Getty Images
’صدر پرویز مشرف کے مشیر قومی سلامتی طارق عزیز نے مجھے بتایا ہے کہ وہ (طارق) گذشتہ چار روز کے دوران آصف زرداری سے دو مرتبہ ملاقات کر چکے ہیں۔‘
وکی لیکس کی جانب سے افشا کی جانے والی امریکی سفارتی دستاویزات کے مطابق یہ بات امریکی سفیر این پیٹرسن نے 16 فروری 2008 کو امریکی حکومت کو لکھے گئے اپنے مراسلے میں تحریر کی تھیں۔
یاد رہے کہ پاکستان میں عام انتخابات 18 فروری 2008 کو ہوئے تھے اور وکی لیکس کی جانب سے افشا کی جانے والی دستاویزات کے مطابق ان انتخابات سے قبل آصف زرداری نے سابق صدر پرویز مشرف کے مشیر طارق عزیز سے مشورہ کیا تھا کہ اگر پیپلز پارٹی انتخابات جیت گئی تو کسے وزیر اعظم بنایا جائے؟
تاہم دستاویزات کے مطابق طارق عزیز اور اُس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ندیم تاج آصف زرداری کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے تھے کہ وہ وزیراعظم نہ بنیں اور پارٹی کے سینئیر نائب صدر مخدوم امین فہیم کی اس عہدے کے لیے حمایت کریں۔
این پیٹرسن کی جانب سے سات فروری 2008 کو لکھے گئے ایک اور مراسلے کے مطابق مشیر قومی سلامتی طارق عزیز نے انھیں (این پیٹرسن) بتایا کہ صدر مشرف نے آصف زرداری کے وزیراعظم بنائے جانے کی تجویز کو سختی سے مسترد کر دیا۔
مراسلے کے مطابق طارق عزیز کا کہنا تھا کہ جس ڈیل کے نتیجے میں بے نظیر بھٹو کی واپسی ہوئی تھی اسی کے ذریعے آصف زرداری کے وزیر اعظم بننے سے صدر مشرف کی ساکھ متاثر ہو سکتی ہے۔
مراسلے کے مطابق ’طارق عزیز نے کہا کہ زرداری اگر پس پردہ رہیں اور اپنی پارٹی کی قیادت کریں تو اُن کی حمایت کی جائے گی۔ عزیز نے کہا کہ یہ صورتحال موجودہ (فوجی) قیادت کے لیے بہتر ہو گی کیونکہ بینظیر بھٹو کے مقابلے میں زرداری کے ساتھ معاملات طے کرنا زیادہ آسان ہے۔۔۔‘
لگ بھگ ڈیڑھ دہائی قبل وکی لیکس کے ذریعے افشا ہونے والی ان امریکی سفارتی دستاویزات اور ان میں لکھے گئے واقعات سے متعلق سابق صدر زرداری یا پاکستان پیپلز پارٹی نے کبھی کوئی ردعمل نہیں دیا ہے۔
تاہم یہ حقیقت ہے کہ سنہ 2008 کے انتخابات کے بعد آصف زرداری وزیراعظم نہیں بلکہ صدرِ پاکستان کے انتخاب کے بعد صدر منتخب ہوئے تھے۔
آج ہونے والے صدارتی انتخاب کے نتیجے میں آصف زرداری پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہوئے ہیں یوں وہ پاکستان کے پہلے ایسے سیاستدان بن گئے ہیں جو دو مرتبہ منصب صدارت پر فائز ہوئے ہیں۔
اس رپورٹ میں ہم نے آصف علی زرداری کی سیاسی زندگی کا تفصیلی احاطہ کیا ہے، تو چلیے شروع کرتے ہیں ’کونسلر‘ کے اس انتحاب سے جس میں آصف زرداری کو شکست ہوئی تھی۔
Getty Imagesجب آصف زرداری کونسلر کا الیکشن ہارے
سنہ 1955 میں پیدا ہونے والے آصف علی زرداری اپنے والدین کے اکلوتے بیٹے ہیں اور اُن کی تین بہنیں ہیں۔ آصف زرداری نے ابتدائی تعلیم سینٹ پیٹرک سکول سے حاصل کی جس کے بعد وہ پٹارو کیڈٹ کالج چلے گئے اور اُن کی آفیشل بائیو گرافی کے مطابق انھوں نے لندن سے بزنس میں گریجوئیشن مکمل کی ہے۔
