Reuters
مالدیپ کے چین سے قربت بڑھانے کے بعد انڈیا اتوار کے روز مالدیپ میں تعینات اپنے فوجی اہلکاروں کو واپس بلا رہا ہے۔
مالدیپ میں انڈیا کے تقریباً 80 فوجی اہلکار تعینات ہیں جن کا اب مرحلہ وار انخلا ہو گا۔ انڈین فوجیوں کو چین نواز سمجھے جانے والے مالدیپ کے نئے صدر محمد معیزو کی طرف سے اس ضمن میں دی گئی ڈیڈ لائن کے مطابق واپس بلایا جا رہا ہے۔
انڈیا نے کہا ہے کہ اس کے فوجی اہلکار مالدیپ میں دو امدادی اور جاسوس ہیلی کاپٹروں اور ایک چھوٹے طیارے کی دیکھ بھال اور انھیں چلانے کے لیے تعینات ہیں، یہ ہیلی کاپٹر اور طیارہ انڈیا نے برسوں پہلے مالدیپ کو عطیہ کیے تھے۔
گذشتہ برس نومبر میں مالدیپ کے صدر منتخب ہونے والے محمد معیزو نے انڈین فوجیوں کو واپس ان کے ملک بھیجنے کا وعدہ اپنی انتخابی مہم کے دوران کیا تھا۔ انڈیا طویل عرصے سے مالدیپ پر اپنا اثر و رسوخ قائم کیے ہوئے ہے اور اس ملک کےسٹریٹجک محل وقوع کے باعث انڈیا کے لیے یہاں سے بحر ہند کے ایک اہم حصے کی نگرانی ممکن ہوتی ہے۔
لیکن گذشتہ چند ماہ کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں تلخی آئی ہے جس کی ایک وجہ صدر محمد معیزو کی دہلی کے خلاف کی جانے والی سخت بیان بازی ہے۔ یہ وہ کشیدگی ہے جس سے چین فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کیونکہ ایشیائی طاقتیں خطے میں اثر و رسوخ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔
اس کے باوجود انڈیا اور مالدیپ اس بات پر اتفاق کرنے میں کامیاب رہے ہیں کہ انڈین سویلین تکنیکی عملہ طیارے کو چلانے کے لیے فوجی دستوں کی جگہ لے گا۔ اس سلسلے میں پہلی ٹیم پہلے ہی مالدیپ پہنچ چکی ہے۔
سابق انڈین خارجہ سیکریٹری شیام سرن کہتے ہیں کہ ’طیارے مالدیپ میں ہی رہیں گے اور اُن کی دیکھ بھال کے لیے انڈین سویلین اہلکار موجود رہیں گے۔ اس لیے ایسا لگتا ہے کہ دونوں فریق ایک سمجھوتے پر پہنچ گئے ہیں۔‘
مالدیپ میں کچھ لوگ انڈین فوجیوں کی جگہ سویلین انڈین اہلکاروں کو تعینات کرنے پر رضامند ہونے پر صدر معیزو کو اپنی ’انڈیا آؤٹ‘ انتخابی مہم سے پیچھے ہٹنے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
صدر معیزو کے دفتر نےاس حوالے سے تبصرہ کرنے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔
صدر معیزو صدر منتخب ہونے کے بعد اپنے پہلے سرکاری دورے پر جنوری میں چین گئے تھے۔ یاد رہے کہ ان سے قبل منتخب ہونے والے صدور پہلا سرکاری دورہ انڈیا کا کرتے تھے۔ کچھ تجزیہ کاروں نے متنبہ کیا ہے کہ پانچ لاکھ سے زیادہ آبادی والے ملک مالدیپ کے بڑی ایشیائی طاقتوں (انڈیا اور چین) کی دشمنی میں پھنسنے کا خطرہ ہے۔
چین نے گذشتہ برسوں کے دوران مالدیپ کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کا قرض دیا ہے، جس میں سے زیادہ تر قرض بنیادی ڈھانچے اور معاشی ترقی کے لیے ہے۔
صدر معیزو کے چین کے دورے کے دوران چین اور مالدیپ نے جنوری میں اپنے تعلقات کو ایک جامع سٹریٹجک شراکت داری تک بڑھایا۔
مغیرو نے مالدیپ کے سابقہ رہنماؤں کے برعکس عہدے پر فائز ہونے کے بعد ابھی تک انڈیا کا دورہ نہیں کیا ہے۔ رواں ہفتے کے اوائل میں مالدیپ کی حکومت نے چین کے ساتھ ’فوجی امداد‘ کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس پر دہلی میں تشویش پائی جاتی ہے۔
مالدیپ کی وزارت دفاع نے کہا تھا کہ یہ معاہدہ بغیر ادائیگی کے ہے تاہم انھوں نے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔ لیکن منگل کے روز ایک عوامی جلسے سے خطاب کرتے ہوئے صدر معیزو نے کہا کہ چین مالدیپ کو غیر مہلک ہتھیار مفت فراہم کرے گا اور مالدیپ کی سکیورٹی فورسز کو تربیت دے گا۔ اس سے پہلے انڈیا اور امریکہ دونوں نے مالدیپ کی فوج کو تربیت دی ہے۔
مالدیپ کے ایک سیاسی تجزیہ کار عظیم ظاہر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’یہ بے مثال ہے، یہ پہلا موقع ہے جب مالدیپ نے چین کے ساتھ فوجی امداد فراہم کرنے کے لیے دفاعی معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم جانتے تھے کہ صدر معیزو سرمایہ کاری اور سرمائے کے لیے چین کے ساتھ قریبی تعلقات قائم کریں گے، لیکن کسی کو توقع نہیں تھی کہ وہ اس حد تک جائیں گے۔‘
