AFPسین ہوزے کے ملبے کے نزدیک سونے کے سکوں کی تصاویر جاری کی گئی تھیں
یہ 8 جون 1708 کا واقعہ ہے جب کولمبیا کے ساحل کے نزدیک ہسپانوی بحری جہاز ’سین ہوزے‘ پر برٹش بحریہ کے جنگی جہازوں نے حملہ کر دیا۔ اس حملے کے نتیجے میں ’سین ہوزے‘ اسی روز رات کے وقت بحیرہ کیریبین میں ڈوب گیا۔ سین ہوزے اپنا دفاع کرنے میں ناکام رہا، اس کے برعکس کے اس پر 62 توپیں نصب تھیں۔
اس جہاز کے غرق ہونے کے ساتھ اس پر سوار تقریباً 600 افراد اور 20 ارب ڈالر مالیت کا سونا، چاندی اور زیورات بھی ہمیشہ کے لیے سمندر میں غائب ہو گئے۔
صدیوں تک لوگ ’سین ہوزے‘ کے ساتھ غرق ہونے والے خزانے کی تلاش میں لگے رہے لیکن کسی کو کامیابی نہ مل سکی اور رفتہ رفتہ یہ سمندر کی تہہ میں چھپا ایک راز بن گیا۔
اس جہاز کے غرق ہونے کے 205 سال بعد بالآخر سنہ 2015 میں اس جہاز کا بھید اُس وقت کُھلنا شروع ہوا، جب کولمبیا کی حکومت نے اعلان کیا کہ انھوں نے سمندر کی گہرائیوں میں اس جہاز کا ملبہ تلاش کر لیا ہے۔
’سین ہوزے‘ نامی یہ جہاز آج کولمبیا کے پانیوں میں 600 میٹر گہرائی میں موجود ہے۔ تاہم اس پر لدے اربوں ڈالر مالیت کے سونے کے باعث یہ جہاز تنازعات کو جنم دے رہا ہے کیونکہ اب بہت سے فریق میدان میں ہیں جو اس خزانے کے دعویدار ہیں۔
شاید یہی وجہہے کہ کولمبین حکومت نے آج تک اس جہاز کے ملبے کے صحیح مقام کا انکشاف نہیں کیا ہے لیکن کہا جاتا ہے کہ سین ہوزے کا ملبہ کارتیخینا ساحل سے 40 کلومیٹر دور جزائر روزاریو کے قریب سمندر کی تہہ میں پڑا ہوا ہے۔
جزائر روزاریو کو نیشنل پارک کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں سے روزانہ کی بنیاد پر درجنوں چھوٹی کشتیاں گزرتی ہیں جو سیاحوں کو جزیروں تک لے جاتی ہیں۔ اس سفر کے دوران، آپ سین ہوزے اور اس کے ساتھ ڈوبنے والے 600 افراد اور اس پر لدے خزانے کے بارے میں تصور کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔
سین ہوزے کا خزانہ ایک طویل عرصے سے لوگوں کی توجہ مرکز رہا ہے۔ نوبل انعام یافتہ مصنف گیبریل گارسیا مارکیز نے ’لوو ان دی ٹائم آف کولیرا‘ میں بھی اس کے بارے میں لکھا ہے۔ ناول کا مرکزی کردار فلورینٹینو اریزا اپنی محبت کے حصول کی خاطر سین ہوزے کی دولت کو حاصل کرنے کا منصوبہ بناتا ہے۔
بیبیانا روہاس کا تعلق ’بوگوٹا‘ سے ہے جو اپنے خاندان کے ساتھ جزائر روزاریو کے سب سے بڑے جزیرے ایسلا گرانڈے کی سیر کے لیے آئی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’کیریبین ایک جادوئی جگہ ہے۔‘
’حقیقتاً یہ ایک جادوئی جگہ ہے جو ہمارے ملک میں موجود ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ سین ہوزے میں کتنا خزانہ چھپا ہے۔ یہ سب صرف ایک افسانہ بھی ہو سکتا ہے۔‘
سین ہوزے کا آخری سفر
سین ہوزے مئی 1708 کے آخر میں پاناما کے بندرگاہ پورٹوبیلو سے روانہ ہوا تھا۔ یہ ہسپانوی زیر کنٹرول علاقے پیرو سے نکالے گئے سونے، چاندی اور قیمتی پتھروں سے لدا ہوا تھا۔ اس جہاز ہر موجود خزانے کی مالیت آج کے دور میں 20 ارب ڈالر تک بتائی جاتی ہے۔
یہ خزانہ سپین کے بادشاہ فلپ پنجم کے لیے لے جایا جا رہا تھا تاکہ اس کو سپین میں جانشینی کے لیے جاری جنگ کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
کیوبا کے شہر ہوانا اور پھر سپین کے طویل سفر پر نکلنے سے پہلے سین ہوزے کو ضروری مرمت کے لیے کارتیخینا (کولمبیا) رُکنا پڑا۔
