گنتی کی معمولی غلطی جس نے تاریخ کے طویل ترین سال (445 دن) کو جنم دیا

بی بی سی اردو  |  Mar 03, 2024

Getty Imagesروم کے بادشاہ جولیس سیزر نے موسم کے حساب سے کیلنڈر کو درست کرانے کی کوشش کی تھی

ایک زمانہ وہ تھا جب سال اور مہینے کے حساب کو ٹھیک کرنے کے لیے روم کے بادشاہ جولیس سیزر نے غیر منظم رومن کیلنڈر میں مہینوں کا اضافہ کیا، ان میں سے کچھ کو ختم کیا اور پھر لیپ ایئر کا رواج سامنے آیا۔

لیکن اس عظیم الشان منصوبے کو حساب کتاب کی بنیادی غلطی سے بہت سی پریشانیوں کا سامنا رہا۔

یہ پہلی صدی قبل مسیح کی بات ہے جب موسم بہار کے وسط میں فصل کی کٹائی کی تقریبات کا وقت آیا تو معاملہ کافی الجھا ہوا نظر آیا۔ رسم کے مطابق اس وقت تک سبزیاں تیار ہو جانی چاہیے تھیں۔

لیکن جب کسانوں نے اپنے اپنے کھیتوں کو دیکھا تو ویسا نہیں تھا اور فصل کو کاٹنے کا وقت نہیں ہوا تھا۔

اس کا سبب ابتدائی رومن کیلنڈر کا تھا جو حساب کتاب کی گڑبڑی سے اس قدر بے ترتیب ہو چکا تھا کہ انتہائی اہم سالانہ تعطیلات کی تاریخوں کا حقیقی دنیا سے کوئی تعلق نہیں رہ گیا تھا۔

یہ وہ بے ترتیبی تھی جسے جولیس سیزر ٹھیک کرنا چاہتے تھے۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اس مشن کا مقصد رومی سلطنت کو ایک کیلنڈر پر لانا تھا جس میں زمین کی اس کے محور (ایک دن) پر گردش اور سورج کے مدار (ایک سال) کے گرد چکر کے مطابق ڈھالنا تھا۔

کیلنڈر کو درست کرنے کی شہنشاہ کی تجویز کا نتیجہ تاریخ کے طویل ترین سال کے طور پر سامنے آیا۔

یہ ایک بہت بڑا منصوبہ تھا لیکن یہ رومن ریاضی کی ایک نرالی غلطی کی وجہ سے تقریباً پٹری سے اتر گیا۔

یہ سال 46 قبل مسیح تھا جسے کنفیوژن کا سال بھی کہا جاتا ہے۔

Getty Imagesروم میں تہوار اور تعطیلات کیلنڈر پر مبنی تھا لیکن کیلنڈر ہی درست نہیں تھابغیر کام کے دن کو شمار نہیں کیا گيا

برطانیہ کی یونیورسٹی آف ریڈنگ میں تاریخ کی پروفیسر ہیلن پیرش کہتی ہیں کہ وہ شاید مشکل سال رہا ہو، لیکن اتنا مشکل بھی نہیں جتنا کہ جانا جاتا ہے۔

قدیم ترین رومن کیلنڈر کا تعین چاند کے چکروں اور زرعی سال کے چکروں سے پر مبنی تھا۔ آج کی نظروں سے دیکھ کر اس کے متعلق کوئی مایوسی محسوس کر سکتا ہے۔

اس کے صرف 10 مہینے ہوتے تھے۔ یہ مارچ میں بہار کے موسم کے ساتھ شروع ہوتا تھا اور سال کا دسواں اور آخری مہینہ وہ ہوتا تھا جسے اب ہم دسمبر کے نام سے جانتے ہیں۔ ان میں سے چھ مہینے 30 دن کے تھے اور چار 31 دن تھے اور اس طرح سال میں کل 304 دن بنتے تھے تو پھر باقی دن کہاں جاتے تھے؟

پارش کہتی ہیں کہ 'سال کے دو مہینوں کے دوران جب کھیتوں میں کام نہیں کیا جاتا تھا، وہ شمار نہیں کیے جاتے تھے۔ سورج طلوع ہوتا اور غروب ہوتا تھا لیکن قدیم رومن کیلنڈر کے مطابق سرکاری طور پر کوئی دن نہیں گزرتا تھا۔

