کچھ جانوروں میں ’کنواری پیدائش‘ کیوں ہوتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Mar 02, 2024

Getty Images

یہ ایک ایسا عمل ہے جو فطرت کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا دکھائی دیتا ہے۔ فروری 2024 میں امریکی ریاست شمالی کیرولائنا کے علاقے ہینڈرسن ویلی میں ایک چھوٹے سے اکویریئم (مچھلی گھر والا ٹینک) میں موجود چارلٹ نامی ایک مادہ سٹنگرے مچھلی حاملہ ہو گئی تھی۔ حالانکہ گذشتہ آٹھ سال سے زیادہ عرصے میں وہ کسی نر سٹنگرے مچھلی کے ساتھ تعلق میں نہیں آئی تھی۔ اس واقعے نے ایکو اکویریئم اور شارک لیب کی سائنسدانوں کی ٹیم کو حیران کر دیا۔

چارلٹ نے اپنے اکویریئم میں بنا کسی نر ساتھی کے ساتھ تعلق میں آئے چار سٹنگرے مچھلیوں کو کیسے جنم دیا، یہ ایک معمہ تھا۔

ایک نظریے میں اس عمل کے لیے چارلٹ کے ساتھ اکویریئم میں تیرتی ہوئی دو سفید دھبوں والی بامبو شارک کو اس کا ممکنہ ذمہ دار ٹھہرایا۔ اس کی وجہ چارلٹ کے جسم پر کاٹنے کے کچھ مشکوک نشانات تھے۔ اس طرح کے نشانات شارک میں جماع کے رویے کی علامت ہو سکتے ہیں۔

لیکن یہ ایک غیر معمولی شارک سٹنگرے ہائبرڈ نسل کا باعث بنے گا۔ اس کے بجائے سائنس دانوں کا خیال ہے کہ حمل ایک غیر معمولی رجحان کا نتیجہ ہو سکتا ہے جسے پارتھینوجینسیس کہتے ہیں۔ یہ یونانی لفظ پارتھینوس جس کا مطلب ہے ’کنواری‘ اور جینیسیس، جس کا مطلب ’تخلیق‘ ہے، سے نکلا۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ایک انڈا نطفے کے ذریعے فرٹیلائز کیے بغیر جنین میں نشوونما پاتا ہے۔

لیکن چارلٹ ’تنہا یا کنواری‘ حاملہ ہونے والا پہلا جانور نہیں۔ پارتھینوجنیسیس کا عمل کیڑوں میں بہت عام ہے، جیسے کہ مکھیاں وغیرہ، حالانکہ یہ ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانوروں میں بہت کم ہوتا ہے۔ 2001 میں ایک بونٹ ہیڈ شارک کا کنواری حاملہ ہونے کے بعد سے شارک اور رینگنے والے جانوروں میں ایسے زیادہ کیسز رپورٹ ہوئے ہیں۔ شارلٹ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ سٹنگرے میں پارتھینوجنیسیس کا پہلا ریکارڈ شدہ واقعہ ہے۔

لیکن پارتھینوجنیسیس کا عمل کب اور کیوں ہوتا ہے یہ آج تک ایک معمہ ہے۔ کچھ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ یہ مادہ جانوروں میں اپنی جینیات کو اولاد میں منتقل کرنے کی ایک ’آخری کوشش‘ ہے۔

شکاگو کے فیلڈ میوزیم میں شارک کی آبادی اور جماع کے رویے کا مطالعہ کرنے کے لیے جینیات کا استعمال کرنے والے مالیکیولر بائیولوجسٹ کیون فیلڈہیم کہتے ہیں کہ ’ارتقا کا مقصد آپ کے جینز کو منتقل کرنا ہے۔ ایک مادہ جو عام طور پر جنسی تولید کے ذریعے بچوں کو جنم دیتی ہے مگر نر سے نر سے الگ تھلگ رہنے والی مادہ کو یہ موقع نہیں ملتا۔‘

