Getty Imagesمحققین کا کہنا ہے کہ انسانوں کی طرح جانور بھی ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں
جب آپ سوچتے ہیں کہ وہ کیا خصوصیات ہیں جو بنی نوع انسان کو دوسرے جانداروں سے سے منفرد بناتی ہے تو حسِ مزاح اس فہرست میں کافی نمایاں نظر آتی ہے۔
ہنسنا ہماری فطرت میں شامل ہے حتیٰ کہ تین ماہ کے چھوٹے بچوں کو جب ان کے والدین مضحکہ خیز چہرے بنا کر دکھاتے ہیں تو ان کو وہ مزاحیہ لگتے ہیں اور وہ کھلکھلا کر ہنستے ہیں۔ بچے جب آٹھ ماہ کی عمر کو پہنچتے ہیں، تو وہ سیکھ جاتے ہیں کہ کس طرح اپنے چہرے، جسم اور آواز کو استعمال کرتے ہوئے وہ اپنے بڑوں کو ہنسا سکتے ہیں۔ جلد ہی، والدین کو احساس ہوتا ہے کہ ان کا بچہ پورا مسخرہ بن گیا ہے۔ بچے چہروں پر شرارتی مسکراہٹ سجائے جان بوجھ کر ان چیزوں کے ساتھ کھیلتے ہیں جن سے کھیلنے کو انھیں منع کیا جاتا ہے۔
مگر، ایک نئی تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں انسان اکیلا نہیں۔ جو ایسا کرتے ہیں۔ جانور بھی ایک دوسرے کو چھیڑتے ہیں۔
ازابیل لاؤمر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس میں پوسٹ ڈاکٹریٹ محقق ہیں۔ انھوں نے اپنے ساتھی محققِین کے ہمراہ بندروں کی ایک دوسرے کے ساتھ بات چیت کی 75 گھنٹے سے زائد ویڈیوز کا تجزیہ کیا۔
اس تحقیق میں بندروں کی جن نسلوں کا مشاہدہ کیا گیا ان میں اورنگوٹین، چمپینزی، بونوبوس اور گوریلا شامل ہیں۔ یہ تمام نسلیں زمین پر انسانوں کے سب سے قریبی رشتہ دار سمجھے جاتے ہیں۔ اس تحقیق میں شامل تمام جانور چڑیا گھر میں رہ رہے تھے اور ان کی روزمرہ کی معمولات کی ویڈیوز ریکارڈ کی گئی تھیں۔
مشاہدے کے دوران، ان تمام جانوروں کو ایک دوسرے کے ساتھ شرارتیں کرتے اور چھیڑ چھاڑکرتے دیکھا گیا۔ محققین نے چھیڑ چھاڑ کی 18 الگ الگ شرارتوں کی نشاندہی کی ہے۔ ان میں سے پانچ سب سے زیادہ دہرائی جانے والی عادات میں چٹکی بھرنا، مارنا، ساتھی بندر کی نقل و حرکت میں رکاوٹ ڈالنا، اٹھا کر پھینکنا، اور جسم کے کسی حصے کو کھینچنا شامل ہیں۔ کچھ بندر اپنے ساتھی بندروں کے منہ کے سامنے جسم کے اعضا یا کسی چیز کو بار بار لہراتے ہیں۔ اورنگوٹینز کی بات جائے تو وہ ایک دوسرے کے بال کھینچتے ہیں۔
Getty Imagesکئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کی یہ عادات بڑے پیمانے پر جانوروں میں پائی جاتی ہیں
اس تحقیق کی مصنف لاؤمر کا کہنا ہے کہ ’ہم نے اکثر دیکھا کہ نو عمر بندر اپنے ساتھی کے بالوں سے جوئیں تلاش کرتے کسی بالغ بندر کے پیچھے چھلانگ لگا دیتے یا ان کی پیٹھ پر نوچتے یا تھپڑ مار کر کر بھاگ جاتے۔ کبھی کبھار وہ اچانک ان کے پیچھے چھلانگ لگا کر انھیں حیران کر دیتے تھے۔
’اس کے بعد وہ اس بالغ کے جواب کا انتظار کرتے اور دیکھتے رہتے۔ عام طور پر، بالغ بندر انھیں نظر انداز کر دیتے، جبکہ نو عمر بندر اپنی چھیڑ چھاڑ کے رویے اتنا بڑھا دیتے کہ انھیں نظر انداز کرنا مشکل ہو جائے۔ یہاں تک کے کبھی کبھار وہ ان سے اپنے پورے جسم کے ساتھ ٹکراتے۔‘
بندروں میں پایا جانے والا چھیڑ چھاڑ کا یہ رویہ بالکل ویسا ہی ہے جیسا کہ انسانوں کے چھوٹے بچے اپنے سے بڑوں کو چھڑنے کی غرض سے جان بوجھ کر بار بار ایک ہی شرارت دہراتے ہیں۔ اگر ہم اس کا موازنہ انسانی بچوں کے رویے سے کریں تو یہ بالکل ایسا ہے جیسے کوئی بچہ اپنی زبان نکال کر بزرگوں کو چڑاتا ہو اور پھر یہ دیکھنے کے لیے بھاگتا ہو کہ آیا اس کے بزرگ اس کے پیچھے آتے ہیں یا نہیں۔
