BBC
کراچی کے علی عباس نے ایک ایسا روبوٹ تیار کیا ہے جو آٹیزم کا شکار بچوں کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس روبوٹ کا نام اُنھوں نے ٹم ٹم رکھا ہے۔
آٹزم سپیکٹرم ڈس آرڈر یا اے ایس ڈی ساری عمر رہنے والی ایک ایسی بیماری ہے جس میں مریض کی لوگوں سے بات کرنے کی صلاحیت متاثر ہو جاتی ہے۔ انسان کی ذہنی استعداد کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے تاہم یہ مختلف افراد میں مختلف سطح پر ہوتا ہے، کبھی کم اور کبھی بہت زیادہ متاثر کرتا ہے۔
عالمی ادارہ صحت کے اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر میں ہر 160 میں سے ایک بچہ آٹزم کا شکار ہوتا ہے لیکن اگر ہم اس مرض کی تشخیص کے حوالے سے دیکھیں تو اس میں مرد و خواتین میں تعداد کے اعتبار سے بہت فرق نظر آتا ہے۔
اے ڈی ایس بچپن میں شروع ہوتا ہے اور لڑکپن اور جوانی تک جاری رہتا ہے تاہم ای ایس ڈی کا شکار کچھ افراد کو عمر بھر کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔
اگر والدین اور خیال رکھنے والوں کے پاس درست معلومات ہوں تو وہ ٹریننگ کے ذریعے خاص صلاحیتیں حاصل کر سکتے ہیں جیسا کہ بات چیت کرنے اور سماجی رویے کو سمجھنے میں مدد حاصل کرنا۔ اس سے اے ایس ڈی کا شکار افراد اور ان کے ساتھ رہنے والوں کے طرز زندگی میں بہتری آ سکتی ہے۔
BBCٹم ٹم بنانے کا خیال کیوں آیا؟
ایسے ہی والدین کی مدد کرنے کے لیے علی نے ٹم ٹم روبوٹ بنایا۔ علی کی کمپنی کا نام ہیپرو ہے جو پاکستان بھر میں آٹیزم کا شکار بچوں کے لیے روبوٹ بناتی ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’میں ٹیکنالوجی کی دنیا میں کچھ نیا کرنا چاہتا تھا اور میں کافی عرصے سے دیکھ رہا تھا کہ آٹیزم کا شکار بچوں کو بولنے میں مشکل پیش آتی ہے مگر لوگ اُن کو پاگل کہنا شروع کر دیتے ہیں۔‘
’میں نے اس بات کو دیکھتے ہوئے یہ روبوٹ بنایا جو ان بچوں کے کمیونیکیشن کی صلاحیتوں کو بہتر بنا سکتا ہے۔‘
علی نے بتایا کہ پاکستان میں وہ آٹیزم کا شکار بچوں کے لیے یہ پراجیکٹ لانے والے پہلے شخص ہیں اور اُن کے اسی آئیڈیا کو سہراتے ہوئے صدرِ پاکستان ڈاکڑ عارف علوی نے انھیں صحت کے شعبے میں پہلا انعام دیا تھا۔‘
روبوٹس یا آرٹیفیشل انٹیلیجنس کی جب بات ہوتی ہے تو دماغ میں یہ خیال بھی آتا ہے کہ ان سب کے لیے لاکھوں کی تعداد میں پیسا چاہیے ہو گا۔ علی نے بھی آغاز میں اپنی کمپنی کھولنے کا نہیں سوچا تھا بلکہ وہ تو اپنے اس آئیڈیا کو لے کر ایک جگہ نوکری کے لیے انٹرویو دینے گئے مگر اُن کے اس آئیڈیا کو دیکھ کر انٹرویو دینے والے نے اُن کو مشورہ دیا کہ وہ اپنی کمپنی کھول لیں۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھتا ہوں اور مجھے کاروبار چلانے کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں تھا، اور نہ ہی میری کوئی ٹیم تھی، پھر میں نے گھر والوں کی مدد سے اپنی کمپنی شروع کی اور آج میرے پاس پانچ لوگوں کی ٹیم ہے۔‘
ٹم ٹم روبوٹ بنانے میں کتنا خرچا آیا؟
پاکستان میں کیونکہ دنیا کے مقابلے میں آئی اے کے شعبے میں بہت کم کام ہو رہا ہے اس لیے یہاں پر ان کو بنانے کے لیے استعمال ہونے والے بہترین معیار کے آلات بھی تیار نہیں کیے جاتے ہیں۔ ایک روبوٹ بنانے کے لیے جو بھی چیزیں ضرورت ہوتی ہیں وہ پاکستان میں موجود نہیں ہیں،یہی وجہ ہے کہ علی نے ریسرچرز کی مدد سے جب اس کا ڈایزئن تیار کیا تو اُن کو دوسرے ممالک سے اس کی چیزیں منگوانی پڑیں۔
’ٹم ٹم میں لگنے والی ایل سی ڈی، پروسیسر، کیمرہ، اس کی باڈی سیمت ساری چیزیں ہمیں بھاری قیمت ادا کر کے منگوانی پڑیں۔ کیونکہ یہ بچوں کو مدِنظر رکھ کر تیار کیا گیا ہے تو اس میں جو چیزیں استعمال ہوئی ہیں وہ کافی مہنگی ہیں۔‘
