سٹیفنی شرلی: وہ ریاضی دان جنھوں نے مرد کا روپ دھار کر سافٹ ویئر کمپنی سے اربوں ڈالر کمائے

بی بی سی اردو  |  Mar 04, 2024

Getty Images

سٹیفنی شرلی بہت عرصے سے محض ’سٹیو‘ کے نام سے ہی جانی جاتی تھیں۔

اس نام کے ساتھ انھوں نے اپنے سافٹ ویئر کے کاروبار کو آگے بڑھانے کے لیے سیکڑوں خطوط پر دستخط کیے۔ اس دوران کسی نے ان کی صنف کی طرف توجہ نہ دی کہ وہ مرد ہیں یا عورت۔

سنہ 1950 اور سنہ 1960 کی دہائیوں میں انھوں نے صنفی امتیاز کے خلاف بھی جدوجہد کی، خاص طور پر خواتین کے لیے ملازمتیں پیدا کیں اور دفتر سے باہر یعنی گھر وغیرہ سے کام کرنے جیسے انقلابی خیالات پیش کیے۔

اگرچہ ابتدا میں ان کی کامیابی کا کسی کو کوئی یقین نہیں تھا مگر اب 91 برس کی سٹیفنی شرلی تین ارب ڈالر کی مالک ہیں۔ یوں وہ آج کی ٹیکنالوجی کی دنیا میں ایک ٹائیکون کے روپ میں سامنے آئیں اور دنیا میں پہلی آزاد پروگرامر بھی بن گئیں۔

نازی جرمنی سے فرار

سٹیفنی شرلی جرمنی کے شہر ڈورٹمند میں ویرا بوچتھل کے مقام پر پیدا ہوئیں۔

سنہ 1939 میں، جب وہ صرف پانچ برس کی تھیں تو نازیوں کے بڑھتے ہوئے خطرے کی وجہ سے انھیں اپنے یہودی والدین سے بچھڑنا پڑا۔ ان کے والد ایک جج تھے۔

وہ اپنی نو برس کی بہن رینیٹ کے ساتھ کنڈرٹرانسپورٹ ٹرین میں سوار ہوئیں جو ہزاروں یہودی پناہ گزین بچوں کو برطانیہ لے گئی۔

سٹیفنی شرلی نے سنہ 2019 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’میں نے اپنی بہن کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور اس غریب نے میرا اور اپنے دیگر مسائل کا بھی حل نکالنا تھا۔‘

یہ بہنیں انگلینڈ کے وسطی علاقے ’ویسٹ مڈلینڈز‘ میں پہنچیں جہاں انھیں ایک خاندان نے گود لے لیا۔

اگرچہ انھوں نے اپنے والدین سے رابطہ برقرار رکھا، لیکن ان کے مطابق وہ کبھی ان سے تعلقات بہتر نہیں کر سکی ہیں۔

ان سے علیحدگی اور جرمنی سے فرار دو محرک تھے جو ان کی زندگی میں تبدیلی لے کر آئے اور بجائے ان کی کمزوری کے یہ ان کی طاقت بن گئے۔

ریاضی میں لائق فائق

بچپن میں وہ اپنی تعلیمی کارکردگی، خاص طور پر ریاضی میں بہت لائق تھیں۔

یہاں تک کہ انھیں بچوں کے سکول میں منتقل کرنا پڑا، جہاں اس مضمون کی کلاسیں پڑھائی جاتی تھیں، تاکہ وہ اپنے ہنر کے مطابق تعلیم حاصل کر سکیں۔

جب وہ سکول سے فارغ ہوئیں، تو وہ پوسٹ آفس ریسرچ سٹیشن پر کام کرنے چلی گئیں، جو کہ برطانیہ میں کمپیوٹر کی ترقی اور استعمال میں نمایاں شعبہ تھا۔

چند خواتین ملازمین میں سے ایک سٹیفنی نے کمپیوٹر پروگرام لکھنے میں مدد دی، جو اس وقت کے لیے کافی غیر معمولی بات تھی۔

اپنے مداحوں کو خوفزدہ ہونے سے روکنے کے لیے انھوں نے انھیں بتایا کہ وہ ایک پوسٹ آفس میں کام کرتی تھیں، اس امید پر کہ وہ سوچیں گے کہ انھوں نے محض ڈاک ٹکٹ فروخت کیے ہیں اور یہ کوئی ان کے لیے بڑا خطرہ نہیں ہیں۔

