آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے نتائج اس لحاظ سے حیران کن ہیں کہ سیاسی جماعتوں پر آزاد اُمیدوار برتری لے گئے حالانکہ ان میں سے زیادہ تر انتخابی مہم بھی نہیں چلا پائے تھے۔
اگر پنجاب کی حد تک بات کریں تو پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ کامیاب آزاد اُمیدواروں نے الیکشن میں نشست جیتنے کے پرانے طریقہ کار کو تبدیل کر کے رکھ دیا، روایتی طرز کا برادری سسٹم کام آ سکا اور نہ ہی دھڑا بندی مؤثر رہی۔
حلقہ کی سطح پر ووٹرز کی تقسیم بالحاظ عمر، زبان، نسل، مسلک، معاش اور دیہی و شہری امتیاز کے سانچے بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئے۔
یوں الیکشن لڑنے کا پرانا طریقہ کار غیر مؤثر ہو کر رہ گیا۔ اچانک ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب اس پہلو کے تجزیے میں پنہاں ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدواروں کے پلڑے میں ووٹ ڈالنے والے ووٹرز شاید الیکشن سے بہت پہلے اپنے ووٹ کا فیصلہ کر چکے تھے اور اس ضمن میں اُن کی ذہن سازی میں سوشل میڈیا کلیدی کردار ادا کر چکا تھا۔
ایک سوال یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی نے اپنے ووٹرز کی ذہن سازی کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا تو دوسری جماعتوں نے ایسا کیوں نہ کیا؟ کیا دوسری جماعتوں کے لیڈر سوشل میڈیا کے مؤثر ہونے کے حوالے سے لاعلم رہے؟ شاید ایسا نہیں۔
لیکن ذرا توقف کریں! تھوڑا عرصہ پہلے کی بات ہے کہ پیپلزپارٹی اور ن لیگ پاکستان تحریکِ انصاف کو ’سوشل میڈیا کی جماعت‘ کا طعنہ دیتی تھیں۔
پھر بعد ازاں جب عمران خان نے ٹک ٹاک کا استعمال کیا تو دونوں جماعتوں کے بعض لیڈروں نے اُن کو ٹک ٹاک کا وزیرِ اعظم کہہ کر پھبتی بھی کَسی۔ پی ٹی آئی کو سوشل میڈیا جماعت کا طعنہ دینے والی جماعتوں کو اُس وقت ادراک نہ ہو سکا کہ اگلے الیکشن کا میدان ڈیجیٹل پلیٹ فارم قرار پائے گا۔
دوسری طرف دونوں جماعتیں اپنے تئیں سوشل میڈیا کو سیاسی مقاصد کے حصول کا ذریعہ بھی بناتی رہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق مئی 2022 میں مریم نواز نے مسلم لیگ ن کے ٹک ٹاکر سے جاتی اُمرا میں ملاقات کی اور سوشل میڈیا ٹیم کو ٹک ٹاک پر مزید فعال ہونے کی تاکید کی۔
اسی طرح بلاول بھٹو زرداری کے عوامی مارچ کے دوران ٹک ٹاک کا خوب استعمال کیا گیا تھا مگر اس ضمن میں دونوں جماعتوں کی سرگرم قیادت سے کچھ تاخیر ہو چکی تھی۔
ذرا یاد کیجیے اُن لمحات کو جب پی ٹی آئی برسرِ اقتدار تھی اور صدر ہاؤس، وزیرِ اعظم ہاؤس اور پنجاب گورنر ہاؤس میں سوشل میڈیا سے وابستہ نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی کئی میٹنگز ہوا کرتی تھیں۔
تاہم آگے بڑھنے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ ووٹ ڈالنے کا جواز کس طرز کے ووٹرز کے پاس زیادہ تھا؟ اور یہ جواز ووٹرز کے ذہنوں میں کیسے اُبھارا گیا؟
کس جماعت کے ووٹرز کے پاس ووٹ دینے کا جواز زیادہ تھا؟
جب سنہ 2022 میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر تمام سرکردہ جماعتوں نے مل کر حکومت بنائی تو عمران خان کے دیرینہ بیانیہ کہ ’یہ سب ملک کو لوٹ کر کھا گئے‘ کو میڈیا و سوشل میڈیا پر خوب پذیرائی ملی۔