آصف زرداری کے والد حاکم علی زرداری زمینداری کے علاوہ کراچی میں سنیما گھروں اور تعمیراتی شعبے سے منسلک تھے اور کسی زمانے میں وہ شیخ مجیب کی عوامی نیشنل پارٹی کا حصہ بھی رہے تھے۔ پاکستان الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق حاکم زرداری سنہ 1985 میں جنرل ضیاالحق کے دور میں غیر جماعتی بنیادوں پر ہونے والے انتخابات میں نوابشاہ سے قومی اسمبلی کا الیکشن لڑے لیکن ہار گئے۔
اپنے والد سے قبل آصف علی زرداری نوابشاہ کی ضلعی کونسل کے انتخابات میں حصہ لے چکے تھے، جہاں انھیں شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ سنہ 1983 کا یہ وہ دور تھا جب سندھ میں بحالی جمہوریت کی تحریک زوروں پر تھی اور اُسی سال نوابشاہ کے شہر سکرنڈ کے قریب میں ’پنھل چانڈیو‘ نامی گاؤں میں فوج کی فائرنگ میں پیپلز پارٹی کے 16 کارکن ہلاک جبکہ پچاس زخمی ہو گئے تھے۔
ملکی اور غیر ملکی ذرائع ابلاغ میں آصف زرداری کو ’زیرک‘ سیاستدان کے طور پر بیان کیا جاتا ہے۔
پاکستان کے عوام سنہ 1987 سے قبل آصف زرداری کے نام سے ناآشنا تھے۔ اور پھر جب دسمبر 1987 میں اُن کی شادی سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی اور سابق وزیراعظم بینظیر بھٹو سے ہوئی تو اسی نسبت سے اُن کا نام ملک بھر میں جانا پہچانا بن گیا۔
اس شادی کے اگلے ہی برس یعنی 1988 میں ہونے والے عام انتخابات میں بھٹو کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کی اور بینظیر بھٹو ملک کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ بینظیر اپنے ساتھ اپنے شوہر کو بھی وزیر اعظم ہاؤس لے آئیں، اور یہی وہ وقت تھا جہاں سے آصف زرداری کی سیاست، ان سے منسلک تنازعات اور مبینہ بدعنوانی کے مقدمات کے سلسلے کا آغاز ہوا۔
Getty Imagesالزامات جو عدالتوں میں ثابت نہ ہو سکے
صدر غلام اسحاق خان نے بینظیر بھٹو کی حکومت کو منتخب ہونے کے دو برسوں کے اندر ہی برطرف کر دیا اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں۔ اسمبلیوں کی تحلیل اور ملک میں نواز شریف کی مسلم لیگ کی حکومت آنے کے کچھ ہی عرصے بعد 10 اکتوبر 1990 کو آصف زرداری پہلی مرتبہ گرفتار ہوئے اور جب نواز شریف کی حکومت برطرف ہوئی تو فروری 1993 میں انھیں رہائی ملی۔
آصف زرداری پر مالی بدعنوانی، اغوا، اختیارات کے ناجائز استعمال جیسے الزامات عائد کیے گئے تھے، جو کبھی عدالتوں میں ثابت نہیں ہو پائے۔
نوے کی دہائی کا یہی وہ دور تھا جب مبینہ طور پر سرکاری ٹھیکوں میں کرپشن جیسے الزامات کے باعث اُن کے نام کے ساتھ ’مسٹر ٹین پرسنٹ‘ کا لاحقہ جوڑا گیا جس نے دہائیوں تک اُن کا پیچھا کیا۔ اور یہ بھی وہ الزام تھا جو کبھی عدالت میں ثابت نہیں ہوا۔
سنہ1993 میں ہونے والے عام انتخابات میں پیپلز پارٹی نے ایک بار پھر کامیابی حاصل کی اور بینظیر بھٹو دوسری بار وزیر اعظم بنیں تاہم یہ حکومت بھی اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکی اور نومبر 1996 میں اسے برطرف کر دیا گیا۔
