ایک ریستوران میں ایک گاہک خاموشی سے بیٹھا اپنے دوست کا انتظار کر رہا تھا۔ وہاں موجود ویٹرس (میزبان) لڑکی نے اس شخص کو دیکھا اور اس کے پاس جا کر بات کرنے کی کوشش کی۔
بات چیت کا آغاز ہوا اور جلد ہی دونوں اتنی گہری گفتگو میں گُم ہو گئے کہ وقت کے گُزرنے کا پتا ہی نہیں چلا اور انھیں احساس ہی نہیں رہا کہ وہ وہاں کیا کرنے کے لیے موجود تھے۔
ریشمان یونیورسٹی سے منسلک نفسیات کی پروفیسر گوریت بیرمبام کہتی ہیں کہ ’جب کوئی آپ سے فلرٹ کرنے کے موڈ اور ایک خاص لہجے میں بات کرتا ہے تو آپ کے ذہن میں آپ کے دلکش ہونے کا احساس مضبوط ہوجاتا ہے۔‘
دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے ساتھ فلرٹ کیا جا رہا ہو وہ اچھا محسوس کرتا ہے۔ لیکن کیا یہ آپ کے لیے اچھا ہے؟
ریستوران میں موجود ویٹرس یہ بات نہیں جانتی تھیں کہ جس شخص کو تنہا سمجھ کر وہ بات کر رہی تھیں وہ پہلے سے ہی کسی اور کے ساتھ رشتے میں منسلک ہے۔
پروفیسر گوریت کہتی ہیں کہ کسی رشتے میں منسلک ہونے (جیسے میاں، بیوی یا گرل فرینڈ، بوائے فرینڈ) کے باوجود بھی لوگ وقت ملتے ہی دوسروں کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں اور یہ فطری عمل ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ پہلے رشتے میں کسی چیز کی کمی ہے۔
کسی ریستوران میں موجود ویٹرس اور گاہک کے درمیان بات چیت دنیا کے کسی بھی حصے میں ہو سکتی ہے۔ مگر ہماری کہانی کے آغاز میں جو منظر کشی کی گئی ہے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور اس میں موجود ویٹرس بھی خیالی ہے۔
فلرٹنگ سے متعلق تجربہ
یہ خیال کہ لوگ جب کسی کے ساتھ طویل عرصے کے ساتھ تعلق میں ہوتے ہیں تو اس کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ پروفیسر گوریت بیرمبام کہتی ہیں کہ سوال یہ ہے کہ کیا ہم کسی کے ساتھ خیالی دنیا میں قائم تعلق میں رہ کر اپنی کچھ شدید اور خطرناک خواہشات پر قابو پا سکتے ہیں۔
جیسا کہ وہ سوال کرتی ہیں کہ کیا خیالی دنیا میں ریستوران کی ویٹرس سے فلرٹ کرنے والا ایسا شخص جو پہلے سے کسی رشتے میں ہے کے حقیقی دنیا میں بھی کسی کے ساتھ فلرٹ کرنے کے کتنے امکانات ہیں؟
وہ کہتی ہیں کہ ’یہ ورچوئل یا خیال دنیا شائد لوگوں کو اپنے خواہشات پر قابو پانے اور اپنے موجودہ تعلقات کو برقرار رکھنے میں مدد دیتی ہے۔ میں اس دنیا میں جو چاہوں سوچ سکتی ہوں۔‘
پروفیسر گوریت بیرمبام نے اس خیال کے پیش نظر کچھ لوگوں کے ساتھ خیالی دنیا یا ورچوئل رئیلٹی میں موجود ویٹرس سے فلرٹنگ کا تجربہ کیا۔
اگرچہ ورچوئل رئیلٹی میں اس خیالی ویٹرس میں بہت کچھ مصنوعی لگتا ہے۔ اس کے ناخن جعلی لگتے ہیں لیکن آواز اصلی ہے۔ تاہم پروفیسر کی جانب سے مجھے بھیجی گئی ریکارڈنگ کے مطابق ان دونوں کے درمیان پانچ منٹ تک ہونے والی بات چیت بالکل فطری ہے۔
اس تجربے میں شامل افراد کو اس ورچوئل رئیلٹی والی ویٹرس سے ملاقات کے بعد ایک روایتی پرکشش اجنبی سے ملاقات کروائی گئی، جو دراصل محقق تھی اور یوں ظاہر کر رہی تھی کہ اسے مدد کی ضرورت ہے۔
اس تجربے میں شامل افراد جنھوں نے ورچوئل ویٹرس کے ساتھ فلرٹ کیا تھا انھوں نے بعد میں حقیقی زندگی میں ملاقات کرنے والی خاتون کے ساتھ کم بات کی اور کہا کہ انھیں ویٹرس کے مقابلے میں وہ کم پرکشش لگی۔