'یہیں سے پیچیدگیاں ظاہر ہونا شروع ہوئی تھیں۔'

731 قبل مسیح میں، روم کے دوسرے بادشاہ نوما پومپیلیس نے موسم سرما کی مدت کو پورا کرنے کے لیے اضافی مہینوں کو متعارف کراتے ہوئے کیلنڈر کو بہتر کرنے کا فیصلہ کیا۔

پیرش کہتی ہیں کہ ایسا انھوں نے اس لیے کیا 'کیونکہ ایسے کیلنڈر کا کیا فائدہ تھا جو صرف سال کے کچھ حصے پر محیط ہو۔'

پومپیلیس نے اس کا حل کیلنڈر میں 51 دن کے اضافے کے ساتھ تلاش کیا جس کو ہم اب جنوری اور فروری کہتے ہیں۔ اس توسیع نے سال کو 355 دن کا بنا دیا۔

355 دن ایک طاق عدد ہے۔ بادشاہ نے دانستہ طور پر ایسا کیا تھا۔ قمری سال (12 قمری مہینے) کے مطابق دیکھیں تو سال کی مدت 354 دن ہوتی ہے۔

بہر حال پروفیسر پیرش بتاتی ہیں کہ 'جفت اعداد کے بارے میں رومن توہمات کی وجہ سے، 355 حاصل کرنے کے لیے ایک اضافی دن کا اضافہ کیا گيا۔'

مہینوں کو اس طرح ترتیب دیا گیا کہ ان میں فروری کے 28 دن کے علاوہ باقی تمام مہینے طاق عدد تھے۔ اس لیے ماہرین کے مطابق یہ 'سماجی، ثقافتی اور سیاسی تطہیر کا ایک بدقسمت وقت سمجھا جاتا ہے۔'

ایسے میں یہ وہ لمحہ تھا جب آپ سلیٹ کو صاف کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔'

یہ اچھی پیش رفت تھی، لیکن پھر بھی 365 دن کے شمسی سال کو حاصل کرنے کے لیے ابھی تقریباً 11 دن سے ذرا زیادہ بچ جاتے تھے۔ پومپیلیو کے اس بہتر کیلنڈر کے باوجود اس کا موسموں کے ساتھ مطابقت رکھنا مشکل تھا۔

Getty Imagesمذہبی تقریبات اور کاشتکاری کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک درست کیلنڈر کی ضرورت تھیمشیر کا مشورہ

تقریباً 200 قبل مسیح میں حالات اس قدر خراب ہو چکے تھے کہ روم میں سورج کا ایک تقریباً مکمل گرہن دیکھا گیا جو آج کے کیلنڈر کے حساب سے تو 14 مارچ کو ہوا تھا لیکن اس زمانے کے دن کے حساب سے یہ 11 جولائی کو ہوا تھا۔

پروفیسر پیرش کہتی ہیں کہ 'ایسا اس لیے ہوا کہ اس وقت تک کیلنڈر بہت زیادہ غلط ہو چکے تھے۔ اور پھر شہنشاہ اور پادریوں نے موسموں کے ساتھ کیلنڈر کو ہم آہنگ کرنے کے لیے ایک اضافی مہینہ مرسیڈونس داخل کرنے کا فیصلہ کیا۔

اس سے بھی بات نہیں بنی کیونکہ موسم کے اعتبار سے کلینڈر کو ٹھیککرنے کے بجائے سرکاری طور پر بعض حکام مرسیڈونس کو شامل کرنے کے حق میں تھے۔

اپنے وقت کے کلاسیکی مصنف اور مورخ سیوٹونیس نے شکایت کی کہ 'پادریوں کی لاپرواہی اور من مانے ڈھنگ سے دن اور مہینوں کے اضافے کے استحقاق نے طویل عرصے سے کیلنڈر کو اتنا خراب کر رکھا ہے کہ فصل کی کٹائی کے تہوار گرمیوں میں نہیں آتے اور نہ ہی انگور کی کٹائی خزاں کے موسم میں ہوتی ہے۔‘

یہ شکایت ہمیں جولیس سیزر کے زمانے میں لے آتی ہے۔

یہ 46 قبل مسیح کا سال تھا جس میں پہلے ہی مرسیڈونس کو جوڑنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا لیکن اسکندریہ کے ماہر فلکیات اور سیزر کے مشیر سوسیگینز نے کہا کہ اس بار یہ اضافی مہینہ کافی نہیں ہوگا۔

