Getty Images
انڈیا کے بابائے قوم کہلائے جانے والے مہاتما گاندھی کو 76 سال قبل 30 جنوری سنہ 1948 کو سخت گیر ہندو قوم پرست ناتھورام گوڈسے نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔
لیکن ایسا نہیں کہ پہلی ہی کوشش میں وہ ایسا کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔ گاندھی کے قتل سے دس دن قبل بھی ناتھورام گوڈسے اور ان کے ساتھیوں نے ان پر حملہ کیا تھا۔
موہن داس کرمچند گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اگر 20 جنوری کے واقعے کے بعد حفاظتی انتظامات بہتر بنائے جاتے تو آج کی تاریخ مختلف ہوتی۔‘
نئی دہلی کے برلا ہاؤس میں مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس واقعے کے ٹھیک دس دن بعد ناتھورام گوڈسے نے ایک بار پھر گاندھی پر حملہ کیا جو مہلک ثابت ہوا۔
ہندوستان کو آزاد ہوئے چند ہی ماہ ہی ہوئے تھے اور ملک میں مذہبی کشیدگی کا ماحول اپنے عروج پر تھا۔ لیکن اس سے قبل گاندھی نے ملک میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے لیے اپنی تمام تر قوت جھونک دی تھی۔
لیکن تقسیم ہند کے بعد گاندھی نے کہا کہ ’ایک زمانے میں ہندوؤں، سکھوں اور مسلمانوں کے درمیان بھائی چارہ تھا۔ یہ دیکھ کر کہ وہ اب نہیں رہا، میرا دل تڑپ رہا ہے۔‘ ان کی یہ بات آکسفورڈ یونیورسٹی پریس سے شائع کردہ اسٹینلے وولپرٹ کی تصنیف کردہ کتاب ’گاندھیز پیشن: دی لائف اینڈ لیگیسی اور مہاتما گاندھی‘ میں درج ہے۔
Getty Images
کتاب میں لکھا ہے کہ تقسیم کے بعد ملک کی فضا اتنی مکدر ہو گئی تھی کہ مہاتما گاندھی نے اسے روکنے کے لیے 12 جنوری کو اعلان کیا کیا کہ اگر فسادات نہ رکے تو وہ بھوک ہڑتال کر دیں گے۔ اور اگلے ہی دن انھوں نے اپنی بھوک ہڑتال شروع کر دی اور کہا کہ ’اگر سب نے اتفاق اور ہم آہنگی کو نہ اپنایا تو میں اپنی موت تک بھوک ہڑتال پر رہوں گا۔‘
ملک بھر سے لوگ انھیں منانے کے لیے آنے لگے کہ وہ اپنی بھوک ہڑتال ختم کر دیں۔ گاندھی باقاعدگی سے ان لوگوں کے ساتھ دعائیہ تقریب میں شرکت کرتے رہے لیکن انھوں نے بھوک ہڑتال ترک نہیں کی۔
وولپرٹ نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ گاندھی نے پورے اعتماد سے کہا کہ ’میں اپنی بھوک ہڑتال اسی وقت ختم کروں گا جب مجھے یقین ہو گا کہ تمام مذاہب کے لوگوں میں ہم آہنگی ہے۔‘
ان کی بھوک ہڑتال پر اس وقت انڈیا کے وزیر داخلہ سردار ولبھ بھائی پٹیل نے کہا تھا کہ ’اگر باپو (مہاتما گاندھی کو بہت سے لوگ باپو کہتے تھے) کو لگتا ہے کہ میری نااہلی کی وجہ سے اس ملک میں تشدد پر قابو نہیں پایا جا رہا ہے تو میں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے کے لیے تیار ہوں۔‘ لیکن گاندھی نے بھوک ہڑتال ختم کرنے کے لیے ان کی پیشکش کو بھی مسترد کر دیا۔
انڈیا کے 100 سے زیادہ سرکردہ رہنماؤں نے گاندھی سے اپنی بھوک ہڑتال ختم کرنے کی درخواست کی۔ انھوں نے بار بار وعدہ کیا کہ ہم مذہبی ہم آہنگی برقرار رکھیں گے۔ پھر 18 جنوری کو مہاتما گاندھی نے اپنی بھوک ہڑتال کو ختم کیا۔ اس وقت جواہر لعل نہرو، سردار ولبھ بھائی پٹیل، مولانا آزاد جیسے اہم رہنما ان کے پاس موجود تھے۔
کتاب میں کہا گیا ہے کہ ’تمام دھڑوں کے رہنماؤں نے سات نکاتی معاہدہ لکھا کہ ہم بھائی چارے کے ساتھ رہیں گے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ہم اس عہد کو کسی بھی صورت میں نہیں توڑیں گے۔‘