Getty Images

فیلڈہیم نے سنہ 2008 میں شکاگو کے شیڈ اکویریئم میں زیبرا شارک میںپارتھیوجنسیس کے ایک اور معاملے کی چھان بین کی۔ سب سے پہلے انھیں اکویریئم میں موجود مچھلیوں کے درمیان کے جنسی تعلقات کے امکان کو رد کرنا پڑا۔

ان کا کہنا ہے کہ ’اس بات کا کوئی براہ راست ثبوت نہیں تھا کہ نر مچھلیوں نے مادہ کے ساتھ ملاپ کیا تھا، لیکن بدقسمتی سے ٹینک میں 24 گھنٹے نگرانی کرنے والے کیمرے نہیں ہیں۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ شارک کی ولدیت کا پتہ لگانا زیادہ پیچیدہ ہو سکتا ہے کیونکہ کچھ مادہ شارک جماع کے بعد مہینوں تک سپرم کو اپنے اندر ذخیرہ کر سکتی ہیں۔

فیلڈہیم نے ان مچھلیوں کی ولدیت یا والدین کے متعلق جاننے کے لیے ان کے جینیاتی نشاندہی کے لیے مائیکرو سیٹلائٹس نامی پیٹرنٹی ٹیسٹ تیار کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ انسانوں میں والدین کی جینیاتی شناخت تلاش کرنے کے معاملات میں استعمال ہوتے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ نتائج نے اس بات کی تصدیق کی کہ زیبرا شارک کی اولاد کا کوئی پدرانہ ڈی این اے نہیں تھا بلکہ اس میں صرف مادہ کے جینز تھے۔

فیلڈہیم کہتے ہیں کہ اب ایک بڑا سوال یہ تھا کہ یہ سب کچھ کیسے ہوا؟ تو اس کا سادہ سا جواب ہے پارتھینوجینیسیس کے ذریعے۔

جانوروں کی تولید کے زیادہ تر معاملات میں، انڈے مییووسس نامی ایک عمل میں پیدا ہوتے ہیں، جہاں خلیے تقسیم ہوتے ہیں اور جینیاتی مواد اور دیگر سیلولر مشینری کو بانٹتے ہیں۔ یہ عمل تین سیلولر شاخیں یا جینیاتی انڈے پیدا کرتا ہے جنھیں پولر باڈیز کہتے ہیں۔ عام طور پر یہ پولر باڈیز مادہ دوبارہ اپنے اندر جذب کر لیتی ہے لیکن پارتھینوجینیسس میں ان پولر بوڈیز میں سے ایک میں انڈے کی نشوو نما ہو سکتی ہے اور یہ ایک قابل عمل جنین بنا سکتا ہے۔ یہ عمل جنسی تولید کی نقل کرتا ہے۔

جارجیا اکویریئم میں شارک، سکیٹ اور رے مچھلیوں کا مطالعہ کرنے والی ایک محقق سائنسدان کیڈی لاینز کا کہنا ہے کہ یہ کلوننگ سے ایک مختلف عمل ہے اور اس میں خامیاں ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جو خلیے استعمال کیے جا رہے ہیں وہ ماں کی کاربن کاپی نہیں ہیں۔ تاہم، چونکہ انڈے اور پولر باڈیز دونوں میں صرف ماں کے جینوم کے حصے ہوتے ہیں، اس لیے اولاد اپنی ماں کے مقابلے میں جینیاتی طور پر کم متنوع ہوتی ہے، جیسا کہ ’ایک نسلی یا جبلی فطرت والے جاندار‘ میں دیکھا جا سکتا ہے۔

Getty Images

کچھ جانوروں کے لیے غیر جنسی تولید فائدہ مند ہے۔ مثال کے طور پر میکسیکو اور کیلیفورنیا میں وہپٹل چھپکلی کی کچھ آبادی تمام مادہ بن گئی ہے اور غیر جنسی طور پر دوبارہ بچے پیدا کرتی ہے۔ جانوروں نے غیر جنسی طور پر تولید کرنے والی مادہ کے انڈوں میں کروموسوم کی تعداد کو دوگنا کرکے پارتھینوجینیسیس کے ذریعے اپنے جینیاتی تنوع کو برقرار رکھنے کا ایک غیر معمولی طریقہ تیار کیا ہے۔

