’خالی خزانے‘ اور امن و امان سمیت خیبرپختونخوا کی نئی حکومت کو کون سے بڑے چیلنجز درپیش ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 13, 2024

Getty Images

پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے انتخابات میں صوبہ خیبرپختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ امیدواروں کے صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں جیتنے کے بعد پی ٹی آئی کی اتحادی جماعت سنی اتحاد کونسل صوبے میں حکومت بنانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔

پاکستان میں انتخابات کے بعد یہ سوال ہر ذہن میں پایا جاتا ہے کہ پاکستان مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان جو کشیدہ حالات پائے جاتے ہیں اس سے کہیں مشکلات میں اضافہ تو نہیں ہو گا۔

خیبرپختونخوا کی حکومت اگر لوگوں کو ریلیف فراہم نہ کر سکی تو اس سے پی ٹی آئی کی صوبے میں مقبولیت متاثر ہو گی اور یہ کہ کیا مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کی طرف ایک مرتبہ پھر توجہ نہ دے کر صوبے سے اپنی سیاست مکمل طور پر ختم ہی کر دے گی؟

موجودہ حالات میں اس وقت زیادہ مشکل صورتحال خیبر پختونخوا حکومت کو درپیش ہے۔ اس حوالے سے پانچ ایسے چیلنجز ہیں جن کی طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے اور اس کے لیے مرکزی حکومت کا تعاون چاہیے ہو گا۔

خیبر پختونخوا میں سنہ 2013 میں پی ٹی آئی کی حکومت قائم تھی جبکہ مرکز میں پاکستان مسلم لیگ اقتدار میں تھی اور اس وقت مرکز اور صوبے کے درمیان تعلاقات انتہائی کشیدہ رہے تھے۔

سنہ 2018 میں مرکز اور خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں تھیں لیکن صوبے کے لیے کوئی بہت بڑے منصوبے شروع نہیں کیے جا سکے یہاں تک کہ صوبے کو اس کے پن بجلی سے حاصل نیٹ منافع اور آئل اینڈ گیس کی مد میں بقایاجات بھی فراہم نہیں کیے جا سکے تھے۔

وزیر اعلٰی خیبر پختونخوا نے اس بارے میں بڑے اعلانات اور دعوے تو ضرور کیے ہیں لیکن ان پر عمل اور اس کے لیے کوششوں سے کیا نتیجہ نکلتا ہے یہ وقت بتائے گا۔

Getty Imagesصوبے کا ’خالی‘ خزانہ

انتخابات سے پہلے نگران وزیر اعلی خیبر پختونخوا کا کہنا تھا کہ وہ صوبے کے خزانے میں ایک سو ارب روپے چھوڑ کر جا رہے ہیں۔

اس کے برعکس خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت نے گذشتہ دس سال میں 359 ارب روپے کا قرضہ لیا اور تقریباً 600 ارب روپے کے معاہدے کیے تھے لیکن وہ قرضہ ملا نہیں۔

خیبرپختونخوا کے اپنے وسائل سے آمدن 70 ارب روپے کے لگ بھگ ہے اور نو منتخب مشیر خزانہ مزمل اسلم نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ صوبے کے کل وسائل کا آٹھ فیصد ہی بنتا ہے جو بہت کم ہے۔

خیبرپختونخوا کا نیٹ ہائیڈل پاور پر منافع اور آئل اینڈ گیس پر صوبے کا حق وفاق کے ذمہ واجب الادا ہے لیکن وفاق کی جانب سے صوبے کو اس کے فنڈز نہیں مل رہے جس وجہ سے صوبہ مالی مشکلات کا شکار ہے۔

وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈا پور نے عہدہ سنبھالنے کے بعد کابینہ کے پہلے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ وفاق کے ذمہ 1510 ارب روپے واجب الادا ہیں اور ان کا کہنا تھا کہ یہ رقم اے جی این قاضی فارمولے کے تحت ہے جس پر وفاق میں رضامندی ظاہر کی گئی تھی۔

سینیئر صحافی لحاظ علی خان کا کہنا ہے کہ صوبے کے وفاق کے ذمہ واجب الادا فنڈز جن پر دونوں جانب سے تسلیم کیا گیا، ان میں نگران حکومت نے جو وفاق کو آخری مراسلہ بھیجا تھا اس میں 360 ارب روپے کا ذکر کیا گیا، جس میں پن بجلی منافع اور قبائلی علاقوں کے لیے ترقیاتی فنڈز شامل ہیں۔

