خلیل ایک پرسکون اور تاریک کونے کی تلاش میں رہتے ہیں، جہاں انھیں کوئی آواز سُنائی نہ دے، نہ تو روشنی ہو اور نہ ہی کسی بھی قسم کی کوئی بدبو۔۔۔ وہ ایسا تب کرتے ہیں کہ جن انھیں مائیگرین یا دردِ شقیقہ ہوتا ہے۔
خلیل کو دردِ شقیقہ میں اضافے کے ساتھ ہی شدید گھبراہٹ محسوس ہوتی ہے اور اُن کے مزاج یا موڈ میں تبدیلی کے علاوہ بعض اوقات قے بھی محسوس ہوتی ہے۔
ایک نوجوان فوٹوگرافر خلیل کا کہنا ہے کہ ’جب درد ہونا شروع ہوتا ہے تو مجھے لگتا ہے کہ میرا دن ختم ہو گیا ہے، مجھے خود پر غصہ آتا ہے اور کبھی کبھی مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں خود سے نفرت کرتا ہوں۔‘
دردِ شقیقہ نے خلیل کو اپنا طرز زندگی تبدیل کرنے اور بعض صحت مند غذاؤں کے استعمال کی ترغیب دی ہے، جس سے انھیں درد کی اذیت سے بچنے میں مدد ملتی ہے جیسا کہ باقاعدگی سے ناشتہ اور کافی پینا، لیکن جب بھی رمضان کا مہینہ قریب آتا ہے تو خلیل کو ایک عجیب سے پریشانی لاحق ہو جاتی ہے، اور وہ یہ کہ اس مہینے میں تبدیل ہونے والی روٹین کا اُن پر نا جانے کیا اثر ہوگا۔ بعض اوقات تو وہ اسی پریشانی اور دردِ شقیقہ کی وجہ سے پورا مہینہ روزہ رکھنے سے محروم ہوجاتے ہیں۔
نیورو سرجن ڈاکٹر احمد التمیمی نے بی بی سی کو بتایا کہ ماہ رمضان کے دوران مائیگرین یا دردِ شقیقہ کے امکانات تعداد اور شدت میں بڑھ جاتے ہیں لہٰذا مریضوں کو غذا اور طرز زندگی کے طریقوں کا علم ہونا چاہیے جن پر عمل کر کے درد کو کم کیا جا سکتا ہے جب کہ غذائی ماہر فاطین النشاش کا کہنا ہے کہ رمضان کے آغاز سے قبل کچھ تیاری مریضوں کو دردِ شقیقہ کے حملوں اور اس کی شدت کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
مائیگرین یا دردِ شقیقہ ہے کیا؟
ڈاکٹر التمیمی کا کہنا ہے کہ مائیگرین ایک دائمی اعصابی عارضہ ہے جس کے دوبارہ ابھرنے کی خصوصیت اکثر معتدل سے لے کر شدید تک ہوتی ہے، یہ عام طور پر سر کے ایک طرف ہوتا ہے، یہ دیگر سر درد سے مختلف ہوتا ہے اور یہ درد مسلسل دو سے تین دن تک جاری بھی رہ سکتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق مائیگرین کی اصل وجہ ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہے تاہم تنظیم کے مطابق یہ دنیا بھر میں ہر سات میں سے ایک بالغ کو متاثر کرتا ہے، 2014 میں جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق یہ مردوں کے مقابلے میں خواتین میں تین گنا زیادہ عام ہے، کیونکہ خواتین میں ہارمونل تبدیلیوں کے ساتھ نشوونما کے امکانات بڑھ جاتے ہیں اور یہ درد عام طور پر متلی، قے، روشنی اور تیز یا اُنچی آواز کے ساتھ شروع ہوتا ہے۔
التمیمی نے وضاحت کی کہ مائیگرین یا دردِ شقیقہ کے حملے کے دوران اور بعد میں مریض کی کسی بھی کام میں توجہ بنائے رکھنے کی صلاحیتوں اور مزاج متاثر ہوتے ہیں، جس سے اس کے روزمرہ کے کام متاثر ہوتے ہیں۔ دورے کے دوران علامات کے علاوہ، مختصر وقت کے لئے یا مستقل طور پر،ختم ہونے کے بعد بھی اس درد کی علامات رہتی ہیں، جیسے ڈپریشن، کسی بھی کام پر فوکس کا نہ ہونا اور بولنے میں دشواری وغیرہ۔
تمیمی کے مطابق اب تک مائیگرین کا کوئی دائمی علاج نہیں ہے یعنی ایسی کوئی دوا نہیں ہے جو مریض کو ہمیشہ کے لیے ٹھیک کر دے، لیکن ایسی متعدد دوائیں ہیں جو دورے کی شدت کے مطابق مریضوں کو تجویز کی جاتی ہیں، جن میں سے کچھ دورے اور اس سے وابستہ علامات کو ختم کر سکتی ہیں، اور ان میں سے کچھ اس کی فریکوئنسی یا شدت کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔
رمضان المبارک میں مریض کس طرح متاثر ہو سکتے ہیں؟