بینظیر کے دوسرے دور حکومت میں آصف زرداری پر سیاسی جوڑ توڑ اور کرپشن جیسے الزامات عائد کیے گئے۔ بینظیر کی دوسری حکومت کی برطرفی سے قبل آصف زرداری دبئی میں تھے اور دبئی سے پاکستان واپسی پر اگلے ہی روز انھیں ایک مرتبہ پھر انھیں گرفتار کر لیا گیا۔
Getty Imagesطویل ترین اسیری
تاہم دوسری مرتبہ ہونے والی ان کی گرفتاری طویل تھی۔ آصف زرداری کی اسیری کے دوران پاکستان میں دو حکومتیں تبدیل ہوئیں جس میں پہلے نواز شریف اور اس کے بعد جنرل مشرف کا مارشل لا آیا۔ اگرچہ اس وقت کی پیپلز پارٹی کی قیادت کا خیال تھا کہ حکومت کی تبدیلی سے زرداری کی رہائی ممکن ہو پائے گی تاہم ایسا نہ ہوا۔
آصف زرداری پر کرپشن، منی لانڈرنگ اور قتل جیسے سنگین الزامات تھے۔ ان پر بینظیر بھٹو کے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا الزام بھی تھا تاہم بعدازاں اس میں انھیں بری کر دیا گیا۔
آصف زرداری کی سنہ 2004 میں رہائی اس وقت تک عمل میں نہیں آئی جب تک جنرل پرویز مشرف نے قومی مصالحاتی آرڈیننس یعنی این آر او جاری نہیں کیا جس کے تحت ان پر دائر مقدمات معطل ہوئے اور بعدازاں ان مقدمات میں ان کی عدالتوں سے بریت بھی ہوئی۔
طویل اسیری کی وجہ سے وہ پاکستان میں ماضی قریب میں جیل میں سب سے زیادہ وقت گزارنے والے سیاست دان بن گئے، اگرچہ بعد ازاں دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں انھوں نے تسلیم کیا کہ انھوں نے جیل میں گزرے وقت سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ اُن کی غیر موجودگی میں بچوں کی پرورش کی مکمل ذمہ داری بینظیر بھٹو کے پاس رہی۔
اسیری کے دوران برطانوی اخبار ’گارڈیئن‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بڑے ہوتے ہوئے دیکھنے کی خوشی سے محروم ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ باغ میں چہل قدمی کرنے، اپنے حلقے نواب شاہ کی دھول اور گرمی، اپنے قبیلے کے افراد اور اپنے سیاسی ساتھیوں سے ملاقاتوں اور اپنے دوستوں کے ساتھ گپ شپ اور قہقہے لگانے اور پولو میچ میں حصہ لینے سے قاصر ہیں۔
رہائی کے بعد وہ پہلے دبئی اور بعد میں امریکہ چلے گئے۔
Getty Images’پاکستان کھپے‘: مرکزی دھارے کی سیاست
بینظیر بھٹو نے جب 18 اکتوبر 2007 کو خود ساختہ جلا وطنی ختم کرکے پاکستان واپس آنے کا فیصلہ کیا تو آصف زرداری اپنے بچوں کے ساتھ دبئی میں موجود رہے۔
راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 27 دسمبر 2007 کو ہونے والے ایک خودکش حملے میں بینطیر بھٹو کی وفات کے بعد وہ وطن واپس آئے اور اپنی اہلیہ کی تدفین کے بعد جب مشتعل افراد کی جانب سے ’نہ کھپے پاکستان‘ کا نعرہ لگایا گیا تو زرداری نے اپنے پہلے پہلے عوامی خطاب میں ’پاکستان کھپے‘ کا نعرہ بلند کیا، جو بعد میں اُن کی پاکستان پیپلز پارٹی اور خود آصف زرداری کی سیاست کا نعرہ بن کر سامنے آیا۔
