Getty Images
انڈیا کی بی جے پی حکومت وزیر اعظم نریندر مودی سے متعلق ایک سوال کے جواب کے سلسلے میں انٹرنیٹ کمپنی گوگل کو نوٹس بھیجنے کی تیاری کر رہی ہے۔
گوگل کی مصنوعی ذہانت یعنی آرٹیفیشل انٹیلی جنس (اے آئی) پلیٹ فارم جیمنی پر ایک سوال کے جواب میں انڈین وزیر اعظم مودی پر ’بے بنیاد‘ الزامات لگانے کے لیے حکومت ہند کمپنی کو نوٹس بھیجنے پر غور کر رہی ہے۔
انڈین میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک صارف نے اسے پوسٹ کیاتھا جس کے بعد انڈیا میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے وزیر راجیو چندرشیکھر نے اسے سنجیدگی سے لیا۔
جبکہ گوگل نے کہا ہے کہ جیمنائی اے آئی ٹول بطور خاص طور پر حالات حاضرہ کے واقعات، سیاسی موضوعات یا بدلتی ہوئی خبروں کے معاملے میں ہمیشہ قابل اعتماد نہیں ہو سکتا۔
ایک ٹوئٹر صارف کی پوسٹ کے جواب میں راجیو چندر شیکھر نے اشارہ دیا ہے کہ حکومت اس کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے۔ انھوں نے لکھا: ’یہ آئی ٹی ایکٹ کے تحت آئی ٹی رول 3 (بی) اور فوجداری قانون کی متعدد دفعات کے تحت براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘
شریموئے تالکدار نامی ٹوئٹر صارف نے ایک اور پوسٹ فارورڈ کرتے ہوئے لکھا کہ گوگل کے اے آئی کی جانب سے ایک سوال کے جواب میں دیا گیا جواب تعصب کو ظاہر کرتا ہے اور حکومت کو اس کا نوٹس لینا چاہیے۔
معاملہ کیا ہے؟
شریموئے تالکدار نامی صارف نے ایک ٹویٹ فارورڈ کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ جب مصنوعی ذہانت جیمنائی سے مودی کے بارے میں پوچھا گیا کہ ’کیا مودی فاشسٹ ہیں‘ تو ان کا جواب تھا کہ ’ان پر ایسی پالیسیاں نافذ کرنے کا الزام ہے جو کچھ ماہرین کے مطابق فاشزم ہے۔‘
لیکن جب وہی سوال امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے بارے میں پوچھا گیا تو گوگل کی مصنوعی ذہانت جیمنائی نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔
زیلینسکی کے حوالے سے اے آئی نے لکھا: ’یہ سوال پیچیدہ ہے، اس کا کوئی آسان جواب نہیں ہے۔‘
جبکہ ٹرمپ کے بارے میں پوچھے گئے اسی طرح کے سوال پر جیمنائی نے لکھا: ’مسلسل بدلتی ہوئی معلومات کے درمیان انتخابات ایک پیچیدہ موضوع ہیں۔ درست اور تازہ ترین معلومات حاصل کرنے کے لیے گوگل سرچ پر تلاش کرنے کی کوشش کریں۔‘
معروف مصنف ارنب رے نے ان تینوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ دیکھیں اس مصنوعی ذہانت کو کیسے تیار کیا گیا ہے۔ جیمنائی کو شرم آنی چاہیے۔
https://twitter.com/greatbong/status/1760728380008485331
گوگل کا جواب
انڈین میڈیا میں ذرائع کے حوالے سے خبر دی جا رہی ہے گوگل کو اس معاملے میں نوٹس بھیجی جا رہی ہے۔ حکومت سوال کر رہی ہے کہ اے آئی کو کس طرح تربیت دی گئی ہے اور کن ذرائع کی بنیاد پر اے آئی نے اپنے جوابات تیار کیے ہیں۔ وہ ’ماہرین‘ کون ہیں جن کا اے آئی نے اپنے جواب میں ذکر کیا ہے؟
دی ہندو بزنس لائن کے مطابق گوگل نے سنیچر کے روز اس معاملے پر رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اس نے جیمنائی اے آئی ٹول کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے ’فوری‘ کام کیا ہے۔
گوگل کے ترجمان نے کہا: ’ہم نے اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے تیزی سے کام کیا ہے۔ جیمنی کو تخلیقی اور پیداواری ٹول کے طور پر بنایا گیا ہے اور یہ ہمیشہ قابل بھروسہ نہیں ہو سکتا، خاص طور پر جب حالات حاضرہ کے واقعات، سیاسی موضوعات، یا بدلتی ہوئی خبروں کے بارے میں کچھ اشارے پر جواب دینے کی بات آتی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم بہتر بنانے کے لیے مسلسل کام کر رہے ہیں۔‘
