دنیا میں چند دنوں کی مہمان قرار دی جانے والی دھڑ جڑی بہنیں جنھوں نے زندہ رہ کر ڈاکٹروں کے اندازے غلط ثابت کیے

بی بی سی اردو  |  Feb 19, 2024

BBCمریم اور ندے اب سات سال کی ہو گئی ہیں

مریم اور ندے جب پیدا ہوئیں تو جسمانی طور پر آپس میں جڑی اِن جڑواں بہنوں کے بارے میں خیال ظاہر کیا گيا تھا کہ وہ دنیا میں چند ہی دنوں کی مہمان ہوں گی۔

لیکن مریم اور ندے اب سات سال کی ہو گئیں ہیں اور اُن کے بارے میں خیال ہے کہ یہ یورپ میں بڑی ہوتی واحد دھڑ جڑی بہنیں ہیں یعنی اُن کا جسم تو ایک ہے مگر روحیں دو۔

اِن دونوں بہنوں کی اپنی منفرد شخصیات اور مزاج ہیں، مگر زندہ رہنے کے لیے وہ ایک دوسرے پر انحصار کرتی ہیں۔

جسمانی طور پر جڑواں بچے دنیا میں انتہائی نایاب ہیں۔ برطانیہ میں ہر پانچ لاکھ پیدائشوں میں سے صرف ایک سر یا دھڑ جڑے بچوں کا جوڑا ہوتا ہے۔ اُن میں سے تقریباً نصف مردہ پیدا ہوتے ہیں جبکہ ایک تہائی پیدائش کے 24 گھنٹے کے اندر ہی مر جاتے ہیں۔

لہٰذا مریم اور ندے کو اپنی ساتویں سالگرہ کلاس بھر کے دوستوں کے ساتھ مناتے ہوئے دیکھنا نہ صرف ابراہیما (بچیوں کے والد) کے لیے خوشی کا باعث ہے ، بلکہ ان ڈاکٹروں کے لیے بھی جنھوں نے اُن کی دیکھ بھال کی تھی۔

BBCابراہیما نے اپنی بیٹیوں کو بہتر علاج کی غرض سے برطانیہ میں رکھا ہوا ہے

اِن بچیوں کے دل اور ریڑھ کی ہڈیاں علیحدہ علیحدہ ہیں لیکن اُن کا جگر اور نظام انہضام ایک ہی ہے۔ دونوں کی ٹانگوں کا ایک جوڑا اور ایک شرونی ہے۔

ان کی 24 گھنٹے خصوصی دیکھ بھال کرنی پڑتی ہے لیکن وہ اس کے بوجود اپنے دوستوں کے ساتھ ساؤتھ ویلز کے ایک عام سکول جاتی ہیں۔

ابراہیما کہتے ہیں کہ ’وہ جدوجہد کر رہی ہیں اور سب کو غلط ثابت کر رہی ہیں۔‘

’میری دونوں بیٹیاں بہت مختلف ہیں۔ مریم بہت خاموش طبیعت ہے، اپنے آپ میں گم رہنے والی شخصیت۔ لیکن ندے بالکل مختلف ہے، وہ بہت خود مختار ہے۔‘

’میں یہ نہیں کہوں گا کہ یہ آسان ہے لیکن یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ آپ زندگی کی اس مسلسل جدوجہد کا مشاہدہ کرنے پر خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں۔‘

جب سنہ 2016 میں سینیگال میں یہ جڑواں بہنیں پیدا ہوئیں تو ان کے والدین ایک مکمل بچے کی توقع کر رہے تھے۔ ڈاکٹروں کو امید نہیں تھی کہ یہ دھڑ جڑی بہنیں چند دنوں سے زیادہ زندہ رہ پائیں گی۔

ابراہیما نے بی بی سی کی دستاویزی فلم ’انسیپریبل سسٹرز‘ (وہ بہنیں جنھیں جدا نہ کیا جا سکے) میں بتایا کہ ’میں ان کی پیدائش کے بعد بہت جلد انھیں کھونے کے لیے خود کو تیار کر رہا تھا۔‘