ان لوگوں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ویٹرس سے بات چیت کے بعد ان میں اپنے حقیقی ساتھی سے ملنے کی خواہش زیادہ پیدا ہوئی۔
اس کے برعکس وہ لوگ جنھوں نے ورچوئل ویٹرس کے ساتھ وقت نہیں گزارا تھا انھوں نے اس خاتون کے ساتھ زیادہ بات کرنے کی کوشش کی۔
پروفیسر بیرمبام کہتی ہیں کہ کسی تعلق میں رہتے ہوئے اجنبیوں سے فلرٹ کرنے سے آپ کے اپنے پارٹنر سے تعلقات کا رشتہ مضبوط ہو سکتا ہے لیکن یہ ایک خطرناک راستہ بھی ہو سکتا ہے۔ کیونکہ بے ضرر فلرٹنگ سے دھوکہ دہی تک کا اندیشہ ہو سکتا ہے۔
پروفیسر بیرمبام کہتی ہیں کہ مثال کے طور پر اگر آپ کو علم ہو کہ آپ کے دوست اپنے اپنے پارٹنرز کو دھوکہ دے رہے ہیں تو یہ قوی امکان ہے کہ آپ بھی ایسا ہی کریں۔ اسے ’متعدی بے وفائی‘ کہا جاتا ہے۔
وہ مزید کہتی ہیں اس کے ساتھ ساتھ ’آپ کی شخصیت اور عادات‘ بھی اس میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر نارسسٹ رجحان کے افراد یا جن کی شخصیت میں زیادہ خامیاں ہوں وہ بے وفائی کرتے ہیں۔‘
تجربہ کیا تھا
سائنس ڈائریکٹ نامی جریدے میں شائع ہونے والی اس تحقیق کے مقالے کے مطابق ورچوئل رئیلٹی پیراڈائم کا استعمال کرتے ہوئے:
یہ مشاہدہ کیا گیا کہ کیا ورچوئل فلرٹ موڈ کے بعد دوسرے پارٹنرز کے لیے لوگوں کی کشش میں کوئی فرق پڑا ہے؟تین مطالعات نے لوگوں کو کسی خاص صورتحال میں ورچوئل ایجنٹ کے ساتھ فلرٹ کرنے کا موقع دیا۔اس تجربے میں شامل افراد کا کہنا تھا کہ وہ اس تجربے کے بعد دوسرے لوگوں کے ساتھ فلرٹ کرنے کی خواہش پر قابو پانے کی ترغیب پائے۔تجربے کے بعد لوگوں نے اپنے ساتھی کے لیے زیادہ خواہش محسوس کی اور دوسرے لوگوں میں بھی ان کی دلچسپی کم ہو گئی۔یہ پہلی تحقیق ہے جو حقیقی زندگی کے رومانوی تعلقات پر فلرٹ کے تجربات کے اثرات کو ظاہر کرتا ہے۔یہ بھی پڑھیےفریجیڈیٹی: خواتین میں سیکس کی خواہش ختم کیوں ہو جاتی ہے اور اس کا حل کیا ہے؟’سیکس لیس میرج‘: ’میرے شوہر مجھ سے گھنٹوں باتیں کرتے مگر جب سیکس کی باری آتی تو صورتحال مختلف ہوتی‘میسٹربیشن یا خود لذتی کے بارے میں سائنس کیا کہتی ہے؟تعلقات کی مضبوطی
اگرچہ محتاط فلرٹ کرنا فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے لیکن کچھ لوگ خود کو اس میں اچھا نہیں سمجھتے۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ریڈٹ پر سات ہزار صارفین پر کیے گئے ایک سروے کے مطابق 43 فیصد مردوں کا کہنا تھا کہ ان کی تنہائی کی پانچویں بڑی وجہ فلرٹ کرنے میں ناقص مہارت ہے۔
خوش قسمتی سے کوئی بھی فلرٹ کرنا سیکھ سکتا ہے۔ فلرٹنگ کی تین گھنٹے کی ٹریننگ حاصل کرنے کے بعد، جس میں خود اعتمادی کے ساتھ بات کرنا بھی شامل تھا، لوگوں نے بہتر کارکردگی دکھائی۔
فلرٹ کرنے کے دیگر طریقے بھی سیکھے جا سکتے ہیں جیسا کہ کھل کر با اعتماد طریقے سے بیٹھنے کا انداز، سامنے والے کی آنکھوں میں دیکھ کر بات کرنا، سر اٹھا کر بات کرنا وغیرہ، یہ مرد و خواتین دونوں کی کشش میں اضافہ کرتا ہے۔
تاہم بکنیل یونیورسٹی امریکہ میں نفسیات کی ایک خاتون پروفیسر ٹی جوئل ویڈ کہتی ہیں کہ ہم ہمیشہ سوچ سمجھ کر فلرٹ نہیں کر رہے ہوتے۔۔۔جیسا کہ کسی کو پرکشش شخص کو دیکھ کر ہم فوراً کہیں کہ فلرٹ کرتے ہیں بلکہ بعض اوقات بنا الفاظ اور سوچے سمجھے بغیر بھی آپ فلرٹ کرتے ہیں۔ یہ ایک فطری رویہ ہے۔
