Getty Images
پاکستان میں آٹھ فروری کو ہونے والے عام انتخابات کے متنازعہ پہلوؤں پر تاحال بحث کا سلسلہ جاری ہے لیکن اس سب کے بیچ بظاہر جس پہلو پر زیادہ بات نہیں ہوئی وہ مرکز میں حکومت بنانے کے لیے پاکستان تحریکِ انصاف اور پیپلز پارٹی کے ممکنہ اتحاد سے متعلق بحث ہے۔
ملک میں اس وقت جہاں متعدد سیاسی جماعتوں اور انفرادی سطح پر اُمیدواروں کی جانب سے مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے جا رہے ہیں اور ’مینڈیٹ چوری‘ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں وہیں چند جماعتیں سراپا احتجاجبھی ہیں۔
ان جماعتوں میں پاکستان تحریکِ انصاف، جمیعت علمائے اسلام ف اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس (جی ڈے اے) نمایاں ہیں۔ تاہم اگر پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کی جیتی ہوئی نشستوں پر نظر دوڑائیں تو وہ اس وقت مرکز میں اتحاد قائم کرنے والی ن لیگ اور پیپلز پارٹی سے کہیں زیادہ ہیں۔
اب تک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد 82 اراکین نے سُنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کی ہے۔
تاہم یہ صورتحال اس طرح بھی دلچسپ ہو جاتی ہے کہ پیپلزپارٹی بذاتِ خود پی ٹی آئی کے ساتھ حکومت سازی کی خواہش رکھتی تھی۔
پیپلزپارٹی کے سینیئررہنما خورشید شاہ نے 26 فروری کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہماری پارٹی نے سب سے پہلے پی ٹی آئی سے رابطہ کیا مگر اُن کی طرف سے تعاون کرنے سے انکار کر دیا گیا۔‘
خیال رہے کہ پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی جانب سے ایک عرصے سے یہ بیانیہ بنایا گیا ہے کہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما ’ملک کی مشکلات کی اصل وجہ ہیں۔‘
تو کیا ایسے میں پی ٹی آئی کو اپنے اس بیانیے کی پاسداری کا معاملہ درپیش تھا یا یہ نئے حکومتی سیٹ اَپ میں اس کے لیے کوئی گنجائش ہی نہیں تھی؟ اور یہ بھی کہ کیا کسی موقع پر پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی مل کر حکومت بنانے کی پوزیشن میں تھیں؟ آئیے ان سوالات کے جوابات جاننے کے کوشش کرتے ہیں۔
BBCپی ٹی آئی اگر پیپلز پارٹی سے تعاون کرتی تو حکومت سازی کا کتنا امکان تھا؟
انتخابی مہم کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے پی ٹی آئی کے بجائے مسلم لیگ ن پر زیادہ تنقید کی تھی۔
اگرچہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ الیکشن کے نتیجے میں مخلوط حکومت تشکیل پائی تو وہ مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی میں سے کسی کے ساتھ سیاسی تعاون نہیں کریں گے۔
تاہم الیکشن کے بعد بلاول کی جماعت یعنی پیپلز پارٹی ن لیگ سے زیادہ پی ٹی آئی سے تعاون کی خواہش مند دکھائی دی۔
گذشتہ دِنوں بلاول بھٹو زرداری کا نیو کراچی میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا ’سُنی اتحاد کونسل کے پاس حکومت بنانے کے نمبرز پورے نہیں، پی ٹی آئی نے شہباز شریف کے وزیرِ اعظم بننے کا راستہ روکنے کے بجائے یہ اعلان کر دیا کہ وہ پیپلزپارٹی کے پاس نہیں آئیں گے۔‘
یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ الیکشن کے نتائج کے بعد پیپلز پارٹی کو یہ حیثیت حاصل ہوئی کہ اس کے تعاون کے بغیر وفاقی حکومت تشکیل نہیں دی جا سکتی تھی۔ پی ٹی آئی کو اس کا ادراک ہونے کے باوجود یہ اعلان کرنا پڑا کہ وہ پیپلز پارٹی کے پاس نہیں جائے گی۔
