رچرڈ سکولر اور جارجینا لانگ جلد کے کینسر کے ماہر ڈاکٹرز ہیں۔ دنیا کے الگ الگ حصوں میں موجود ان دونوں ڈاکٹروں نے جب رچرڈ سکولر کے دماغ کے سکین دیکھا اور انھیں اپنے دل ڈوبتے ہوئے محسوس ہوئے۔
کسی بھی عام شخص کے لیے یہ دماغ کا ایک معمولی سا سکین تھا۔ مگر یہ دونوں ڈاکٹرز جانتے تھے کہ معاملہ اتنا سیدھا نہیں۔
پروفیسر سکولر کے سکین رپورٹ کی سیدھی جانب اوپری طرف کچھ موجود تھا جو باقی دماغ کے باقی حصوں سے زیادہ ہلکا اور دھندلا تھا۔
وہ کہتے ہیں ’میں ریڈیولوجی کا ماہر نہیں ہوں، لیکن میں جانتا تھا وہ ٹیومر (کینسر) تھا۔‘
اور جلد ہی اس بات تصدیق ہو گئی۔
لیکن پروفیسر سکولر کو کوئی عام ٹیومر نہیں بلکہ خطرناک ترین ٹیومرز میں سے ایک ’گلیوبلاسٹومس‘ تھا۔ اس کینسر کے شکار افراد عموماً ایک سال سے بھی کم عرصہ ہی جی پاتے تھے۔
مگر ہمت ہارنے کے بجائے دونوں ڈاکٹروں نے ناممکن کو ممکن بنانے کی ٹھان لی اور اس بیماری کا علاج ڈھونڈنے نکل پڑے۔
بات حیرت انگیر لگتی ہے مگر اس سے پہلے بھی یہ دونوں ایک اور لاعلاج بیماری کا علاج ڈھونڈ چکے تھے۔
پروفیسر سکولر کہتے ہیں کہ ’مجھے سہی نہیں لگا کہ میں بنا کوشش کیے اپنی موت کو تسلیم کر لوں۔ کیا ہوا اگر یہ کینسر کا علاج ہے تو؟‘
30 سال پہلے جب پرفیسر سکولر اور پروفیسر لانگ کی ملاقات ہوئی تو اُس وقت ’میلانوما‘ کینسر ہونے کا مطلب تھا کہ آپ کی موت یقینی ہے۔ مگر اس ہی چیز نے ان کی توجہ اپنی طرف کھینچی۔
اس وقت آسٹریلیا میں جلد کے کینسر کی شرح دنیا میں سب سے زیادہ تھی۔ پروفیسر لانگ کہتی ہیں اس زمانے میں جلد کے کینسر میں مبتلا افراد کو دیکھنا بہت تکلیف دہ ہوتا تھا۔
آج جلد کے کینسر کے علاج کے میدان میں سب ان دونوں ڈاکٹروں کی خدمات کو تسلیم کرتے ہیں۔
آج دنیا بھر میں جو بھی شخص ’میلانوما‘ نامی کینسر کی قسم کی تشخیص یا علاج کرواتا ہے تو وہ میلانوما انسٹیٹیوٹ کی بدولت ہے جس کی سر براہی یہ دونوں ڈاکٹر ہی کر رہے ہیں۔
پچھلی ایک دہائی کے دوران اُن کی ٹیمکی ’امیونوتھراپی‘ پر کی گئی تحقیق نے میلانوما کے شکار مریضوں کی قسمت بدل دی ہے۔ ’امیونوتھراپی‘ جسم کے اپنے مدافعتی نظام کو کینسر کے خلیوں کے خلاف لڑنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ میلانوما سے صحتیاب ہونے والے مریضوں کی شرح اب لگ بھگ 50 فیصد ہے یعنی اس کا شکار ہونے والے 100 میں سے 50 مریض صحتیاب ہو جاتے ہیں۔ پہلے یہ شرح محض 10 فیصد ہوا کرتی تھی۔
اب یہ طریقہ علاج کینسر کی دوسری اقسام کی علاج کے لیے بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
اس طریقہ علاج نے ان دونوں ڈاکٹروں کو قومی ہیرو بنا دیا ہے۔ تقریباً ہر آسٹریلوی شہری کسی نہ کسی ایسے شخص کو جانتا ہے جو اُن کے کام سے فیضیاب ہوا ہے۔ پروفیسر لانگ اور پروفیسر سکولر کو مشترکہ طور پر ’آسٹریلین آف دا ایئر‘ کے لیے بھی نامزد کیا گیا ہے۔
