ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ کر آپ اپنے دماغ کو کیسے مضبوط بنا سکتے ہیں؟

بی بی سی اردو  |  Mar 13, 2024

Getty Images

جب میں سات سال کی تھی تو پہلی مرتبہ سکول کیمپ میں گئی۔ وہاں ہم سب سے کہا گیا کہ ہم اپنے گھر والوں کو خط لکھیں۔ میں نے اپنی والدہ کو انگلش میں ایک مفصل خط لکھا، جس میں انھیں بتایا کہ ہم وہاں کیا سرگرمیاں کر رہے ہیں۔ پھر میں نے یہی خط لفظ بہ لفظ ڈچ زبان میں ترجمہ کر کے اپنے والد کو لکھا۔ یہ کہانی آج بھی روانی سے انگلش اور ڈچ زبانیں بولنے والے میرے والد کو ہنسا دیتی ہے۔

میرے والدین نے مجھے اور میری بہن کو بچپن سے دو زبانیں سکھا کر بڑا کیا۔

انھوں سے کسی سے مشورہ کیا تو انھیں کہا گیا کہ وہ صرف اپنی زبان میں ہم سے بات کریں۔ وہ اس بات پر اتنے قائم رہے کہ طویل عرصے تک ہم نے غور ہی نہیں کیا کہ وہ خود ڈچ اور انگلش دونوں میں روانی سے بات کرتے ہیں۔ آج کل ہم گھر میں ڈچ اور انگلش کو ملا جلاکر بات کرتے ہیں اور اکثر آدھے جملے میں زبان بدل دیتے ہیں۔

تاہم اب بھی یہ ایک عام خیال ہے کہ میرے والدین نے جو طریقہ اختیار کیا وہ بچوں کو کثیر زبان سکھانے کے لیے بہترین ہے، اسے پیدائش سے شروع کریں اور والدین اپنی اپنی مادری زبان سے سختی سے جڑے رہیں۔

لسانی ماہرین کے نزدیک اس لائحہِ عمل کو او پی او ایل یعنی ’ون پیرنٹ ون لینگویج‘ کے نام سے پہچانا جاتا ہے لیکن کیا یہ واحد طریقہ ہے جس سے بچوں کو ایک سے زیادہ زبانیں سکھائی جائیں اور کیا کثیر زبان جاننے والے بچے کی پرورش کرنے کے لیے آپ کو پہلے سے دو زبانیں بولنی آتی ہوں یا جو ایک ہی زبان جانتے ہیں وہ بھی ایسا کر سکتے ہیں۔

پاور آف لینگوجز کی مصنفہ اور کمیونیکیشن سائنسز اینڈ ڈس آرڈر کی پروفیسر وایوریکا میریان کا کہنا ہے کہ دراصل آپ کے بچے کو دو زبانوں سے متعارف کراونے کے بہت سے طریقے ہیں اور کوئی ایسا خاص طریقہ نہیں جسے بہترین کہا جا سکے۔

میرے والدین نے جو طریقہ اپنایا کہ وہ ہم سے صرف اپنی ماردی زبان میں بات کرتے تھے یہ اس صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب والدین مختلف زبانیں بولتے ہوں۔

دیگر والدین گھر میں صرف ایک زبان بول سکتے ہیں جو عموماً اقلیت کی زبان ہو سکتی ہے اور انھیں پتا ہو گا کہ بچہ سکول جائے گا تو اسے دوسری زبانوں سے تعارف ملے گا۔

اقلیتی زبان وہ ہو گی تو معاشرے میں نسبتاً کم آبادی میں بولی جاتی ہے۔

وقت کے ساتھ ساتھ خاندانوں کو اس اقلیتی زبان کو استعمال میں رکھنے کے لیے خصوصی کوششیں کرنا پڑتی ہیں اور جب بچوں کے گھر سے باہر رابطے بڑھتے ہیں اور اکثریتی زبان غالب آتی ہے تو ان اقلیتی زبانوں کے معدوم ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔

پروفیسر وایوریکا میریان بتاتی ہیں ’ایک دوسرا طریقہ یہ ہوسکتا ہے کہ آپ ہر ہفتے اپنے بچے سے مختلف زبان بولیں۔‘

