غزہ میں فضا سے امداد گرانے کا عمل متنازع کیوں بنتا جا رہا ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 06, 2024

Reutersگذشتہ چند ہفتوں کے دوران غزہ میں 20 سے زیادہ مرتبہ غذائی امداد فضا سے گرائی گئی ہے

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے اردن کے ساتھ مل کر منگل کو شمالی غزہ میں خوراک کے 36 ہزار پیکٹ گرائے ہیں۔ یہ حالیہ دنوں میں اس طرح کا دوسرا مشترکہ مشن تھا۔

یہ کارروائی عالمی ادارۂ صحت کے اس بیان کے ایک دن بعد کی گئی ہے جس میں کہا گیا تھا کہ شمالی غزہ میں بچے بھوک سے مر رہے ہیں۔ شمالی غزہ وہ علاقہ ہے جہاں ایک اندازے کے مطابق تین لاکھ فلسطینیوں کو خوراک اور صاف پانی کے بحران کا سامنا ہے۔

لیکن امریکہ کی اس حکمت عملی نے ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے، انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ علاقے میں بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا نہیں کر سکتا۔

اور یہ کہ فضا سے امداد گرانا زمین پر امدادی کوششوں کی ناکامی کی علامت بھی ہے۔

اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ کے دوران امدادی گاڑیاں مصر کے زیر کنٹرول رفح کراسنگ اور اسرائیل کے زیر کنٹرول کریم شالوم کراسنگ سے غزہ کے جنوب میں داخل ہوتی رہی ہیں لیکن شمالی غزہ، جو اسرائیلی زمینی حملے کے پہلے مرحلے کا مرکز تھا، حالیہ مہینوں میں بڑی حد تک امداد سے محروم رہا ہے۔

20 فروری کو، ورلڈ فوڈ پروگرام نے کہا کہ وہ شمالی غزہ میں خوراک کی فراہمی معطل کر رہا ہے کیونکہ تین ہفتوں میں اس کے ابتدائی امدادی قافلوں نے پرتشدد لوٹ مار سمیت اور کسی حکومت کے نہ ہونے کی وجہ سے مکمل افراتفری اور تشدد کا سامنا کیا تھا۔

گذشتہ جمعرات کو 100 سے زائد فلسطینی اس وقت مارے گئے جب غزہ شہر کے مغرب میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے زیر انتظام امدادی قافلے تک پہنچنے کے لیے ہجوم جمع ہو گیا۔

فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ اس ہجوم پر اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ اسرائیل کی فوج کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ہلاکتیں یا تو امدادی گاڑیوں تلے روندے جانے یا بھگدڑ کے نتیجے میں ہوئیں۔ فوج کا دعویٰ ہے کہ امدادی قافلے کے قریب موجود فوجیوں نے ان لوگوں پر فائرنگ کی جو ان کے قریب آئے اور جنھیں وہ خطرہ سمجھتے تھے۔

اسرائیل کی فوج نے سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملوں میں تقریباً 1200 افراد کی ہلاکت اور 253 کو یرغمال بنائے جانے کے بعد غزہ میں فضائی اور زمینی کارروائی شروع کی تھی۔ حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں غزہ میں 30,000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔

’ناکافی امداد‘

گذشتہ چند ہفتوں کے دوران غزہ میں 20 سے زیادہ مرتبہ غذائی امداد فضا سے گرائی گئی ہے۔ یہ مشن امریکہ اور اردن کے علاوہ فرانس، متحدہ عرب امارات اور مصر نے اسرائیلی فوج کے تعاون سے کیے ہیں۔

غزہ کے ایک رہائشی اسماعیل موکبل نے بی بی سی عربی کے غزہ لائف لائن ریڈیو کو بتایا کہ جمعے کو گرائے جانے والے امدادی پیکٹوں میں کچھ پھلیاں اور خواتین کی صحت کے حوالے سے لوازمات شامل تھے۔

ایک اور شخص ابو یوسف نے کہا کہ وہ غزہ شہر کے الشفا ہسپتال کے قریب گرائی جانے والی امداد حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔

’اچانک، جب ہم آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے، تو ہمیں امدادی پیراشوٹ نظر آئے۔ چنانچہ ہم اسی جگہ پر موجود رہے جب تک کہ امداد ہم سے 500 میٹر کے فاصلے پر گری۔ وہاں بہت سے لوگ تھے، لیکن امداد بہت کم تھی اور اس لیے ہم کچھ حاصل نہیں کر سکے۔‘

