نیٹ فلکس پر 2023 میں ریلیز ہونے والی فلم ’سوسائٹی آف دی سنو‘ میں فلم ڈائریکٹر ہوآن انتونیو بیونا نے بڑی مہارت سے آدم خوری کے ایک حالیہ واقعے کو دوبارہ بیان کیا ہے۔
یہ فلم ایک یوراگوئے کی رگبی ٹیم کی سچی کہانی ہے جو ہوائی جہاز کے حادثے کے بعد اینڈیز کے پہاڑوں میں 72 دن تک پھنسے رہے۔ بچ جانے والے افراد کے مطابق، ان کو زندہ رہنے کے لیے مجبوراً اپنے ساتھیوں کی لاشوں کو کھانا پڑا تھا۔
لیکن یہ فلم ایک پریشان کن سوال بھی اٹھاتی ہے یعنی ہم کب اور کن حالات میں یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ انسانی گوشت کھانا جائز ہے؟
انسانوں نے اپنی پوری ارتقائی تاریخ میں ایسا کئی مرتبہ ہوا ہے اور، ممکنہ طور پر، یہ کام انتہائی مجبوری کے عالم میں کیا گیا۔
آدم خوری: انسانی ارتقا کی تاریخ کا حصہ
موجودہ کینیا میں تقریباً 15 لاکھ سال پہلے، ہمارے کچھ قدیم رشتہ داروں نے اپنے ہی ایک ساتھی کا گوشت کھایا تھا۔ وہاں سے ملنے والی ایک پنڈلی کی ہڈی پر لگے کاٹنے کے نشانات اس بات کا قدیم ترین فیصلہ کن ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ ہمارے آباؤ اجداد نے یہ کام کیا تھا۔
لیکن اس سے بھی پہلے کے دور کے ہومینیڈ کے آدم خوری کے ثبوت ملتے ہیں جو آج سے 25 لاکھ سال سے 15 لاکھ سال پہلے تک جنوبی افریقہ میں آباد تھے۔
ہومینیڈ سے مراد تمام جدید اور معدوم عظیم بندروں پر مشتمل گروہ ہے۔ اس گروہ میں جدید انسان، چمپینزی، گوریلا اور اورنگاتانگ سمیت ان کے تمام قریبی آباؤ اجداد شامل ہیں۔
ان شواہد کی بنا پر ایسا لگتا ہے کہ تمام ہومینیڈز اور نینڈرتھال سے لے کر ہومو سیپینز کے مختلف معاشروں تک، سب آدم خور تھے۔
مثال کے طور پر، ایسے شواہد ملے ہیں کہ کولمبس جب امریکہ پہنچا اور وہاں جن مقامی باشندوں سے اس کا رابطہ ہوا، وہ بھی آدم خور تھے۔ اس کے علاوہ دیگر جغرافیائی علاقوں بشمول بحرالکاہل کے بعض جزائر میں ماضی قریب تک انسانی گوشت کھانے کا رواج رہا ہے۔
جب ہم شکاری تھے تو ہمیں زیادہ چربی کی ضرورت تھی
آج کے انسانوں کی طرح، ہمارے آباؤ اجداد کی بھی کسی بھی ماحول کے مطابق خود کو ڈھالنے کی صلاحیت نے ان کی خوراک کے انتخاب میں فیصلہ کن کردار ادا کیا۔
آرکٹک اور قطبِ شمالی کے اطراف کے علاقوں میں، خاص طور پر برفانی ادوار کے دوران، غذا میں گوشت کا تناسب گرم علاقوں کے مقابلے میں زیادہ تھا، اور توانائی کا بنیادی ذریعہ جانوروں کا گوشت اور چربی ہوتی تھی۔
اس کے برعکس، جنوبی علاقوں میں، کاربوہائیڈریٹ سے بھرپور پودے انسانی خوراک میں زیادہ شامل تھے۔
بلاشبہ، توانائی کے حصول کے لیے ہمیشہ سے گوشت پر زیادہ انحصار رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ ہومینائڈز کے دماغ کے مناسب کام کے لیے ضروری اومیگا-3 اور اومیگا-6 فیٹی ایسڈز کا حصول تھا۔
اومیگا-3 کی کمی مختلف بیماریوں کا سبب بنتی ہے۔
گھوڑوں اور ہاتھیوں میں قطبی ہرن سے زیادہ اومیگا-3 ہوتا ہے
سادہ نظامِ ہاضمہ والے ممالیہ جانوروں (ہومینیڈس، گھوڑے، ریچھ، ہاتھی اور میمتھ) میں اومیگا-3 سے بھرپور چکنائی ہوتی ہے۔
اس کے برعکس، پیچیدہ نظامِ ہاضمہ والے جانور (بکریاں، قطبی ہرن، ہرن اور بائسن) کی چربی میں یہ فیٹی ایسڈز کم ہوتے ہیں۔
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے آباؤ اجداد میں غذائیت کے معیار کا دارومدار ان کے شکار کے انتخاب پر تھا۔
ہم جانتے ہیں کہ زندگی گزارنے کے لیے پتھر کے زمانے کے ہومینیڈز کا انحصار جانوروں کی چند انواع پر تھا اور ان کے پاس انتخاب کے لیے بہت کم گنجائش تھی۔
لیکن جب اومیگا-3 سے بھرپور شکار کی کمی ہوتی تو وہ کیا کرتے؟ جواب واضح ہے: اومیگا-3 کی کمی کو پورا کرنے کے لیے دیگر پودوں کے ذرائع، جیسے السی کے بیج، اخروٹ اور اسی طرح کے دوسرے وسائل استعمال کرتے۔
تاہم، طویل برفانی سردیوں کے دوران یوریشیا میں پودوں کی بھی کمی ہو گئی تھی۔
