شمالی کوریا کے خفیہ آئی ٹی ورکرز جنھیں حکومت بیرونِ ملک سرکار کے لیے پیسے کمانے بھیجتی رہی

بی بی سی اردو  |  Aug 03, 2025

Getty Images

جن سو (فرضی نام) کہتے ہیں کہ انھوں نے مغربی کمپنیوں میں آئی ٹی کے شعبے میں ریموٹ کام کرنے کے لیے کئی سال تک جعلی شناخت کا استعمال کیا۔ یہ شمالی کوریا کے لیے فنڈز جمع کرنے کی ایک وسیع خفیہ سکیم کا حصہ تھا۔

انھوں نے بی بی سی کو ایک خصوصی انٹرویو میں بتایا کہ امریکہ اور یورپ میں متعدد نوکریاں ملنے سے انھیں ماہانہ کم از کم پانچ ہزار ڈالر مل جاتے تھے۔ ان کے کچھ ساتھی اس سے کہیں زیادہ بھی کما لیتے تھے۔

ان کا اصلی نام یہاں بیان نہیں کیا جا رہا۔

شمالی کوریا سے اپنا تعلق باضابطہ طور پر ختم کرنے والے جن سو ان ہزاروں افراد میں شامل تھے، جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ انھیں شمالی کوریا کے خفیہ آپریشن میں حصہ لینے کے لیے چین، روس، افریقہ یا دیگر ممالک میں بھیجا گیا تھا۔

شمالی کوریا کے آئی ٹی ملازمین کی کڑی نگرانی کی جاتی ہے اور ان میں سے بہت کم لوگ میڈیا سے بات کرتے ہیں لیکن جن سو کی جانب سے بی بی سی کو ملنے والی معلومات سے اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ اس فراڈ میں کام کرنے والوں کی روزمرہ کی زندگی کیسی ہے اور وہ کیسے کام کرتے ہیں۔

ان سے ملنے والی معلومات ان چیزوں کی تصدیق کرتی ہے جن کا اندازہ اقوام متحدہ اور سائبر سکیورٹی کی رپورٹس میں لگایا گیا۔

جن سو کا کہنا ہے کہ ان کی کمائی کا 85 فیصد حصہ شمالی کوریا کی حکومت کو بھیجا جاتا تھا۔ نقد رقم کے حوالے سے تنگی کا شکار یہ ملک برسوں سے بین الاقوامی پابندیوں کی زد میں ہے۔

جن سو کہتے ہیں کہ ’ہم جانتے ہیں کہ یہ ڈکیٹی کی طرح ہے لیکن ہم اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر قبول کر لیتے ہیں۔ اب حالات اس وقت سے کچھ بہتر ہیں جب ہم شمالی کوریا میں ہوتے تھے۔‘

اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے مارچ 2024 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق خفیہ آئی ٹی ورکرز شمالی کوریا کے لیے سالانہ بنیادوں پر 25 کروڑ سے 60 کروڑ ڈالر پیدا کرتے ہیں۔

کورونا کی عالمی وبا کے دوران اس سکیم کو خاصا فائدہ ہوا، جب دور دراز یا گھر سے کام کرنا عام ہو گیا تھا۔ تب سے ہی حکام اور سائبر امور کے ماہرین خبردار کر رہے ہیں کہ اس فراڈ میں اضافہ ہو رہا ہے۔

زیادہ تر لوگ تنخواہ کا چیک ملتے ہی فوراً اسے حکومت کو بھیج دیتے ہیں لیکن کچھ کیسز ایسے بھی ہیں، جن میں وہ ڈیٹا چوری کر کے یا اپنے آجروں کے اکاؤنٹ ہیک کر کے ان سے تاوان کا مطالبہ کرتے ہیں۔

گذشتہ برس ایک امریکی عدالت نے شمالی کوریا کے 14 شہریوں پر فرد جرم عائد کی جنھوں نے مبینہ طور پر چھ سال کے عرصے میں بھیس بدل کر کام کیا اور امریکی کمپنیوں سے آٹھ کروڑ 80 لاکھ ڈالر کمائے۔

مبینہ طور پر جعلی شناخت کا استعمال کر کے امریکہ میں ایک کرپٹو کرنسی فرم کے لیے آئی ٹی کا کام کرنے والے چار مزید افراد پر گزشتہ ماہ فرد جرم عائد کی گئی تھی۔