اسماعیل موکبل نے کہا کہ علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد کی بنیادی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے گرائی جانے والی امداد کافی نہیں تھی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہزاروں شہریوں نے امدادی سامان گرتے دیکھا... اور جب سینکڑوں یا ہزاروں لوگ ایسے علاقوں میں انتظار کرتے ہیں تو صرف 10 سے 20 لوگوں کو چیزیں ملتی ہیں، جبکہ باقی کچھ بھی نہیں لے کر واپس جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے، فضا سے امداد گرانے کا یہ طریقہ غزہ کے شمالی علاقے میں امداد پہنچانے کا سب سے موزوں طریقہ نہیں ہے‘۔

انھوں نے کہا کہ ’غزہ کو اس طرح سے امداد پہنچانے کے بجائے زمینی اور آبی راستے کی ضرورت ہے کیونکہ اس طرح تمام شہریوں کی ضروریات پوری نہیں ہوتیں‘۔

Getty Imagesجمعرات کو 100 سے زائد فلسطینی اس وقت مارے گئے جب غزہ شہر کے مغرب میں اسرائیلی فورسز کی طرف سے پرائیویٹ کنٹریکٹرز کے زیر انتظام امدادی قافلے تک پہنچنے کے خواہشمند ہجوم پر فائرنگ کر دی گئیمہنگا اور بےترتیب طریقہ

ایئر ڈراپس یا فضا سے امداد گرنے کا طریقہ ابتدائی طور پر دوسری جنگ عظیم کے دوران زمین پر موجود فوجیوں کو سامان کی فراہمی کے لیے استعمال کیا گیا تاہم پھر یہ انسانی امداد کی فراہمی کے اہم طریقے کے طور پر سامنے آیا اور اقوام متحدہ نے پہلی بار 1973 میں اس کا استعمال کیا۔

ورلڈ فوڈ پروگرام کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق اسے ایک ’آخری حربہ‘ سمجھا جاتا ہے، جسے صرف اس وقت استعمال کیا جاتا ہے جب ’زیادہ موثر آپشنز ناکام ہو جائیں‘۔ جنوبی سوڈان وہ آخری جگہ ہے جہاں ڈبلیو ایف پی نے فضا سے امداد کی فراہمی کا آپشن استعمال کیا۔

ناروے کی پناہ گزین کونسل کے سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے سابق اہلکار جان ایگلینڈ نے غزہ کے تین روزہ دورے سے واپسی کے بعد بی بی سی کو بتایا، ’ فضا سے مدد گرانے کا عمل مہنگا اور بےترتیب ہوتا ہے اور عام طور پر غلط لوگوں کو امداد ملنے کا باعث بنتا ہے‘۔

ڈبلیو ایف پی کا کہنا ہے کہ ہوائی جہاز، ایندھن اور عملے سے متعلق اخراجات کی وجہ سے زمین سے فراہم کی جانے والی امداد کے مقابلے فضا سے امداد گرانا سات گنا زیادہ مہنگا پڑتا ہے۔

ڈبلیو ایف پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس کے علاوہ، گاڑیوں کا قافلہ جو کچھ لا سکتا ہے اس کے مقابلے میں ہر پرواز کے ساتھ نسبتاً کم مقدار میں ہی سامان پہنچایا جا سکتا ہے، اور ڈیلیوری زون کے اندر ہم آہنگی کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

عالمی ریڈ کراس کمیٹی بھی سامان کی تقسیم کو کنٹرول کرنے کی اہمیت پر زور دیتی ہے تاکہ لوگوں کو نامناسب یا غیر محفوظ اشیا کے استعمال سے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈالنے سے روکا جا سکے۔

تنظیم نے 2016 میں شام میں خانہ جنگی کے دوران امداد کی فراہمی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں متنبہ کیا کہ ’غذائیت یا بھوک سے مرنے والے لوگوں کو اچانک اور بغیر نگرانی کے خوراک پہنچانے سے زندگیوں کو سنگین خطرات لاحق ہو سکتے ہیں۔‘

ورلڈ فوڈ پروگرام نے مزید کہا کہ تنازعات والے علاقوں میں تقریباً 300 سے 5600 میٹر کے درمیان مختلف اونچائیوں سے امداد گرائی جا سکتی ہے اس لیے مضبوط پیکیجنگ کو یقینی بنانا بہت ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پارسل زمین پر گرنے کے اثرات کو برداشت کر سکتے ہوں۔

ایجنسی کے مطابق، ڈراپ زون مثالی طور پر بڑے، کھلے علاقے اور فٹ بال کے میدان سے چھوٹے نہیں ہونے چاہییں، یہی وجہ ہے کہ ترسیل کاہدف اکثر غزہ کی ساحلی پٹی ہوتی ہے۔

