وہ گاؤں جہاں شراب کی فروخت بند کروانے کے لیے ریفرینڈم ہوا

بی بی سی اردو  |  Mar 02, 2024

Getty Imagesانڈیا میں مردوں اور خواتین دونوں میں دیہی علاقوں میں شراب نوشی کی شرح زیادہ ہے

انڈیا کی مغربی ریاست راجستھان میں نہ تو شراب کے لیے عدالتی فرمان جاری ہوا نہ ہی کوئی شرعی فتویٰ لیکن شراب کے نقصانات سے پریشان عوام نے اس کا حل ضرور نکال لیا۔

راجستھان کے کوٹ پتلی- بہرور ضلع کے ایک گاؤں میں کھلی شراب کی دکانوں کو بند کرنے کے لیے جمہوری طریقہ اختیار کرتے ہوئے ووٹنگ کی گئی۔

جس کے دوران لوگوں نے شراب کے ٹھکانوں کو بند کرنے کے حق میں ووٹ دیا۔ اس پر ایکشن لیتے ہوئے انتظامیہ نے کہا ہے کہ اگلے مالی سال سے گاؤں میں ٹھیکے الاٹ نہیں کیے جائیں گے اور موجودہ دکان بند کر دی جائے گی۔

انتظامیہ کے اس فیصلے سے گاؤں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور لوگوں نے ہولی سے پہلے عبیر اور گلال کے رنگ لگاکر ناچ اور گانے کے ساتھ اس جیت کا جشن منایا۔

یہ معاملہ کوٹ پتلی- بہرور ضلع کے نزدیک کانسلی گرام پنچایت کا ہے۔ اس گرام پنچایت میں فتح پورہ کلاں اور کانسلی نام کے گاؤں آتے ہیں۔

کانسلی گاؤں میں بہت سی سو سال سے زیادہ پرانی خستہ حال حویلیاں آج بھی کھڑی ہیں۔ یہ حویلیاں اس گاؤں کی خوشحالی کی داستان بیان کرتی ہیں۔ ماضی میں یہاں کے مشہور تاجروں اور ملازمت پیشہ لوگوں نے اس گاؤں کو پہچان دلائی ہے۔

جس شراب کے اڈے کو بند کرانے کے لیے ووٹنگ کرائی گئی وہ کانسلی گاؤں میں تھا۔ 26 فروری کو انتظامیہ نے اس گاؤں کے سرکاری سکول میں شراب کی دکان کو بند کرنے کے لیے ووٹنگ کروائی۔

شراب کی دکانیں بند کرنے کی پہل

کوٹ پتلی-بہرور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر یوگیش کمار ڈاگر نے کہا: ’پنچایت کے 3,872 ووٹروں میں سے 2,932 ووٹروں نے اس ووٹنگ میں شرکت کی۔ ان میں سے 2,919 ووٹروں نے شراب کے ٹھیکوں کو بند کرنے کے حق میں جبکہ چار نے اس کے خلاف ووٹ کیا۔‘

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر کے مطابق ’کانسلی گرام پنچایت نے جون 2022 میں گاؤں میں شراب کی دکان کو بند کرنے کے لیے ایس ڈی ایم کو درخواست دی تھی۔‘

اس پر ایکسائز شاپس کے لیے بنائے گئے سنہ 1975 کے قانون کے تحت اس وقت کے سب ڈویژنل افسر نے تحصیلدار، نائب تحصیلدار اور بی ایل او پر مشتمل ایک ٹیم کو گاؤں کا سروے کرنے کو کہا۔

پہلے سروے میں 24 فیصد لوگوں نے شراب کی دکانیں بند کرنے پر اتفاق کیا۔

ایکسائز ایکٹ 1975 کے مطابق دکان صرف اسی صورت میں بند کی جا سکتی ہے جب رجسٹرڈ ووٹروں میں سے پچاس فیصد سے زیادہ شراب کی دکان کو بند کرنے کے حق میں ووٹ دیں۔