سوسیگینز کے مشورے کے بعد، سیزر نے کیلنڈر کو سورج کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے لیے دو مزید مہینوں کا اضافہ کیا جو پہلے کبھی نہیں دیکھے گئے تھے، ایک 33 دنوں کا اور دوسرا 34 دنوں کا۔

اس اضافے کی وجہ سے وہ سال تاریخ میں 445 دن کا سال رہا اور اس میں 15 مہینے آئے جو کہ تاریخ کا طویل ترین سال ثابت ہوا۔

عمر خیام: جن کی اپنی قبر کے بارے میں پیشگوئی ’حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی‘’شیر کا سال‘: نیا چینی سال جس میں پیدا ہونے والے بچے ’بہادر‘ ہوں گےلیپ ایئر کیا ہوتا ہے اور سال کا اضافی دن فروری کو ہی کیوں ملتا ہےGetty Imagesکیلنڈر اور سورج کے گرد زمین کی گردش میں فرق سے مسئلہ پیدا ہو رہا تھااصل مسئلہ

46 قبل مسیح کے بعد دو نئے مہینوں مرسیڈونس اور مجموعی طور پر کبھی کبھار بیچ میں داخل کیا جانے والے مہینوں کا رواج ترک کر دیا گیا کیونکہ، اگر سب کچھ ٹھیک رہا تو ان کی مزید ضرورت نہیں رہے گی۔

پیرش کا کہنا ہے کہ اس کے بعد 'ہم ایک ایسے کیلنڈر سے روشناس ہوتے ہیں جو بہت حد تک ہم جیسا نظر آتا ہے۔'

بدقسمتی سے کیلنڈر کو سورج کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ایک چیز ہے اور اسے اس اس طرح برقرار رکھنا دوسری بات ہے۔ مسئلہ اس حقیقت سے پیدا ہوتا ہے کہ ایک سال میں دنوں کی کوئی متعین تعداد نہیں ہے جو زمین کی گردش اور رات دن کے چکروں سے پوری طرح مطابقت رکھے۔

برطانیہ کی ناٹنگھم ٹرینٹ یونیورسٹی کے ماہر فلکیات ڈینیئل براؤن کہتے ہیں: 'یہیں سے سارا مسئلہ شروع ہوتا ہے کیونکہ سورج کے گرد ایک چکر میں زمین کی گردشوں کی تعداد تقریباً 365.2421897 ہے۔۔۔'

اس کا مطلب ہے کہ جب بھی زمین سورج کے گرد مکمل چکر لگاتی ہے تو وہ تقریباً ایک چوتھائی دن کا اضافی موڑ لیتی ہے۔ سوسیگینز نے حساب لگایا کہ ہر چار سال بعد ایک اضافی دن شامل کرنے سے (فروری میں) اس کو پورا کرنے میں مدد ملے گی۔

سوسیگینز کے حساب کے مطابق یہ بہت اچھی طرح سے کام کرتا لیکن یہ کام نہیں کر سکا کیونکہ روم کے لوگ سالوں اور مہینوں کی گنتی عجب طرح سے کرتے تھے۔

پروفیسر پیرش کہتی ہیں کہ 'وہ سالوں کی گنتی اس طرح کرتے تھے۔ ایک، دو، تین، چار اور پھر چار سے دوبارہ گننا شروع کر دیتے یعنی چار، پانچ، چھ، سات۔ پھر وہ سات کو دوبارہ شمار کرتے اور سات، آٹھ، نو، دس گنتے۔ تو وہ غلطی سے ان میں سے ایک سال کو ہر بار دو بار گنتے۔'

اسے آگسٹس کے دور میں درست کیا گیا اور پھر لیپ سال ہر تین کی بجائے ہر چار سال بعد آنے لگے۔ جولین کیلنڈر اسی طرز پر تھا۔

اگر زمین ہر سال ایک اضافی چوتھائی موڑ لیتی تو شاید یہ واحد کیلنڈر ہماری ضرورت کو پورا کر دیتا۔ لیکن وہ حساب لگانے میں 11 منٹ سے ذرا کم رہ گئے۔