تاہم مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ اس کے نتیجے میں بعض اوقات امداد سمندر میں گرتی ہے یا ہوا کے ذریعے اسرائیلی علاقے میں چلی جاتی ہے۔

’امریکہ اسرائیل پر دباؤ ڈالے‘

غزہ کے رہائشی سمیر ابوصباح نے بی بی سی عربی کے غزہ لائف لائن ریڈیو کو بتایا کہ ان کا خیال ہے کہ امریکہ کواپنے اتحادی اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالنا چاہیے۔

انھوں نے کہا کہ غزہ کے شہری ہونے کے ناطے یہ چیزیں کسی کام کی نہیں ہیں۔ ’ہم جو چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ امریکہ اسرائیل پر جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالے اور اسرائیل کو ہتھیار اور میزائل دینا بند کرے۔‘

کچھ امدادی کارکنوں میں بھی ان جذبات کی بازگشت سنائی دی۔

گذشتہ ہفتے، آکسفیم امریکہ کے سکاٹ پال نے ایکس پر لکھا، ’غزہ میں اندھادھند امداد گرانے کے بجائے، امریکہ کو چاہیے کہ وہ اسرائیل کو ان ہتھیاروں کی فراہمی کو کم کرے جو حملوں میں استعمال ہوتے ہیں، فوری جنگ بندی اور یرغمالیوں کی رہائی پر زور دیا جائے اور امریکہ اصرار کرے کہ اسرائیل انسانی امداد، رسائی اور دیگر بنیادی خدمات فراہم کرنے کے اپنے فرض کو ادا کرے۔‘

فلسطینیوں کے لیے میڈیکل ایڈ کی میلانیا وارڈ نے کہا کہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر کو ’اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ اسرائیل فوری طور پر غزہ کے تمام راستے امداد اور امدادی کارکنوں کے لیے کھول دے تاکہ ضرورت مندوں کی مدد کی جا سکے۔‘

لیکن جیسے جیسے بحران سنگین ہوتا جاتا ہے، یہ دلیل بھی سامنے آ رہی ہے کہ خوراک کسی بھی ضروری طریقے سے پہنچائی جانی چاہیے۔

غزہ میں کھانا بھیجنے والے ورلڈ سینٹرل کچن کے شیف اور بانی ہوزے آندریس نے اے بی سی نیوز کو بتایا کہ ’ہمیں ہر ممکن طریقے سے غزہ میں کھانا پہنچانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اسے سمندر کے راستے لانا چاہیے۔‘

’میں نہیں سمجھتا کہ ہمیں اس بات پر تنقید کرنے کی ضرورت ہے کہ اردن، امریکہ ایئر ڈراپس کر رہے ہیں۔ اگر کچھ ہے تو ہمیں غزہ میں خوراک لانے والے کسی بھی اقدام کی تعریف کرنی چاہیے۔‘

امریکی صدر بائیڈن نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ امریکہ ’سمندری راستہ کھولنے کی کوششوں کو دوگنا کر دے گا اور زمینی ترسیل کو بڑھا دے گا‘۔ لیکن یہ کوششیں ابھی زمینی حقائق میں تبدیل نہیں ہو سکی ہیں۔

اسرائیلی ڈیفنس فورسز کے ترجمان ریئر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے اتوار کو کہا کہ وہ امدادی قافلوں اور ہوائی جہازوں کو شمالی غزہ تک پہنچانے کی سہولت فراہم کر رہے ہیں ’کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ غزہ کے ضرورت مند شہریوں تک انسانی امداد پہنچ جائے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ ’ہم غزہ میں شہری آبادی تک امداد پہنچنے کی کوششوں کو وسعت دیتے رہیں گے اور ساتھ ہی ہم اپنے یرغمالیوں کو حماس سے آزاد کرانے اور غزہ کو حماس سے آزاد کرانے کے اپنے اہداف کو بھی پورا کریں گے۔‘

اسرائیل کے عالمی دباؤ کے شکوے کے بیچ غزہ میں جنگ بندی کی امید، یہ معاہدہ کیسا ہو سکتا ہے؟غزہ میں 30 ہزار ہلاکتیں: اسرائیل کا حماس کے 10 ہزار جنگجو مارنے کا دعویٰ کتنا حقیقی؟خاندان کے 103 افراد کھونے والے فلسطینی نوجوان: ’میری بیوی جانتی تھی کہ وہ مر جائے گی۔۔۔ یہ ہماری آخری فون کال تھی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More