جہاز کے کپتان ہوزے فرنانڈیز ڈی سینٹلن جانتے تھے کہ جانشینی کے اس جنگ میں شامل برطانیہ کے بحری جہاز کارتیخینا (کولمبیا) کے نزدیک اُن کے جہاز پر حملہ آور ہو سکتے ہیں۔
برطانویوں کی جانب سے حملے کے خطرے کے باوجود کپتان نے جہاز کے ساتھ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔ مگر 8 جون کی شام تک سین ہوزے پر لدے خزانے کے لیے جنگ شروع ہو چکی تھی۔ کولمبیا میں ’کیریبین نیول میوزیم‘ کے منتظم گونزالو زوئیگا کا کہنا ہے کہ پستولوں، تلواروں اور چاقوؤں سے لیس برطانوی بحریہ نے اس جہاز پر تین بار قبضہ کرنے کی کوشش کی۔
زوئیگا کہتے ہیں کہ ابتدا میں اس جنگ میں سین ہوزے جیت رہا تھا۔ ’لیکن ہم نہیں جانتے کہ آخری [لمحات] میں سین ہوزے کے ساتھ کیا واقعات پیش آئے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ یہ عین ممکن ہے کہ جہاز کے مسافروں نے کپتان کے خلاف بغاوت کر دی ہو کیونکہ بیشتر مسافر عام شہری تھے اور وہ کسی کے ماتحت نہیں تھے۔
بہرحال ایک بات واضح ہے کہ نہ تو جہاز کا عملہ اور نہ ہی برطانوی سین ہوزے اور اس پر لدے خزانے کو ڈبونا نہیں چاہتے تھے۔
زوئیگا کا خیال ہے کہ ہو سکتا ہے ہتھیار ڈالنے اور خالی ہاتھ سپین واپس جانے کے بجائے، کپتان نے جہاز پر موجود بارود کو آگ لگا کر اس کو خود ہی ڈبو دیا ہو۔
ملبے کی دریافتAFPسین ہوزے کا ملبہ کارتیخینا سے 40 کلومیٹر دور جزائر روزاریو کے قریب ملا ہے
27 نومبر 2015 کوامریکی کمپنی ’ووڈز ہول اوشیینوگرافک انسٹیٹیوشن‘ کی روبوٹک آبدوز ’ریمس 6000‘ نے سین ہوزے کو ’باضابطہ طور پر‘ اور پہلی دفعہ سمندر کی گہرائی میں دریافت کیا۔
تقریباً چار میٹر لمبی یہ روبوٹک آبدوزسمندر کی سطح کے نیچے 6 کلومیٹر تک جا سکتی ہے۔ یہ سین ہوزے سے صرف نو میٹر کے فاصلے تک پہنچنے میں کامیاب رہی اور وہیں سے اس نے ڈوبے ہوئے جہاز کی اور اس پر موجود کانسی کی توپوں (جن پر ڈولفن کے نشان کندہ تھے) کی تصاویر لیں۔ اس جہاز پر موجود اِن منفرد توپوں کی ہی بدولت محققین سین ہوزے کو پہچاننے میں کامیاب رہے۔
ارنیسٹو مونٹی نیگرو کولمبیا کے انسٹیٹیوٹ آف انتھروپولوجی اینڈ ہسٹری کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ سین ہوزے نوآبادیاتی [تاریخ] کے بارے میں معلومات کا مرکز ہے۔ ’امریکی سرزمین پر یورپ بالخصوص سپین کے تقریباً 300 سالہ نوآبادیاتی تاریخ کا نمائندہ ہے۔‘
ایک اندازے کے مطابق آج تک کولمبیا کے ساحل پر تقریباً 1,000 بحری جہاز ڈوبے ہیں جو آج بھی دریافت ہونے کے منتظر ہیں۔ سین ہوزے اگرچہ دریافت تو کولمبیا کے پانیوں میں ہوا ہے مگر اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں ہے کہ یہ کولمبیا میں ہی رہے۔ ایک جانب سپین اس غرقاب جہاز کے کچھ حصے پر دعویٰ کر رہا ہے جب کہ دوسری طرف بولیویا کا مقامی قبیلہ ’قرہ قرہ‘ ہے جس کی سرزمین سے وہ دولت نکالی گئی تھی جو سین ہوزے پر لدی ہوئی تھی اور یہ مقامی قبیلہ بھی اس خزانے میں اپنا حق مانگ رہا ہے۔
مزید یہ کہ سین ہوزے تقریباً 40 سالوں سے قانونی لڑائیوں میں الجھا ہوا ہے۔ امریکی کمپنی ’سی سرچ آرماڈا‘ کا کہنا ہے کہ انھیں یہ جہاز 1980 کی دہائی کے اوائل میں ملا تھا اور وہ بھی اس کے 50 فیصد پر دعویٰ کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس وقت کی کولمبیا کی حکومت نے ان کے ساتھ اس بارے میں ایک معاہدہ کیا تھا اور اس بارے میں کولمبیا کی سپریم کورٹ نے بھی سنہ 2007 میں اُن کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔
