ تصویروں سے اکٹھے کیے گئے ہوں تو وہ ایک طرح کے نہیں لگ سکتے ہیں۔ لیکن یہاں یہ خیال رہے کہ کچھ تصویریں روشنی کے متعدد ذرائع سے لی جا سکتی ہیں۔ یہ بھی بات قابل دید ہو سکتی ہے کہ کسی کے چہرے پر روشنی کس طرح دکھتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر سورج ان کے پیچھے ہے تو ان کے کان سرخ ہو سکتے ہیں۔

مصنوعی ذہانت متضاد روشنی اور سائے بھی پیدا کر سکتی ہے، لیکن الگورتھم جتنی بہتر ہوگی اے آئی سے تیار کردہ چہرے انسانی چہروں سے اتنے ہی زیادہ حقیقی نظر آئیں گے۔

ہاتھ اور کان

ایک اور فریب نہ کھانے کا طریقہ یہ ہے کہ ان خصوصیات کو تلاش کریا جائے جن کی نقل تیار کرنا مشکل ہو۔ اے آئی ابھی ہاتھوں اور کانوں کو ٹھیک سے پیش کرنے کے معاملے میں ناقص ہے اور وہ ان کی شکلوں، تناسب اور یہاں تک کہ انگلیوں کی تعداد میں بھی غلطی کر دیتی ہے۔

یہ وہی خصوصیات ہیں جو اکثر فنکاروں کو بھی پریشان کرتی ہیں، لیکن جیسا کہ لوگوں کی اے آئی سے تیار کردہ تصاویر کے دوسرے پہلو انتہائی حقیقی ہوتے جا رہے ہیں، یہ غلطیاں ایک غیر معمولی فرق پیدا کرتی ہیں اور یہ ہماری آنکھوں کو غیر فطری لگتی ہیں۔

تصویر کا میٹا ڈیٹا دیکھیں

ڈیجیٹل امیجز کے کوڈ میں پوشیدہ معلومات کے پارے ہوتے ہیں جو جعلی کی نشاندہی کرنے میں مدد کرسکتے ہیں۔ جب بھی ڈیجیٹل کیمرہ تصویر کھینچتا ہے، میٹا ڈیٹا امیج فائل میں لکھا جاتا ہے۔

مثال کے طور پر ٹائم سٹیمپ یعنی اس پر وقت کا ٹھپہ ہوتا ہے اور یہ اس بارے میں بتا سکتا ہے کہ آیا صدر ڈونلڈ ٹرمپ حقیقت میں اکتوبر 2020 میں کووڈ 19 کی گرفت میں آنے کے انکشاف کے اگلے دن وائٹ ہاؤس میں کام پر تھے یا نہیں۔

امیج نوائز یا تصویر کا ’فنگر پرنٹ‘

ہر ڈیجیٹل کیمرے کے سینسر میں مینوفیکچرنگ کی چھوٹی موٹی خرابیاں ہوتی ہیں جو انوکھی غلطیوں کا باعث بنتی ہیں جو تصویروں پر ایک قسم کا 'فنگر پرنٹ' چھوڑ دیتی ہیں۔

اس کے بعد اسے مخصوص کیمرہ سے منسلک کر کے دیکھا جا سکتا ہے اور تصویر کے ان گوشوں کی نشاندہی کرنے میں مدد کرسکتا ہے جن میں ہیرا پھیری کی گئی ہے۔ اے آئی سے تیار کردہ تصویر کا دانہ بھی عجیب لگ سکتا ہے۔

تصدیق کرنے والے ٹولز

گوگل جیسی انٹرنیٹ کمپنیوں نے تصویروں کی تصدیق کے لیے ٹولز بنائے ہیں جو لوگوں کو اے آئی سے تیار کردہ تصاویر کو تلاش کرنے میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔

فیس بک اور انسٹاگرام نے میٹا کے اپنے سسٹمز سے آنے والی اے آئی سے تیار کردہ تصاویر کو لیبل لگانا شروع کر دیا ہے اور اب وہ دوسری کمپنیوں کے اے آئی ٹولز کے ذریعے تیار کردہ تصویروں کے لیے بھی ایسا ہی کرنے کا منصوبہ بنا رہی ہے۔

شہزادی کیتھرین میڈلٹن نے ’مدرز ڈے‘ کے موقع پر شیئر کی گئی تصویر میں ترمیم پر معذرت کر لیمصنوعی ذہانت کا تیسرا مرحلہ کیا ہے اور اسے ’انتہائی خطرناک‘ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟کیا مصنوعی ذہانت ’مقدس صحیفوں‘ اور نئے مذہبی فرقوں کو جنم دے سکتی ہے؟وہ ملازمین جن کی نوکری مصنوعی ذہانت نے چھین لی: ’پہلے میں اس بات پر ہنستا تھا کہ اے آئی میری جگہ لے سکتی ہے‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More