Getty Images20 جنوری کو کیا ہوا؟
مہاتما گاندھی کے پوتے تشار گاندھی بتاتے ہیں کہ ’20 جنوری کو وہ پرارتھنا (دعائیہ تقریب) کے لیے برلا ہاؤس کے باغ میں پہنچے۔ سینکڑوں لوگ پرارتھنا کے لیے جمع تھے۔ مہاتما گاندھی کے لیے ایک چھوٹا سا پلیٹ فارم تیار کیا گیا تھا۔ انھوں نے اسی پلیٹ فارم سے بولنا شروع کیا لیکن مائیک خراب ہو گيا۔ پھر بھی انھوں نے اپنا کلام جاری رکھا۔ انھوں نے کہا کہ ’جو مسلمانوں کے دشمن ہیں، وہ ہندوستان کے بھی دشمن ہیں۔‘ اس کے بعد ایک دھماکہ ہوا جو کہ ایک دیسی ساختہ بم (آئی ای ڈی) کی وجہ سے ہوا۔‘
تشار گاندھی نے ’لٹس کِل گاندھی‘ نامی کتاب کی تصنیف کے دوران اس واقعے کا باریک بینی سے مطالعہ کیا ہے۔
انھوں نے بتایا کہ اس دھماکے سے باغ میں افراتفری مچ گئی لیکن مہاتما گاندھی پرسکون بیٹھے رہے۔
ناتھورام گوڈسے کے ساتھی دگمبر بڈگے برلا ہاؤس میں نوکروں کے لیے بنے کوارٹر میں چھپے تھے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ وہ وہاں سے دوسرا گولہ پھینکیں گے۔ لیکن ان کی ہمت نہیں ہوئی اور سب وہاں سے بھاگ گئے۔ اس حملے کی منصوبہ بندی ناتھورام گوڈسے نے کی تھی۔ اس موقع پر ناتھورام گوڈسے، گوپال گوڈسے اور نارائن آپٹے موجود تھے۔
پولیس نے ہینڈ گرینیڈ پھینکنے والے مدن لال پہوا کو گرفتار کر لیا۔ لیکن ان کے باقی تمام ساتھی فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے۔
اس واقعے کے 10 دن بعد 30 جنوری سنہ 1948 کو مہاتما گاندھی کو ناتھورام گوڈسے نے اس وقت گولی مار دی جب وہ برلا ہاؤس میں ہی پرارتھنا سبھا میں شامل تھے۔
گاندھی کے قتل سے پہلے ان کے قاتل کیا کرتے رہے؟گاندھی کا قاتل گوڈسے: جس کا ہندو قوم پرست آر ایس ایس سے تعلق آج بھی ایک راز ہےجب ہندوستان کے مسلمان سکتے میں آگئےگاندھی کا قتل روکا جا سکتا تھا
تشار گاندھی کے مطابق بعد میں گاندھی کے قتل کی تحقیقات کے لیے کپور کمیشن قائم کیا گیا۔ جج نے سماعت کے دوران کہا کہ 10 دن پہلے اتنے بڑے حملے کے بعد پولیس کو محتاط رہنا چاہیے تھا۔ اور یہ بات کپور کمیشن کی رپورٹ میں درج ہے۔
تشار گاندھی نے کہا کہ ’اگر پولیس چوکنا رہتی تو 30 جنوری کو ہونے والے حملے سے بچا جا سکتا تھا۔ جج نے پولیس سے سوال بھی کیا کہ 20 جنوری کو حملے کے بعد آپ نے کچھ کیوں نہیں کیا کہ ان پر دوبارہ حملہ بھی ہو سکتا ہے۔ پولیس نے جواب دیا کہ ہم نے ایسا سوچا تھا۔‘
جج نے کہا کہ اگر ایسا سوچا ہوتا تو حالات مختلف ہوتے۔ لیکن پولیس نے اپنے بیان میں کہا کہ ’ہمیں 20 جنوری کے واقعے سے سبق سیکھنا چاہیے تھا۔ اگر ایسا کیا جاتا تو 30 جنوری کا واقعہ نہ ہوتا۔‘
سماجی کارکن تیستا سیتلواڑ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گاندھی پوری طاقت سے اس ملک کو ایک ساتھ رکھنے، اس ملک میں امن قائم رکھنے کی کوشش کر رہے تھے۔ وہ اپنی باقی زندگی اس کام کو جاری رکھنے کا عزم کیے ہوئے تھے۔‘
انھوں نے گاندھی کے قتل کے پس منظر پر ایک کتاب کی تدوین کی ہے۔ ان کی تدوین کردہ کتاب 'بیانڈ ڈاؤٹ- اے ڈوزیئر آن گاندھیز اساسینیشن‘ میں مختلف مصنفین کے لکھے گئے مضامین شامل ہیں۔
Getty Imagesگاندھی کو قتل کرنے کی چار کوششیں ہوئیں
