Getty Images
’ایک جانور کے جسم کے اندر ایک اور جانور۔‘
قدیم زمانے میں عورت کی بچہ دانی کو اس طرح بیان کیا جاتا تھا۔
اگرچہ اس جملے کو افلاطون اور کیپاڈوشیا کے ارستیویس سے منسوب کیا گیا ہے لیکن یہ اس نظریے کو ظاہر کرتا ہے جو اس دور میں اس عضو اور عورتوں کے متعلق پایا جاتا تھا۔
یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچہ دانی ایک ایسا جانور ہے جو جسم کے اندر گھومتا پھرتا ہے اور جس پر عورت کا کوئی کنٹرول نہیں: اسے ایک ’آوارہ بچہ دانی‘ سمجھا جاتا تھا۔
اگرچہ یہ 24 سو سال سے زیادہ پہلے کی بات ہے لیکن اس ’جانور‘ نے عورت کے جسم کو کیسے متاثر کیا اور اس کے متعلق نظریات کو صدیوں تک برقرار رکھا۔
اس عضو کو ہسٹیریا کی بیماری تک سے جوڑا گیا۔
’ہسٹیریا‘ کی آسان الفاظ میں وضاحت مشکل ہے لیکن مختلف طبی جریدوں میں یہ اعصاب اور خواہشات کی ایسی بیماری بنی ہوئی ہے، جو جذبات کو کنٹرول کرتی ہے، ان کو بڑھا دیتی ہے اور عمر کے لحاظ سے اس کی بہت سی علامات میں مایوسی کی حالت، ہانپتے ہوئے سانس لینے، خاموشی اور کھچاؤ وغیرہ شامل ہیں۔
اور ان سب کی وجہ کو بچہ دانی اور اس کی حرکات سے جوڑا جاتا۔
لفظ ’ہسٹیریا‘ کی ابتدا یونانی اصطلاح (ὑστέρα hystéra ،uterus) یعنی بچہ دانی سے ہوئی ہے۔
Getty Imagesقدیم یونان میں یہ خیال کیا جاتا تھا کہ بچہ دانی ایک ایسا جانور ہے جو جسم میں گھومتا ہے مصر سے قدیم یونان تک
یہ خیال کہ بچہ دانی جسم کے اندر گھومتی پھرتی ہے اور دوسرے اعضا کو متاثر کرتی ہے، سب سے پہلے قدیم مصر میں ظاہر ہوتا ہے۔
یہ حوالہ Kahun papyri میں پایا جاتا ہے، جسے مصر 1800 قبل مسیح کا قدیم ترین طبی متن سمجھا جاتا ہے اور جس میں خاص طور پر گائناکالوجی پر توجہ مرکوز کی گئی ہے، اس کے علاوہ مرسیا یونیورسٹی سے مرسڈیز لوپیز پیریز کے مطابق اس کا حوالہ ای برز میں ہے جو بہت قدیم زمانوں سے موجود ہے۔
لوپیز نے ایسے حوالے بیان کیے ہیں مثال کے طور پر ایک عورت کا معاملہ جو اپنی آنکھوں میں درد کے ساتھ آتی ہے جو اس کی گردن کے پچھلے حصے تک پھیلا ہوا ہے اور جو دیکھنے سے قاصر ہے۔
تشخیص یہ کی گئی کہ یہ ’آنکھوں میں موجود بچہ دانی کے مادے‘ کی وجہ سے ہے۔ اس کا علاج ہے اندام نہانی میں موجود مادے کو چربی کے ساتھ دھواں دیا جائے۔
Getty Imagesیہ خیال کہ بچہ دانی ہسٹیریا کا سبب بنتی ہے، نشاۃ ثانیہ تک برقرار رہا
لیکن ’آوارہ بچہ دانی‘ کی اصطلاح قدیم یونان میں سب سے زیادہ مشہور ہوئی۔
نامور یونانی فلسفی افلاطون اکیڈمی آف ایتھنز کے بانی، اپنے مشہور مکالموں میں سے ایک Timaeus میں اس تصور کی عکاسی کرتے ہیں۔
کتاب میں انھوں نے لکھا ہے کہ عورتوں میں ’رحم اور اندام نہانی ایک جانور سے مشابہت رکھتے ہیں جو پیدائش کے خواہش مند ہوتے ہیں‘ اور یہ کہ اگر اس سے طویل عرصے تک کوئی پھل نہ حاصل ہو سکے، تو بچہ دانی (رحم) ’چڑچڑا اور غصے کا شکار ہو جاتی ہے اور یہ پورے جسم میں گھومتی ہے۔‘
افلاطون کی رائے میں جو نتائجTimaeus میں لکھے ہیں، وہ خوفناک ہیں:
’(بچہ دانی) ہوا کا راستہ بند کر دیتی ہے، سانس لینے سے روکتی ہے، جسم کو شدید خطرات میں ڈالتی ہے، اور ہزار بیماریوں کو جنم دیتی ہے۔ اور اس کا کوئی تدارک نہیں ہے سوائے اس کے کہ جب مرد اور عورت خواہش اور محبت کے ہاتھوں مجبود ہو کر ایک پھل پیدا کریں، اور وہ اسے اس طرح جمع کریں جیسے وہ درختوں سے پھل لیتے ہیں۔‘
ڈاکٹر تھامس اے ایچ میک کلوچ کے مطابق تھیوریز آف ہسٹیریا (1969) جو کینیڈین جرنل آف سائیکیٹری میں شائع ہوتا ہے، اس میں انھوں نے لکھا کہ افلاطون نے یہ خیال براہ راست مصریوں سے نہیں لیا بلکہ ہپوکریٹک ٹریٹیسس سے لیا ہے ، طبی متون کی تالیف جو ہپوکریٹس سے منسوب ہے، جنھیں مغربی طب کا باپ سمجھا جاتا ہے۔
ہپوکریٹک ٹریٹیسس میں ایک مخصوص حصہ ہے جہاں وہ خواتین کی بیماریوں کے بارے میں بات کرتے ہیں اور یہ بچہ دانی اور اس کی حرکت سے متعلق ہے۔
ناقابل وضاحت برائیوں کی جڑ
یہ خیال کہ بچہ دانی جسم کے اندر گھومتی پھرتی ہے اور دوسرے اعضا کو متاثر کرتی ہے، سب سے پہلے قدیم مصر میں ظاہر ہوتا ہے۔
لوپیز پیریز بتاتے ہیں ’یہ سمجھنا ضروری ہے کہ اگرچہ قدیم مصر میں لاشوں کی کاٹ پیٹ کی جاتی تھی لیکن ہپوکریٹس کے زمانے میں یہ عام نہیں تھا۔‘
لہٰذا اس بات سے متعلق زیادہ یقینی علم موجود تھا کہ یہ عضو کیسا ہے، اس سے جڑے جانوروں کے اعضا جیسے دو منھ یا شاید اس میں سونگھنے کی حس ہے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کی قدرتی حالت نم تھی۔‘
یونیورسٹی کالج لندن کے سینٹر فار دی ہسٹری آف میڈیسن سے وابستہ ڈاکٹر کیرول ریوز نے بھی اس بات پر زور دیا ہے کہ ان دستاویزات کا تجزیہ اس وقت دستیاب علم کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔
جیسا کہ ہپوکریٹک ٹریٹیز میں تھا کہ جس عورت نے سیکس نہیں کیا ہے اس کے رحم میں ’اپنی کوئی نمی نہیں ہوتی ہے اور اس کے بچہ دانی میں خالی کرنے کی وجہ سے ایک بڑی جگہ موجود ہوتی ہے‘ لہٰذا یہ پورے جسم میں حرکت کرتی ہے کیونکہ یہ ’خشک‘ اور وزن میں ہلکی ہوتی ہے۔
یہ خیال بھی تھا کہ جسم کے اندر خشک بچہ دانی جگر، دل، پسلیوں، گلے میں منتقل ہو سکتی ہے۔ اس ہلکے پن کی وجہ سے وہ جہاں بھی جانا چاہتی وہاں جا سکییتھی اور وہاں، اپنی جگہ سے ہٹ کر یہ بہت سے علامات کا باعث بنتی۔
مثال کے طور پر اگر بچہ دانی جگر میں منتقل ہوتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے ’گرمی لگنا، آنکھوں کا سفید حصہ اوپر کی طرف مڑ جانا، سردی محسوس ہونا اور کچھ خواتین کی رنگت زرد پڑ جانا اور دانت پیسنا، منھ سےلعاب بہنا اور بظاہر مرگی میں مبتلا دکھائی دینا شامل ہیں۔
اگر بچہ دانی یا رحم تھوڑی دیر تک جگر اور ہائپوکونڈریا کے پاس رہتا ہے تو عورت کا دم گھٹ جاتا ہے۔
بھٹکتی ہوئی بچہ دانی ان مختلف ناقابل بیان بیماریوں کا جواب تھی جن کا سامنا عورتوں کو کرنا پڑتا تھا۔ ’قدیم یونانیوں نے بھی دورے سے لے کر ڈپریشن تک ہر چیز کے لیے خواتین کے اس عضو کو مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
الزبتھ کسلنگ نے سوسائٹی فار مینسٹرل سائیکل ریسرچ میں شائع ہونے والے ایک مضمون ’دی وانڈرنگ یوٹرس‘ میں وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ خواتین کے ساتھ منسلک ہسٹیریکل طرز عمل (قابو سے باہر جذبات، غیر منطقی خوف، بے قابو اور مبالغہ آمیز رویہ) کے لیے بچہ دانی کو قصوروار ٹھہرایا گیا تھا۔‘