اسے محققین اور مختلف زبانیں بولنے والے خاندانوں میں عموماً ’وقت اور جگہ‘ کا لائحہ عمل کہا جاتا ہے۔ اس میں ہر زبان کسی خاص وقت یا مقام پر بولی جاتی ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پورا خاندان ویک اینڈز پر ایک زبان بولے یا کھانے کے وقت اور باہر جاتے اور باقی کا پورا ہفتہ کوئی دوسرے زبان بولے۔

سب سے مؤثر حکمت عملیاں وہ ہے جو مستقل اور طویل مدت کے لیے اپنائی جا سکتی ہیں۔

اوہ کہتی ہیں کہ’آخر کار جو حکمت عملی کامیاب ہو گی وہ آپ کے مخصوص خاندان کے لیے کارآمد ہے اور اس تجربے کو خوشگوار بناتی ہے نہ کہ مشکل۔‘

Getty Images

بی بی سی ورلڈ سروس کی ریڈیو پریزینٹر کروپا پادھے اپنے سات اور نو سال کے دو بچوں کی دو زبانوں میں پرورش کر رہی ہیں۔

کروپا پادھے کی پرورش برطانیہ کے ایک گجراتی بولنے والے گھرانے میں ہوئی تھی جبکہ ان کے شوہر ہندی بولتے ہیں۔ انھوں نے گھر پر انگریزی اور ہندی بولنے کا فیصلہ کیا۔ وہ کہتی ہیں ’ہندی ان کے لیے زیادہ مفید ہے کیوںکہ اس سے وہ پورے ایشیائی برصغیر کو سمجھ سکیں گے۔‘

کروپا پادھے کہتی ہیں ’ہمارے پاس کوئی مربوط حکمت عملی نہیں۔‘

ان کا بنیادی مقصد اپنے بچوں کو بات چیت کے لیے ہندی سکھانا ہے تاکہ وہ اپنا تعارف کروا سکیں، لوگوں کو بتا سکیں کہ ان کی عمر کتنی ہے اور ان کے کتنے بہن بھائی ہیں۔

کروپا پادھے کہتی ہیں کہ جملے کی ساخت سیکھنے اور تکرار کرنے سے واقعی مدد ملی ہے۔ ان کا خاندان ہر 18 ماہ بعد انڈیا جاتا ہے اور کروپا پادھے کا کہنا ہے کہ ’میں بچوں کو اس قابل بنا رہی ہوں کہ وہ اصل ثقافت کو سمجھ سکیں۔ یہ واقعی اچھا ہے کہ وہ وہاں ارد گرد کی چیزوں سے جڑنے اور انھیں سمجھنے کے قابل ہیں۔‘

ہندی سیکھنے سے ان کے خاندان کو گھر پر انڈین ثقافت سے لطف اندوز ہونے کا موقع مل رہا ہے۔ کروپا کہتی ہیں کہ ’ہر سنیچر کی رات ہندی فلموں کی رات ہوتی ہے، بچے ہندی فلمیں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ یہ واقعی مدد کر رہا ہے۔‘

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ جتنی جلدی ممکن ہو دوسری زبان کو متعارف کروانا ایک اچھا ہوتا ہے کیونکہ بچے بہت چھوٹی عمر میں اپنی مادری زبان کی آواز اور تال سیکھتے ہیں، جسے اس زبان کی فونولوجی کے نام سے جانا جاتا ہے۔

سنہ 2013 کی ایک تحقیق کے مطابق بچے پیدائش سے پہلے ہی زبان سیکھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ حمل کے آخری 10 ہفتوں میں جنین اپنی ماں کی باتیں سن رہے ہوتے ہیں۔

تقریباً 30 گھنٹے کی عمر کے چالیس امریکی اور سویڈش بچوں کو ان کی مادری زبان اور غیر ملکی زبان میں صوتی آوازوں سنائی گئیں۔ ان کے ردعمل کی پیمائش اس بات سے کی گئی کہ وہ کمپیوٹر سے منسلک ایک پیسیفائر (چوسنی) کو کتنی دیر تک چوستے رہے۔

امریکی اور سویڈش دونوں بچوں نے اپنی مادری زبان کے مقابلے میں غیر ملکی زبان کے لیے زیادہ وقت چوسنی کو استعمال کیا۔