وزیر اعلیٰ نے جو اعداد و شمار فراہم کیے ہیں وہ صوبے کا مطالبہ ہے اور اس پر وفاق کے ساتھ بات چیت ہوئی ہے لیکن ان پر دونوں جانب سے مکمل رضا مندی نہیں اور جس پر رضا مندی ہے وہ 400 ارب روپے سے 415 ارب روپے تک رقم بنتی ہے جو وفاق نے صوبے کو ادا کرنے ہیں۔

Getty Imagesچیلنجز کیا ہیں؟

خیبرپختونخوا حکومت کو دہشت گردی کے خلاف اقدامات بھی کرنا ہوں گے۔ اس کے علاوہملازمین کی تنخواہیں، صحت انصاف کارڈ کی مد میں واجب الادا رقم اور عوام کو ریلیف فراہم کرنے جیسے وعدوں کی تکمیل کے فنڈز درکار ہوں گے۔

یونیورسٹیوں کو مالی بحران سے نکالنے کے علاوہ روزگار فراہم کرنے اور مہنگائی پر قابو پانے کے لیے بڑے فیصلے کرنے ہوں گے۔

خیبرپختونخوا حکومت کو صرف ان مالی مشکلات سے ہی نمٹنا نہیں بلکہ اس علاوہ سیاسی حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کی مرکز میں وفاقی حکومت کے ساتھ بھی تعلق برقرار رکھنا ہے۔

مزمل اسلم نے بتایا کہ مالی حوالے سے باقی صوبوں کی حالت بھی کوئی زیادہ بہتر نہیں۔ صوبہ سندھ میں چونکہ اپنے وسائل سے فنڈز حاصل ہوتے ہیں تو اس لیے وہاں زیادہ مسائل شاید نہ ہوں لیکن پنجاب اور خیبرپختونخوا میں حالات لگ بھگ ایک جیسے ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاقی حکومت اگر خیبرپختونخوا کو اپنے ذمہ واجب الادا رقم ادا کر دیتی ہے تو خیبر پختونخوا بہتر حالات میں آ سکتا ہے۔

سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ معاشی مسائل کے حل کے لیے سب سے بڑا چیلنج تو قرضوں کی واپسی ہے کیونکہ اس وقت صوبے پر جو قرضہ ہے اس کی واپسی کیسے ممکن ہو سکے گی اور اس کے لیے موجودہ حکومت کا کہنا ہے کہ وفاق سے رابطہ کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ وفاق سے یہ رقم کیسے مل سکتی ہے کیونکہ وفاقی سطح پر حکومت بھی مشکل معاشی صورتحال سے دو چار ہے اور اگر وفاقی حکومتصوبے کو اپنے فنڈز واپس کرتے ہیں تو وہ قسطوں میں ہی ممکن ہو سکے گا اور اس سے مسائل کا حل مشکل ہو گا۔

صوبے کو بجٹ کی تیاری میں مشکل پیش آئے گی کیونکہ اگر صوبے کے پاس صرف ایک سو ارب روپے پڑے ہیں تو پورے سال کے لیے صوبے کے پاس آمدن اور اخراجات کے تخمینے کے لیے زبانی کلامی الفاظ تو ہوں گے لیکن اس پر عمل کرنا مشکل ہو گا۔ خیبر پختونخوا کو قومی مالیاتی کمیشن سے بھی اب کم فنڈز مل رہے ہیں جس پر صوبے کو آواز اٹھانی ہو گی۔

سینیئر صحافی عرفان خان کے مطابق صوبائی حکومت کو تین بڑے چیلنجز کا سامنا رہے گا۔ ’ان میں امن و امان کی صورتحال، معاشی حالات اور گورننس ہیں، جس طرف حکومت کو توجہ دینی ہو گی۔ ماضی میں پی ٹی آئی کی حکومت نے مرکز میں پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت کے ساتھ مزاحمت کی پالیسی اپنائے رکھی جس کے کہیں مثبت تو کہیں منفی اثرات مرتب ہوئے تھے اور اس سے صوبے کو نقصان اٹھانا پڑا تھا۔‘

