Getty Imagesایسبیسٹیس پر آگ کا اثر نہیں ہوتا
لندن میں قائم نیچرل ہسٹری میوزیم کا ایک حصہ ’مِنرل گیلری‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس میوزیم کی عمارت کے تراشے ہوئے ستونوں اور بڑی کھڑکیوں کے درمیان بلوط کی لکڑی کی ایک الماری موجود ہے۔
اس الماری کے اندر پلاسٹک کا ایک شفاف یعنی آر پار نظر آنے والا ڈبہ ہے جس پر ایک تنبیہ ’ڈو ناٹ اوپن‘ یعنی ’اس کو مت کھولیں‘ چسپاں ہے۔
اس ڈبے میں رکھی ہوئی چیز سرمئی رنگ کی ایک گیند کی طرح نظر آتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ اس شے کو غلطی سے نمائش کی غرض سے اس میوزیم میں رکھا گیا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ڈبے میں موجود یہ گیند نُما چیز ایک جان لیوا مادہ ہے اور اسے انتہائی حفاظت سے رکھنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اس سے دیکھنے والوں کی جان کو کسی قسم کا خطرہ لاحق نہ ہو۔
یہ کچھ اور نہیں بلکہ ’ایسبیسٹیس‘ نامی مادہ ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زرد اور مسخ شدہ نظر آنے والی چیز کا ابتدائی مالک کوئی اور نہیں بلکہ امریکہ کے بانیان میں شامل رہنما بینجمن فرینکلن تھے۔
تاہم برسوں پہلے ’ایسبیسٹیس‘ کو اس طرح انتہائی خطرے کی علامت کے طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا جس طرح آج دیکھا جاتا ہے۔ لیکن آج بھی بڑے سانحات اور سکینڈلز سے منسلک اس چیز کا نام ذرا دھیمے لہجے میں ہی لیا جاتا ہے۔
Getty Images
ماضی میں اسے بہت ’دلکش‘، ’سنسنی خیز دریافت‘ اور ’معجزاتی خصوصیات‘ کا حامل سمجھا جاتا تھا۔
’ایسبیسٹیس‘ کا ماضی ایک طلسمی معدنیات کے طور پر رہا ہے۔ ایک وقت تھا جب اسے بادشاہوں کے لباس میں بُنا جاتا تھا، پارٹیوں میں شرکا کو حیران کرنے یا شعبدے دکھانے کے لیے اس کا استعمال کیا جاتا تھا۔
18ویں صدی کے ایک فلسفی ایسے بھی تھے جو ہر رات اس مادے سے بنی ٹوپی پہن کر سوتے تھے۔
سنہ 1725 تک بینجمن فرینکلن کوئی قدآور اور ماہر سیاست دان بن کر نہیں ابھرے تھے۔ اس وقت وہ ایک 19 سالہ نوجوان تھے جنھیں پیسوں کی تنگی کا سامنا تھا اور انھیں ایک بے ایمان آجر نے لندن میں بے یارومددگار چھوڑ دیا تھا۔
خوش قسمتی سے وہ ایک پرنٹنگ شاپ میں نئی نوکری حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن انھیں اضافی رقم حاصل کرنے کے لیے فوری مدد کی ضرورت تھی۔
ایک دن فرینکلن کو خیال آیا کہ کیوں نہ وہ نوادرات اکٹھا کرنے والے اور ماہر فطرت ہنس سلوین کو ایک خط لکھیں اور انھیں بتائیں کہ ایک شخص بحر اوقیانوس کے علاقوں سے بہت سی ایسی دلچسپ چیزیں لے کر آیا ہے جو شاید اُن کی دلچسپی کا باعث ہوں۔
ان نوادرات میں سے ایک ایسبیسٹیس تھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس پر آگ کا اثر نہیں ہوتا تھا۔ اور اس کے گندے ہونے کی صورت میں اسے شعلوں سے صاف کیا جا سکتا تھا۔
سلوین نے فوری طور پر فرینکلن کو اپنے گھر بلایا اور انھیں اس (زہریلی) چیز کی بہت اچھی قیمت دی جو آج بہت احتیاط سے میوزیم آف نیچرل ہسٹری میں رکھی گئی ہے۔
Getty Imagesایسبیسٹیس کا استعمال آج بھی ہوتا ہےطلسمی چیز
درحقیقت ایسبیسٹیس کی آگ کے خلاف مزاحمت ہزاروں سال پہلے دریافت ہوئی تھی اور مذہبی تقریبات اور تفریحی تقریبات میں اِس کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے۔
پہلی صدی میں رومن مصنف پلینی دی ایلڈر نے اپنے قارئین کو کپڑے کی ایک نئی قسم سے متعارف کروایا تھا۔ یہ ایک ایسی چیز تھی جس سے بہت سی عجیب و غریب چیزیں بنائی جا سکتی تھیں۔
