جب ایک وحشیانہ قتل کے بعد چمپینزیوں نے چار سال تک ’خونی جنگ‘ لڑی

بی بی سی اردو  |  Feb 26, 2024

کیا آپ جانتے ہیں کہ چمپینزیوں یعنی بن مانسوں نے ایک وقت میں اپنی ہی نسل کے دیگر چمپینمزیوں کے ساتھ چار سال تک ایک ’خونی جنگ‘ لڑی تھی جس میں بہت خون بہا تھا۔

آج تک جنگلی چمپینزیوں کے دو گروہوں کے درمیان صرف ایک لڑائی کو دستاویزی شکل دی گئی ہے۔ چمپینزیوں کی یہ ’خونی جنگ‘ ایک وحشیانہ قتل سے شروع ہوئی تھی۔

یہ جنوری 1974 تھا اور گوڈی نامی چمپینزی تنزانیہ کے گومبے نیشنل پارک میں درخت کی شاخ پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا۔ گوڈی اپنے کھانے میں مصروف تھا کہ اس دوران اس آٹھ دیگر چمپینزیوں نے اسے گھیر لیا تھا۔

برطانوی پرائمیٹولوجسٹ رچرڈ ورنگھم نے بی بی سی ٹیلی ویژن کی دستاویزی فلم ’دی ڈیمن ایپ‘ (2004) میں بیان کیا ہے کہ ’وہ درخت سے چھلانگ لگا کر بھاگا لیکن وہ پکڑا گیا۔‘

ان آٹھ چمپینزیوں میں سے ایک نے اسے پاؤں سے اور دوسرے نے ہاتھ سے پکڑ رکھا تھا۔ انھوں نے گوڈی کو زمین پر پٹخ دیا اور پھر اسے مارنا شروع کردیا۔ گوڈی پر یہ حملہ پانچ منٹ سے زیادہ جاری رہا اور جب انھوں نے اسے چھوڑا وہ بمشکل حرکت کرنے کے قابل بچا تھا۔

اس حملے کے بعد سے گوڈی پھر کبھی نظر نہیں آیا۔

مشہور برطانوی پرائمیٹولوجسٹ جین گڈال کے مطابق یہ سفاکانہ واقعہ چمپینزیوں کے درمیان ’چار سالہ جنگ‘ کا آغاز تھا۔

وہ جنگ جس نے گومبے نیشنل پارک میں چمپینزی کمیونٹی کو تقسیم کیا اور قتل و غارت اور تشدد کی ایک ایسی لہر کو جنم دیا جسے دوبارہ کبھی نہیں دیکھا گیا۔

ڈیوک یونیورسٹی میں ارتقائی بشریات کے پروفیسر جوزف فیلڈبلوم نے ایک بیان میں کہا کہ اس واقعے کی اصل نوعیت اور اسباب آج تک ایک ’معمہ‘ ہیں۔

گذشتہ ماہ پروفیسر فیلڈ بلوم نے امریکن جرنل آف فزیکل اینتھروپولوجی میں شائع ہونے والی ایک تحقیق کی قیادت کی جس میں چیمپینزیوں میں ’طاقت، خواہش اور حسد‘ کی کہانی بیان کی گئی ہے جس کی وجہ سے یہ خونریز جنگ ہوئی تھی۔

Getty Imagesبندروں سے متعلق انسانکا محدود علم

پرائمیٹولوجسٹ جین گڈال نے گومبے نیشنل پارک میں 55 سال گزارے تھے۔ اس دوران انھوں نے وہاں بہت کچھ مشاہدہ کیا اور اس بارے میں نوٹس لیے، پروفیسر فیلڈبلوم نے ان نوٹس کو سنبھالنے اور کمپیوٹرائز کرنے میں 25 سال گزارے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ پریمیٹولوجسٹ جین گڈال نے اپنے مطالعے کے ذریعے ہر وہ چیز بدل دی جو ہم سوچتے تھے کہ ہم چمپینزی (اور انسانوں) کے بارے میں جانتے ہیں۔ انھوں نے پایا کہ یہ بندر اوزار بناتے اور استعمال کرتے ہیں۔ ان کی زبان قدیم ہے اور وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے ساتھی کیا سوچ رہے ہیں۔

پروفیسر جین گڈال نے یہ بھی دریافت کیا کہ یہ جانور کتنے ظالم ہو سکتے ہیں۔

پارک کے شمال اور جنوب میں دو چمپینزی گروپوں کاساکیلا اور کاہاما کے درمیان ہونے والی چھینا جھپٹی، مار پیٹ اور ایک دوسرے کو جان سے مارنے کے واقعات کو دستاویز کرنے میں چار سال لگے۔

مثال کے طور پر اس وقت گومبے نیشنل پارک میں ایک تہائی نر چمپینزیوں کو دوسرے چمپینزیوں نے مارا تھا۔

پروفیسر جین گڈال نے بی بی سی کی دستاویزی فلم میں کہا کہ ’اس جنگ نے چمپینزیوں کو ہمارے جیسا‘ بنا دیا تھا۔

ڈیوک یونیورسٹی کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ ان نظریات کے مطابق ’پروفیسر گڈال کی جانب سے تحقیق شروع کرنے سے پہلے سے گومبے نیشنل پارک میں چمپینزیوں کی دو کمیونٹیز رہ رہی تھیں۔ اس تحقیق کے لیے قائم مرکز سے ان چمپینزیوں کو ملنے والے کھانے نے انھیں باضابطہ طور پر جمع کیا اور ان میں ایک عارضی امن قائم کیا۔‘