Getty Imagesسورج سے آج بھی وقت کا تعین ہوتا ہےدیر آئے درست آئے

اس کا حل بہت بعد میں آیا میں سنہ 1582 میں آییا جب پوپ گریگوری نے اس میں مزید ایڈجسٹمنٹ کیا۔

براؤن کہتے ہیں کہ 'یہ وہی ہے جسے گریگورین کیلنڈر کی اصلاح نے بعد میں درست کیا: اور یہ طے کیا کہ ہر چار سال میں ایک دن کا اضافہ کیا جائے لیکن پھر ہر 100 سال بعد وہ اس اصول کو ایک بار چھوڑنا یقینی بناتے ہیں۔ لیکن پھر انھوں نے دیکھا کہ یہ بہت زیادہ مطابقت نہیں رکھتا اس لیے اس زیادتی کی تلافی کی گئی ہے اور اب ہر 400 سال بعد اسے چھوڑا جاتا ہے۔'

اسی لیے سال 2000 ایک لیپ سال تھا کیونکہ یہ 100 اور 400 دونوں سے تقسیم ہوتا ہے۔

پیرش کا کہنا ہے کہ 'یہ سب واقعی صاف ستھرا لگتا ہے لیکن یہیں سے سیاست وقت کی شکل طے کرنا شروع کرتی ہے۔ یہ وہ کیلنڈر ہے جو پوپ کے فرمان کے ذریعہ نافذ کیا گیا جس کا اصل میں چرچ کے باہر اور روم کے بشپ کے سرپرستی سے باہر کوئی اختیار نہیں ہے۔'

پیرش کا کہنا ہے کہ ایسے میں بہت سے لوگوں نے شکایت کی کہ پوپ نے درحقیقت کیلنڈر کو ایڈجسٹ کرکے ان کے 10 یا 11 دن کا وقت چوری کر لیا۔ تاہم وقت کے ساتھ آنے والی صدیوں میں زیادہ سے زیادہ ممالک نے گریگورین کیلنڈر کو اپنا لیا ہے۔

پیرش کا کہنا ہے کہ 'دلچسپ بات یہ ہے کہ سب نے ایک ہی وقت میں ایسا نہیں کیا۔ ہم نے کیلنڈر کو ترتیب دیا ہے لیکن اب بھی دنیا میں ایسے مختلف ممالک ہیں جو مختلف کیلنڈر کو اپناتے ہیں اور وہ بہت مختلف ماڈلز پر کام کرتے ہیں۔'

پروفیسر پیرش کہتی ہیں کہ اس اختلاف کی وجہ سے بعض اوقات 'عجیب صورت حال پیدا ہوئی تھی جیسے کہ سپین سے آنے والے خطوط کا انگلینڈ میں لکھا گیا جواب ایسا لگتا تھا کہ اس خط کے سپین سے آنے سے پہلے ہی بھیجدیا گیا تھا۔'

اس کی وضاحت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ایسا اس لیے تھا کہ ان کے کیلنڈر کے مطابق 'انگلینڈ سپین سے آگے تھا۔'

ایک بار جب گریگورین کیلنڈر کو بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر اپنا یا اور ہم آہنگ کر لیا گیا تو یہ کئی ہزار سال تک کے لیے درست ہو گیا۔ لیکن یہ اب بھی کامل نہیں ہے۔

کیونکہ 56 ویں صدی کے وسط میں کوئی 'اپنا سر کھجاتے ہوئے یہ کہہ سکتا ہے کہ ذرا ٹھہر، اسے تو سوموار ہونا چاہیے، لیکن یہ درحقیقت منگل کی طرح لگتا ہے۔ پیرش کہتی ہیں کہ 'میرے خیال سے یہ ایک ایسی غلطی ہے جسے ہم قبول کر لیں گے۔'

بہر حال 56ویں صدی میں اس سوموار (یا منگل) کے آنے تک ہمیں گریگورین کیلنڈر نے کم از کم تھوڑا وقت تو دیا ہے۔

نئے اسلامی سال کا آغاز مختلف ممالک میں مختلف کیوں؟دنیا میں رائج مختلف کیلنڈر: جنوبی کوریا میں لوگ تین بار چالیس سال کے کیسے ہوتے ہیںجنوری کو ہی سال کا پہلا مہینہ کیوں مانا جاتا ہے؟عمر خیام: جن کی اپنی قبر کے بارے میں پیشگوئی ’حرف بہ حرف درست ثابت ہوئی‘
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More