لیکن جیسے جیسے وہ کینسر کی تشخیص اور طریقہ علاج کو بدل رہے تھے، وہیں وہ ایک دوسرے پر بھی اپنی چھاپ چھوڑ رہے تھے۔
پروفیسر لانگ کہتی ہیں کہ وہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہونے کے باوجود اس لحاظ سے بالکل ایک جییسے ہیں کہ وہ دونوں ہی مشکل کاموں کو کر گزرنے کے لیے ہمیشہ پرعزم ہوتے ہیں۔
ان کے خیال میں پروفیسر سکولر کی بہادری، ایماندری اور ہمیشہ پرعزم رہنے کی خصوصیات انھیں ایک آئیڈیل ساتھی اور دوست بناتی ہیں۔
اس لیے جب پچھلے سال جون کے مہینے میں انھیں سکولر کی بیماری کے بارے میں پتہ چلا تو وہ رات انھوں نے روتے ہوئے گزاری۔
’میں صدمے میں تھی۔ مجھے لگا کہ ایک سال میں میرا دوست مجھ سے دور چلا جائے گا۔‘
مگر اگلی صبح انھوں نے ہمت پکڑی اور کتابیں اور جدید طبی تحقیقات کھنگالنی شروع کیں اور ساتھ ہی دنیا بھر کے ڈاکٹروں سے اس بارے میں رابطے شروع کیے۔
گلیوبلاسٹومس دماغ کے مربوط ٹشوز میں پایا جاتا ہے اور بہت تیزی سے پھیلتا ہے۔ عام طور پر، اس کی تشخیص کے فوراً بعد آپریشن سے اس ٹیومر کو نکال کر مریض کی ریڈیو اور کیمو تھراپی کی جاتی ہے۔
اس بیماری سے صحتیابی کی شرح بہت کم ہے اور صرف پانچ فیصد لوگ پانچ سال سے زائد عرصے زندہ رہتے ہیں۔
پروفیسر لانگ نے میلانوما میں کام کرنے والی چیزوں کی بنیاد پر پروفیسر سکولر کے علاج کے لیے ایک منصوبہ تیار کیا۔ لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کا استعمال دماغ کے کینسر کے لیے کبھی نہیں کیا گیا تھا۔
نئے طریقہ علاج کے خطرات
پروفیسر لانگ اور ان کی ٹیم نے میلانوما کے علاج میں دریافت کیا تھا کہ امیونو تھراپی اس وقت بہتر کام کرتی ہے جب دوائیوں کا مرکب استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ، ان دوائیوں کا استعمال ٹیومر کو ہٹانے کے لیے کسی بھی سرجری سے پہلے کیا جائے۔
یہ بالکل ایسا ہے کہ جیسے آپ ایک سونگھنے والے کتے کو تربیت دیتے ہیں اور آپ اسے ممنوعہ چیز کی بو سونگھا دیتے ہیں، یہاں ممنوعی اشیا کی جگہ کینسر کے خلیات ہوتے ہیں۔
پروفیسر سکولر ازراہ مذاق کہتے ہیں کہ اس طریقہ علاج کا استعمال تو بالکل سیدھی بات تھی۔
لیکن حقیقت یہ تھی کہ یہ طریقہ خطرات سے مبرّا نہیں تھا۔
کچھ ڈاکٹروں کا خیال تھا کہ شاید یہ دوا دماغ تک پہنچ ہی نہ سکے۔ یا پھر اگر پہنچ بھی گئی، تو جسم کا مدافعتی نظام شاید اس پر حرکت میں نہ آئے۔
ڈاکٹروں کو یہ بھی خدشہ تھا کہ اس کے نتیجے میں پروفیسر سکولر کی موت جلدی نہ واقع ہو جائے۔