تشار گاندھی نے کہا کہ اس سے قبل بھی مہاتما گاندھی کو قتل کرنے کی چار بار کوششیں ہوئیں اور سب سے زیادہ حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام کوششیں ناتھو رام گوڈسے اور اس کے ساتھیوں نے کی تھیں۔
پہلا حملہ۔ سنہ 1934 میں پہلی بار پونے ٹاؤن ہال کے قریب گاندھی کے موٹر کیڈ پر ایک دستی بم پھینکا گیا۔ اس وقت گاندھی جی 'ہریجن یاترا' کے موقع پر پونے آئے ہوئے تھے۔ گاندھی اور ان کے ساتھی دو کاروں میں سوار تھے۔ گاندھی کی گاڑی دیر سے ٹاؤن ہال پہنچی۔ حملہ آوروں کا خیال تھا کہ گاندھی پہلی گاڑی میں سوار ہیں۔ اس لیے انھوں نے پہلی والی گاڑی پر دستی بم پھینکا۔ دستی بم گاڑی کے بونٹ پر گرا اور اس کے پہلو میں پھٹ گیا۔ اس حملے میں کوئی زخمی نہیں ہوا۔
دوسرا حملہ۔ ان پر دوسرا حملہ مہاراشٹر کے علاقے پنچگنی میں ہوا۔ سنہ 1944 میں گاندھی کی صحت بگڑ گئی۔ انھیں آرام اور صحتیابی کے لیے پنچگنی لے جایا گیا۔ ان کا بندوبست دلکش نامی بنگلے میں کیا گیا تھا۔ یہاں وہ ہر شام گاؤں والوں کے ساتھ پرارتھنا (پوجا یا دعائیہ تقریب) میں حصہ لیتے۔ ایک دفعہ پوجا کے دوران ایک نوجوان ان کے پاس آیا۔ اس کے ہاتھ میں خنجر تھا۔
گاندھی کے باڈی گارڈ بھلارے گروجی نے دیکھا کہ کوئی سامنے سے آ رہا ہے۔ انھوں نے نوجوان کو پکڑ لیا اور اس کے ہاتھ سے خنجر چھین لیا۔ گاندھی جی نے کہا کہ اس نوجوان کو چھوڑ دیا جائے۔ اس لیے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ بھلارے گروجی نے بتایا کہ وہ نوجوان ناتھورام گوڈسے تھا۔
Getty Images
تیسرا حملہ۔ گاندھی کے قتل کی تیسری کوشش مہاراشٹر کے قصبے سیواگرام میں ہوئی۔ سنہ 1944 میں گاندھی وردھا سٹیشن سے ٹرین سے جا رہے تھے۔ اس وقت ایک نوجوان گاندھی کے پاس آیا۔ پولیس نے اسے فوراً پکڑ لیا۔ اسے ابتدائی تفتیش کے بعد رہا کر دیا گیا۔ گاندھی کے سوانح نگار پیارے لال نے لکھا ہے کہ اس حملہ کو ریکارڈ بھی نہیں کیا گیا۔
چوتھی کوشش۔ سیواگرام میں حملے کی کوشش کے اگلے ہی سال یعنی 1945 میں مہاتما گاندھی ٹرین کے ذریعے ممبئی سے پونے جا رہے تھے۔ ٹرین ایک گارڈ کوچ، ایک انجن اور ایک تھرڈ کلاس کوچ پر مشتمل تھی۔ رات کا وقت تھا۔ ٹرین کسارا گھاٹ پہنچی تھی۔ اس وقت پٹریوں پر کچھ رکاوٹیں کھڑی کی گئیں تھیں۔ پتھروں کا ڈھیر بھی بنایا گیا۔ ڈرائیور نے ملبہ دیکھا اور بریک لگا دی۔ انجن ہلکے جھٹکے کے ساتھ ملبے سے ٹکرا گیا تاہم کوئی بڑا جانی نقصان ٹل گیا۔
گاندھی جی پونے آئے اور کہا کہ 'جو لوگ مجھے مارنا چاہتے ہیں وہ مجھے مار دیں۔ لیکن میرے لیے لوگوں کو نقصان نہ پہنچائيں۔'
تشار گاندھی نے کہا: 'گاندھی جی کی موت کے بعد ملک کو ایک بڑا جھٹکا لگا۔ وہ برادریاں جو ایک دوسرے کے خون کی پیاسی تھیں اچانک پرسکون ہو گئیں۔ تمام ذاتوں اور مذاہب کے لوگ گاندھی کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ ان کی موت کے بعد بھی انھوں نے تحفظ اور ملک کے اتحاد کے لیے کام کیا۔'
گاندھی: ایک لاپروا نوجوان سے ’مہاتما‘ تک کا سفرگاندھی کے قاتل کو محبِ وطن قرار دینے پر تنازعگاندھی کے قاتل کو محبِ وطن قرار دینے پر تنازعگاندھی کے قتل سے پہلے ان کے قاتل کیا کرتے رہے؟گاندھی کا قاتل گوڈسے: جس کا ہندو قوم پرست آر ایس ایس سے تعلق آج بھی ایک راز ہے