’میں نے وہ پل بِتائے جو جیون بھر میرے ساتھ رہنے والے ہیں۔ میں نے سمندر کی تہہ میں جا کر درشن کیے۔‘
یہ تھے انڈیا کے وزیر اعظم نریندر مودی کے الفاظ جو انھوں نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کی جانے والی اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں کہے۔
انڈین وزیرِ اعظم کے اکاؤنٹ سے پوسٹ کی جانے والی اس ویڈیو میں وزیرِاعظم نریندر مودی کو سمندر کا سفر کرتے اور پھر سمندر کی تہہ میں جا کر پوجا پاٹ کرتے دیکھا جا سکتا ہے۔
ویڈیو میں آگے چل کر درشن کے بعد پانی سے باہر آتے ہی مودی کہتے ہیں کہ ’میرے لیے یہ چاہت سے زیادہ میری شردھا (عقیدہ) تھی۔‘
درحقیقت یہ ویڈیو انڈین وزیراعظم کے زیر سمندر ہندوؤں کے مقدس مقام دوارکا شہر کے دورے کی ہے۔ ’مہا بھارت‘ میں دوارکا شہر کا تذکرہ بھگوان کرشن کی سلطنت کے طور پر موجود ہے اور ہندو عقیدے کے مطابق کرشن کی موت کے بعد یہ شہر پانی میں ڈوب گیا تھا۔
اب مودی نے اسی مقدس مقام تک جانے کے لیے زیر آب سفر کیا ہے اور یہاں پہنچ کر پوجا پاٹ کی ہے۔
اُن کی یہ ویڈیو سامنے آنے کے بعد انڈیا میں سوشل میڈیا صارفین کے ملے جلے تاثرات سامنے آئے۔ کسی نے اس عمر میں بھی نریندر مودی کی توانائی کی تعریف کی تو کوئی ملک میں مذہب اور سیاحتکے لیے اُن کی خدمات پر تعریف کرنے لگا۔ لیکن کئی لوگ ایسے بھی تھے جنھیں اس یاترا پر اٹھنے والے اخراجات پر سخت اعتراض تھا۔
ریڈ کارپٹ اور اخراجات پر تنقید
نریندر مودی کی اس ویڈیو پر ایک صارف پرم پی سی ایس نے لکھا ’وزیر اعظم مودی نے صرف پوز ہی نہیں دیا بلکہ وہ سچ مُچ پانی کے اندر گئے اور اس مقام پرپوجا کی جہاں دوارکا شہر زیر آب ہے۔ 74 سال کی عمر کے ایک شخص کے لیے یہ کرنا ناقابل یقین ہے۔‘
سوشل میڈیا پر نریندر مودی کے عوامی خدمت سے متعلق کاموں اور دوروں سے متعلق تصاویر ’فوٹو سیشن‘ کہہ کر تنقید کا نشانہ بنتی رہتی ہیں، کئی لوگ ان کاموں کے حقیقی معنوں میں تعمیری ہونے پر شبہات کا اظہار بھی کرتے رہتے ہیں۔
اس حوالے سے ایک اور صارف امت تھورٹ کا کہنا تھا ’اگر آپ کہتے ہیں کہ وہ صرف کیمرے کے لیے ایسا کرتے ہیں تو انھیں ایسا کرنا جاری رکھنا چاہیے۔ یہ ان کی عمر میں بہت سے لوگوں کے لیے حوصلہ افزائی کا ذریعہ ہے، چوبیس گھنٹے کام کرتے ہیں، سیاحت، صحت کو فروغ دیتے ہیں اور قوم کی تعمیر میں خدمات انجام دیتے ہیں۔‘
اس ویڈیو کے بعد نریندر مودی کے ناقدین بھی خاموش نہیں رہے اور کچھ نے تو خاصی ناراضی کا اظہار کیا۔ انھی میں سے ایک وسان ایم ایس وی کا کہنا تھا ’اگلے ہفتے کیا قسط ہے جناب؟ یہ جاننے کے لیے متجسّس ہیں کہ پوز منسٹر ویب سیریز کی اس قسط کے لیے ہمارے ٹیکس کی کتنی رقم خرچ ہوئی؟‘
اسی طرح مکیش گپتاکا کہنا تھا ’مودی جی پہلے وزیر اعظم بن گئے جنھوں نے اپنے لیے سمندر کی تہہ پر سرخ قالین بچھایا، اس کے علاوہ ایک شخص کے لیے، 8 لائف گارڈز، غوطہ خور، کیمرہ مین اور دیگر تکنیکی ماہرین۔۔۔واضح رہے کہ اس شوٹنگ کے لیے ملک کے کتنے کروڑ روپے ضائع ہوئے ہوں گے۔۔۔؟‘
دوارکا سلطنت: زیرِ آب گمشدہ شہر کی کہانیBBC
دوارکا ہندوؤں کے لیے سات مقدس ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ مہا بھارت میں اِس شہر کا تذکرہ بھگوان کرشن کی سلطنت کے طور پر موجود ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ شہر کرشن کی موت کے بعد پانی میں ڈوب گیا تھا۔
گذشتہ صدی کے دوسرے نصف میں انڈیا میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے آج کے شہر دوارکا کے قریب ہی اسی نام کے ایک اور قدیم شہر کی زیرِ آب تلاش شروع کی تھی۔ ماہرین کی کوشش تھی کہ اس شہر کے ایسے حقیقی شواہد ملیں جن سے اس کے وجود کے بارے میں تنازعات ختم ہو سکیں۔
آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا سے منسلک ڈاکٹر الوک ترپاٹھی نے جولائی 2022 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ‘انڈیا میں دوارکا کی خاص اہمیت ہے۔ یہ وہ واحد شہر ہے جو مہا بھارت میں بیان کیے گئے واقعات کے زمانے میں موجود تھا۔‘
ڈاکٹر الوک ترپاٹھی زیرِ آب آثارِ قدیمہ کے ماہر ہیں۔ وہ بحرِ ہند میں ڈوبے ہوئے کھنڈرات کو تلاش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’زیر آب کھنڈرات کی اہم ترین کھدائیوں میں سے ایک دوارکا کے سلسلے میں کی گئی تھی۔ یہ جگہ اپنی تاریخی اہمیت اور اپنی مذہبی عظمت کی وجہ سے، اور ظاہر ہے کہ آثارِ قدیمہ کی وجہ سے بھی، اہم ہے۔‘
ڈاکٹر الوک ترپاٹھی کے مطابق ’پچھلی صدی کے وسط میں آثارِ قدیمہ کے ماہرین نے ٹھوس ثبوت تلاش کرنے کی کوششیں کی ہیں تاکہ وہ اس بات کی تاریخی حقیقت شک و شبہ سے بالا ثابت کر سکیں۔ کھدائی کی پہلی کوشش ساٹھ کی دہائی میں پونا کے دکن کالج نے کی تھی اور 1979 میں آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا نے ایک اور کوشش کی تھی جس کے دوران ماہرین کو پرانے برتنوں کے کچھ نوادرات ملی تھیں جو ان کے خیال میں دو ہزار قبل مسیح کے دور کے تھے۔‘
کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے سابق چیف سائنسدان ڈاکٹر راجیو نِگھم نے جولائی 2022 میں بی بی سی کو بتایا کہ ’زیرِ آب کھدائی کے کام کا آغاز موجودہ دوارکا مندر کے قریب کے علاقوں سے شروع ہوا تھا۔ یہاں کئی مندروں کا سلسلہ ملا جس کا مطلب ہے کہ جوں جوں پانی چڑھتا گیا مندروں کی جگہیں زمین کی جانب تبدیل ہوتی رہیں۔ اس مشاہدے نے انڈیا کے معروف آرکیالوجسٹ ڈاکٹر ایس آر راؤ کو قائل کیا کہ کیوں نہ ساحل کے قریبی سمندر میں کھدائی کی جائے تاکہ یہ پتا چل سکے کہ آیا یہاں اس ڈوبے ہوئے شہر کے ٹھوس ثبوت ہیں۔‘
جولائی 2022 میں دوارکا مندر کے پروہت مرلی ٹھاکر نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ ’بھگوان کرشن اس شہر میں سو برس تک رہے۔ یہ شہر ان کی جائے پیدائش بھی تھا۔ دوارکا 84 کلومیٹر رقبے پر پھیلی ہوئی قلعہ بند بادشاہت تھی جو گومتی دریا کے کنارے قائم تھی اور آپ دیکھ سکتے ہیں کہ گومتی کا یہاں بحیرہِ عرب سے سنگم ہوتا ہے۔‘
دوارکا مندر کے منتظم نارایاند براہماچاری کہتے ہیں کہ ’جب بھگوان کرشن اگلے جہان سدھارے (یعنی ان کی موت ہوئی) تو سمندر کے پانی نے دوارکا شہر کو ڈبو دیا۔ مہا بھارت کے تیسرے باب کے 23ویں اور 24ویں اشلوک میں لکھا ہے کہ جب کرشنا 125 برس بعد اس دنیا سے کوچ کر کے روحانی دنیا سدھارے تو سمندر کے دیوتا نے بھگوان کرشن کے محل کے علاوہ باقی زمین واپس لے لی۔‘
سمندر کے اندر سے قدیم دوارکا شہر کے کئی نوادرات ملے ہیں۔ پتھر کے بلاک، ستون اور آبپاشی کے آلات یہاں ہیں۔
کونسل آف سائنٹیفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ (سی ایس آئی آر) کے سابق چیف سائنسدان ڈاکٹر راجیو نِگھم کہتے ہیں کہ ’یہ جاننے کے لیے کہ سمندر کی سطح میں کیا اُتار چڑھاؤ آیا، ہم نے کمپیوٹر کے ذریعے پچھلے پندرہ ہزار برس کے ریکارڈ کی ایک پراجیکشن بنائی۔‘
’پندرہ ہزار برس پہلے سطح سمندر اس مقام سے سو میٹر نیچے تھی۔ پھر سطح سمندر بلند ہونا شروع ہوئی اور سات ہزار برس پہلے سطح سمندر موجودہ سطح سے زیادہ تھی اور ساڑھے تین ہزار برس پہلے دوارکا شہر یہاں آباد تھا۔ اس کے بعد سمندر دوبارہ بلند ہوا اور یہ شہر ڈوب گیا۔‘
زیرِ آب گمشدہ شہر کی تلاش جو ’کرشن کی موت کے بعد پانی میں ڈوب گیا‘بھگوان شیوا کی خاطر خود کو سلاخوں پر لٹکانے والا تہوارکیا مودی فاشسٹ ہیں؟: مصنوعی ذہانت جیمنائی کے جواب پر مودی بھکت ناراض، حکومت گوگل کو نوٹس بھیجے گیمودی کی ہندو قوم پرستی بھی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات میں رکاوٹ کیوں نہ بنی؟مودی کی ڈگری مانگنے پر 25 ہزار روپے جرمانہ: ’کیا ملک کو جاننے کا حق نہیں کہ وزیر اعظم کتنا پڑھا لکھا ہے؟‘