مائیگرین میں مبتلا کریمہ الحلاوی رمضان کے پورے مہینے میں مسلسل پریشان رہتی ہیں، انھیں ڈر ہوتا ہے کہ روزے کے دوران کسی بھی وقت درد شروع ہو جائے گا اور وہ روزہ کی حالت میں ہونے کی وجہ سے دوا کا استعمال نہیں کر سکیں گی، اور ایسا کرنے کی وجہ سے درد کی شدت میں اضافہ ہو جائے گا، لہذا وہ دردِ شقیقہ کے حملے کی وجہ سے پریشان بھی رہتی ہیں اور اس سے بچنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔
ڈاکٹر تمیمی کا کہنا ہے کہ رمضان کے دوران سر درد کا امکان جسم میں لیکوڈز یا پانی کی کمی، شریانوں میں تناؤ کے ساتھ شوگر کی نمایاں کمی اور کم کیفین کی وجہ سے بڑھ جاتا ہے، یہ سب اس درد کے دورے میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔
اُن کا کہنا ہے کہ سحری کے وقت مطلوبہ دوا کا استعمال فائدہ مند ہو سکتا ہے، افطار کے بعد کافی مقدار میں پانی کا استعمال’ اور رمضان میں تمام سماجی سرگرمیوں اور لوگوں اور رشتہ داروں سے رابطے کو کم کرنا، یہ سب اہم باتیں ہیں تاہم شور، پریشانی اور دیر تک جاگنے کی عادت ترک کرنا اور زیادہ سونے کو یقینی بنانا بھی فائدہ مند ہو سکتا ہے۔
کریمہ کے خیال کے برعکس مائیگرین کے مریض کے لیے سحری میں جاگنا اور کُچھ نہ کھانا غلط ہے، غذائی ماہر فاطین النشاش کے مطابق، یہ کھانا بلڈ شوگر لیول کو بہتر رکھنے کے لیے اہم ہے لیکن اس میں دورے کا سبب نہ بننے والی صحت مند غذائیں شامل ہونی چاہیں۔
النشاش کا کہنا ہے کہ رمضان کے شروع کے ایام عام طور پر مائیگرین کے مریضوں کے لیے تشویش کا باعث ہوتے ہیں، جس کی وجہ غذا اور طرز زندگی میں اچانک تبدیلی ہوتی ہے۔
مائیگرین کا مریض رمضان کی تیاری کیسے کر سکتا ہے؟
النشاش کی جانب سے بہت سی تجاویز پیش کی گئی ہیں، جس کا آغاز آہستہ آہستہ کافی اور محرکات کی مقدار کو کم کرنے سے ہوتا ہے، حتیٰ کہ رمضان کا مہینہ شروع ہونے پر وہ کم سے کم نہ ہوجائیں۔
کافی پینے کی مقدار کو بھی کم کرنا، دن میں کھانوں کے درمیان کسی بھی درمیانی یا ہلکے کھانے کی عادت کو کم کرنا، مناسب مقدار میں پانی پی کر مسلسل ہائیڈریشن کو برقرار رکھنے کے علاوہ نیند کو بہتر بنانے اور اسے رمضان کے مطابق ایڈجسٹ کرنا اہم ہیں۔
خواتین کو میگنیشیم سے بھرپور غذائیں کھانے کا بھی مشورہ دیا جاتا ہے جو حیض کے دوران خون کی شریانوں کو آرام دینے میں مدد دیتی ہیں، خاص طور پر سبزیاں، اس کے علاوہ مچھلی میں دستیاب اچھے فیٹی ایسڈز فائدہ مند ہیں۔
اگر کسی شخص کو لگتا ہے کہ اس کے سر میں درد ہوسکتا ہے تو وہ مشورہ دیتی ہے کہ ایسی غذاؤں سے دور رہیں جو سر درد کا سبب بن سکتی ہیں جیسے چاکلیٹ، ڈیری اور پنیر، خاص طور پر سحری کے کھانے کے دوران اور ان کی جگہ کاربوہائیڈریٹ جیسے براؤن بریڈ، پھلیاں، چنے، اوٹس اور جو کی روٹی، فائبر والی کوئی بھی غذائیں اور سبزیاں جن میں پوٹاشیم موجود ہو، کھجور اور کیلے کھانے شامل ہیں۔
النشاش اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ کسی شخص کی روزہ رکھنے یا نہ رکھنے کی صلاحیت کا انحصار علاج کرنے والے ڈاکٹر پر ہوتا ہے، دورے کے مطابق ان کی فریکوئنسی اور شدت، مثال کے طور پر سر درد سے منسلک مسلسل قے کی صورت میں مریض کو لیکوئڈزاور پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
جبکہ التمیمی کا کہنا ہے کہ جن مریضوں کو دردِ شقیقہ کا حملہ زیادہ سخت نہ ہو اور وہ درد سے نمٹ سکتے ہوں وہ معمول کے مطابق روزہ رکھ سکتے ہیں، لیکن بار بار حملے اور شدت بڑھنے کی صورت میں وہ مریض کو درد کم کرنے کے لیے علاج اور پانی پینے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اسی بارے میں80 سے زیادہ ممالک میں استعمال ہونے والی مائگرین یا آدھے سر کے درد کی دوا کتنی مؤثرثابت ہو رہی ہے؟میگرین: آدھے سر کا درد خواتین کو کیوں زیادہ متاثر کرتا ہے؟’ترک اچار میں چھپا ہے سر درد کا علاج‘