نوکریاں حاصل کرنا

شمالی کوریا سے باضابطہ طور پر اپنا تعلق ختم کرنے والے جن سو کئی سال تک چین میں رہ کر شمالی کوریا کی حکومت کے لیے آئی ٹی کے شعبے میں کام کرتے رہے۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اور ان کے ساتھی اکثر 10 افراد پر مشتمل ٹیموں میں کام کرتے تھے۔

شمالی کوریا میں انٹرنیٹ تک رسائی محدود ہے لیکن بیرون ملک رہ کر یہ آئی ٹی ورکرز آسانی سے کام کر سکتے تھے۔

انھیں اپنی شناخت چھپانے کی ضرورت صرف اس لیے نہیں تھی کہ وہ خود کو بطورمغربی شہری پیش کر کے زیادہ تنخواہ حاصل کر سکتے ہیں بلکہ اس کی وجہ شمالی کوریا پر عائد وسیع بین الاقوامی پابندیوں بھی تھیں۔

مغرب کی جانب سے شمالی کوریا پر یہ پابندیاں اس کے جوہری ہتھیاروں اور بیلسٹک میزائل پروگرام کی وجہ سے عائد ہیں۔

یہ سکیم شمالی کوریا کے ہیکنگ آپریشنز سے الگ ہے۔ واضح رہے کہ ہیکنگ آپریشن سے بھی شمالی کوریا کی حکومت کے لیے پیسے جمع کیے جاتے ہیں۔

بدنام زمانہ ہیکنگ گروہ ’لازارس گروپ‘ کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ شمالی کوریا کے لیے کام کرتا ہے حالانکہ اس نے کبھی اس کا اعتراف نہیں کیا۔

کہا جاتا ہے کہ اس سال کے شروع میں یہ گروپ کرپٹو کرنسی کمپنی ’بائے بٹ‘ (Bybit) سے 1.5 ارب ڈالر چوری کر چکا ہے۔

BBCبی بی سی نے لندن سے ایک ویڈیو کال کے ذریعے جن سو سے بات کی

جن سو نے اپنا زیادہ تر وقت جعلی شناختوں کو محفوظ بنانے کی کوشش میں گزارا، جنھیں وہ مختلف ملازمتوں میں درخواست دینے کے لیے استعمال کر سکتے تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ پہلے خود کو چینی شہری ظاہر کرتے اور ہنگری، ترکی اور دیگر ممالک میں لوگوں سے رابطہ کر کے ان کی شناخت استعمال کرنے کی اجازت مانگتے اور اس کے عوض ان لوگوں کو معاوضہ بھی دیتے۔

’اگر آپ پروفائل پر ایشیائی شکل کا استعمال کریں گے تو آپ کو کبھی نوکری نہیں ملے گی۔‘

جن سو پھر ان ادھار لی گئی شناخت کو مغربی یورپ میں لوگوں سے رابطہ کرنے کے لیے استعمال کرتے، پھر وہ یورپی افراد سے ان کی شناخت لے کر امریکہ اور یورپ میں نوکریوں کے لیے درخواست بھیجتے تھے۔

جن سو کو اپنے برطانوی اہداف میں اکثر کامیابی حاصل ہوتی تھی۔

انھوں نے بتایا کہ ’تھوڑی سی بات کرنے کے بعد ہی برطانیہ میں لوگ انھیں آسانی سے اپنی شناخت دے دیتے۔‘

شمالی کوریا کے ہیکرز نے تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو چوری کیسے یقینی بنائی؟کِم جونگ اُن: شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کے وہ 5 راز جو ہم نہیں جانتے’ہارٹ سینڈر‘: پاکستانی ادارے امریکی شہریوں کو لوٹنے والے ہیکنگ نیٹ ورک کے ملتان میں موجود اراکین تک کیسے پہنچے؟شمالی کوریا کس طرح روسی سیاحوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہے

آئی ٹی ورکرز جو بہتر انگریزی بولتے ہیں، وہ بعض اوقات درخواست کے عمل کو سنبھال لیتے لیکن فری لانسر ویب سائٹس پر آمنے سامنے انٹرویوز بھی نہیں ہوتے اور اکثر روزانہ کی بنیادوں پر ہونے والا رابطہ بھی سلیک (Slack) جیسے پلیٹ فارمز پر ہوتا ہے۔ اس لیے آپ ایسا شخص ہونے کا دعویٰ کر سکتے ہیں جو آپ دراصل ہیں نہیں۔