وہیں ان کی ملاقات ماہر طبیعیات ڈیریک شرلی سے ہوئی جنھوں سے ان سے شادی کر لی۔ چنانچہ انھوں نے اپنا نام بدل کر سٹیفنی شرلی رکھ لیا۔

اگرچہ انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ انھیں پوسٹ آفس میں اپنی ملازمت پسند تھی، لیکن وہ یہ بھی تسلیم کرتی ہیں کہ صنفی امتیاز وہاں ان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ تھی۔

انھوں نے سنہ 2019 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’میرے باس نے مجھے ملازمت میں ترقی کی پیشکش نہیں کی کیونکہ میں ایک عورت تھی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’میں صنفی امتیاز سے بالکل تنگ آ چکی تھی۔ میں نے دیوار کے ساتھ اپنی پیٹھ کر کے کھڑی ہوتی تھی تا کہ کوئی میرے کولہوں کو نہ چھو سکے۔ اور میں کچھ خاص طرح کے لوگوں کی راہ سے دوری اختیار کرتی تھی اور پھر اور بہت کچھ ایسی چیزیں تھیں کہ میں نے یہ ملازمت چھوڑ دی۔‘

سٹیفنی یا سٹیو؟

کچھ عرصے بعد سنہ 1962 میں انھوں نے ’فری لانس پروگرامرز‘ نامی اپنی کمپیوٹر کمپنی شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔

یہ منصوبہ بہت ناقابل عمل سا لگ رہا تھا۔

اس کی تین بڑی وجوہات تھیں۔ پہلی بات تو یہ تھی کہ وہ ایک خاتون تھیں۔ دوسرا یہ کہ ان کے پاس صرف دس ڈالر تھے۔ اور تیسری بات یہ تھی کہ ان کے پاس دفتر نہیں تھا بلکہ صرف ایک ’ڈائننگ روم‘ تھا۔

مزید یہ کہ ان کی سوچ سافٹ ویئر فروخت کرنے کی تھی، جو اس وقت کوئی زیادہ قیمتی نہیں لگ رہا تھا۔ اس شعبے کے ماہرین کے مطابق اصل میں تو ہارڈویئر ہوتا ہے کہ جس کی اہمیت برقرار رہے گی۔ اس وقت سافٹ ویئر اپنی اہمیت کھو چکا تھا لہٰذا یہ ایک نیا خیال تھا کہ اس کے فروخت کی کوشش کی جائے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وہ حقیقت میں مجھ پر ہنسے کیونکہ میں ایک عورت تھی۔‘

لیکن میں ایک قابل فخر شخص ہوں اور مجھے یہ پسند نہیں تھا۔ اس لیے میں ہر صورت میں کامیابی سمیٹنے کے لیے پرعزم تھی۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔

انھوں نے سخت محنت کرنا شروع کر دی۔ انھوں نے ممکنہ گاہک تلاش کر کے انھیں سیکڑوں خطوط لکھے، انھیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ کمپیوٹر سے واقعی فائدہ اٹھانے کے لیے ایسے پروگرام تیار کرنے کی ضرورت ہے، جو مشینوں کو بتائیں کہ کیا کرنا ہے۔

لیکن صنعت میں اس سب کی مخالفت پائی جاتی تھی اور ان کے خیالات کو نظر انداز کر دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے شوہر نے انھیں یہ تجویز دی کہ اگر وہ مرد کے نام سے خطوط پر دستخط کرنا شروع کر دیں۔

اس کے بعد ہی انھوں نے عرف ’سٹیو شرلی‘ اختیار کیا اور حیرت انگیز طور پر ان کی ای میل پر جوابات موصول ہونا شروع ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیے’میں آپ کی محبت میں پاگل ہوں۔۔۔‘ وہ خطوط جو ایک ڈکٹیٹر نے مسلم مردوں تک نہ پہنچنے دیےپاکستانی خواتین اور استعمال شدہ کپڑوں کی خرید و فروخت: ’ان کپڑوں کی تصاویر سوشل میڈیا سے ہٹا دیں، کسی کو پتا نہ چلے‘لڑکیوں کو تعلیم دینے پر لوگوں سے تھپڑ تک کھانے والی پاکستانی لڑکی، جس نے ’گلوبل ٹیچر ایوارڈ‘ جیت کر نئی تاریخ رقم کر دیGetty Imagesخواتین کے لیے ایک کمپنی