اس کے بعد ایس ڈی ایم نے اپنی سروے رپورٹ ایکسائز کمشنر کو بھیج دی۔ ایکسائز کمشنر نے ایکٹ کے رول 5 کے تحت ایس ڈی ایم کو دوبارہ سروے کرانے اور ووٹنگ کا عمل شروع کرنے کی ہدایت دی، لیکن راجستھان اسمبلی انتخابات کے لیے ضابطہ اخلاق نافذ ہونے کی وجہ سے اس وقت ووٹنگ نہیں ہو سکی۔

ایڈیشنل ڈسٹرکٹ کلکٹر نے کہا کہ 26 فروری کو ووٹنگ کے لیے تین پولنگ پارٹیاں تشکیل دی گئی تھیں۔

اس کے لیے بانسور، بہرور اور کوٹ پتلی کے تحصیلداروں کو ڈیوٹی پر لگایا گیا۔ کانسلی میں 75 فیصد ووٹنگ شراب کی دکانوں کو بند کرنے کے حق میں رہی۔ اس میں خواتین نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

ووٹنگ کے بعد انتظامیہ نے اپنی رپورٹ ایکسائز کمشنر کو بھیج دی۔ ایکسائز کمشنر نے 29 فروری کو احکامات جاری کیے۔

بتایا گیا ہے کہ آنے والے مالی سال سے کانسلی میں شراب کی دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی۔

ایکسائز کمشنر انشدیپ نے بی بی سی کو بتایا: 'شراب کے ٹھیکوں کو بند کرنے کے حق میں ووٹنگ کی رپورٹ موصول ہوئی ہے۔ آنے والے مالی سال (یکم اپریل) سے کانسلی گرام پنچایت میں شراب کی دکانیں الاٹ نہیں کی جائیں گی، ہم نے 29 فروری کو احکامات جاری کیے ہیں۔'

’تھوڑی سی شراب نوشی بھی مضرِ صحت‘انڈیا: شراب کی دکانوں پر لگی لمبی قطاروں کا تاریک پہلوانڈیا: ریاست بہار میں ’زہریلی‘ شراب پینے سے 31 افراد ہلاکپچھلے چھ سال سے شراب کی دکان ہٹانے کی کوشش

کانسلی میں شراب کی دکان کو بند کرنے کی کوششیں گذشتہ چھ سال سے جاری تھیں۔

اس وقت کے سرپنچ وکاس نائک کہتے ہیں کہ سنہ ’2016 میں لوگوں نے شراب کی دکان کے باہر دھرنا دیا، بھوک ہڑتال بھی کی اور تحریری شکایتیں بھی کیں۔ یہ جیت ایک طویل جنگ کا نتیجہ ہے۔‘

فتح پورہ کلاں گاؤں کے رہنے والے سرکاری ٹیچر سبھاش چند یادو کہتے ہیں کہ ہماری پنچایت میں پچھلے پانچ سال سے کوششیں جاری تھیں، احتجاج بھی کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ اب گاؤں والوں میں بے انتہا خوشی ہے۔ انھوں نے بتایا کہ شراب رات بھر ٹھیکے پر دستیاب رہتی تھی۔ گاؤں میں ہی شراب دستیاب ہونے کی وجہ سے لوگ شراب کے عادی ہو چکے تھے۔

دریں اثنا پولیس سٹیشن انچارج راجیش شرما نے کہا کہ جب سے گاؤں میں ٹھیکہ الاٹ کیا گیا تھا تب سے احتجاج ہورہا تھا۔

انھوں نے بتایا کہ کسی نے شراب کی فروخت کے لیے اپنی دکان دے دی ہے لیکن اس کے بعد سے ہی شراب کی دکان کی مخالفت جاری ہے۔