علی نے بتایا کہ اس کو بنانے میں تقریباً تین لاکھ سے زائد کا خرچا آیا ہے اور اب وہ اس کو مارکیٹ میں چار لاکھ اسی ہزار میں بیچ رہے ہیں۔
پاکستان کا نوجوان سائنسدان جسے ملک کی کسی یونیورسٹی نے ایک سال تک داخلہ نہ دیاانسانی جین کی گتھیاں سلجھانے والی پاکستانی نژاد ڈاکٹر آصفہ اخترجب پانچ پاکستانی سائنسدانوں نے صرف نو ماہ میں پاکستان کو خلائی قوت بنا دیاٹم ٹم کیا واقعی ہی آٹیسٹک بچوں کی بول چلا بہتر بنانے میں مدد کر رہا ہے؟
کراچی سے تعلق رکھنے والی ڈاکٹر عصمہ احمد الشفا ہسپتال میں بطور کلینکل سائیکولجسٹ کام کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر عصمہ ٹم ٹم روبوٹ کے ساتھ گذشتہ ایک سال سے زیادہ عرصے سے کام کر رہی ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ ’میں نے ٹم ٹم کو بہت سی تھیراپسٹس میں استعمال کیا ہے۔ جب ہم آٹیزم کی بات کرتے ہیں تو اے اے سی ٹیکنولیجیز تھراپیز میں بہت مدد کرتی ہیں۔ ان تھراپیز میں ہم روبوٹ استعمال کر کے بچوں میں مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں، جو اس روبوٹ کی مدد سے میں نے آتی دیکھی ہیں۔‘
ڈاکڑ عصمہ کے مطابق آٹیزم سے متاثر ہر بچہ ایک دوسرے سے مختلف ہوتا ہے اور ہر بچے کی ضرورت بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ اُنھوں نے اس روبوٹ کے استعمال سے متعلق بتایا کہ دو سال کے دوران اس روبوٹ کو مختلف بچوں کے لیے استعمال کیا گیا اور اس کا نتیجہ بھی ہر بچے پر مختلف نظر آیا۔
’کچھ بچے اس روبوٹ کا قد دیکھ کر اس کی جانب راغب ہوتے ہیں، کچھ اس کے منفرد فیچرز دیکھ کر اس کے پاس آتے ہیں، اگر کسی آٹیزم کے شکار بچے کو تصویریں لینے کا شوق ہے تو وہ اس میں تصویریں بھی لے سکتا ہے اور یہ اُن کا دوست بننے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔‘
BBCپاکستان مصنوعی ذہانت کی دنیا میں کہاں کھڑا ہے؟
اگر ہم دنیا کی بات کریں تو مختلف ممالک میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے ذریعے نہ صرف میڈیکل بلکہ کئی دوسرے شعبوں میں تحقیق کے لیے اس کا استعمال بڑھتا جا رہا ہے۔
دفاعی میدان سمیت کئی شعبوں میں اے آئی یعنی مصنوعی ذہانت کے استعمال سے آنے والی تبدیلیاں جہاں ٹیکنالوجی میں ایک نیا سنگِ میل ثابت ہو رہی ہیں وہیں ماہرین کو اس بارے میں کئی خدشات اور تحفظات کا سامنا بھی ہے۔
علی عباس جیسے نوجوان انفرادی طور پر کام کر رہے ہیں۔ حکومتی سطح پر آرٹیفیشل اینٹلیجنس کی ترقی کے لیے اگرچہ کچھ ہوتا نظر تو نہیں آ رہا مگر ماضی میں حکومتی نمائندے دعوے کرتے رہے ہیں کہ پبلک سیکٹر آہستہ آہستہ اے آئی ٹیکنالوجی کی طرف منتقل ہو رہا ہے۔
پاکستان میں جہاں غربت پہلے ہی بہت زیادہ ہے وہاں یہ خوف بھی ہے کہ اگر اے آئی کو سسٹم میں داخل کر لیا گیا تو روزگار پر بہت منفی اثر پڑے گا، یہ خوف کسی حد تک ٹھیک ہے مگر ہر نئی چیز کئی مواقع بھی ساتھ لاتی ہے، جس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان میں تجارتی سامان کی کلیئرنس میں مصنوعی ذہانت کیسے استعمال ہو رہی ہےمصنوعی ذہانت کی وجہ سے ’30 کروڑ نوکریاں ختم ہو سکتی ہیں‘جب پانچ پاکستانی سائنسدانوں نے صرف نو ماہ میں پاکستان کو خلائی قوت بنا دیاانسانی جین کی گتھیاں سلجھانے والی پاکستانی نژاد ڈاکٹر آصفہ اخترپاکستانی سائنسدان کی وہ ایجاد جس سے مرگی کا علاج ممکن ہو گاپاکستان کا نوجوان سائنسدان جسے ملک کی کسی یونیورسٹی نے ایک سال تک داخلہ نہ دیا