ابتدائی طور پر تو یہی بات سمجھ آتی ہے کہ دونوں جماعتوں یعنی پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے اتحاد سے وفاق میں حکومت سازی کا عمل اُس وقت تک ممکن نہ ہو پاتا جب تک کسی تیسری جماعت جیسا کہ ایم کیو ایم کا ساتھ میسر نہ ہوتا۔ علاوہ ازیں پی ٹی آئی کی مخصوص سیٹوں کا معاملہ بھی اُلجھا ہوا ہے۔
تاہم پی ٹی آئی کے پاس آپشن تھا کہ وہ پیپلزپارٹی سے سیاسی تعاون کر کے وفاق میں حکومت سازی کی طرف جا سکتی تھی۔ سوال یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے اس آپشن پر پیپلز پارٹی کو مثبت جواب کیوں نہ دیا؟ اور کیا پی ٹی آئی کچھ عرصے بعد مبینہ دھاندلی کے خلاف احتجاج کرنے والی دیگر سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر پارلیمانی سے زیادہ مزاحمتی سیاست کی طرف جانے کی سوچ رکھتی ہے؟
اس حوالے سے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین کہتے ہیں کہ ’ایک تو ہمیں دوسری جماعتوں پر اعتماد کے فقدان کا معاملہ تھا، جو جماعتیں ساڑھے تین برس پی ٹی آئی حکومت کا حصہ رہی تھیں وہ بعد میں پی ڈی ایم میں شامل ہو گئیں اور دوسرا پہلو یہ کہ پیپلزپارٹی، ن لیگ اور ایم کیو ایم نے ہمارے مینڈیٹ کو چرایا ہے، ہماری سیٹوں پر قبضہ کیا ہے، جو ہماری سیٹوں پر قبضہ کر چکے ہیں، ہم اُن کے ساتھ کیوں بیٹھیں؟‘
یہ بھی پڑھیےجب آئے گا عمران، کب آئے گا عمران: محمد حنیف کا کالمالیکشن 2024: ’سیاسی جماعتیں ایلیٹ کلاس کی ان خواتین کو ٹکٹ دیتی ہیں جن کو پارٹی بھی نہیں جانتی‘شریف خاندان اور بلاول بھٹو کا ’مشن لاہور‘: کیا پنجاب کی سیاست مستقبل کے وزیراعظم کا فیصلہ کرتی ہے؟
اس بارے میں جب ہم نے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ سے پوچھا تو انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’پیپلز پارٹی کو عمران خان کی حمایت ملتی تو دونوں کے مابین حکومت سازی کا امکان تھا۔ مگر عمران کو ڈر ہے کہ اس طرح بلاول کو آگے آنے کا موقع مل جائے گا۔‘
سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ ’پیپلزپارٹی کی خواہش اپنی جگہ مگر ایسا (پی ٹی آئی کے ساتھ اتحاد) ممکن نہیں تھا۔‘
اُنھوں نے کہا کہ ’اگر یہ تسلیم کر لیا جائے کہ پیپلزپارٹی، پی ٹی آئی کے ساتھ سیاسی تعاون کے لیے سنجیدہ تھی تو پیپلزپارٹی کے چاہنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ ایسا نہ چاہتی۔‘
اس پہلو پر بات کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار اور کالم نگار خورشید احمد ندیم کہتے ہیں کہ ’عمران خان کی اپنی سوچ دونوں بڑی پارٹیوں سے اتحاد کی مخالف ہے مگر ہماری مقتدرہ کے پیشِ نظر جو سیاسی بندوبست تھا اُس میں کسی صورت پی ٹی آئی کو اقتدار کا حصہ نہیں ہونا تھا۔‘
ایسا ہی خیال تجزیہ اورکالم نگار عمران یعقوب کا بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میں نہیں سمجھتا کہ پی ٹی آئی، پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر اقتدار حاصل کر پاتی۔
’پاکستان اور تیسری دنیا میں اقتدار صرف الیکشن جیتنے سے ممکن نہیں ہوتا۔ اسٹیبلشمنٹ کا اپنا معاملہ ہوتا ہے، ریاست کی اپنی ترجیحات ہوتی ہیں۔ اسی کے مطابق ہی اقتدار کے فیصلے ہوتے ہیں۔‘
خیال رہے کہ شہباز شریف کی جانب سے الیکشن نتائج کے اعلان کے بعد ایک موقع پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہنا تھا کہ ’انتخابات میں کامیاب ہونے والے آزاد اُمیدوار حکومت بنانا چاہیں تو بنا سکتے ہیں، ہم اپوزیشن میں بیٹھنے کے لیے تیار ہیں۔‘ اسی طرح پیپلز پارٹی نے تعاون کے باوجود ن لیگ کے بعض رہنماؤں کے مطابق ملبہ سمیٹنے میں حصہ داری سے انکار کیا تو ن لیگ کے ہاں یہ سوچ مضبوط ہوئی کہ وہ اپوزیشن میں بیٹھ جائے گی۔‘