پیپلز پارٹی کی قیادت اپنے پاس رکھنے کے بجائے انھوں نے اسے اپنے نوجوان زیر تعلیم بیٹے بلاول بھٹو کے سپرد کر دیا اور اُن کا نام بلاول زرداری سے بدل کر ’بلاول بھٹو زرداری‘ کے طور پر متعارف کروایا۔ یہ ایک بہتر حکمت عملی ثابت ہوئی اور اس طرح انھیں پارٹی میں کسی مخالفت یا مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا جبکہ حقیقت میں پارٹی سنبھال وہ رہے تھے لیکن سربراہی بلاول کے پاس تھی۔
سنہ 2008 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے کامیابی حاصل کی اور وزیر اعظم کے لیے یوسف رضا گیلانی کو امیدوار نامزد کیا گیا حالانکہ اس سے قبل عام رائے یہ تھی کہ یہ منصب سندھ سے تعلق رکھنے والے پی پی پی کے سینیئر رہنما مخدوم امین فہیم کو ملے گا۔ تاہم یہ پہلی بار تھا کہ پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم سندھ سے نہیں بلکہ پنجاب سے تھا۔
پیپلز پارٹی کی حکومت کا ابتدا میں مسلم لیگ ن نے بھی ساتھ دیا لیکن یہ اتحاد دیرپا ثابت نہیں ہوا۔ جنرل مشرف کی جانب سے معزول کیے گئے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججز کی بحالی کے معاملے پر فریقین میں اختلافات سامنے آئے۔ صدر مشرف کا مواخذہ کرنے کے معاملے پر بھی دونوں کا اتفاق تھا تاہم اسی عرصے میں زرداری کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ ’اگر مشرف مستعفی ہو جائیں تو انھیں محفوظ راستہ فراہم کیا جا سکتا ہے۔‘ بالاخر مشرف مستعفی ہو گئے اور زرداری اس منصب کے لیے خود امیدوار بن گئے۔
ایم کیو ایم، اے این پی، جمعیت علمائے اسلام، آفتاب شیر پاؤ اور مسلم لیگ ق کے فارورڈ بلاک نے اُن کی اس عہدے کے لیے حمایت کی جبکہ ان کے سامنے مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق نے اپنے امیدوار کھڑے کیے جو ہار گئے۔
Getty Imagesمدت پوری کرنے والے پہلے صدر
آصف زرداری 2008سے 2013 تک پاکستان کے صدر رہے۔ وہ پہلے سویلین صدر تھے جنھوں نے اپنی مدت پوری کی۔
دور صدارت میں ان کے قابل ذکر فیصلوں میں اسمبلی کی معطلی کے اختیارات پارلیمان کو واپس کرنا، 18ویں آئینی ترمیم کے ذریعے صوبائی خود مختیاری بحال کرنا، فاٹا اصلاحات، آغاز حقوق بلوچستان اور نیشنل فنانس کمیشن ایوارڈ کے فارمولے کی از سر نو تشکیل، گلگت بلتستان کی خودمختاری اور صوبہ سرحد کو خیبر پختونخوا کا نام دینا شامل ہیں۔
Getty Imagesاسٹیبلشمنٹ سے عدم ٹکراؤ کی پالیسی
جنرل پرویز مشرف کی پاکستان پر 8 سالہ حکمرانی کے بعد آصف زرداری نے جب سویلین صدر کا منصب سنبھالا تو انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں توازن کی کوشش کی۔
وکی لیکس میں افشا کی گئی سفارتی دستاویزات کے مطابق امریکی سفیر پیٹرسن نے اپنی حکومت کو لکھے گئے ایک مراسلے میں کہا کہ اشفاق کیانی (سابق آرمی چیف) یہ اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ زرداری کو ہٹانا چاہتے ہیں تاہم اُن ہی دنوں میں آصف زرداری کا یہ بیان بھی سامنے آیا تھا کہ وہ ’ایوان صدر سے ایمبولینس میں باہر نکلیں گے۔‘
پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ٹکرانے والے سیاست دانوں کی عموماً دوبارہ اقتدار میں واپسی کٹھن ہو جاتی ہے تاہم آصف علی زرداری دوسری بار صدر کے منصب پر فائز ہو رہے ہیں تو سوال یہ پیدا ہوا ہے کہ پرویز مشرف اور اشفاق پرویز کیانی سمیت فوجی سربراہان کی ناپسندیدگی کے باوجود وہ اقتدار میں کیسے آ جاتے ہیں؟
تجزیہ کار اور سینیئر صحافی سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’جب سے پیپلز پارٹی کی قیادت زرداری کے پاس آئی ہے، انھوں نے کوشش کی ہے کہ پی پی پی کی اینٹی اسٹیبلشمنٹ سیاست کی شبیہ کو تبدیل کیا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ انھوں نے آج تک کوئی احتجاجی تحریک نہیں چلائی، اور اگر اسٹیبلشمنٹ سے کوئی رنجش ہوئی بھی تو اس کو فی الفور دور کر لیا۔‘
’جب وہ ایوان صدر میں تھے تو میمو گیٹ سکینڈل آیا۔۔۔ یا ایک بار اُن کا جنرل راحیل شریف کے ساتھ تنازع بھی ہوا، لیکن انھوں نے اس کو حل کر لیا تھا اور وہ خود اور اپنی جماعت کو بخوبی دونوں تنازعات سے باہر نکالنے میں کامیاب ہوئے۔ ان کی قیادت میں اب شاید یہی حکمت عملی ہے کہ اب ہم نے نہ جیلیں بھگتنی ہیں اور نہ کوڑے کھانے ہیں۔۔۔ شاید یہی سوچ ہے کہ جب مشکل وقت آتا بھی ہے تو وہ بخوبی اس سے نمٹ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔‘
شہید ذوالفقار علی بھٹو انسٹٹیوٹ آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ آصف زرداری میں سیاسی طور پر لچک زیادہ ہے جو ان کے مدِمقابل سیاسی رہنماؤں نواز شریف اور عمران خان میں کم نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر ریاض کے مطابق آصف زرداری کے پہلے صدارتی دور میں چار، پانچ مواقع ایسے آئے جن کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ ہو سکتا تھا لیکن انھوں نے کامیابی کے ساتھ اس سے بچ کر اسٹیبلشمنٹ کی بات بھی مانی اور معاملات کو آگے بھی بڑھایا۔
بقول ڈاکٹر ریاض پہلا واقعہ ممبئی حملوں کا تھا۔ ’آصف زرداری جیسے ہی اقتدار میں آئے تو اس وقت ممبئی حملے ہو چکے تھے اور آصف زرداری کو اس معاملے کی سنگینی کا شاید زیادہ اندازہ نہیں تھا اور انھوں نے اپنے طور پر یہ کہہ دیا کہ انڈیا الزام لگا رہا ہے تو ہمارا ڈی جی آئی ایس آئی انڈیا چلا جائے اور بات چیت کرکے مسئلے کو حل کرے کیونکہ ہمارے ہاتھ صاف ہیں۔ فوج نے ان کے اس بیان پر تحفظات کا اظہار کیا، جس کے بعد انھوں نے ایک اور بیان میں کہہ دیا کہ ڈی جی آئی ایس آئی نہیں جائے گا۔‘
’انھوں نے اس بات کو انا کا مسئلہ نہیں بنایا۔ اسٹبلشمنٹ کی بات مانی۔ اس کے مقابلے میں اگر عمران خان کا تجزیہ کیا جائے تو جنرل فیض حمید کے معاملے میں انھوں نے انا پرستی دکھائی جس سے ایک نئے تنازع نے جنم لیا۔ اسی طرح نواز شریف کا جہانگیر کرامت کے ساتھ ٹکراؤ ہوا جب انھوں نے قومی سلامتی کونسل بنانے کی بات کی تھی اور نواز شریف نہیں مانے تھے۔ اسی طرح کارگل کے معاملے پر اُن کا مشرف کے ساتھ تنازع ہوا۔۔۔ لیکن آصف زرداری نے اس کے برعکس کسی موقع پر بھی ٹکراؤ کی پالیسی نہیں اپنائی۔‘