شراب کی دکان کے مالک وکرم گرجر کا کہنا ہے کہ ’کئی سالوں سے کانسلی میں شراب کی دکان کو ہٹانے کے لیے آواز اٹھائی جا رہی تھی۔ دو سال پہلے کوئی بھی اس دکان کو نہیں لے رہا تھا۔ پھر ایکسائز ڈیپارٹمنٹ نے مجھے یہ شراب کی دکان الاٹ کر دی۔‘

وہ کہتے ہیں: ’گاؤں والوں نے اچھا فیصلہ کیا ہے۔ میں گاؤں والوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اگر کسی قریبی گاؤں میں بھی شراب کے خلاف ایسی آواز اٹھائی جاتی ہے تو کانسلی گاؤں کی مثال دی جائے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ میں شراب کا کاروبار کرتا ہوں لیکن میں سب کو مشورہ دیتا ہوں کہ کسی بھی قسم کے نشہ سے پرہیز کریں۔

جشن

جب اس گاؤں کے ایک نوجوان شیلیندر جوشی سے پوچھا گیا کہ اگر سرکاری شراب کی دکانیں بند ہونے کے بعد غیر قانونی شراب کا رواج شروع ہو جائے تو وہ کیا کریں گے۔

اس سوال پر انھوں نے کہا کہ ’اگر تمام گاؤں والوں نے رضاکارانہ طور پر شراب کی دکان کے بند کیے جانے کے حق میں ووٹ دیا ہے تو شراب نہیں فروخت ہو سکے گی، لیکن ہم نوجوان مل کر اس پر نظر رکھیں گے اور اس کے متعلق ہم پولیس اور انتظامیہ کی مدد لیں گے۔‘

شراب کی دکان کے عین سامنے پنکچر کی دکان چلانے والے راکیش کا کہنا ہے کہ اگر یکم اپریل کو گاؤں میں شراب کی دکان ہمیشہ کے لیے بند ہو جائے گی تو گاؤں میں بھنڈارا یعنی بھوج (دعوت عام) منعقد کیا جائے گا۔

انیتا کا کہنا ہے کہ ’ووٹنگ کے کچھ دیر بعد نتائج کا اعلان کیا گیا۔ نتائج سن کر ہماری خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ پٹاخے چھوڑے گئے، ڈی جے پر گانے بجائے گئے اور مرد و خواتین گاؤں میں ناچتے گھومتے رہے۔ ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے ایک دوسرے کو رنگ لگاتے رہے اور مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔‘

کانسلی کی رہائیشی سروج یادو پیشے سے نرسنگ ورکر ہیں۔ وہ کہتی ہیں: ’میں نے زندگی میں پہلی بار ایسا ماحول دیکھا ہے کہ سب نے اپنی مرضی سے ووٹ دیا، وہ رضاکارانہ طور پر پولنگ بوتھ پہنچے، ووٹ ڈالتے وقت ناچ گانے اور جشن کا ماحول تھا۔‘

نیشنل فیملی ہیلتھ سروے-5 کے مطابق دیہی انڈیا میں شہروں کے مقابلے میں زیادہ شراب پی جاتی ہے اور ایسا مردوں اور خواتین دونوں کے معاملے دیکھا گیا ہے۔

سنہ 2019-21 کے درمیان کیے جانے والے سرکاری سروے سے پتہ چلتا ہے کہ انڈیا میں 15 سال سے زیادہ عمر والی ایک فیصد سے ڈیڑھ فیصد تک خواتین شراب پیتی ہیں جبکہ مردوں میں یہ 19 فیصد ہے۔

انڈیا: ریاست بہار میں ’زہریلی‘ شراب پینے سے 31 افراد ہلاکانڈیا: شراب کی دکانوں پر لگی لمبی قطاروں کا تاریک پہلو’جوئے اور شراب نوشی کا اڈہ‘ وہ درخت جو لائبریری بن گیاانڈیا: کیرالہ کے نلکوں سے شراب آنے لگیانڈیا میں جب لڑکیاں شراب خریدنے نکلیں
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More