انھوں نے بتایا کہ یہ اس لیے مثبت تھا کہ اس سے پارٹی کی مقبولیت میں اضافہ ہوا تھا لیکن اس کے برعکس صوبے کو اس کے حقوق مرکز سے نہیں مل سکے تھے۔

دہشت گردی اور امن کا قیام

خیبر پختونخوا میں تشدد کے واقعات آئے روز پیش آ رہے ہیں اور ان میں زیادہ تر حملے پولیس اہلکاروں پر کیے جا رہے ہیں۔

ان کے علاوہ قبائلی علاقوں میں شدت پسندوں کی سرگرمیوں میں اضافہ بھی تشویشناک ہے اور اس کے لیے حکومت کو عملی اقدامات کرنا ہوں گے۔

سینیئر صحافی علی اکبر کا کہنا ہے کہ ’موجودہ حکومت کے لیے سکیورٹی کا مسئلہ سر فہرست رہے گااور اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس سال اب تک چند ماہ میں ٹارگٹ کلنگ اور حملوں میں 40 اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔‘

’امن و امان کے حوالے سے پاکستان میں جب پی ٹی آئی کی حکومت قائم تھی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات شروع کیے تھے جس سے کچھ وقت کے لیے جنگ بندی ضرور ہوئی تھی لیکن اس کے نتیجے میں شدت پسند مختلف علاقوں میں پھیل گئی تھے اور اس سے تشویش پائی جاتی ہے۔‘

پاکستان میں اٹھارویں ترمیم کے بعد امن و امان کا مسئلہ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاقی سطح پر سکیورٹی ادارے اس ساری صورتحال کو دیکھ رہے ہیں۔ اس کے لیے بھی صوبائی حکومت کو وفاقی حکومت کی مدد درکار ہو گی۔

Getty Imagesقبائلی علاقوں کے انضمام کے بعد حالات؟

پاکستان میں سال 2018 میں قبائلی علاقوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کر دیا گیا تھا اور اس کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں نے مالی طور پر قبائلی علاقوں کے لیے علیحدہ معاشی اصلاحات کے ساتھ ساتھ فنڈز کی فراہمی کے وعدے کیے تھے لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو سکا تھا۔

اسلامیہ کالج یونیورسٹی کے اسسٹسنٹ پروفیسر ڈاکٹر حامد اللہ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت خیبر پختونخوا حکومت کو معاشی اعتبار سے مختلف چیلنجز کا سامنا ہے۔

ان میں ایک بڑا مسئلہ قبائلی علاقوں میں اصلاحات کا نفاذ اہمیت کا حامل ہے۔ اس وقت قبائلی علاقوں میں صورتحال کشیدہ ہے جہاں تشدد کے واقعات پیش آ رہے ہیں اور ان علاقوں میں لوگوں کو بنیادی سہولیات کی فراہمی کے ساتھ ان علاقوں میں ترقیاتی کام کرنا بھی ضروری ہے۔

عرفان خان کے مطابق ’ان چھ سال میں قبائلی علاقوں کے لیے کوئی بڑے ترقیاتی اقدامات نہیں کیے گئے اور وہ وعدہ کہ قبائلی علاقوں میں ہر سال ایک سو ارب روپے خرچ کریں گے۔ چار سال میں جہاں 400 ارب روپے خرچ کرنا تھے وہاں پورے صوبے کے لیے 103 ارب روپے فراہم کیے گئے اور 297 ارب روپے فراہم نہیں کیے گئے اور اس کے بعد ایک سال اور بھی گزر گیا۔‘

اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حالیہ انتخابات میں نیم قبائلی علاقے درہ آدم خیل میں انضمام مخالف گروپ نے بیشتر پولنگ سٹیشنز پر حملے کیے تھے اور ان کا مؤقف تھا کہ انضمام کے بعد ان علاقوں کو نقصان ہوا۔

مرکز اور سینیٹ میں ان کی نشستیں کم ہو گئی ہیں اور اس کے علاوہ وفاق سے جو پہلے ان علاقوں میں کام ہو رہے تھے وہ اب نہیں ہو رہے۔

اس کے برعکس ماہرین کا کہنا ہے کہ وفاق اور دیگر تین صوبوں کی جانب سے عدم توجہی کے بعد ان قبائلی علاقوں کہ ذمہ داری خیبر پختونخوا پر عائد ہو گئی ہے اور اب صوبہ اپنے وسائل سے ان علاقوں کے لیے کام کرے گا اور یہ بھی بڑا چیلنج ہے۔