پی ڈی ایم کی حکومت لوگوں کو ریلیف دینے میں بھی کامیاب نہ ہو سکی، اُلٹا مہنگائی نے ہر طبقہ کو متاثر کر کے رکھ دیا۔
نو مئی کے واقعہ نے پی ٹی آئی لیڈروں اور ورکرز کو جبر کے شکنجوں میں دے ڈالا۔سنہ 2018 کے الیکشن سے پہلے کی فلم چل پڑی، فرق یہ تھا کہ اُس وقت ن لیگ، اب پی ٹی آئی زیرِعتاب تھی۔
مگر دونوں کے مابین اپنے اوپر ہونے والے جبر اور ناانصافیوں کی سوشل میڈیا پر تشہیر اور پروپیگنڈے کے استعمال کا فرق سامنے آ گیا۔ اس بار سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے پی ٹی آئی ووٹرز کو ووٹ ڈالنے کے کئی جواز مل گئے۔
اس کے مقابلہ میں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کے ووٹرز کے پاس ووٹ ڈالنے کے کیا جواز تھے؟ یا کوئی ایسی تحریکجو اُن کو گھروں سے نکلنے پر اُبھار دیتی؟ پی ٹی آئی کا ورکر غصے میں تھا، ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے ورکر کے پاس کسی طرح کا غصہ یا ردِعمل نہیں تھا، جس کا وہ ووٹ کی پرچی سے اظہار کرتا۔
2018 میں ن لیگ کے ووٹرز کے پاس کئی جواز تھے۔ اُن کا لیڈر اپنی وزارتِ عظمیٰ کی مُدت پوری نہ کر سکا، وہ تاحیات نااہل ٹھہرایا گیا، بیماری کی حالت میں جیل کاٹ رہا تھا مگر ن لیگ اُس جواز میں اثر پیدا کرنے سے قاصر رہی، اس کی ایک بنیادی وجہ سوشل میڈیا تھی، جو تشہیر اور پراپیگنڈے کا تیز ترین ہتھیار بن چکا تھا۔
یہاں ووٹرز کی ذہن سازی کی چند مثالوں کی طرف بڑھتے ہیں۔
پی ٹی آئیووٹرز گھر سے پولنگ سٹیشن اچانک نہیں نکلے
الیکشن سے چند ماہ پہلے جو تجزیہ کار پنجاب میں پی ٹی آئی کی مقبولیت کا کسی حد تک اندازہ لگا چکے تھے، اُن میں سے بعض کا خیال تھا کہ الیکشن جب قریب آئیں گے اور ووٹرز کو یہ ادراک ہو جائے گا کہ عمران خان مزید مقدمات میں پھنستے چلے جائیں گے اور پی ٹی آئی برسرِ اقتدار نہیں آ سکے گی، تو وہ مقامی دھڑوں اور بالخصوص ن لیگ کے اُمیدواروں کے قریب آنا شروع ہو جائیں گے۔
ایسا ہی خیال سیاست پر گہری نظر رکھنے والے مقامی تجزیہ کاروں کا بھی تھا۔ الطاف خان ڈی جی خان ڈویژن کی سیاسی حرکیات اور وہاں کے سیاسی خاندانوں پر گہری نظر رکھتے ہیں، اُن کا خیال تھا کہ تونسہ کے حلقہ 183 سے امجد فاروق کھوسہ کی پوزیشن بہت مضبوط ہے۔
حلقہ بندیوں کی وجہ سے امجد فاروق کھوسہ کو اُن کے مدِ مقابل خواجہ شیراز پر فوقیت بھی میسر آئی۔ لہٰذا اُنھوں نے اپنے بھائیوں کے ساتھ یہ فیصلہ کیا کہ امجد فاروق کھوسہ کو سپورٹ مہیا کی جائے۔
الطاف خان کے مطابق وہ چار یونین کونسل میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں، وہاں سے اُن کو ووٹ بھی دلوائیں گے۔
حالانکہ الطاف خان کی فیملی کی سپورٹ ماضی میں خواجہ شیراز کے ساتھ رہی ہے۔ اس حلقہ میں امجد فاروق کھوسہ ن لیگ کی ٹکٹ پر تھے جبکہ خواجہ شیراز پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد اُمیدوار کے طور پر تھے مگر جب نتیجہ آیا تو خواجہ شیراز نے 47 ہزار سے زائد ووٹوں سے اپنے مدِ مقابل امجد فاروق کھوسہ کو ہرا دیا۔
مقامی صحافی سہیل درانی کہتے ہیں کہ ’اس حلقہ میں امجد فاروق کھوسہ کا قبیلہ زیادہ تعداد میں ہے۔ گذشتہ الیکشن میں امجد فاروق کھوسہ نے ذوالفقار کھوسہ کو شکست دی تھی۔ شخصی سطح پر بھی اِن کا ووٹ بینک کافی زیادہ ہے۔ دوسری طرف خواجہ شیراز ماضی میں جب عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ تھے تو پی ٹی آئی سے ناراض تھے مگر جب اِنھوں نے دیکھا کہ ووٹرز پی ٹی آئی کے ساتھ ہیں تو یہ پی ٹی آئی کی حمایت سے الیکشن میں اُترے۔‘