جہاں بہت سے لوگوں نے مصنوعی ذہانت پر متعصب ہونے کا الزام لگایا ہے وہیں بہت سے لوگوں نے یہ بھی کہنے کی کوشش کی ہے کہ انسان خطا کر سکتا ہے لیکن مصنوعی ذہانت عام طور پر درست معلومات فراہم کرتی ہے۔
لب ابھیلاشا نامی ایک صارف نے انڈین ایکسپریس کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’انسان غلط ہو سکتا ہے لیکن اے آئی زیادہ تر صحیح ہوتا ہے۔ یہ بات دنیا بھر میں مشہور ہے کہ مودی فاشسٹ پالیسیاں اپناتے ہیں۔ اے آئی معروف بین الاقوامی میڈیا اور سوشل میڈیا کی بڑی تعداد سے سیکھ کر علم حاصل کرتا ہے۔‘
https://twitter.com/LibAbhilasha/status/1761013619351797933
اسی طرح معروف امریکی تاریخ داں آڈری ٹرشکی نے دی ہندو کی خبر کو شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’جب بھی سچ سامنے آتا ہے، خواہ اس کا ذریعہ کچھ بھی ہو، اس کا آپ کے ہندو راشٹر میں استقبال نہیں ہے۔‘
آئی ٹی وزیر کے ٹویٹ کا جواب دیتے ہوئے معروف صحافی سدھارتھ وردھ راجن نے لکھا: ’بھکت (یعنی مودی کے زبردست حامی) اے آئی بوٹ کے تعصّبات کے بارے میں اپنا غصّہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سبھی پیارے لیڈر کے بارے میں ایسے سوالات کیوں پوچھ رہے ہیں کہ ’کیا مودی فاشسٹ ہیں؟‘، ’کیا مودی کٹر ہیں؟‘، ’کیا مودی آمر ہیں؟‘
ان میں سے کوئی یہ نہیں پوچھ رہا کہ ’کیا مودی جمہوریت پسند ہیں؟‘، ’کیا مودی انسانی حقوق کا احترام کرتے ہیں؟ ان کے سوالات ہی ہمیں وہ سب بتاتے ہیں جو ہمیں جاننے کی ضرورت ہے۔‘
https://twitter.com/svaradarajan/status/1761046086959903151
بہت سے صارفین نے سوشل میڈیا پر جیمنی یا دوسرے چیٹ بوٹ کی خامیاں بھی لکھی ہیں جبکہ نریندر مودی کے بارے میں وہی سوال دوسری مصنوعی ذہانت سے کیا ہے جس کا واضح جواب نہیں دیا گیا ہے۔ بہت سے صارفین صرف جیمنی سے پوچھا گیا سوال اور اس کا جواب شیئر کر رہے ہیں۔
اخبار فنینسشیل ایکسپریس نے جب یہی سوال چیٹ جی پی ٹی سے پوچھا تو اس کا جواب کچھ اس طرح تھا: ’یہ سوال کہ کیا وزیر اعظم نریندر مودی فاشسٹ ہیں نقطہ نظر اور ذاتی رائے کا معاملہ ہے۔ کچھ ناقدین اور حزب اختلاف کے اراکین نے ان پر اور ان کی حکومت پر آمرانہ رجحانات دکھانے کا الزام لگایا ہے کہ اور طاقت کو مرتکز کرنے، اختلاف رائے کو دبانے، اور شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے نفاذ جیسی متنازع پالیسیوں اور جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کی منسوخی جیسے اقدامات کا حوالہ دیا ہے۔ وہ استدلال کرتے ہیں کہ یہ کارروائیاں عام طور پر فاشسٹ حکومتوں سے وابستہ خصوصیات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تاہم، وزیر اعظم مودی اور ان کی پارٹی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے حامی ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور دلیل دیتے ہیں کہ حکومت ہند جمہوری فریم ورک کے اندر کام کر رہی ہے۔‘
وزیر اعظم مودی کی ایک خاموشی کی تعریف اور ایک پر تنقیدمودی نام پر تنقید:راہل گاندھی کی ہتک عزت کیس میں سزا کے خلاف اپیل ہائیکورٹ سے بھی مستردانڈیا کی نئی پارلیمنٹ کے مودی کے ہاتھوں افتتاح پر تنقید کیوں کی جا رہی ہے؟مودی کی وائرل ویڈیو: ’مودی کے لیے کیمرہ مین ایسے ہے، جیسے مرنے والے کے لیے آکسیجن سیلنڈر‘20 کروڑ مسلمانوں کی نسل کشی کی دھمکی پر کیوں خاموش رہے، جاوید اختر کی مودی پر تنقید