جن سو نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ زیادہ تر امریکی مارکیٹس کا رخ کرتے تھے کیونکہ ’امریکی کمپنیوں میں تنخواہیں اچھی ہوتی ہیں۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ اتنے زیادہ آئی ٹی ورکرز نوکریاں تلاش کر رہے ہوتے تھے کہ اثر کمپنیاں انجانے میں شمالی کوریا کے ایک سے زیادہ لوگوں کو نوکری پر رکھ لیتی تھیں۔ یہ بہت ہوتا ہے۔‘

یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئی ٹی ورکرز مغرب اور چین میں موجود سہولت کاروں کے نیٹ ورک کے ذریعے اپنی کمائی جمع کرتے ہیں۔

گزشتہ ہفتے ایک امریکی خاتون کو شمالی کوریا کے آئی ٹی ورکرز کو نوکریاں تلاش کرنے اور انھیں رقم بھیجنے میں مدد کرنے کے جرم میں آٹھ سال سے زیادہ قید کی سزا سنائی گئی۔

بی بی سی آزادانہ طور پر جن سو کی گواہی کی تفصیلات کی تصدیق تو نہیں کر سکا لیکن شمالی کوریا کے انسانی حقوق کی وکالت کرنے والی ایک تنظیم پی ایس سی او آر ای (PSCORE) کے ذریعے ہم نے ایک اور آئی ٹی ورکر کی گواہی دیکھی، جس سے جن سو کے دعووں کی تصدیق ہوتی ہے۔

بی بی سی نے شمالی کوریا سے باضابطہ طور پر اپنا تعلق ختم کرنے والے ایک اور شخص ہیون سیونگ لی سے بھی بات کی۔ وہ شمالی کوریا کے لیے چین میں ایک کاروباری شخصیت کے طور پر کام کر رہے تھے، جب ان کی کچھ آئی ٹی ورکرز سے ملاقات ہوئی۔ انھوں نے تصدیق کی کہ ان کے تجربات بھی ایسے ہی تھے۔

ایک بڑھتا مسئلہ

بی بی سی نے سائبر سکیورٹی اور سافٹ ویئر ڈیولپمنٹ سیکٹر کے متعدد ہائرنگ مینیجرز سے بات کی جنھوں نے بتایا کہ انھوں نے اپنے بھرتی کے عمل کے دوران درجنوں امیدواروں کو دیکھا جن پر انھیں شک ہے کہ وہ شمالی کوریائی آئی ٹی ورکرز ہیں۔

امریکہ میں ایلی سکیورٹی کے شریک بانی روب ہینلی حال ہی میں اپنی فرم میں ریموٹ ملازمتوں کے لیے بھرتی کر رہے تھے اور ان کا خیال ہے کہ اس عمل میں انھوں نے تقریباً 30 شمالی کوریائی آئی ٹی ورکرز سے انٹرویو کیا۔

انھوں نے کہا کہ ’شروع میں یہ کسی حد تک ایک کھیل کی طرح تھا، جیسے یہ پتہ لگانے کی کوشش کہ کون اصلی ہے اور کون جعلی، لیکن یہ بہت جلد کافی پریشان کن ہو گیا۔‘

آخر کار انھوں نے ویڈیو کالز پر امیدواروں سے یہ دکھانے کے لیے کہا کہ وہ جس جگہ ہیں وہاں وقت کیا ہو رہا ہے۔

’ہم صرف امریکہ سے امیدواروں کی خدمات حاصل کر رہے تھے۔ ان اوقات میں وہاں کم از کم دن کی روشنی ہونی چاہیے تھی لیکنکبھی دن کی روشنی نظر نہیں آئی۔‘

اس سال مارچ میں پولینڈ میں مقیم ویڈوک سکیورٹی لیب کے شریک بانی ڈیوڈ موکزادلو نے ایک ریموٹ جاب انٹرویو کی ویڈیو شیئر کی جس میں امیدوار مصنوعی ذہانت کے سافٹ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے اپنا چہرہ چھپاتا نظر آیا۔ انھوں نے کہا کہ ماہرین سے بات کرنے کے بعد ان کا خیال ہے کہ وہ امیدوار شمالی کوریائی آئی ٹی ورکر ہو سکتا تھا۔

ہم نے اس کہانی میں لگائے گئے الزامات کے بارے میں شمالی کوریا کے لندن میں موجود سفارتخانے سے رابطہ کیا لیکن انھوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔

BBCگیٹ ریئل سیکیورٹی جو ایک ڈیجیٹل فرانزک کمپنی ہے نے ہمیں بتایا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ امیدوار (بائیں طرف) کسی قسم کے فیس سویپنگ یا اے آئی فلٹر کا استعمال کر رہا ہو۔باہر نکلنے کا ایک خفیہ راستہ

شمالی کوریا کئی دہائیوں سے اپنے ورکرز کو غیر ملکی کرنسی کمانے کے لیے بیرونِ ملک بھیج رہا ہے۔ تقریباً ایک لاکھ افراد بیرونِ ملک فیکٹریوں یا ریستورانوں میں کام کرتے ہیں، زیادہ تر چین اور روس میں۔

چین میں کئی سال رہنے کے بعد جن سو نے کہا کہ انھیں کام پر جس جبر کا سامنا کرنا پڑا اس کی وجہ سے ان کا ’قید کا احساس‘ بڑھتا گیا۔

انھوں نے کہا کہ ’ہمیں باہر جانے کی اجازت نہیں تھی اور ہمیں ہر وقت اندر رہنا پڑتا تھا۔ آپ ورزش نہیں کر سکتے، آپ جو چاہتے ہیں وہ نہیں کر سکتے۔‘

تاہم جن سو نے بتایا کہ شمالی کوریائی آئی ٹی ورکرز کو بیرون ملک جانے پر مغربی میڈیا تک زیادہ آزادی سے رسائی حاصل ہوتی ہے۔ ’آپ اصلی دنیا دیکھتے ہیں۔ جب ہم بیرون ملک ہوتے ہیں تو ہمیں احساس ہوتا ہے کہ شمالی کوریا کے اندر کچھ غلط ہے۔‘

لیکن اس کے باوجود جن سو نے دعویٰ کیا کہ بہت کم شمالی کوریائی آئی ٹی ورکرز نے ان کی طرح فرار ہونے کے بارے میں سوچا ہے۔

’وہ صرف پیسے لیتے ہیں اور گھر واپس چلے جاتے ہیں، بہت کم لوگ فرار ہونے کے بارے میں سوچتے ہیں۔‘

حالانکہ وہ اپنی کمائی کا صرف ایک چھوٹا سا حصہ رکھتے ہیں لیکن یہ شمالی کوریا میں بہت قیمتی ہوتا ہے۔ دوسری جانب فرار ہونا بہت خطرناک اور مشکل ہے۔

چین میں نگرانی کی وجہ سے زیادہ تر پکڑے جاتے ہیں۔ جو چند لوگ فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتے ہیں وہ شاید اپنے خاندان کو دوبارہ کبھی نہ دیکھ سکیں اور ان کے رشتہ داروں کو ان کے چھوڑنے کی سزا مل سکتی ہے۔

جن سو اب فرار ہونے کے بعد بھی آئی ٹی میں کام کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے لیے کام کرتے ہوئے سیکھے گئے ہنر نے انھیں اپنی نئی زندگی میں آباد ہونے میں مدد کی ہے۔

چونکہ وہ جعلی شناخت کے ساتھ متعدد ملازمتیں نہیں کر رہے، اس لیے وہ شمالی کوریائی حکومت کے لیے کام کرنے کے مقابلے میں کم کماتے ہیں لیکن چونکہ وہ اپنی کمائی کا زیادہ حصہ رکھ سکتے ہیں اس لیے اب مجموعی طور پر ان کی جیب میں زیادہ رقم ہوتی ہے۔

’میں غیر قانونی کام کر کے پیسے کمانے کا عادی ہو گیا تھا لیکن اب میں محنت کرتا ہوں اور وہ پیسے کماتا ہوں جنکا میں مستحق ہوں۔‘

شمالی کوریا کے ہیکرز نے تاریخ کی سب سے بڑی کرپٹو چوری کیسے یقینی بنائی؟شمالی کوریائی ہیکرز نے 2021 میں 400 ملین ڈالر مالیت کی کرپٹو کرنسی چوری کیشمالی کوریا کس طرح روسی سیاحوں کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہےشمالی کوریا نے پورے براعظم امریکہ کو نشانہ بنانے کی صلاحیت حاصل کر لیکِم جونگ اُن: شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کے وہ 5 راز جو ہم نہیں جانتے’ایران سے ویتنام تک‘ شمالی کوریا نے مختلف تنازعاتمیں کن ممالک کی اور کیسے مدد کی؟
مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More