Getty Imagesیوٹیرائن پرولیپس یعنی بچہ دانی کا گِرنا: ’اگر شرمندگی کا احساس نہ ہوتا تو میں بہت پہلے ڈاکٹر کے پاس چلی جاتی‘’میرے شوہر نے میری صحت اور زندگی کی خاطر اپنی خوشیوں کو قربان کر دیا‘بچہ دانی کی پیوندکاری کے بارے میں سنا ہے کبھی؟
اور یہاں تک کہ اس کے کئی علاج تھے۔
چونکہ یہ فرض کیا گیا تھا کہ بچہ دانی میں سونگھنے کی حِس ہے لہٰذا انھوں نے تجویز پیش کی کہ جہاں یہ بھٹک کر چلی جائے وہاں وہاں بدبو ڈالیں اور اس کے ساتھ ہی اندامِ نہانی پر خوشبو ڈالیں تاکہ اچھی خوشبو سے متاثر ہو کر، یہ وہاں واپس آ جائے۔
ایک اور حل یہ تھا کہ رحم کو سیمن سے سیراب کیا جائے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ یہ حرکت کر رہا ہے کیونکہ یہ خشک ہے۔
لہٰذا بیوہ خواتین کے لیے نسخہ یہ تھا کہ وہ حاملہ ہو جائیں اور کنواری عورتوں کی شادی کر لی جائے۔
بھٹکنے والی بچہ دانی کا نظریہ گیلن تک پہنچتا ہے 129 عیسوی میں۔
اگرچہ اس مشہور یونانی ڈاکٹر کا ماننا ہے کہ بچہ دانی جسم کے گرد گھومتی نہیں ہے، وہ اسے جسمانی طور پر ناممکن سمجھتے ہیں، لیکن وہ اس بات کی تصدیق کرتے ہے کہ یہ اپنی پوزیشن تبدیل کرتی ہے، مثال کے طور پر حمل کے دوران۔
اس سے ہسٹیریا کے تصور کو بھی برقرار رکھا گیا ہے جو خواتین کی محبت اور اس کی تغیرات کی سب سے بڑی برائی ہے جیسے ’رحم کا دم گھٹنا۔‘
امریکہ کی نیشنل لائبریری آف میڈیسن میں شائع ہونے والے مضمون ’واتین اور ہسٹیریا ذہنی صحت کی تاریخ میں‘ میں لکھا گیا ہے کہ گیلن کے ہسٹیریا کے علاج میں صفائی، جڑی بوٹیوں کی تیاری سے لے کر شادی کرنے یا ایسے محرکات کو دبانے تک ہر چیز شامل تھی جو ایک نوجوان عورت کو مشتعل کر سکتے ہیں۔
Getty Imagesچارکوٹ جدید نیورولوجی کے ماہرین میں سے ایک ہے صدیوں تک ایک ہی کہانی رہی
یہ خیال کہ ہسٹیریا ایک بیماری ہے جو بچہ دانی کی وجہ سے ہوتی ہے اور یہ خواتین کے لیے ایک مخصوص بیماری ہے ، وقت کے ساتھ ساتھ برقرار رہا۔
قرون وسطیٰ کے دوران اس بیماری کو ’رحم کا غصہ‘ یا ’محبت کی بیماری‘ کہا جانے لگا اور یہ نشاۃِ ثانیہ کے دوران دوبارہ دہرایا گیا۔
مثال کے طور پر وکٹورین انگلینڈ میں خواتین میں ہسٹیریا، پاگل پن یا غیر مستحکم جذباتی حالتوں کی تشخیص برقرار رکھی گئی۔ اگرچہ عام طور پر یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس کا علاج ولوا یعنی ادام نہانی کو برقی تحریک دینے سے کیا جا سکتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 19ویں صدی کے طبی نظریات کا خیال تھا کہ آرگیزم خطرناک ہو سکتا ہے۔
لیڈز ٹرینیٹی یونیورسٹی کی پروفیسر اور محقق کیٹ لیسٹر نے اپنی کتاب ’اے کیوریس سٹوری آف سیکس‘ میں لکھا ہے کہ ’خواتین میں مشت زنی کو ہسٹیریا کا سبب سمجھا جاتا تھا نہ کہ اس کا علاج۔‘
بنیاد پرست علاج بھی تھے۔ جیسا کہ الزبتھ کسلنگ بتاتی ہیں کہ ’بچہ دانی کا آپریشن بچہ دانی کے تمام یا کچھ حصوں کو ہٹانے سے جذباتی عدم استحکام کے ساتھ ساتھ دیگر غیر متعلقہ علامات کا علاج بھی ممکن تھا۔‘
پھر پال بریکٹ آئے۔۔۔۔