’ہم صرف اتنا کر سکتے ہیں کہ ان کے ساتھ رہیں اور انھیں اس سفر میں اکیلے نہ چھوڑیں۔ ہم نے پہلے ہی بہت واضح طور پر دیکھ لیا کہ یہ دونوں اپنے لیے لڑنے والی ہیں، جو زندہ رہنے پر ڈٹی ہوئی ہیں۔‘

BBCمریم اور ندے کو کارڈف کے پرائمری اسکول میں اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلنا پسند ہے

اُن کی پیدائش کے وقت سمجھا جا رہا تھا ان کی جان بچانے کا واحد طریقہ انھیں سرجری کے ذریعے جدا کرنے میں ہے۔

مریم اور ندے کو ان کے والد ابراہیم سنہ 2017 میں علاج کی غرض سے سینگال سے برطانیہ کے گریٹ اورمنڈ سٹریٹ ہسپتال لائے تھے۔

لیکن ہسپتال میں ٹیسٹ سے پتہ چلا کہ مریمے کا دل پیچیدہ سرجری کے لیے بہت کمزور تھا۔

طبی ماہرین نے اہلخانہ کو خبردار کیا کہ علیحدگی کے بغیر کوئی بھی بیٹی چند ماہ سے زیادہ زندہ نہیں رہ پائے گی۔

تاہم ڈاکٹروں کا مشورہ تھا کہ اگر دونوں بہنوں کو علیحدہ کر دیا جاتا ہے تو نادیے کے زندہ رہنے کا زیادہ امکان ہے۔

ابراہیما کا اس وقت ڈاکٹروں کو کہنا تھاکہ ’یہ ایک بچے کو بچانے کے لیے دوسرے کو مارنے کے مترادف ہے، میں یہ نہیں کر سکتا۔¬

’میں خود کو یہ انتخاب کرنے کی اجازت نہیں دے سکتا کہ کون زندہ رہے گا اور کون مرے گا۔‘

ان کی والدہ اپنے دوسرے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے سینیگال واپس چلی گئیں، جبکہ مریم، ندے اور ان کے والد بہتر طبی دیکھ بھال کی غرض سے برطانیہ میں ہی رُک گئے۔

مارچ 2018 میں اُن کے خاندان کو برطانوی حکومت نے پناہ کے درخواست گزاروں کے طور پر کارڈف منتقل کر دیا کیونکہ حکومت ایسے افراد کو ملک کے اندر کہیں بھی منتقل کر سکتی ہے۔

ابراہیما سینیگال میں ایک ٹریول آرگنائزیشن کے مینیجنگ ڈائریکٹر تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’گھر واپس نہ جا پانا بہت مشکل تھا کیونکہ آپ کا باقی خاندان اور آپ کی نوکری وہیں تھی۔‘

’یہ ایک انجانی سمت میں جانے کے مترادف تھا لیکن میں نے زیادہ نہیں سوچا، صرف اپنے دل کی پیروی کی۔ بطور والد، یہ میری ذمہ داری ہے کہ میں اس بات کو یقینی بناؤں کہ اُن کے پاس کوئی ہو جو ان کے لیے یہاں موجود ہو اور یہی میری زندگی کا مقصد ہے۔‘

جڑواں بچیوں کو باقاعدگی سے ہسپتال کے چیک اپ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انھیں انفیکشن اور ہارٹ فیل ہونے کا شدید خطرہ ہے۔

ڈاکٹر گیلین باڈی یونیورسٹی ہاسپٹل آف ویلز میں ماہر امراض اطفال ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ شروع شروع میں تو تھوڑا سا پُرجوش تھا اور پھر احساس ہوا کہ یہ ایسی چیز ہے جس کے بارے میں میں نے صرف نصابی کتابوں میں ہی پڑھا ہے۔‘

BBCمریم اور ندے کے کچھ بڑے اعضا مشترک ہیں

’اُن کے درمیان ٹانگوں کا ایک جوڑا اور ایک شرونی ہے۔ ان کے پیٹ سے اوپر کی طرف جائیں تو بہت سے مختلف اعضا جڑے ہوئے ہیں۔ ہمیں قطعی طور پر نہیں معلوم، لیکن ہم اتنا جانتے ہیں کہ کچھ اعضا مشترک ہیں جب کہ کچھ انفرادی ہیں۔‘