Getty Imagesصحت کے ساتھ کتنا انصاف؟

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کا فلیگ شپ پروگرام صحت انصاف کارڈ رہا ہے اور اس سے بڑی تعداد میں لوگ مستفید ہوئے ہیں۔

ان انتخابات میں بھی جو لوگ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو ووٹ دے رہے تھے ان کے سامنے ایک وجہ صحت انصاف کارڈ رہا۔ اس کارڈ سے بڑی تعداد میں لوگوں کے آپریشن جن میں گردوں کے ٹرانسپلانٹ، ڈائیلاسز دل کے آپریشن اور دیگر مہلک بیماریوں کے علاج کیے گئے ہیں۔

وزیر اعلی علی امین گنڈا پور نے حلف لینے کے بعد صحت انصاف کارڈ کی بحالی کا اعلان کیا اور یکم رمضان سے اس پر عملدرآمد شروع کر دیا گیا ہے۔ صحت انصاف کارڈ کی مد میں صوبہ سٹیٹ لائف انشورنس کمپنی کا کوئی سترہ ارب روپے کا مقروض تھا اور اب ابتدائی طور پر کمپنی کو 5 ارب روپے ادا کر دیے گئے ہیں اور باقی قسطوں میں کمپنی کو ادا کر دیے جائیں گے۔

پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد نگران حکومت نے بالترتیب صحت انصاف کارڈ کی سہولت ختم کر دی تھی جس سے بڑی تعداد میں مریض متاثر ہوئے تھے۔

صحت انصاف کارڈ سے جہاں لوگوں کو فائدے پہنچے ہیں وہاں اس کے نقصانات میں سرکاری ہسپتالوں میں جو سروسز مفت دستیاب ہوتی تھیں ان کے بھی چارجز وصول کیے جانے لگے تھے۔

ان میں ایمرجنسی میں مریضوں کو مفت ادویات کی فراہمی متاثر ہوئی تھی، ٹیسٹ وغیرہ کے چارجز بڑھا دیے گئے تھے اور اس کے علاوہ ڈائیلاسز جہاں پہلے مفت کیے جاتے تھے صحت انصاف کارڈ کے بعد سرکاری ہسپتالوں میں بھی مریضوں سے چارجز وصول کیے جاتے تھے۔

سرکاری ہسپتالوں میں صحت انصاف کارڈ کا پروسیجر بھی مشکل رہا ہے جس کے لیے ایسے مریض جن کے ساتھ کوئی اٹنڈنٹ نہیں ہوتے تھے ان کے لیے مشکلات بڑھ جاتی تھیں۔

اس کے علاوہ صحت انصاف کارڈ میں خرد برد کے الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔ اس بارے میں کوئی ڈیڑھ سال پہلے ایک انکوائری میں معلوم ہوا تھا کہ بعض ہسپتالوں اور ڈاکٹروں نے غیر ضروری طور پر آپریشنز کیے ہیں جس سے قومی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا۔

محمکہ صحت خیبرپختونخوا کی تحقیقاتی کمیٹی نے گذشتہ سال صحت انصاف کارڈ کے تحت ایک ہی بیماری کے سال میں ریکارڈ 773 آپریشنز کی جامع تحقیقات کی سفارش کی تھی۔

‏خیبر پختونخوا دیر بالا کے ایک ہسپتال میں کروڑوں روپے کی مبینہ بے قاعدگیوں کی اطلاع تھی۔ اسی طرح ایک ہسپتال میں اپینڈیکس کے آپریشنز کی تعداد کہیں زیادہ بتائی گئی۔ اس بارے میں بتایا گیا ہے کہ متعلقہ ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے خلاف کارروائیاں کی گئی ہیں۔

محکمہ صحت خیبر پختونخوا کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ صحت کارڈ کی خدمات محدود نہیں بلکہ پوری کی پوری بحال کر دی گئی ہیں جبکہ میڈیا پر ملنے والی شکایات اور پرائیویٹ سیکٹر میں ان خدمات کے غلط استعمال کو روکنے کے لیے اصلاحات کی گئی ہیں۔