کچھ برین ٹیومرز اتنی تیزی سے بڑھتے ہیں کہ سرجری کو دو ہفتے ٹالنا بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔ امیونوتھراپی کی ادویات کافی زہریلی ہوتی ہیں خاص طور پر جب ان کا مرکب بنا کر دیا جائے۔ اس لیے خطرہ تھا کہ اس سے پروفیسر سکولر کے جسم میں زہر بھی پھیل سکتا ہے۔ ڈاکٹروں کو خدشہ تھا کہ اگر ان دونوں میں سے کسی بھی چیز کی وجہ سے ان کے دماغ میں سوزش ہوئی تو اس سے ان کی فوری موت واقع ہو سکتی ہے۔
دوسری جانب لوگوں کو لگ رہا تھا کہ اپنی دوستی میں بہہ کر پروفیسر لانگ صحیح فیصلہ نہیں لے پا رہی ہیں۔
پروفیسر لانگ کہتی ہیں کہ ’وہ کہہ رہے تھے کہ نیورو آنکولوجی کے ماہرین کو اپنا کام کرنے دیں اور آپ بس اپنی دوستی نبھائیں‘۔
’[لیکن] انھیں ہماری ضرورت تھی۔۔۔ ہمارے پاس اتنا علم تھا، یہ ہمارا فرض تھا۔‘
اور اس طرح پروفیسر لانگ اور ماہرین کی ایک ٹیم کی زیرِ نگرانی پروفیسر سکولیر دماغ کے کینسر کے پہلے مریض بن گئے جنھیں سرجری سے پہلے امیونو تھراپی (امیونٹی پیدا کرنے کے لیے استعمال ہونے والے طریقہ علاج) سے گزارا گیا۔
وہ پہلے شخص تھے جنھیں ان کے کینسر کی قسم کے حساب سے ذاتی نوعیت کی ویکسین لگائی گئی ہے، جو ادویات میں کینسر کا پتہ لگانے کی صلاحیت کو بڑھاتی ہے۔
’امید کی ایک کرن‘
ابتدائی سکین نے ان کی زندگیوں کو گھن چکر بنا کر رکھ دیا تھا مگر پروفیسر سکولر اور پروفیسر لانگ نے ایک اور ٹیسٹ کے نتائج کو دیکھا۔
یہ اس ٹیومر پر کیا گیا تجزیہ تھا جسے پروفیسر سکولر کی کھوپڑی سے احتیاط سے نکالا گیا تھا۔
وہ کہتے ہیں کہ ان نتائج سے انھیں بہت خوش کیا ’اس سے ہمیں پتا چلا کہ ان کا تجربہ کامیاب رہا ہے۔‘
ٹیومر میں نہ صرف دوائیوں کے نشانات تھے ( جو یہ ثابت کرتا تھا کہ دوا ان کے دماغ تک پہنچ چکی ہے) اس کے علاوہ انھوں نے اس حصے میں مدافعتی خلیوں کو بھی بڑھتے دیکھا جو ’فعال‘ تھے جس سے ٹیم کو امید ہوئی کہ یہ ان کے کینسر والے خلیوں پر حملہ کر رہے ہوں گے۔
سرجری کے بعد گلیوبلاسٹوما کینسر کے واپس آنے کا اوسط وقت تقریباً چھ ماہ ہے۔ لیکن آٹھ ماہ اورمسلسل امیونو تھراپی کے بعد، پروفیسر سکولر فعال کینسر کی کوئی علامت نہیں دکھا رہے ہیں۔
ابھی پچھلے ہفتے ہی ایک اور سکین صاف آیا ہے اور پروفیسر لانگ کا کہنا ہے کہ ان کا دماغ پہلے والی حالت میں واپس آ رہا ہے۔
اب تک کے نتائج بہت حوصلہ افزا رہے ہیں۔
امید کی جا رہی ہے کہ یہ پروفیسر سکولر کی زندگی کو طول دے سکتا ہے۔
لیکن یہ امید بھی کی جا رہی ہے کہ شاید یہ جوڑی ایک ایسی دریافت کے قریب ہے جو ہر سال دماغی کیسنر کے تین لاکھ مریضوں کی مدد کر سکتی ہے۔
اس قسم کی تحقیق میں عام طور پر برسوں یا شاید دہائیاں لگیں- لیکن جو کچھ پروفیسر سکولر اور پروفیسر لانگ نے محض مہینوں میں حاصل کر لیا ہے اس سے دوا ساز کمپنیوں کی دلچسپی ان کی جانب مبذول ہو چکی ہے اور کلینیکل ٹرائلز کی بات کی جا رہی ہے۔