پہلے دن سے ہی انھوں نے وعدہ کیا کہ اگر ممکن ہوا تو کمپنی صرف خواتین کو ملازمت دے گی۔ اور پہلے 300 ملازمین میں سے 297 درحقیقت خواتین تھیں۔

انھوں نے ان لوگوں کو ترجیح دی جن کے بچے تھے کیونکہ ہو جانتی تھیں کہ انھیں کام تلاش کرنے میں دشواری ہوگی۔

انھوں نے ایسی خواتین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی تاکہ وہ زیادہ آسانی سے بچوں کی نگہداشت بھی کر سکیں۔ یہ 60 کی دہائی میں مکمل طور پر انقلابی چیز تھی۔

خواتین نے پنسل اور کاغذ سے پروگرام لکھے اور ڈاک کے ذریعے بھیجے۔

کمپنی نے تیزی سے ترقی کی یہاں تک کہ اس نے اپنے عروج پر 4,000 سے زیادہ خواتین کو ملازمت دی۔

سنہ 1975 میں برطانیہ کے جنسی امتیازی قانون کی منظوری کے بعد کمپنی کو مردوں کو بھرتی کرنے پر مجبور کیا گیا۔

Getty Images

ستم ظریفی یہ ہے کہ کام کی جگہ پر صنفی امتیاز کا مقابلہ کرنے کے لیے بنائی گئی ایک فرم نے اچانک خود کو ایک ایسے ضابطے کی خلاف ورزی کے خطرے سے دوچار کر دیا جو صرف اسی کی تلاش میں تھا۔

سٹیفنی نے کہا کہ ’ایسا ہی ہونا چاہیے۔ یک مخلوط افرادی قوت بہت زیادہ تخلیقی ہوتی ہے۔‘

سنہ 1980 کی دہائی تک یہ کمپنی پہلے ہی دنیا بھر میں مشہور تھی، جس نے انتہائی قابل قدر کمپنیوں اور دیگر نشانیوں جیسے کہ کانکورڈ ہوائی جہاز کے بلیک باکس کا پروگرام تیار کیا۔

سٹیفنی شرلی نے 25 سال تک فری لانس پروگرامرز چلائے۔ یہ کمپنی سنہ 1996 میں لندن سٹاک ایکسچینج میں زینسا کے نام سے درج ہوئی تھی اور اس کی قیمت سینکڑوں بلین ڈالر تھی۔

اس برس انھوں نے ایک غیر معمولی فیصلے کے ساتھ دوبارہ سب کو حیران کیا: انھوں نے اپنے حصص کا ایک حصہ ملازمین کو دیا، جو کمپنی کے آدھے سے زیادہ کے مالک تھے۔

سنہ 2000 کی دہائی سے سٹیفنی شرلی نے اپنے آپ کو انسان دوستی کے لیے وقف کر دیا ہے۔

انھوں نے اپنی خوش قسمتی اور وقت کا ایک اہم حصہ ’آٹزم‘ کے مطالعہ کے لیے وقف کیا ہے کیونکہ ان کا بیٹا جائلز، جو سنہ 1998 میں 35 سال کی عمر میں فوت ہو گیا، شدید آٹزم کا شکار تھا۔

اگرچہ برطانیہ نے انھیں 2000 میں ان کی ’انفارمیشن ٹیکنالوجی سروسز‘ کے لیے ’ڈیم‘ کے عظیم لقب سے نوازا تھا، لیکن ان کے قریبی لوگ اب بھی انھیں ’سٹیو‘ کہتے ہیں۔

زینب النفزاویہ: یوسف بن تاشفین کی بااثر ملکہ جنھیں مذاکرات کے فن پر ’جادوگر‘ کا لقب ملا’ماما فائر فائٹرز‘: انڈونیشیا کی وہ خواتین جو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف کسانوں کی مدد کر رہی ہیںاے آئی کمپنی کی بانی خاتون کے بیگ سے اپنے ہی چار سالہ بیٹے کی لاش برآمد، ’شوہر سے تنازع کی وجہ سے دباؤ میں تھی‘فاطمہ وٹ بریڈ: وہ بچی جسے پیدا ہونے کے بعد ’مرنے کے لیے‘ چھوڑ دیا گیا، عالمی جیولن چیمپیئن کیسے بنیں؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More