تاہم بیجنگ مالدیپ میں کسی بھی طویل المدتی فوجی منصوبے سے انکار کرتا ہے۔
Getty Images
چینگڈو انسٹیٹیوٹ آف ورلڈ افیئرز تھنک ٹینک کے صدر ڈاکٹر لونگ ژنگ چن کا کہنا ہے کہ ’یہ دونوں ممالک کے درمیان معمول کا رشتہ ہے۔ اگر چین بحر ہند میں فوجی موجودگی چاہتا ہے تو شاید اس کے پاس مالدیپ سے بہتر انتخاب ہیں۔‘
مالدیپ بنیادی غذائی اشیا، ادویات اور تعمیراتی مواد کی درآمد کے لیے انڈیا پر انحصار کرتا ہے۔
بیجنگ کی یقین دہانیوں کے باوجود، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ چین فائدہ اٹھانے کے لیے تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے کیونکہ صدر ابراہیم محمد صالح کی قیادت والی پچھلی حکومت نے ’انڈیا فرسٹ‘ کی پالیسی اپنائی تھی۔
اپنی انتخابی مہم کے دوران، صدر معیزو نے مالدیپ کی سابق حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے دہلی کے ساتھ مالدیپ کے معاہدوں کی تفصیلات کو ظاہر نہیں کیا تھا۔ مگر اب انھیں بھی چین کو لے کر اسی طرح کی تنقید کا سامنا ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عظیم ظاہر کہتے ہیں کہ ’ہمارے پاس ان (صدر مالدیپ) کے بیجنگ دورے کے دوران کیے گئے زیادہ تر معاہدوں کی تفصیلات نہیں ہیں۔ جب اس طرح کے معاہدوں کی تفصیلات ظاہر کرنے کی بات آتی ہے تو صدر معیزو پچھلی حکومت سے بہتر نہیں ہیں۔‘
گذشتہ ماہ صدر معیزو کی انتظامیہ نے دہلی کی مخالفت کے باوجود ایک چینی تحقیقی جہاز ژیانگ یانگ ہانگ 3 کو مالے میں لنگر انداز ہونے کی اجازت دی تھی۔
مالدیپ کی جانب سے جواب دیے جانے کے باوجود کچھ انڈین ماہرین اس مطمئن نہیں ہوئے اور انھوں نے خدشہ ظاہر کیا کہ یہ اعداد و شمار جمع کرنے کا مشن ہو سکتا ہے جسے بعد میں چینی فوج آبدوز آپریشن میں استعمال کر سکتی ہے۔
تعلقات میں جاری کشیدگی کے درمیان دہلی نے مالدیپ کے قریب واقع انڈین جزائر لکشدیپ میں ایک نیا بحری اڈہ قائم کیا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں نے اسے مالدیپ کے لیے ایک پیغام کے طور پر لیا لیکن انڈین حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اقدام موجودہ کشیدگی کا جواب نہیں ہے۔
سابق انڈین سفارتکار سرنکہتے ہیں کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ کچھ نیا ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے، اس پر کچھ عرصے سے کام چل رہا ہے۔‘
صدر معیزو کے انڈیا مخالف اقدامات نے ان کے ملک میں بھی بہت سے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے۔ مالدیپ ضروری اشیائے خوردونوش، ادویات اور تعمیراتی سامان کی درآمد کے لیےانڈیا پر انحصار کرتا ہے۔ کووڈ کی وبا کے بعد، انڈیا مالدیپ میں سب سے زیادہ سیاح بھیج رہا تھا۔
لیکن حال ہی میں پیدا ہونے والے ایک تنازع کے بعد صورتحال بدل گئی ہے جس کے نتیجے میں سوشل میڈیا پرانڈینزسے مالدیپ کا ’بائیکاٹ‘ کرنے کی اپیل کی گئی تھی کیونکہ مالدیپ کے کچھ اراکین پارلیمان نے وزیر اعظم نریندر مودی کے بارے میں متنازع تبصرہ کیا تھا۔
یہ تنازع اس وقت شروع ہوا جب صدر معیزو بیجنگ میں تھے اور انھوں نے چینی حکام سے کہا کہ وہ وبا سے پہلے کی طرح ملک میں سرفہرست مقام حاصل کرنے کے لیے مزید سیاحوں کو بھیجنا شروع کریں۔ اس کے بعد سے چینی سیاحوں نے بڑی تعداد میں آنا شروع کر دیا ہے۔
وزارت سیاحت کے اعداد و شمار کے مطابق، سال کے پہلے دو مہینوں میں مالدیپ کا دورہ کرنے والے تقریبا 400،000 سیاحوں میں سے 13 فیصد کا تعلق چین سے تھا جبکہ انڈیا کا پانچویں۔
مودی کی ٹویٹ، جس کے بعد انڈیا اور مالدیپ کے شہری سوشل میڈیا پر آمنے سامنے آ گئےسوا پانچ لاکھ آبادی والا چھوٹا سا ملک مالدیپ انڈیا کو چیلنج کیوں کر رہا ہے؟ ’انڈین فوجی 15 مارچ تک جزیرے سے نکل جائیں‘’اسلام مالدیپ کی بقا کا ضامن‘: کیا صدر معیزو کا ملک کے اسلامی تشخص کے بارے میں بیان انڈیا کی جانب کوئی اشارہ ہے؟انڈیا یا چین۔۔۔ کیا محمد معیزو کی سربراہی میں مالدیپ متوازن حکمت عملی اپنا پائے گا؟مالدیپ میں انڈیا مخالف مہم زور کیوں پکڑ رہی ہے؟لکشدیپ: کیا انڈیا کا ’مالدیپ‘ بڑے پیمانے پر سیاحوں کی مہمان نوازی کر سکے گا؟