اس کے کچھ فائدے ہیں، جو جانوروں کی ان اقسام کونئے علاقوں میں آباد کرنے اور جنسی طور پر منتقل ہونے والی بیماریوں جیسے نقصانات سے بچنے میں مدد دیتے ہیں۔

لیکن اس کی ایک قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ قدرتی طریقہ تولید کی عدم موجودگی کے باعث ان جانوروں کا ڈی این اے جنسی تولید کے مقابلے میں پارتھینوجینیسیس کے ذریعے زیادہ نقصان دہ جینیاتی تغیرات کو جنم دیتا ہے۔

بدقسمتی سے تمام جانوروں وہپٹیل چھپکلی کی طرح پارتھینوجینیسیس کے ذریعے پیدا ہونے والی اپنی نسل کو زیادہ توانا نہیں بنا سکتے۔ جیسا کہ شارک میں پارتھینوجینیسیس کے ذریعے پیدا ہونے والی اولاد مختصر عمر کی ہوتی ہے اور یہ شاذ و نادر ہی جنسی پختگی کی عمر تک پہنچتی ہے۔

فیلڈہیم کہتے ہیں کہ ان جانوروں کی اولاد میں جینیاتی تغیرات کی کمی ہوتی ہے۔

دوسرے لفظوں میں معجزانہ طور پر ریڑھ کی ہڈی والے جانوروں میں پارتھینوجنیسیس کے ذریعے پیدا ہونے والے بچے کم عمر ہو سکتے ہیں۔

سائنسدان کیڈی لائنز زیبرا شارک میں مصنوعی حمل کے تجربے کا حصہ تھیں، جہاں سائنس دانوں نے قدرتی طور پر جنسی عمل کے نتیجے میں پیدا ہونے والے اور پارتھینوجنیٹک بچوں کے درمیان زندہ رہنے کے امکانات کا مطالعہ کیا۔ اس تحقیق میں پتا چلا کہ پارتھینوٹس (پارتھینوجنیسس سے پیدا ہونے والے بچے) اوسطاً ایک سال کم زندہ رہے، ان میں بہت سی ایسی خصوصیات تھیں جو ان کے زندہ رہنے کے امکانات کو کمزور کر دیتی ہیں، جیسے کہ غیر متوازن تیراکی، گھومنا، سر کے بل غوطہ لگانا اور کھانا کھانے میں دشواری ہونا۔

وہ کہتی ہیں کہ وہ سٹنگرے مچھلی میں پارتھینوجینیسیس کا عمل دیکھ کر حیران نہیں ہوئیں، حالانکہ شارلٹ کے معاملے نے اس رجحان کے گرد موجود تمام اسرار کو حل نہیں کیا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ایک چیز جو ہم نہیں جانتے وہ یہ ہے کہ کیا اس طرح سے مادہ کو افزائش نسل کے لیے کوئی چیز متحرک کرتی ہے؟ ہم صرف یہ فرض کرتے ہیں کہ جب نر اور مادہ ایک ساتھ ہوں گے تو وہ اپنا کام کریں گے۔‘

تاہم ان غیر معمولی حالات میں جیسے کہ جانوروں کا انسانی نگرانی میں ہونا، اس دوران ارتھینوجنیسس زیادہ کثرت سے ہوتا ہے۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ظاہر ہے زندگی اپنا ایک راستہ تلاش کرتی ہے۔‘

وہ جانور جس کی سیکس کی خواہش اس کی نسل مٹا سکتی ہےایناکونڈا جنسی ملاپ کے بعد اپنے نر پارٹنر کو نگل کیوں لیتی ہیں؟کولمبیا میں نر اور مادہ دونوں خصوصیات کا حامل نایاب پرندہ دریافتانڈیا: دو نر چیتوں کے ساتھ جنسی عمل کے دوران زخمی ہونے والی مادہ چیتا ہلاک
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More