صحت انصاف کارڈ کے انچارج ریاض تنولی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ چند خدمات صرف سرکاری ہسپتالوں تک محدود کی گئی ہیں جس کے عوض اب تک چھ سو ملین سے زائد کی بچت ہو چکی ہے۔

ان خدمات میں زچگی کے دوران آپریشن، ٹانسلز و اپنڈیکس کے آپریشن، انجیو گرافی و دیگر خدمات شامل ہیں۔

میڈیا و سوشل میڈیا پر اپینڈیکس آپریشنز کے متعلق چلنے والا ڈیٹا ڈیڑھ سال پرانا ہے۔

صحافی لحاظ علی کا کہنا ہے کہ جب اتنے وسیع سطح پر کوئی منصوبہ شروع کیا جاتا ہے جس میں عوامی سطح پر لوگوں کا فائدہ ہوتا ہے وہاں اس طرح کی بے قاعدگیاں پیش آ جاتی ہیں اور یہ وقت کے ساتھ ساتھ حل کی جا سکتی ہیں۔

یہ بھی پڑھیےخیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہےبلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرست جماعتوں کو شکست کیوں ہوئی اور صوبوں پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟افغان تاجر پاکستان سے ’روٹھ‘ کر ایران اور وسط ایشیا کے متبادل تجارتی راستے کیوں اپنا رہے ہیں؟Getty Imagesتعلیم کا شعبہ یونیورسٹیوں کی مالی بدحالی

اس وقت خیبر پختونخوا میں بیشتر جامعات کو مالی مشکلات درپیش ہیں جہاں انتظامیہ ملازمین کو تنخواہیں دینے کے قابل نہیں اور یہ مشکلات گذشتہ چند سال سے جاری ہیں۔

ڈاکٹر حامد نے بتایا کہ حیران کن طور پر اس وقت خیبر پختونخوا میں 19 ایسی یونیورسٹیز ہیں جن کے مستقل وائس چانسلر تعینات نہیں کیے جا سکے جبکہ چھ مزید یونیورسٹیز ایسی ہیں جن کے وائس چانسلرجلد ریٹائر ہونے والے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ’گذشتہ ڈیڑھ سال سے تعیناتیاں نہیں کی گئیں۔ اس کے علاوہ یونیورسٹیاں مالی بحران کا شکار ہیں اور ابتدائی طور پر پانچ بڑی یونیورسٹیوں کو تین ارب روپے درکار ہوں گے تاکہ ان کے مسائل حل ہو سکیں اور ملازمین کو تنخواہیں مل سکیں۔ ان میں پشاور یونیورسٹی، گومل یونیورسٹی اسلامیہ کالج یو نیورسٹی نمایاں ہیں۔‘

پاکستان کے آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد یونیورسٹیوں کی فنڈنگ صوبائی حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن بڑی تعداد میں یونیورسٹیوں کے قیام کے بعد بڑی یونیورسٹیوں کو مالی مشکلات سے دو چار ہیں اور مرکزی سطح پر یونیورسٹی گرانٹ کمیشن صرف وفاق کے زیر انتظام چلنے والی یونیورسٹیوں کی فنڈنگ کر رہی ہے۔

اس کے علاوہ صوبے کو سرکاری ملازمین کی پینشن میں اصلاحات کے لیے بھی بڑے فیصلے کرنے ہوں گے جس پر سابق دور حکومت میں کام شروع کیا گیا تھا۔

اسی طرح صوبائی حکومت کو مہنگائی پر قابو پانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے اور اس میں سخت فیصلے بھی کرنے ہوں گے کیونکہ اس میں تاجروں کی طرف سے رد عمل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

خیبر پختونخوا کی سطح پر افغانستان کے ساتھ ملنے والی سرحد پر تجارت کا معاملات بھی دیکھے ہوں گے کیونکہ اس میں مشکلات سے مقامی صنعت کو نقصان ہو سکتا ہے۔

سکواش کے سابق کھلاڑی اور مولانا فضل الرحمان کو شکست دینے والے نومنتخب وزیرِ اعلیٰ خیبرپختونخوا کون ہیں؟بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں قوم پرست جماعتوں کو شکست کیوں ہوئی اور صوبوں پر اس کے کیا اثرات ہو سکتے ہیں؟خیبرپختونخوا کا وہ علاقہ جہاں غیر قانونی طور پر پانی سے سونا نکالنے کا کام کیا جاتا ہے
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More