’اُن کا اعصابی نظام اور ریڑھ کی ہڈیاں الگ الگ ہیں پھر بھی وہ کسی نہ کسی طرح مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں اور انھیں ایک دوسرے کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بازو کو کیسے حرکت دینا ہے یا ٹانگ کو کیسے حرکت دینی ہے۔‘

ان جڑواں بچوں کے کپڑوں کا بہت بڑا مسئلہ ہے۔

ابراہیما کہتے ہیں کہ ان کو ایک جیسے دو قمیضیں خریدنی پڑتی ہیں اور انھیں درزی سے ایک ساتھ سلوانا پڑتا ہے۔

’اُن کی دو ٹانگیں ہیں، تو وہ عام پتلون پہن سکتی ہیں، لیکن ان کے کولہے بہت چوڑے ہیں اس لیے آپ کو اسے بھی درزی کی دکان پر لے جانا پڑتا ہے۔‘

یہ خاندان اب کارڈف کی کمیونٹی میں ضم ہو گیا ہے اور جڑواں بچوں کی رات دن دیکھ بھال کے لیے ان کے والد کو مدد فراہم کی جاتی ہے۔

وہ مقامی پرائمری سکول میں تیسرے سال میں ہیں، جہاں دونوں بہنوں کو دو کلاس روم سپورٹ ورکرز مدد کرتے ہیں۔

BBCجڑواں بچوں کو باقاعدگی سے ہسپتال کے چیک اپ کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ انھیں انفیکشن اور ہارٹ فیل ہونے کا شدید خطرہ ہے

ابراہیما کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹیاں ایک معمول کی زندگی گزاریں، دوسرے بچوں کے ساتھ کھیلیں، ہنسیں، دوست بنائیں اور انفرادی طور پر ترقی کریں۔

’اںھیں کسی سے چھپنے کی ضرورت نہ ہو اور ان کا ایک نارمل سکول میں پڑھنا ظاہر کرتا ہے کہ وہ اس معاشرے کا حصہ ہیں اور وہ خوش قسمت ہیں کہ اس کمیونٹی کا حصہ بنیں۔‘

مریم اور ندے کے لیے اگلا چیلنج کھڑا ہونا اور چلنے کی کوشش کرنا ہے۔ وہ فی الحال ایک فریم کی مدد سے ہر روز تقریباً 20 منٹ کھڑی ہو پاتی ہیں۔

ابراہیما کہتے ہیں کہ ان کی بیٹیوں نے وہ سب کر دکھایا ہیں ہے جو کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

BBCابراہیما کی خواہش ہے کہ ان کی بیٹیاں ایک معمول کی زندگی گزاریں

’جب آپ کو شروع سے بتایا جاتا ہے کہ کوئی مستقبل نہیں ہے تو آپ صرف آج کے لیے جیتے ہیں۔‘

وہ جانتے ہیں کہ کسی بھی وقت اُن کو کال موصول ہو سکتی ہے کہ اُن کی بچیوں کو کچھ ہو گیا ہے۔

’کب تک؟ میں نہیں جاننا چاہتا۔ ہم ہر دن کو سرپرائز بنا کر، زندگی کا جشن مناتے ہوئے جی رہے ہیں۔‘

’یہ متضاد بات لگ سکتی ہے لیکن آپ تمام مشکلات کے باوجود بھی خود کو خوش قسمت محسوس کرتے ہیں۔ وہ مجھے اتنی خوشی دے رہے ہیں۔ ان کا والد ہونا ایک بہت بڑی نعمت ہے۔‘

سر جڑی پاکستانی بہنیں کامیاب آپریشن کے بعد وطن واپس آ گئیںسر جڑی بہنیں: ’والدین کی محبت کے علاوہ ہمیں سب کچھ ملا‘صبا اور فرح: سلمان خان کو راکھی باندھنے والی سر جڑی بہنیں جنھیں فراموش کر دیا گیا
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More