تاہم ڈیوک اور ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے نئے نتائج کے مطابق پردے کے پیچھے کچھ اور چل رہا تھا۔

Getty Imagesدوستی سے دشمنی تک

نئی تحقیق میں محققین نے مشاہدہ کیا کہ گومبے نیشنل پارک میں موجود 19 چمپینزیوں کے تعلقات میں لڑائی سے سات سال پہلے سے تبدیلی آرہی تھی۔

سائنسدانوں نے یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے چمپینزیز کے آپسی تعلقات پر غور کیا اور یہ پایا کہ ان چمپینزیوں میں سے دو نر چمپینزیوں کا جوڑا دوست تھے اور وہ دوسرے چمپینزی جوڑوں کے مقابلے میں تحقیقی مرکز میں کھانے کے لیے زیادہ ایک ساتھ آتے تھے۔

ڈیوک یونیورسٹی نے اس تحقیق کے حوالے سے کہا کہ ان کے تجزیے سے پتا چلتا ہے کہ ابتدائی برسوں کے دوران، 1967 اور 1970 کے درمیان دونوں نسلوں کے چمپینزیوں نے آپس میں افزائش نسل کی۔

پھر کچھ چمپینزیوں نے پارک کے شمالی حصے میں اور کچھ نے جنوبی حصے میں وقت گزارنا شروع کیا۔ چمپینزیوں کی یہ برادری یہاں سے الگ ہونا شروع ہوئی۔

1972 تک نر چمپینزی دونوں گروہوں کی مادہ چمپیزیوں کے ساتھ جماع کر رہے تھے۔ یہ گروہ کاسکیلا یا کاہامہ تھے۔

سائنسدانوں نے مشاہدہ کیا کہ جب بھی دونوں گروہوں سے تعلق رکھنے والے چمپینزی ملتے تو ایک دوسرے پر شاخیں پھینکنا شروع کر دیتے، چیختے چلاتے اور طاقت ظاہر کرنے کا مظاہرہ کرتے۔

ڈیوک یونیورسٹی میں ارتقائی بشریات کی پروفیسر این پوسی، پروفیسر جین گڈال کے ساتھ وہاں موجود تھیں۔ انھوں نے کہا کہ ’ہم جنوب کی طرف سے ایسی آوازیں سنتے تھے جیسے وہ کہہ رہے ہوں کہ ’جنوبی نر چمپینزی آ رہے ہیں!‘

پروفیسر این نے کہتی ہیں کہ ’پھر شمال میں ہر کوئی درختوں پر چڑھ جاتا اور بہت شور مچاتا اور طاقت کا مظاہرہ کرتا۔‘

Getty Imagesلڑائی کا سبب بننے والے تین چمپینزی

محققین کا خیال ہے کہ یہ تنازعہ تین نر چمپینزیوں کے درمیان طاقت کی کشمکش‘ سے پیدا ہوا۔ ان میں ہمفری نامی نر چمپینزی اور اس کے جنوبی حریف چارلی اور ہیو نامی نر چمپینزی تھے۔

پروفیسر این کہتی ہیں کہ ہمفری بڑا تھا اور پتھر پھینکنے کے لیے جانا جاتا تھا، ’وہ چارلی اور ہیو کو اکیلے میں دھمکا سکتا تھا، لیکن جب وہ ساتھ ہوتے تو وہ ان کے راستے میں نہ آتا۔‘

تحقیق کے مطابق اس وقت گومبے نیشنل پارک میں مادہ چمپینزیز کی تعداد غیر معمولی طور پر کم تھی، جس کی وجہ سے نر چیمپنزیز کی جانب سے ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی جدوجہد کے امکانات زیادہ پیدا ہو گئے تھے۔

مگر یہ لڑائی صرف ان تین مخالف نر چمپینزیز تک محدود نہیں تھی بلکہ اس نے عمر یا جنس کی تفریق کے بغیر چمپینزیز کے باہمی تعلقات کو متاثر کیا تھا۔

تاہم، محققین تسلیم کرتے ہیں کہ فطرت میں اس طرح کے دیگر واقعات کی کمی کی وجہ سے نئے نتائج کا موازنہ کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔

پروفیسر جین نے اپنی دستاویزی فلم میں کہا کہ ’اس وقت گومبے نیشنل پارک میں صورتحال خوفناک تھی۔‘ انھوں نے اعتراف کیا کہ ان کا مشاہداتی مرکز چمپینزیوں میں ’تشدد میں اضافے‘ کا سبب بنا تھا۔

پروفیسر جین گڈال کے الفاظ میں ’میرے خیال میں المناک بات یہ ہے کہ اس عمل کا مشاہدہ کیا جائے جس میں ایک بڑا گروہ دوسرے گروہ کو ختم کر کے علاقے پر قبضہ کر لیتا ہے۔‘

انڈیا کے ایک گاؤں میں بندروں پر کتوں کے پلوں کو ’اغوا‘ کر کے ہلاک کرنے کا الزام، آخر یہ ماجرا کیا ہے؟’بندروں کے ساتھ رہنے والی لڑکی‘ کے والدین کی تلاشبندر پہلے انسان تھے؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More