اس کی خاصیت انھوں نے خود بھی دیکھی تھی، جیسے کہ اس سے بنے رومال کو جب بھڑکتی آگ میں رکھا جاتا تو اور بھی زیادہ صاف اور تازہ نظر آنے لگتا تھا۔
اسے بادشاہوں کے کفن کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا تھا کیونکہ وہ جلتا نہیں تھا۔ تو ایسا کرنے سے کسی کی راکھ کو دیگر میتوں کی راکھوں سے الگ رکھا جا سکتا تھا۔
یہ مادہ دراصل ایسبیسٹیس تھا اور اس کے خواص سے متعلق کہانیاں پوری دنیا میں پھیل چکی تھیں۔
دوسرے ذرائع بتاتے ہیں کہ اس کا تولیے، جوتے اور جال بنانے کے لیے بھی استعمال ہوتا تھا۔
قدیم یونان کی ایک کہانی میں دیوی ایتھینا کے لیے بنائے گئے ایک چراغ کے بارے میں بتایا گیا ہے جو بغیر بجھے سارا سال جل سکتا تھا کیونکہ اس کی بتی ’کارپیتھین فلیکس‘ سے بنی تھی۔ کارپیتھین فلیکس در اصل ایسبیسٹیس کا دوسرا نام ہے۔
Getty Imagesیونان کی دیوی ایتھینا
پلینی کا خیال تھا کہ ہندوستان کے صحرائی علاقے میں ہونے کی وجہ سے اس کا خاص کتان یا لین آگ کے خلاف مزاحم ہے اور یہ ایسے ماحول میں پایا جاتا ہے جہاں شاذ نادر ہی کبھی بھی بارش ہوتی ہو اور چلچلاتی سورج کی روشنی نے اسے انتہائی گرمی کو برداشت کرنے کے قابل بنا دیا۔
بعد میں اس میں ایک نظریہ یہ شامل کیا گیا تھا کہ یہ سیلامینڈر کی جلد سے بنایا گیا تھا، جو قرون وسطی میں آگ کے خلاف مزاحم کے طور پر مشہور مادہ تھا۔
ایسبیسٹیس ایک قدرتی معدنیات ہے جو اطالوی آلپس سے لے کر آسٹریلیا کے دور دراز علاقوں تک دنیا بھر میں چٹانوں میں پایا جاتا ہے۔
اس کی بہت سی شکلیں ہو سکتی ہیں اور یہ اس بات پر منحصر ہے کہ اسے کس چیز کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ لیکن جب اسے خوردبین سے دیکھا جاتا ہےتو یہ ایک سخت، سوئی کے سائز کے فائبر کے طور پر ظاہر ہوتا ہے۔
اگرچہ یہ آسانی سے ٹوٹنے والا نظر آتا ہے لیکن اسے آسانی سے توڑا نہیں جا سکتا۔
وہ آگ کے خلاف مزاحم اور کیمیائی طور پر غیر فعال ہے۔ لہذا حیاتیاتی ایجنٹ جیسے بیکٹیریا انھیں توڑ نہیں سکتے۔
آگ کے خلاف مزاحمت کے علاوہ ایسبیسٹیس کی لچک نے اسے 2500 قبل مسیح میں گھریلو مقاصد کے لیے مفید بنا دیا تھا۔
Getty Imagesایسبیسٹیس نامی مادے سے تیارہ کردہ چھتیںدوسرے کاموں میں استعمال
ایسبیسٹیس آگ سے کم متاثر ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں اور بھی بہت سی خوبیاں ہیں۔ ان وجوہات کی بنا پر ایسبیسٹیس ایک ضروری گھریلو شے بن گیا ہے۔ اس کے استعمال کے شواہد ڈھائی ہزار سال قبل مسیح تک ملتے ہیں۔
سنہ 1930 میں ماہرین آثار قدیمہ نے فن لینڈ کی صاف ترین جھیل ’جوجاروی‘ کے ساحل سے کچھ قدیم برتن برآمد کیے تھے۔ بعد ازاں تحقیقات سے معلوم ہوا کہ ان برتنوں میں ایسبیسٹیس کے عناصر پائے گئے تھے۔
ایسبیسٹیس کی مقبولیت میں کبھی کمی نہیں آئی اور زمانہ قدیم میں اس مہلک معدنیات کا کاروبار خوب پھلا پھولا۔ شارلمین 800 عیسوی میں مقدس رومی سلطنت کا پہلا شہنشاہ بنا۔ شارلمین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انھیں ضیافتیں دینے کا بہت شوق تھا اور یہ ان کی سفارتی کامیابی سے جڑا ہوا تھا۔
کہانیوں کے مطابق اس طرح کے مواقع پر ان کے پاس ایسبیسٹیس سے بنے ہوئے برفیلے سفید ٹیبل کلاتھ (میز پر بچھانے والا کپڑا) ہوتے تھے۔ دعوتوں کے دوران وہ اکثر اس ٹیبل کلاتھ کو آگ میں پھینک دیتے تھے۔