ڈاکٹر ریاض شیخ آصف زرداری کے دور صدارت کے ایک اور واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے بتاتے ہیں کہ کابینہ نے فیصلہ کیا کہ انٹلیجنس بیورو اورآئی ایس آئی وفاقی وزارت داخلہ کے ماتحت رہیں گے جس کا نوٹیفیکیشن بھی جاری ہوا مگر اس فیصلے پر اسٹیبلشمنٹ کا شدید رد عمل سامنے آیا اور حکومت کو وہ نوٹیفیکشن واپس لینا پڑا۔
ڈاکٹر ریاض کے مطابق اسی طرح امریکی شہری ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کا معاملہ ہو یا ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کا قصہ، زرداری صحاب نے وہ ہی موقف اختیار کیا جو اسٹیبلشمنٹ کا تھا۔ ’یہ لچک ہی ہے جس کی وجہ سے وہ محفوظ رہے ہیں۔‘
لمز یونیورسٹی کے پروفیسر اور ’پولیٹیکل کانفلیکٹ آف پاکستان‘ نامیکتاب کے مصنف محمد وسیم کہتے ہیں کہ آصف زرداری اسٹیبلشمنٹ کے لیے کبھی خطرہ نہیں رہے۔
پروفیسر وسیم کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے برعکس آصف علی زرداری کبھی کرشماتی شخصیت کے مالک نہیں رہے، وہ براہ راست کبھی عوام میں نہیں گئے اور نہ ہی عوام کو کبھی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف متحرک کیا۔
آصف زرداری نے دوسری مرتبہ صدارتی منصب کیوں سنبھالا؟Getty Images
آصف علی زرداری نے 2008 میں صدارتی الیکشن مسلم لیگ ن کے امیدوار کے خلاف لڑا تاہم اس بار وہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے مشترکہ امیدوار تھے۔ بلاول بھٹو نے چند روز قبل کہا تھا کہ اگرچہ پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کا حصہ نہیں بنے گی تاہم اُن کی خواہش ہے کہ اُن کے والد صدر مملکت بنیں۔
تو سوال یہ ہے کہ آخر آصف علی زرداری نے صدارتی منصب کا ہی انتخابت کیوں کیا؟
ڈاکٹر ریاض شیخ کہتے ہیں کہ صدر کو آئینی طور پر استثنیٰ حاصل ہوتا ہے۔ پاکستانی آئین اور قانون کے مطابق جب تک صدر مملکت ایوان میں ہوتے ہیں اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکتی اور نہ ہی کوئی مقدمہ دائر ہو سکتا ہے۔
’پاکستان ایک پارلیمانی نظام ہے جس میں اصل اختیار وزیر اعظم کے پاس ہوتا ہے۔ تو آصف زرداری یہ تاثر دیں گے کہ جو کام ہو رہا ہے وہ تو مسلم لیگ کی حکومت اور اس کا وزیر اعظم کر رہا ہے۔ اور 18ویں آئینی ترمیم کے بعد تو صدر کے اختیارات کچھ خاص ہیں ہی نہیں تو اس لیے حکومتی فیصلوں کا دوش پیپلز پارٹی کو نہیں دیا جا سکتا۔‘
ڈاکٹر ریاض شیخ کی رائے میں دوسرا یہ ہوگا کہ جب مسلم لیگ ن کی حکومت نجکاری اور دوسرے اسی نوعیت کے سخت معاملات کرے گی تو ہر قانون کو صدر کے پاس سے گزرنا ہو گا، وہ سمری واپس بھیج سکتے ہیں یا اس کی مخالفت کر سکتے ہیں مگر اس کے باوجود کچھ عرصے میں پارلیمان سے ہونے والی قانون سازی خودبخود قانون بن جائے گی مگر دوسری جانب ممکنہ طور پر صدر کو مقبولیت ملے گی کہ انھوں نے ’عوام دشمن‘ بل پر دستخط نہیں کیے اور عوامی ایجنڈے پر بات کی۔