فرانسیسی ڈاکٹر اور ماہر نفسیات پال بریکٹ نے ایک نیا تصور دیا کہ شاید ہسٹیریا کا بچہ دانی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
تھامس اے ایچ میک کلاک کہتے ہیں کہ ’نیورولوجی کی ترقی نے ’اعصابی‘ مریض کے تصور کو زیادہ قابلِ احترام اور سائنسی بنیادوں پر دیکھا، اور فکر کوبچہ دانی سے اعصابی نظامکی طرف موڑا۔‘
اپنی ’ہسٹیریا پر کلینیکل اور تھراپیٹک کتاب‘ میں بریکٹ اس بیماری کو ’دماغ کی نیوروسس‘ کے طور پر دیکھتے ہیں جس کا تعلق غیر مطمئن جنسی سرگرمی سے نہیں ہے۔
انھوں نے اس خرابی کا نام تبدیل کرنے کی مناسبت پر بھی غور کرنا شروع کیا کچھ ایسا جو ایک صدی سے نہیں کیا گیا تھا۔
وہاں سے اگلی اہم تبدیلی یہ تھی کہ ہسٹیریا کو نہ صرف بچہ دانی سے الگ کرنا تھا بلکہ اس خیال سے بھی کہ یہ بنیادی طور پر خواتین کی بیماری ہے۔
جین مارٹن چارکوٹ جو فرانسیسی نیورولوجسٹ اور پیتھولوجیکل اناٹومی کے پروفیسر تھے وہ بھی اس کی کلید کرتے تھے۔
Getty Imagesفرائیڈ نے اس تمثیل کو بدل دیا کہ ہسٹیریا رحم سے آیا اور اسے ایک نفسیاتی بیماری قرار دیا
چارکوٹ مردوں اور عورتوں کی اعصابی بیماریوں کے درمیان فرق نہیں کرتے تھے اور، اس کے لیے ہسٹیریا کا اصل مقام اعصابی نظام تھا۔ لہٰذا انھوں نے دونوں جنسوں کے مریضوں میں اس کا مطالعہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
سنہ 1893 میں اپنی موت کے سال تک انھوں نے مردانہ ہسٹیریا کے 60 سے زیادہ واقعات شائع کیے جن کا علاج انھوں نے کیا تھا۔
یہ وہ وقت ہے جب ہم مشہور ڈاکٹر اور ماہر نفسیات سگمنڈ فرائیڈ (1856-1939) کی طرف آتے ہیں۔۔۔ اور وہ چارکوٹ کے ایک شاگرد ہیں۔
فرائیڈ نے بیماری کے نفسیاتی پہلو کو زیادہ اہمیت دی اور اس کے علاوہ ایک تصور پر غور کیا جو چارکوٹ پہلے ہی استعمال کر چکے تھے۔
اس طرح ہسٹیریا صدمے کی وجہ سے نفسیاتی بیماری بن گیا۔۔۔ جو اکثر جنسی نوعیت کا ہوتا ہے۔
جیسا کہ ان کے سائنسی مضمون ’ذہنی صحت کی تاریخ میں خواتین اور ہسٹیریا‘ میں بیان کیا گیا ہے کہ نفسیاتی تجزیے کے مطابق ’ہسٹیریا جنسی جذبات کو نہ سمجھنے کا اظہار ہے۔
اگرچہ ہسٹیریا کو خواتین سے الگ کرنے میں پہلے ہی پیشرفت ہو چکی تھی لیکن اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا کہ فرائیڈ نے اپنے مطالعے کو بنیادی طور پر خواتین پر مرکوز کیا۔
لفظ’ہسٹیریا‘ طبی کتابوں میں دو ہزار سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہے۔
تاسکا، ریپیٹی، کارٹا اور فڈا نے ’ویمن اینڈ ہسٹیریا ان دی ہسٹری آف مینٹل ہیلتھ‘ میں نشاندہی کی ہے کہ 1980 میں ’ہیسٹریکل نیوروسس‘ کے تصور کو ختم کر دیا گیا تھا اور یہ کہ ’ہسٹیریا کو اب علیحدگی کی خرابی کا اظہار سمجھا جاتا ہے۔‘
رائل اکیڈمی آف لینگویج کی ڈکشنری نے ہسٹیریا کو ’دائمی اعصابی بیماری‘ کے طور پر بیان کیا ہے، جو مردوں کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ عام ہے۔ آر اے ای نے 2017 میں اسے تبدیل کر دیا۔
خواتین میں شہوت: فرائڈ کے تخلیق کردہ غلط مفروضے جو آج بھی ہزاروں خواتین کو متاثر کر رہے ہیںہر دس میں سے ایک عورت کو لاحق لاعلاج درد ہے کیا؟اندام نہانی کے پانچ حقائق ہر خاتون کو معلوم ہونے چاہییں