لاؤمر کہتی ہیں کی چھیڑ چھاڑ کا یہ انداز مزاح کی مزید پیچیدہ شکلوں کی بنیاد بھی بن سکتا ہے۔ ’انسانوں میں مذاق کرنے کے لیے کافی پیچیدہ علمی صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ ان کا کہنا ہےکہ آپ کو کسی اور کے نقطہ نظر سے دنیا کو تصور کرنے کی صلاحیت، سماجی اصولوں سے واقفیت، دوسروں کے ردعمل کا اندازہ لگانے کی صلاحیت اور آپ کیسے دوسروں کی توقعات کی بر خلاف جا سکتے ہیں۔‘
چونکہ بندر کی یہ چاروں بڑی انواع چنچل اور چھیڑ چھاڑ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہیں، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ایک کروڑ 30 لاکھ سال پہلے کے ہمارے مشترکہ اجداد میں مزاح کا احساس موجود رہا ہوگا۔
تاہم، کئی سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ہنسی مذاق اور چھیڑ چھاڑ کی یہ عادات بڑے پیمانے پر جانوروں میں پائی جاتی ہیں۔
مثال کے طور پر، ماہر حیاتیات چارلس ڈارون نے اپنی کتاب دی دیسسنٹ آف مین (The Descent of Man) لکھتے ہیں کہ اس بات کا امکان ہے کہ کتوں میں بھی حسِ مزاح ہو۔
’اگر کسی کتے کی جانب چھوٹی سی چھڑی یا اس طرح کی کوئی چیز پھینکی جائے تو وہ اکثر اسے تھوڑے فاصلے تک لے جاتا ہے۔ اور پھر زمین پر اس کے ساتھ بیٹھ کر اس وقت تک انتظار کرے گا جب تک کہ اس کا مالک اسے لے جانے کے لیے کافی قریب نہ آجائے۔ جیسے ہی مالک قریب پہنچتا ہے، کتا اسے پکڑ کے بھاگ جائے گا، اور بار بار یہی حرکت دہرائے گا۔ بظاہر وہ اس عمل سے محظوظ ہوتا ہے۔‘
اکثر کتوں کے مالکان نے دیکھا ہوگا کہ کھیل کے دوران، وہ ایک طرح کی سانس لینے والی آواز پیدا کرتے ہیں جو ہنسی سے ملتی جلتی ہے۔ سنہ 2005 میں کی جانے والی ایک تحقیق میں، جانوروں کے رویے کی ماہر پیٹریسیا سیمونیٹ نے کتوں کی اس منفرد آواز کی ریکارڈنگ کو ایک ریسکیو شیلٹر میں بجایا۔ انھوں نے محسوس کیا کہ کتے کی ’ہنسی‘ کی اس آواز سے پناہ گاہ میں موجود کتوں کے تناؤ میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔
Getty Imagesچھیڑ چھاڑ کا رویہ کتوں کے علاوہ لومڑیوں، گُرگ مرغزار اور جنگلی بھیڑیوں میں بھی پایا ہے
پروفیسر مارک بیکوف یونیورسٹی آف کولوراڈو، بولڈر میں ماحولیات اور ارتقائی حیاتیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انھوں نے کئی دہائیوں پر محیط ڈیٹا اکٹھا کیا ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کتوں میں چھیڑ چھاڑ کا ویسا ہی رویہ پایا جاتا جس کا مشاہدہ لاؤمر اور ان کے ساتھیوں نے بندروں میں کیا ہے۔
مثال کے طور پر، جب کوئی کتا کسی ایسے کتے کے ساتھ کھیلنے کی کوشش کرتا ہے جو کھیلنا نہیں چاہ رہا ہو، تو وہ اسے متوجہ کرنے کے لیے اچانک چھلانگ لگانے کا اشارہ کرتا ہے اور پھر بھاگ جاتا ہے۔
بیکوف کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ رویہ کتوں، لومڑیوں، گُرگ مرغزار اور جنگلی بھیڑیوں میں پایا ہے۔
بیکوف کا کہنا ہے کہ انھوں اپنے کیرئیر کے دوران ایسے بہت سے جانوروں کی نسلوں کے بارے میں کہانیاں سنی ہیں جو کسی مسخرے کی طرح کام کرتی ہیں، جن میں گھوڑے، ایشیائی سیاہ ریچھ اور سکارلیٹ مکاؤ شامل ہیں۔
دریں اثنا، دوسرے محققین کے مشاہدوں میں آیا ہے کہ ڈولفن اکثر کھیل کھیل میں لڑتے ہوئے خوشی کی آوازیں نکالتی ہیں، اور ہاتھی بھی کھیلتے وقت آوازیں نکالتے ہیں۔ کچھ طوطے تفریح کے لیے دوسرے جانوروں کو چھیڑنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔ جیسے کہ اکثر ظوطے گھر کے پالتو کتوں کو چھیڑنے کی غرض سے سیٹی بجاتے ہیں۔
Getty Imagesاس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ چوہے بھی ہنسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں
اس بات کے بھی ثبوت ملے ہیں کہ چوہے بھی ہنسی سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ امریکہ کی نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کے ریسرچ ایسوسی ایٹ پروفیسر جیفری برگڈورف پچھلی ایک دہائی سے چوہوں پر تحقیق کر رہے ہیں۔
جب چوہوں کو گدگدی کی جاتی ہے، تو وہ ہنسی کی طرح اونچی آواز میں خوشی سے چیختے ہیں۔
برلن کی ہمبولڈ یونیورسٹی کے محققین کے ایک دوسرے گروپ کے مطابق، چوہے اس گد گدی کے احساس کے لیے بار بار واپس آتے ہیں، اور یہاں تک کہ انھیں ’گدگدی انعام‘ کے بدلے آنکھ مچولی کھیلنا بھی سکھایا جا سکتا ہے۔
اب برگڈورف اور ان کی ٹیم ان مشاہدات کے نتائج کو ڈپریشن کے علاج کے طریقہ کار ڈھونڈنے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ، ’ہم نے دیکھا ہے کہ جب جانور ایسی آوازیں نکالتے ہیں تو اس وقت وہ سب سے زیادہ متوجہ ہوتے ہیں۔‘
’میرے سپروائزر [علم العصاب کے ماہر یاک پنکسیپ] ہمیشہ کہتے ہیں کہ کھیل دماغ کے لیےبہترین غذا ہے، اور یہ سچ ہے۔ ان کے دماغ اس چیز سے جڑتے ہیں۔ وہ نئے نئے اعصابی رابطے بناتے ہیں۔ اور اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ اس سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ جب ہم اس چنچل موڈ میں ہوتے ہیں، تو درحقیقت ہم اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں اور اپنی شخصیت کا بہترین مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔‘
یہ بات تو واضح ہے کہ چوہوں کو گدگدایا جانا پسند ہے، مگر ان کا اونچی آواز میں ہنسنا واقعی اس بات کا ثبوت ہے کہ ان میں حسِ مزاح موجود ہوتی ہے؟
جانوروں میں مزاح کا احساس رکھنے کے زیادہ تر شواہد بنیادی طور پر لوگوں کے ذاتی نقطہ نظر پر مبنی ہے اور اس پیرائے میں بڑے پیمانے پر چند ہی تحقیقات ہوئی ہیں۔
یہ جاننا بھی کافی حد تک مشکل ہے کہ جانور کسی خاص رویے کا ظہار کیوں کرتے ہیں۔ لاؤمر نے جن بندروں کا مشاہدہ کیا ہے، کیا وہ چھیڑ چھاڑ کر رہے تھے، یا یہ ان کی طرف سے تناؤ کو کم کرنے کی کوشش تھی، یا کھیل شروع کرنے کی کوشش، یا پھر وہ محض توجہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے تھے؟
بیکوف کو لگتا ہے کہ جانوروں میں مزاح کا احساس ہوتا ہے مگر وہ اس بات کو بھی تسلیم کرتے ہیں کہ یہ ثابت کرنا مشکل ہے۔
بیکوف کہتے ہیں کہ ’مثال کے طور پر، میں نے ایسے گھرانوں کو دیکھا ہے جہاں دو کتے ہیں۔ جب کھانا دیے جانے کا وقت ہوتا ہے تو ایک کتا سامنے کے دروازے کی طرف بھاگتا ہے اور بھونکتا ہے، دوسرا کتا پھر یہ دیکھنے کے لیے بھاگتا ہے کہ باہر کون موجود ہے۔ اس ہی دوران، پہلا کتا واپس پیچھے بھاگتا ہے اور کھانا کھاتا ہے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ حسِ مزاح کا مظاہرہ کر رہا ہے، لیکن یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پہلے کتے نے شاید یہ سیکھ لیا ہو کہ اس طرح وہ زیادہ خوراک حاصل کرسکتا ہے‘۔
یہاں یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ جانوروں کے ارتقا میں مزاح کا کیا کام ہو سکتا ہے۔ انسانوں کے متعلق یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہنسی مذاق لوگوں میں میل جول بڑھانے میں مدد دیتے ہیں۔
کیا یہ ممکن ہے کہ مزاح جانوروں میں بھی یہی کردار ادا کرتا ہے؟
لاؤمر کہتی ہیں کہ مزاح انسانوں میں سماجی رکاوٹوں کو دور کرنے اور تعلقات کو مضبوط کرنے میں مدد دیتا ہے۔’ہم نہیں جانتے کہ آیا بندروں اور دوسرے جانوروں میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے ، لیکن یہ ممکن ہے۔‘ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں یقینی طور پر جاننے کے لیے بندروں کے دیگر انواع کی مزید جانچ اور مشاہدے کی ضرورت ہے۔