کینیڈا کی یونیورسٹی آف میریز میں نفسیات کی پروفیسر ماریان فشر کہتی ہیں کہ اگرچہ فلرٹ ایک اظہار کی طرح لگ سکتا ہے لیکن اسے چھپایا بھی جا سکتا ہے۔ اس میں ایسے رویے بھی شامل ہوسکتے ہیں جو کسی بھی طرف سے فلرٹ نہیں لگتے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ لوگ اکثر بغیر کچھ کہے فلرٹ کرتے ہیں، جیسے اپنے بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرز عمل کو ’سیلف گرومنگ‘ کہا جاتا ہے۔ اس کا مطلب ہے، ’میں اپنے آپ کو آپ کے لیے زیادہ پرکشش بنا رہا ہوں۔‘
تاہم وہ لوگ جو زیادہ مردانہ وجاہت ظاہر کرتے ہیں کھل کر فلرٹ کرتے ہیں۔ جبکہ وہ خواتین جن میں نسوانیت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے وہ چھپ کر اور بغیر بات کیے فلرٹ کرتی ہیں۔
تاہم اگر آپ اپنے پارٹنر کے ساتھ بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی آکر اس کے ساتھ مذاق کرنے لگتا ہے تو آپ اپنے پارٹنر کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر نئے آنے والے کو بغیر بولے بتا سکتے ہیں کہ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔
اپنے پارٹنر سے دوسروں کو دور رکھنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ اس شخص پر اپنی پوری توجہ نہ دیں۔
مرد عام طور پر رومانوی دلچسپی سے بہت زیادہ توقع رکھتے ہیں۔ وہ اکثر دوستی کو ایک کشش کے طور پر سوچتے ہیں۔ جبکہ خواتین میں یہ اس کے برعکس ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ان کے حوالے سے ’فرینڈ زون‘ کا تصور تیار کیا گیا تھا۔
ایک باریک لکیر ہے جو عورتوں اور مردوں کی دوستی اور رومانس کو الگ کرتی ہے۔ یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ اکثر مرد اس لکیر کو عبور کرنے کی زیادہ کوشش کرتے ہیں۔
مسکرانے کی مثال لے لیجیے۔ پروفیسر فشر بتاتے ہیں کہ ’کینیڈا کی ثقافت میں مسکرانا عام بات ہے۔ چیزوں کو ٹھیک کرنے کے لیے اکثر مسکرایا جاتا ہے۔ جب کوئی عورت مرد کو دیکھ کر مسکراتی ہے، تو وہ سمجھتا ہے کہ ’اوہ وہ مجھ میں دلچسپی رکھتی ہے۔‘
بہت سی کمپنیوں نے مردوں کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے خواتین کو کام کے کے لیے رکھا ہوا ہے۔
امریکہ میں ایسے مقدمات بھی سامنے آئے ہیں جہاں خواتین نے کہا ہے کہ لوگ ان کا مذاق اڑاتے ہیں کیونکہ انھیں مسکراتے ہوئے لوگوں سے بات کرنے کے لیے کہا جاتا ہے۔ ایسے میں انھیں غلط سمجھا جاتا ہے۔
یہ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایسے حالات میں خواتین فلرٹ کا زیادہ شکار ہو جاتی ہیں۔
تو کیا یہ جاننا ٹھیک ہوگا کہ آیا ہماری ورچوئل ویٹر لڑکی واقعی اس گاہک میں دلچسپی رکھتی تھی یا صرف ایک اچھا ویٹر ہونے کا فرض ادا کر رہی تھی؟
اسی بارے میں’شیطانی سانس‘: وہ شہر جہاں امریکی سیاح ’سیکس اور نشے کی تلاش میں‘ اپنی جانیں گنوا رہے ہیںیوٹیرائن پرولیپس یعنی بچہ دانی کا گِرنا: ’اگر شرمندگی کا احساس نہ ہوتا تو میں بہت پہلے ڈاکٹر کے پاس چلی جاتی‘وہ عوامل جو مردوں اور خواتین میں جنسی تعلق قائم کرنے کی خواہش کو کم کرتے ہیں