’اس صورت میں بدنامی مسلم لیگ ن کی حکومت ہو گی جبکہ صدر اپنا کام کرکے عوامی ہمدردی بھی لیں گے اور صدارتی کام بھی چلتے رہیں گے۔ ‘
تاہم پروفیسر محمد وسیم آصف زرداری کی جانب سے صدارت سنبھالنے کے فیصلے کو ’کمزور فیصلہ‘ قرار دیتے ہیں۔
اُن کا خیال ہے کہ ’پیپلز پارٹی کی یہ سوچ ہے کہ بظاہر یہ حکومت زیادہ نہیں چلے گی کیونکہ حکومت کو بہت سے معاشی اور سکیورٹی کے سنگین معاملے درپیش ہوں گے لہذا فی القوت کوئی بڑی ذمہ داری نہ لی جائے۔ کیونکہ اگر حکومت کا حصہ بنتے ہیں تو ذمہ داری لینی پڑے گی، لہٰذا صرف آئینی عہدے لیے جائیں جس کا مطلب گورنرز اور صدارت وغیرہ جو پانچ سال تک چل سکیں۔‘
آصف علی زرداری کے لیے چیلنج کیا ہوں گے؟Getty Images
ڈاکٹر ریاض شیخ کا کہنا ہے کہ آصف زرداری جس سیاسی ماحول میں ایوان صدر میں بیٹھیں گے، اس میں انھیں توازن کے ساتھ چلنا ہو گا۔
’ایک طرف خیبر پختونخوا میں عمران خان کی حکومت ہو گی، کئی ایسی چیزیں ہیں جس میں وہ وفاقی حکومت سے رابطہ کریں گے اور جب جواب نہیں ملے گا تو وہ پھر صدر سے رابطہ کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ پنجاب حکومت کو بھی بیلنس کرکے چلنا پڑے گا۔‘
تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’صدر آئینی عہدہ ہے، اس کو انتظامی فیصلے تو نہیں کرنے ہوتے۔ وہ مقتدرہ اور انتظامیہ کے درمیان ایک پُل ہیں اور صوبوں کے درمیان بھی۔ وہ فیڈریشن کی علامت ہیں تو ان کی حیثیت تو علامتی ہے، اس لیے ان کے لیے کوئی خاص چیلنج نہیں ہو گا۔ لہٰذا اُن کو چاہیے کہ حکومت کو چلنے دیں، مقتدرہ اور حکومت کے درمیان اچھے تعلقات کی کوشش کریں، صوبوں میں ہم آہنگی رکھنے کی کوشش کریں اور فیصلہ سازی مثبت انداز میں کریں۔‘
سہیل وڑائچ کے مطابق ’مسلم لیگ ن کو یقین ہے کہ وہ رکاوٹ نہیں بنیں گے۔ اسی لیے خوشی خوشی صدارت پر اتفاق کر لیا گیا۔ اگر انھیں شک شبہ ہوتا کہ یہ کوئی مشکلات پیدا کریں گے تو معاملات اتنی آسانی سے طے نہ پاتے۔‘
پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں ن لیگ میں شہباز شریف کا طرز سیاست آصف زرداری کے طرز سیاست سے میل کھاتا ہے یعنی مفاہمت کی سیاست۔ ’دونوں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ معاملات نبھانے میں ماہر ہیں۔ اسی لیے اس بار شاید تکرار جلدی نہ ہو۔‘
زرداری کی سیاست کو سمجھنے کے لیے پی ایچ ڈی ضروری ہے!شہباز شریف: ٹکراؤ کے مخالف اور اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت کے حامی، نئے پاکستانی وزیرِاعظمعارف علوی: ایوب دور کی گولی سے عمران خان کی قربت اور تنازعات میں گھرے صدارتی دور تکعمران خان: ’قیدی نمبر 804‘ جو اڈیالہ جیل سے بھی حکومت کو مشکل میں مبتلا رکھے ہوئے ہے