محققین کا کہنا تھا کہ غیر معروف آوازوں پرزیادہ دیر تک چوسنا سیکھنے کا ثبوت ہے اور اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بچے پیدائش کے وقت زبانوں میں فرق کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ نہیں کہ دوسری زبان شامل کرنے میں کبھی دیر ہو سکتی ہے، بڑے بچے اور یہاں تک کہ بالغ بھی دوسری زبانیں سیکھ سکتے ہیں اور اس کے دیگر فوائد بھی ہوسکتے ہیں جیسے کسی کے ورثے سے جڑنے کی خوشی۔

لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ چھوٹے بچوں کے لیے مقامی لہجہ اختیار کرنا آسان ہو سکتا ہے۔

سان فرانسسکو سٹیٹ یونیورسٹی کیلیفورنیا میں بچوں اور نوعمروں کی نشوونما کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر سراڈا روچانوی بھاٹا کہتی ہیں کہ ’جتنی جلدی آپ شروع کریں، اتنا ہی بہتر ہے۔ زبان کو جلدی سیکھنے کا ایک فائدہ یہ ہے کہ مقامی جیسی مہارت حاصل کرنا آسان ہے۔ پہلے چھ ماہ کے دوران، نوزائیدہ بچے تمام زبانوں کی بولنے کی آوازوں کے درمیان تفریق کر سکتے ہیں۔‘

’اس کے بعد، بچے ان آوازوں کو الگ الگ بتانے کی صلاحیت کھو دیتے ہیں جو ان کی مادری زبان یا زبانوں میں استعمال نہیں ہوتی۔‘

وہ بتاتی ہیں ’جیسےانگریزی میں’آر‘ اور’ایل‘ آوازیں الگ الگ ہیں اور کسی لفظ کے معنی کو تبدیل کر سکتی ہیں، مثال کے طور پر’ریڈread اور لیڈ lead‘ جبکہ جاپانی میں ’آر‘ اور ’ایل‘ آوازوں کو ایک ہی زمرے (جاپانی’ر‘) میں ملایا جاتا ہے۔ انگریزی سیکھنے والے جاپانیوں کو انگریزی بولنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‘

روچانوی بھاٹا کہتی ہیں کہ جس عمر میں ایک بچہ دوسری زبان سیکھتا ہے وہ اس زبان کی سننے اور بولنے کی آوازیں پیدا کرنے کی ان کی صلاحیت کو متاثر کرسکتی ہے۔

روچانوی بھاٹا اور دیگر محققین زور دیتے ہیں کہ اگر آپ یا آپ کی فیملی نےوہ وقت گنوا دیا تو پھر بھی دیگر مواقع موجود ہیں۔

وہ کہتی ہیں ’بالغ افراد اب بھی اضافی زبانوں میں روانی حاصل کر سکتے ہیں لیکن اس عمل کے لیے زیادہ کوشش اور مختلف طریقوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔‘

Getty Imagesبچوں کی حوصلہ افزائی

محققین کا کہنا ہے کہ ابتدائی برسوں میں ایک ٹھوس دو زبانی بنیاد قائم کرنے کے عملی فوائد بھی ہو سکتے ہیں۔ برطانیہ کی ایڈنبرا یونیورسٹی میں دو زبانوں اور زبان سیکھنے کو فروغ دینے والے تحقیقی اور معلوماتی مرکز ڈیویلپمنٹل لنگوسٹکس کی پروفیسر اوربائیلنگولازممیٹرز پروگرام کی بانی انتونیلا سوراس کہتی ہیں کہ کم عمری سے ہی بچوں کو دونوں زبانوں کے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ چھوٹے بچوں کے پاس سکول اور ایک آزاد سماجی زندگی جیسی دیگر ذمہ داریاں نہیں ہوتی ہیں تاہم صرف جلدی شروع کرنے سے ہی مثبت فرق پیدا نہیں ہوتا۔ دوسرا چیلنج دوسری زبان کو جاری رکھنا ہے، خاص طور پر ایک بار جب بچے زیادہ خود مختار ہوجاتے ہیں۔

اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بچوں کو متعدد زبانیں بولنے کی ترغیب دی جائے۔

’یہ ہمیشہ آسان نہیں کیونکہ بچوں کو مختلف محسوس کرنا پسند نہیں۔ ہم بہت سے پناہ گزین بچوں سے سنتے ہیں کہ وہ اب اپنی مادری زبان نہیں بولنا چاہتے ہیں کیوںکہ یہی چیز انھیں مختلف کر دیتی ہے۔‘