یہ بھی پڑھیےعمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی انتخابی مہم: ’مشکلات اتنی ہیں کہ آپ کو سب کچھ بتا بھی نہیں سکتے‘پی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہےپی ٹی آئی کو انتخابی مہم میں مشکلات: ’انتقام لینے سے فرصت ملے تو یہ عوام کا سوچیں‘
یہ آٹھ فروری کے الیکشن سے لگ بھگ ایک ماہ پہلے کی بات ہے۔ ضلع خانیوال سے تعلق رکھنے والی ایک دیہی صوبائی حلقہ کی خاتون اُمیدوار جو اپنی انتخابی مہم کو گذشتہ تین برس سے مسلسل چلا رہی تھی، کسی اچھے ٹک ٹاکر کی تلاش میں تھیں۔ اُن کو اپنی کمپین کے لیے ڈیجیٹل معاونت چاہیے تھی۔
جس وقت خاتون اُمیدوار کو انتخابی مہم کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے اثر کی اہمیت کا اندازہ ہوا، اُس وقت بہت دیر ہو چکی تھی۔ نو فروری کی صبح جب اُس صوبائی حلقہ کا نتیجہ آیا تو پی ٹی آئی کا حمایت یافتہ اُمیدوار جو بالکل نیا چہرہ تھا اور جس نے ایک دِن بھی مہم نہیں چلائی تھی، اُس خاتون اُمیدوار جس نے تین سال گھر گھر مہم چلائی، پر سبقت لے گیا۔
یہ سبقت سوشل میڈیا کی یلغار کا نتیجہ قرار دی جا سکتی ہے، اس کا کوئی دوسرا بڑا جواز بظاہر نظر نہیں آتا۔
یہاں ایک اور مثال کی طرف بڑھتے ہیں۔ انتخابی سروے اور سٹریٹیجی پر کام کرنے والے ادارے ڈیٹا ورس نے اگست 2022 میں ان چند حلقوں میں جہاں روایتی طور پر پاکستان مسلم لیگ ن کا زور رہا ہے، کے ووٹ بینک کا جائزہ لیا۔
Getty Images
اس میں سوشل میڈیا کے اثرات کا جائزہ بھی لیا گیا، قومی اسمبلی کے یہ دیہی حلقے تھے۔ یہاں صرف ایک حلقہ کی بات کرتے ہیں۔
اوکاڑہ کا حلقہ جس کا 2018 کے الیکشن میں نمبر 143 تھا وہاں سے مسلم لیگ ن کے ایم این اے راؤ اجمل خان نے 54 ہزار کی برتری سے سیٹ اپنے نام کی تھی۔
اُس حلقہ میں جو نجی چینل زیادہ دیکھا جاتا تھا، وہ پی ٹی آئی کا شدید حامی تصور کیا جاتا تھا۔ اس چینل کے جملہ اینکر پی ٹی آئی تھے۔ اس چینل کا مواد سمارٹ فونز پر زیادہ دیکھا جاتا تھا اور دیکھنے والوں میں بزرگ افراد کی تعداد کثرت سے تھی۔ آٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن میں راؤ اجمل خان کو پی ٹی آئی حمایت یافتہ اُمیدوار نے لگ بھگ 25 ہزار ووٹوں سے شکست دی۔
گویا 2018 میں 54 ہزار ووٹوں کی برتری رکھنے والا 2024 کے الیکشن میں 25 ہزار کے بھاری مارجن سے شکست کھا بیٹھا۔
اس حلقہ میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ اُمیدوار کا پس منظر پی ٹی آئی کا نہیں لیکن وہ ایک ایسے اُمیدوار سے جیت گیا، جو الیکٹ ایبل تصور ہوتا ہے اور قومی اسمبلی کا حلقہ بھی ن لیگ کے ووٹ بینک کے لحاظ سے شہرت رکھتا ہے۔
اوکاڑہ کے مقامی صحافی سلمان قریشی کہتے ہیں کہ ’اس حلقہ میں راؤ اجمل کی شکست کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں مگر اصل میں یہاں الیکشن ن لیگ بمقابلہ پی ٹی آئی ہوا۔‘
اسی طرح مقامی صحافی محمد اشرف کہتے ہیں کہ ’راؤ اجمل نے بہت عمدہ طریقے سے اپنی مہم چلائی، حلقے میں ہر جگہ اُن کے پینا فلیکس لگے ہوئے دکھائی دیے اور فیس بک پیج پر بھی کمپین چلائی گئی۔‘