تو کیا ن لیگ کے ہاں اپوزیشن میں بیٹھنے کی سوچ پائی جاتی تھی؟ اس سوال کے جواب میں کالم و تجزیہ نگار خورشید احمد ندیم کہتے ہیں کہ ’یہ سوچ مسلم لیگ ن میں موجود رہی ہے کہ ادھورا یا کمپرومائزڈ اقتدار نہیں لینا چاہیے۔
’جب عمران حکومت کے خاتمے کے بعد پی ڈی ایم حکومت بنی تو اس وقت بھی میاں نوازشریف حکومت لینے کے حق میں نہیں تھے۔ یہ سوچ اور نقطۂ نظر آج بھی موجود ہے اگر اس کو اختیار کیا جاتا تو مسلم لیگ ن کے سیاسی مستقبل کے لیے زیادہ بہتر ہوتا۔‘
تاہم کالم نگار عمران یعقوب اس مفروضے کو نہیں مانتے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے مابین حکومت سازی کے لیے اتحاد ہوتا اور ن لیگ اپوزیشن میں بیٹھنا پسند کرتی۔
وہ کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے لیے حالات سازگار نہیں تھے اور راوی چین نہیں لکھ رہا تھا۔ پی ٹی آئی کسی طوربھی حکومت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکتی تھی اور ن لیگ اپوزیشن میں نہیں بیٹھ سکتی تھی۔‘
Getty Imagesکیا پی ٹی آئی کو اپنے بیانیے کی پاسداری کا معاملہ درپیش تھا؟
عمران خان کی تقاریر اور بیانات اس پہلو کی غمازی کرتے ہیں کہ پی ٹی آئی کی سیاست دیگر بڑی سیاسی جماعتوں یعنی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی مخالفت کے بیانیے پر اُستوار ہے۔
سیاسی تجزیہ کار عمران یعقوب کہتے ہیں کہ ’چونکہ عمران کی سیاست زرداری اور شریف کی مخالفت پر کھڑی ہے اور اگر عمران خان، ان دونوں جماعتوں سے اقتدار سے عدم شراکت کا راستہ اختیار نہ کرتے تو اپنی ساری سیاست کو ہی اُلٹ کر رکھ دیتے۔‘
پی ٹی آئی رہنما شعیب شاہین نے اس بارے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر ہم اپنے اصول کو قربان کر دیتے اور کسی جماعت سے اتحاد کر کے اقتدار میں آتے تو ہمارے بیانیے کا کیا ہوتا؟
’صاف ظاہر ہے کہ سب سے زیادہ ہمارے بیانیہ کو زد پہنچتی۔‘
پی ٹی آئی کے بیانیے اور اسٹیبلشمنٹ کے کردار کے ساتھ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ 2018 کے عام انتخابات میں پی ٹی آئی کا اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کا تجربہ اس کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوا تھا۔
اگر پی ٹی آئی اتحادی حکومت کی تشکیل کی طرف جاتی تو ایسا پہلی مرتبہ نہ ہوتا۔ سنہ 2018 کے الیکشن میں یہ مختلف پارٹیوں کے اتحاد سےاقتدار میں آئی تھی۔ مگراتحاد برقرار نہ رہ پایا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملکی انتخابی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک وزیرِ اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوئی۔
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی سے عمران خان کا دوسری سیاسی جماعتوں پر اعتماد جو پہلے ہی کچھ زیادہ نہیں تھا، مزید کمزور ہوا اور اُن کی طرف سے مخالفین پر تنقید میں بھی شدت آئی۔
تجزیہ نگار سمجھتے ہیں کہ اپریل 2022 کے بعد عمران خان پر یہ منکشف ہوا کہ اتحادی بیساکھیوں پر کھڑی حکومت کو کسی بھی وقت آسانی سے گرایا جا سکتا ہے اور جب تک حکومتی اتحاد قائم رہتا ہے تو اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتیں مختلف مسائل پر بلیک میل بھی کرتی رہتی ہیں۔
اسی بارے میںآزاد امیدواروں کی ’سرپرائز انٹری‘ اور جوڑ توڑ: ن لیگ، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس کیا آپشنز موجود ہیں؟سیاسی انفلوئنسرز اور ٹرولز جو پاکستان میں سینسرشپ کا فائدہ اٹھاتے ہوئے الیکشن پر اثرانداز ہو رہے ہیںاگر مخلوط حکومت بنی تو پرانی سیاست کرنے والی پی ٹی آئی یا ن لیگ میں سے کسی کا ساتھ نہیں دوں گا: بلاول بھٹو