وہ کہتی ہیں کہ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ایک ’منی کمیونٹی‘ تشکیل دی جائے جہاں وہ باقاعدگی سے اپنی زبان بولنے والے ساتھیوں کے ساتھ بات چیت کرسکیں۔ ’یہ ناقابل یقین حد تک حوصلہ افزا ہو سکتا ہے‘

ماریان کہتی ہیں کہ یہ ضروری ہے کہ بچے ان دونوں زبانوں کو کثرت سے سنیں اور ان میں بولیں۔‘

وہ کہتی ہیں کہ ’دونوں زبانیں بولنے والے مختلفلوگوں کے ساتھ باقاعدگی سے بات چیت کرنے سے دو زبانوں کی مہارت کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے کیونکہ بچوں کو زیادہ تنوع کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ناروے کی یونیورسٹی آف اوسلو میں سینٹر فار ملٹی لنگولز ان سوسائٹی ایکراس دی لائف سپین کی ریسرچ فیلو الیزبیٹ گارسیا گونزالیز اس بات سے اتفاق کرتی ہیں کہ ماحولیات ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور دونوں زبانوں سے مسلسل رابطہ کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر دو زبانیں بولنے والے خاندان میں پیدا ہونے والا بچہ آٹھ سال کی عمر میں اپنی زبانوں میں سے کسی ایک کا استعمال کرنا بند کر دیتا ہے، تو اس کا دو زبانیں بولنے کی صلاحیت پر نمایاں اثر پڑے گا۔ زبان ایک ایسی چیز ہے جو زندگی بھر بدلتی رہتی ہے۔‘

Getty Imagesایک زبان بولنے والے والدین، دو زبانیں بولنے والے بچے؟

سوراس کہتی ہیں کہ اگر والدین خود مکمل طور پر کثیر زبانیں نہیں بولتے تب بھی وہ گھر میں مخلتف زبانوںکو لا سکتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر، والدین دوسری زبان سیکھنا شروع کرسکتے ہیں اور پھر کبھی کبھار اپنے بچے کے ساتھ اس زبان کا استعمال کرسکتے ہیں۔

یہ بچے کو دوسری زبان میں الفاظ یا جملے سے روشناس کراتا ہے اور اس کے فوائد ہیں چاہے بولنے والا مکمل طور پر ماہر نہ ہو۔ ’زبانوں میں کمال موجود نہیں۔‘

سوراس کے خیال میں، والدین کا گھر میں مختلف زبانیں بولنے کا اعتماد ان کی لسانی صلاحیت سے زیادہ اہم ہے۔ ’اگر انھیں اعتماد ہے، تو بچہ اس زبان کے بارے میں کافی سنے گا اور اسے سیکھ لے گا۔‘

وہ کہتی ہیں اس کے بعد نئی زبانوں کو دریافت کرنا اور ان کا استعمال کرنا ایک خاندانی منصوبہ بن جاتا ہے، جس میں والدین سمیت ہر کسی کو فائدہ ہوتا ہے۔

’ہم والدین سے کہتے ہیں کہ وہ اپنے بچے کے ساتھ دوسری زبان سے لطف و اندوز ہونے کے اس حیرت انگیز موقعے سے فائدہ اٹھائیں۔‘

وہ کہتی ہیں ’مقصد یہ نہیں کہ آپ زبان میں کامل بنیں بلکہ مقصد زیادہ زبانیں سیکھنا اور اپنے بچے کے ساتھ بات چیت کرنے کے قابل ہونا ہے۔‘

کروپا پادھے کہتی ہیں کہ جب سے انھوں نے اپنے بچوں سے ہندی بولنا شروع کی ہے تب سے ان کی ہندی میں بہتری آئی ہے۔ ’میں بہت کچھ سیکھ رہی ہوں۔ میں پہلے سے کہیں زیادہ بہتر ہندی بول رہی ہوں کیوںکہ میں انھیں سیکھا رہی ہوں۔‘

محققین کا کہنا ہے کہ ایک زبان بولنے والے والدین کے لیے خاندان میں دو زبانوں کی حوصلہ افزائی کرنے کے دیگر مواقع بھی ہو سکتے ہیں۔