ان مثالوں سے واضح ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے جس موثر طریقے سے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کا استعمال کیا، اُس نے ووٹرز کو قابو کیے رکھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ووٹرز کی ذہن سازی ایک عرصہ سے مسلسل ہو رہی تھی۔
ڈیٹاورس کے سروے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حلقہ کے دیہی علاقوں میں جو ووٹرز سوشل و الیکٹرانک میڈیا کے انفلوئنس میں آ رہا تھا، اسے الیکٹرانک و سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر زیادہ مواد پی ٹی آئی کے حوالے سے دیکھنے کو مل رہا تھا اور عمران خان کے خلاف متبادل آوازوں (جیسا کہ نواز شریف اور مریم نواز) کی کمی تھی۔ اگر یہ آوازیں تھیں بھی تو جذباتیت سے معمور ہرگز نہیں تھیں۔
ہیڈ آف الیکٹرانک میڈیا پی ٹی آئی رضوان احمد کہتے ہیں کہ ’ہم الیکٹرانک و سوشل میڈیا پر 2010 اور 2011 سے متحرک ہیں، تاہم 2012 کے بعد ہماری پارٹی اِن پلیٹ فارم پر زیادہ متحرک ہوئی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ان انتخابات میں سوشل میڈیا کا بڑا کردار رہا ہے۔‘
الیکشن 2024 میں سوشل میڈیا کا کردار: پی ٹی آئی اور دوسری جماعتیں
الیکشن 2024 میں انتخابی مہم میں سوشل میڈیا کا کردار کتنا مؤثر رہا اور پی ٹی آئی اور دیگر جماعتوں کے ہاں اس کے استعمال میں فرق کیا رہا؟
اس حوالے سے ایک اہم ڈیجیٹل پلیٹ فارم ’ٹی سی ایم‘ کے ڈائریکٹر نیوز واحد علی کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح سوشل میڈیا پر اپنی مہم میں جدت متعارف کروانے کے حوالے سے سبقت لے گئی، چاہے ورچوئل پاور شو ہو، ٹک ٹاک جلسہ ہو، روزانہ کی بنیادپر ٹوئٹر سپیس کا استعمال ہو یا عمران خان کی پرانی تقاریر کو دوبارہ براہ راست سوشل میڈیا پلیٹ فورمز پر چلانا ہو، یہاں تک کہ الیکشن کے بعد اے آئی کی مدد سے تیار کردہ عمران خان کی وکٹری سپیچ ہو۔‘
’پی ٹی آئی سوشل میڈیا ٹیم نے جدت کے ساتھ اپنے ووٹر تک اپنا پیغام پہنچایا۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’ایک طرف پرانی سیاسی جماعتوں، خصوصاً مسلم لیگ ن نے روایتی انداز میں کیمپین کی اور اخباری اشتہارات کا سہارا لیا جو اب نوجوان پڑھتے بھی نہیں۔ پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی نسبت ذرا بہتر انداز سے سوشل میڈیا کا استعمال کیا۔
’خاص کر بلاول بھٹو کے پوڈکاسٹ کی سوشل میڈیا پر کافی دھوم رہی، جماعت اسلاامی کے کچھ امیدواروں نے ذاتی حیثیت خاص کر اسلام باد سے میاں اسلم اور کراچی سے حافظ نعیم کی سوشل میڈیا ٹیم کافی ایکٹو نظر آئی مگر تربیت یافتہ سٹاف نہ ہونے کی وجہ سے زیادہ مؤثر مہم نہ کر سکے۔ نمبر ون پر بلاشبہ پاکستان تحریک انصاف کی ٹیم تھی جس کا سب سے بڑا کارنامہ اپنے ووٹر کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم سے پولنگ بوتھ تک نکال کر لانا تھا وہ بھی درست انتخابی نشان کی انفارمیشن کے ساتھ۔‘
پی ٹی آئی کی اچھوتی ڈیجیٹل انتخابی مہم جسے کبھی ’عمران خان کی آواز‘ تو کبھی ’بندشیں‘ جگائے رکھتی ہےالیکشن 2024: کیا ایسے ہی نتائج متوقع تھے اور اب اگلا منظر نامہ کیا ہوگا؟عمران خان کے بغیر تحریک انصاف کی انتخابی مہم: ’مشکلات اتنی ہیں کہ آپ کو سب کچھ بتا بھی نہیں سکتے‘