تاہم، کولمبیا کے سابق صدر جوآن مینوئل سانتوس نے سنہ 2015 میں جب جہاز کے ملبے کی دریافت کا اعلان کیا تو انھوں نے امریکی کمپنی ’سی سرچ آرماڈا‘ کو اس کا کریڈٹ نہیں دیا تھا۔
کولمبیا کی نائب صدر مارٹا لوسیا رامیرز نے جون میں ایک بیان میں کہا کہ سی سرچ آرمیڈا کا سین ہوزے یا اس کے ملبے پر کوئی حق نہیں ہے کیونکہ جس جگہ کی نشاندہی انھوں نے کی تھی وہ سین ہوزے کے اصل مقام سے میل نہیں کھاتی۔ یہ مقدمہ ابھی تک کولمبیا کی اعلیٰ عدالت میں زیر سماعت ہے۔
سنہ 2015 میں سین ہوزے کی باقاعدہ دریافت کے بعد کہا جا رہا تھا کولمبیا کی حکومت خزانے کو نکالنے کے لیے نجی کمپنی کے ساتھ شراکت داری کرنے جا رہی ہے۔ ماہرین کو خدشہ تھا کہ ایسا کرنے سے سین ہوزے کا ملبہ تقسیم ہو سکتا ہے اور وہ چیزیں جن کی ثقافتی ورثے کے تحت درجہ بند نہیں ہوئی ہے، وہ کسی نجی کمپنی کو جا سکتی ہیں۔
مصنف اور تاریخ دان فرانسسکو میوز سین ہوزے کے ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ لوگوں کو سین ہوزے کے بارے میں مکمل طور پر جاننے کا حق حاصل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ کولمبیا کو اس معاملے میں ایک نگران کے طور پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے کہا کہ لوگوں کو جہاز کے خزانے سے روشناس کروانے کے لیے کارتیخینا (کولمبیا) میں ایک میوزیم کھولا جانا چاہیے۔ کولمبین حکومت بھی اس بارے میں سوچ رہی ہے۔ ’اس منفرد نمائش کو کون نہیں دیکھے گا؟ وہ کہتے ہیں کہ سین ہوزے کی کہانیوں لوگوں کو اپنی طرف متوجہ کریں گی۔
سنہ 2018 میں سابق صدر سینٹوس نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا تھا کہ سین ہوزے تاریخ کی عظیم ترین دریافتوں میں سے ایک ہے۔ ’زیر آب ثقافتی ورثے کے قانون کے ساتھ، ہم اسے دوبارہ حاصل کر سکتے ہیں۔‘
Getty Imagesکولمبیا کے وزیر ثقافت ہوآن ڈیوڈ نے کہا کہ سین ہوزے کے ملبے کو نکالنے کے لیے رواں برس اپریل اور مئی میں کوششیں کی جائیں گی
سنہ 2023 میں کولمبیا کے وزیر ثقافت ہوآن ڈیوڈ کوریا نے کہا تھا کہ سین ہوزے کے ملبے کو نکالنے کے لیے آئندہ برس اپریل اور مئی کوششیں کی جائیں گی لیکن اس کا دارومدار کیریبین میں سمندری حالات پر منحصر ہو گا۔ انھوں نے وعدہ کیا ہے کہ یہ مکمل طور پر ایک سائنسی مہم ہو گی۔
کولمبین صدر گسٹاو پیٹرو سے ملاقات کے بعد وزیر ثقافت ہوآن ڈیوڈ کا کہنا تھا کہ ’یہ آثار قدیمہ کا ملبہ ہے، کوئی خزانہ نہیں ہے۔‘
ماہرین کا کہنا ہے کولمبیا کی حکومت کا یہ ایک ایسا منصوبہ ہے جس پر جلد بازی نہیں کی جا سکتی۔
ہوآن گیلرمو مارٹن پانی کے اندر پائے جانے والے آثار قدیمہ کے ماہر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر کولمبیا کے پاس اس کو سنبھالنے کے لیے وسائل نہیں ہیں، تو اس کو حاصل کرنے کا کوئی مطلب نہیں۔ یہ نہ صرف کولمبیا کے ورثے کے لیے بلکہ انسانیت کے طرف ذمہ داری کا ایک بنیادی اصول ہے۔‘
جب تک سین ہوزے کو نکال نہیں لیا جاتا، کارتیخینا (کولمبیا) کے رہائشیوں اور وہاں آنے والوں کے لیے میوزیم ایک خواب ہے۔ تب تک کارتیخینا اور روزاریو جزائر کی سیر پر آنے والے سمندر کی تہہ میں محفوظ جہاز کے بارے میں صرف تصور ہی کر سکتے ہیں۔
ٹائٹینک کے پاس سمندر کی گہرائیوں میں پانی اتنا ناقابل اعتبار کیوں ہے؟گہرے سمندر میں ٹائٹینک کے ملبے میں پھنس کر زندہ لوٹنے والے سائنسدان: ’میں نے سوچ لیا تھا کہ میرا خاتمہ قریب ہے‘وہ چار معمے جو ٹائٹینک ڈوبنے کے 111 سال بعد بھی موجود ہیں