راجر سٹوپ، وہ ڈاکٹر جن کے نام پر گلیوبلاسٹومس کے علاج والے موجودہ پروٹوکول کا نام دیا گیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ پروفیسر سکولر کی تشخیص کمال ہے، تاہم ابھی یہ کہنا قبل از وقت ہو گا کہ آیا یہ علاج کام کر رہا ہے یا نہیں۔
شکاگو سے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ وعدہ ایک مشکل لفظ ہے تاہم میں اسے حوصلہ افزا ضرور کہوں گا۔۔ یہ انقلاب نہیں مگر مستقبل کی جانب ایک قدم ضرور ہے۔
وہ صرف اسی صورت میں اس طریقہ علاج پر قائل ہوں گے اگر وہ پروفیسر سکولر کو 12 بلکہ 18 ماہ کینسر کے بغیر دیکھ پائیں۔
لیکن ڈاکٹر سٹوپ کا کہنا ہے کہ وہ ’مکمل طور پر‘ پراعتماد ہیں کہ امیونو تھراپی دماغی کینسر کے علاج کو بدل سکتی ہے ۔
وہ کہتے ہیں کہ ہمیں یہ بھی دیکھنا ہے کہ ٹیومر کی دوسری اقسام کے علاج میں کیا طریقے کام آئے۔
سب سے بہتر صورت یہ ہو گی کہ پروفیسر سکولر صحت مند ہو جائیں۔۔۔ پروفیسر سکولر پرامید ہیں اور کہتے ہیں کہ ’معجزہ ہو سکتا ہے‘۔
انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ میں برے دنوں کو شکست دے چکا ہوں ورنہ اب تک مر چکا ہوتا۔
انھوں نے دسمبر میں اپنی 57 ویں سالگرہ منائی اور اپنے خاندان، اہلیہ کیٹی اور بچوں کے سات کرسمس بھی منائی۔
لیکن ہر صاف (کلیئر) سکین اور خیریت سے گزرتے دنوں کے ساتھ، انھیں یہ خوف بھی ہے کہ یہ آخری دن بھی ہو سکتا ہے۔
پروفیسر لانگ کا اپنے دوست کے علاج کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ آسان نہیں ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ انھوں نے مرنے اور تدفین کے بارے میں بھی بات چیت کی ہے اور ان کے رویے میں بہت لچک ہے۔
لیکن اپنے دفتر میں بچوں کی تصویروں، ایک وائٹ بورڈ پر لکھے ہوئے کاموں کی فہرست اور فریم شدہ تعریفوں سے بھری شیلف سے گھرے۔۔۔ پروفیسر سکولر رو پڑے۔
|ظاہری طور پر ان کا رویہ بہت مثبت ہے مگر وہ تسلیم کرتے ہیں کہ وہ خوفزدہ اور خوفناک حد تک اداس بھی ہیں۔
وہ مسکراتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’میں اپنے خاندان سے پیار کرتا ہوں۔ میں اپنی بیوی سے پیار کرتا ہوں۔۔۔ مجھے اپنا کام پسند ہے‘۔
’میں غصے میں ہوں مگر میں مرنا نہیں چاہتا۔‘
لیکن یہ خیال انھیں تسلی دیتا ہے کہ یہ تحقیق ان کے علاج میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے اور ان کی زندگی کو نئے معنی اور مقصد دے سکتی ہے۔
’وہ کہتے ہیں کہ ’میں جانتا ہوں کہ جو ڈیٹا تیار کیا ہے یہ اس فیلڈ مںی تبدیلی لا رہا ہےاور اگر کل میں مر بھی جاؤں تومجھے بہت فخر ہے۔‘
وہ ڈاکٹر جنھوں نے مریضوں کا پاخانہ کھا کر ثابت کیا کہ اُن کی بیماری کی وجہ جراثیم نہیںموت کا شعوری تجربہ کرنے والے لوگ جنھیں ’جسم میں واپس لوٹنے کا احساس ہوا‘ نوبیل انعام یافتہ خاتون سائنسدان جن کی نوٹ بکس کو چھونا انسانی جان لے سکتا ہے