ماریان بہت سے آپشنز تجویز کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر دو زبانیں بولنے والی بے بی سٹر یا نرسری کا انتخاب کرنا یا اپنے بچوں کو کمیونٹی سینٹر یا سکول کے بعد کے کلب میں زبان کے اسباق کے لیے داخل کروانا جہاں وہ متعدد زبانیں سنتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جیسے جیسے بچہ بڑا ہوتا ہے، اسے تبادلے کے پروگراموں میں حصہ لینے اور بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے، غیر ملکی زبان کے کورسز کرنے اور ان ممالک کا سفر کرنے سے زبان سیکھنے میں مزید مدد ملے گی جہاں دوسری زبان بولی جاتی ہے۔‘

Getty Imagesکیا ایک سے زیادہ زبانیں سیکھنے والے دماغ مختلف ہوتے ہیں؟

ان لوگوں کے لیے جو دوسری زبان سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں چاہے بچپن میں کریں یا بالغ ہو کر یا پھر والدین بن کر، اس عملسے ذہن کو تیز کرنے والے فوائد حاصل ہو سکتے ہیں، چاہے بول چال میں روانی کی سطح کتنی ہی کیوں نہ ہو۔

الینوائے کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں کثیر زبانیں سیکھنے اور نفسیاتی لسانیات کے ریسرچ اسسٹنٹ پروفیسر ایشلے چنگ فیٹ یم کا کہنا ہے کہ متعدد زبانیں سیکھنے سے دماغ کے اگلے حصے پری فرنٹل کورٹیکس میں گرے مادے کے حجم میں اضافہ ہوتا ہے جو اعلیٰ سطح کی سوچ کے لیے اہم ہے، جیسے فیصلہ سازی اور مسائل کو حل کرنا۔

’ہم دماغ کے ان ہی حصوں میں سفید مادے میں بھی بہتری دیکھتے ہیں۔‘

چنگ فیٹ یم بتاتے ہیں کہ اگرچہ گرے مادہ وہ جگہ ہے جہاں اہم معلومات کی پروسیسنگ ہوتی ہے، سفید مادہ دماغ کے حصوں کے درمیان پیغامات لے جاتا ہے۔

’گرے مادے کو سب وے سٹیشن اور سفید مادے کو سب وے سرنگوں کے طور پر سوچیں جو مختلف سب وے سٹیشنوں کو ایک دوسرے سے جوڑتے ہیں۔ تیز اور زیادہ موثر سگنل ٹرانسمیشن کے لیے ’سب وے سرنگوں‘ کی ساخت کو برقرار رکھنے میں کثیر لسانیت سے مدد ملتی ہے۔ دوسرے لفظوں میں دماغ کے علاقوں کے درمیان مواصلات زیادہ بہتر طریقے سے ہو سکتی ہے۔‘

تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ ایک سے زیادہ زبانیں بولنا اور اس میں شامل ذہنی ورزش، دماغ کی لچک کو بھی بڑھا سکتی ہے اور الزائمر کی بیماری کی علامات کے آغاز میں تاخیر کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔

اس حوالے سے 20 سے زیادہ موجودہ مطالعات کے 2020 کے جائزے کے مطابق ایک سے زائد زبانیں جاننے سے سے الزائمر کی علامات میں پانچ سال تک کی تاخیر ہوسکتی ہے۔

محققین نے نتیجہ اخذ کیا کہ دو زبانیں الزائمر کے وقوع کو نہیں روکتی ہیں بلکہ اس کی علامات کو طویل عرصے تک دور رکھنے میں مدد کرتی ہیں۔

انھوں نے دو زبانوں کو علمی ریزرو کی ایک شکل کے طور پر بیان کیا جو دماغ کے سرکٹوں کو مضبوط اور دوبارہ منظّم کرتا ہے۔

چنگ فیٹ یم کا کہنا ہے کہ جس طرح ورزش آپ کے عضلات کو مضبوط بناتی ہے اسی طرح زیادہ زبانیں سیکھنا آپ کے دماغ کی فعالیت کو برقرار رکھنے کے لیے اسے مضبوط بناتا ہے۔

برطانوی شہریوں کو اردو سیکھنے کا مشورہزبان جس میں دائیں، بائیں، آگے اور پیچھے کے لیے الفاظ نہیںانسان نے کیسے اور کیوں بولنا سیکھا؟کیا انگریزی ’دنیا کی پسندیدہ زبان‘ رہ سکتی ہے؟ایسی زبان جو صرف تین لوگ بولتے ہیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More