یہاں تک کہ جنگ کے دوران ایسبیسٹیس کا استعمال کیا گیا۔ اسے ایک بڑے سائز کے غلیل کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ مسیحی مذہبی جنگوں کے دوران استعمال کیا گیا تھا۔ لکڑی سے بنے کیٹاپلٹ (غلیل نما آلہ) سے بڑی چیزیں جیسے جلتے ہوئے تارکول کو دشمن کے ٹھکانوں پر پھینکا جاتا تھا۔ جس تھیلے میں تارکول رکھے جاتے اور پھینکے جاتے وہ ایسبیسٹیس کا بنا ہوتا تھا۔
ایسبیسٹیس سے بنے ہونے کی وجہ سے یہ ہتھیار اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے پوری طرح جل نہیں پاتے تھے۔ یہاں تک کہ میدان جنگ میں جاتے وقت پہنی جانے والی زرہ میں بھی ایسبیسٹیس کا استعمال کیا جاتا تھا۔ یہ پہننے والے کو گرم رکھنے میں مدد کرتا تھا۔
بہرحال بارہویں صدی میں ایسبیسٹیس کا ایک اور نیا استعمال دیکھا گیا۔ سنہ 2014 میں سائنسدانوں کو قبرص میں بازنطینی دور کی دیوار کی پینٹنگ میں ایسبیسٹیس کے استعمال کے آثار ملے۔
تاریخی طور پر ایسبیسٹیس کو ایک کام کی چیز سمجھا جاتا تھا۔ یہ مہنگا بھی تھا۔ پلینی نے بھی کہا تھا کہ ان کے زمانے میں ایسبیسٹیس موتیوں سے زیادہ مہنگا تھا۔
19ویں صدی کے آخر میں کینیڈا اور امریکہ میں اس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے اور اس کے استعمال میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ پہلی بار اس کا استعمال پاور پلانٹس اور بھاپ کے انجنوں میں دیکھا گیا۔
اور پھر جلد ہی اس کا عمل دخل عام لوگوں کے گھروں تک پہنچ گیا۔
اس کےمعیار کی وجہ سے لوگوں نے ہزاروں سالوں سے اسے پسند کیا اور اسے ایک بار پھر سے تھرمل موصلیت اور آگ سے بچاؤ کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔
20ویں صدی کے آخر تک اس کا استعمال اس حد تک بڑھ گیا کہ پانی کے پائپ بھی ایسبیسٹیس سے بننے لگے۔
Getty Imagesایسبیسٹیس سے تیار کردہ بیگزہر کی علامات
تاہم قدیم زمانے میں ایسے اشارے ملے تھے کہ ایسبیسٹیس زہریلا ہوتا ہے اور ہر گزرتی صدی کے ساتھ یہ خطرہ مزید واضح ہوتا گیا۔
سنہ 1899 میں ایک 33 سالہ ٹیکسٹائل مل مزدور کی موت ہو گئی۔ وہ پلمونری فائبروسس کے مرض میں مبتلا تھا۔ اس کے علاج کے دوران ایک انگریز ڈاکٹر کو معلوم ہوا کہ اس کی بیماری کی وجہ ایسبیسٹیس ہے۔
ایسبیسٹیس کی وجہ سے موت کا یہ پہلا تصدیق شدہ کیس تھا۔
سو سال بعد سنہ 1999 میں برطانیہ میں ایسبیسٹیس پر پابندی لگا دی گئی۔ لیکن اس کی مدد سے بنائی گئی کئی عمارتیں اب بھی استعمال ہو رہی ہیں۔
جیسے جیسے یہ عمارتیں کمزور ہوتی ہیں، اس سے لوگوں کی صحت کو شدید خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
اسی طرح کے حالات دنیا کے بہت سے دوسرے حصوں میں موجود ہیں تاہم ایسبیسٹیس اب بھی کئی جگہوں پر استعمال ہو رہا ہے۔
امریکہ اب بھی ایسبیسٹیس درآمد کرتا ہے۔ تاہم وہاں ماحولیاتی تحفظ کے لیے ذمہ دار سرکاری ادارہ اس کے استعمال کو روکنے کے لیے اقدامات کا مطالعہ کر رہا ہے۔
فرینکلن کا پرس ایک یاد دہانی ہے کہ ایسبیسٹیس اب بھی ہمارا پیچھا کر رہا ہے، یہاں تک کہ ان جگہوں پر جہاں ہم اس کی کم سے کم توقع کرتے ہیں۔
تیل کے بعد وہ قیمتی ٹیکنالوجی جس پر چین اور امریکہ لڑ رہے ہیں مگر امریکہ یہ ’جنگ‘ کیسے جیت رہا ہے؟لیتھیئم: کیا ’سفید سونے‘ کی جنگ میں چین امریکہ کو شکست دے رہا ہے؟وہ نایاب دھاتیں جن کی برآمد پر پابندی عائد کر کے چین ’ٹیکنالوجی کی جنگ‘ میں سبقت حاصل کرنا چاہتا ہےموت کا سبب بننے والے مشروم کہیں آپ کی خوراک کا حصہ تو نہیںخبردار! یہ پانچ کھانے آپ کی جان بھی لے سکتے ہیں