اس کی وجہ سے اومیگا-3 کی کمی کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں میں اضافہ ہو گیا جس نے طویل مدت میں ہومینیڈ گروپ کی ارتقا کو خطرے میں ڈال دیا۔
Getty Imagesانسانی ارتقا کے دوران کئی بار ایسے مواقع آئے جب اومیگا تھری کے ذرائع محدود ہو گئے تھے اومیگا-3 کی کمی اور آدم خوری کے درمیان کیا تعلق ہے؟
اب تک بیان کی گئی تمام وجوہات کی بنا پر، یہ واضح ہے کہ پتھر کے زمانے میں یوریشیا میں جانوروں کا گوشت کھانے کو ترجیح دی جاتی تھی، خاص طور پر برفانی ادوار کے دوران۔
کاربوہائیڈریٹس کی کمی کو دیکھتے ہوئے، توانائی کی ضروریات کو بنیادی طور پر چکنائی کے استعمال سے پورا کیا جاتا، جو بنیادی طور پر شکار شدہ جانوروں سے حاصل کیا جاتا تھا۔
یہ چربی بیک وقت نہ صرف توانائی بلکہ اومیگا-3 اور اومیگا-6 بھی فراہم کرتی تھی۔ تاہم، بہت سے پراگیتہاسک ادوار میں ہومینیڈز کا انحصار قطبی ہرن جیسے جانوروں پر ہوتا تھا جن کی چربی میں اومیگا-3 کی مقدار کم ہوتی ہے۔
ایسے مشکل حالات میں، ہومینیڈز کا ایک دوسرے کو کھانا صحت کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری اومیگا-3 کی مقدار کو پورا کرنے میں مدد کر سکتا تھا۔
تقریباً 40,000 سال پہلے، نینڈرتھل اور جدید انسان ایک دوسرے کا شکار کر کے کھا سکتے تھے۔
چونکہ جانوروں سے وافر مقدار میں گوشت مل جایا کرتا تھا، اس لیے ان کے دسترخوان پر پسندیدہ غذائیت غالباً توانائی سے بھرپور چربی اور مختلف اعضا کا گوشت ہوتا تھا۔
یہ سمجھنا آسان ہے کہ ان حالات میں سب سے زیادہ مرغوب غذا کسی ہومینڈ کا دماغ ہو گا جو اپنے بڑے سائز کی وجہ سے اومیگا-3 فیٹی ایسڈکی ایک قسم ڈی ایچ اے (DHA) کی اعلی مقدار فراہم کرتا اور کئی طرح کی بیماریوں سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے۔
مگر یہاں مسئلہ یہ ہے کہ اگر اس زمانے کے انسان، ایک دوسرے کو صرف اندرونی اعضا اور جسم کی چربی کے لیے کھاتے تھے تو اس وقت کے انسانوں کی ملنے والی باقیات پر کاٹے جانے کے نشانات جو گوشت نکالتے وقت ہڈیوں پر لگ جاتے ہیں وہ کم ہوتے۔
اس لیے یہ عین ممکن ہے کہ ماقبل تاریخ میں آدم خوری کے واقعات شاید جتنے سمجھے جاتے تھے اس سے کہیں زیادہ ہوں۔
Getty Imagesآدم خوری کی روش ہمیشہ ارتقائی طور پر ہیومینیڈز کی بقا کے لیے سازگار انتخاب تھاآدم خوری ارتقائی لحاظ سے سازگار رویہ تھا؟
کیا پتھر کے زمانے میں یوریشیا کی یہ صورتحال دوسرے پراگیتہاسک علاقوں تک منتقل ہوئی جہاں اومیگا-3 کے زیادہ وافر ذرائع موجود تھے؟
اس کا جواب ہاں میں ہے۔ اگرچہ جنوبی علاقے اومیگا-3 کے ذرائع کا ایک بڑا تنوع پیش کرتے ہیں، لیکن اس طرح غذائیں جن میں مچھلی یا گری دار میوے شامل ہیں، ہمیشہ مناسب مقدار میں دستیاب نہیں ہوتے تھے۔
مزید برآں، انسانی جسم بطور غذائی وسیلہ کبھی بھی اپنی کشش نہیں کھوتا تھا، اس کی وجہ نہ صرف اس کا غذائیت کا معیار بلکہ اس کے حصول میں آسانی بھی تھا۔
اس حساب سے، آدم خوری کی روش ہمیشہ ارتقائی طور پر ہیومینیڈز کی بقا کے لیے سازگار انتخاب تھا۔
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ ہم ایک متشدد اور جارحانہ نوع ہیں: بلکہ ہم ’مشروط طور پر متشدد‘ ہیں۔ یعنی، ہم دستیاب وسائل کے لحاظ سے اپنے رویے کو تبدیل کرنے کے لیے ڈھال لیتے ہیں۔
اگلی بار جب آپ کسی سپر مارکیٹ میں جائیں اور وہاں اومیگا 3 سے بھرپور غذائیں جیسے مچھلی، اخروٹ یا فلیکس آئل جیسی غذائیں دیکھیں، تو چند منٹ کے لیے ہمارے آباؤ اجداد کو درپیش وسائل کی کمی کی طویل تاریخ بارے میں ضرور سوچیں۔
بھکر: ’آدم خور‘ بھائی رہائی کے بعد پھر ’نظربند‘طیارہ حادثے کی دردناک کہانی: ’اپنے ساتھیوں کا گوشت کھا کر زندہ رہے، ہمارے پاس کوئی چارہ نہیں تھا‘جنوبی کوریا میں بحث کتے کے گوشت کی، کھائیں یا نہ کھائیں