ٹک ٹاک نے سیاحوں میں انسانی باقیات کے ساتھ صدیوں سے جڑے جذبات کو ایک بار پھر سے بیدار کر دیا ہے۔ لیکن بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ عجائب گھروں میں انسانی باقیات کی نمائش کی صدیوں پرانی روایت انتہائی پریشان کن امر ہے۔
پیرس میں ٹِک ٹاک کے ایک حالیہ ٹرینڈ نے ہولناک قسم کی سنسنی پھیلا رکھی ہے۔ وائرل ویڈیوز میں لوگوں کو شہر کے نیچے قرون وسطی کے دور کی زیر زمین مقبروں میں گھستے ہوئے دکھایا گیا ہے، جہاں تقریباً 60 لاکھ مردہ لوگوں کی ہڈیاں تاریک سرنگوں میں فرش سے چھت تک بھری ہوئی ہیں۔
اس موذی جنون کی تسکین کے لیے لوگ غیر قانونی طور پر اس میں داخل ہوتے ہیں اور ہیڈ لیمپ کے ساتھ شہر کے تقریباً 300 کلومیٹر لمبے دور افتادہ راستوں کو تلاش کرتے ہیں۔ انسانی ہڈیوں سے بنے فرشوں پر چلتے ہیں، ہڈیوں سے بھری دراڑوں سے رینگتے نظر آتے ہیں اور اپنی اس کوشش میں کبھی کبھار گم ہو جاتے ہیں۔
بہر حال پیرس میں ٹک ٹاک کے کچھ تبصرہ نگاروں نے اس میں مضمر ممکنہ خطرات کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہ اس رجحان میں بہت زیادہ بھوک یعنی دلچسپی پائی جاتی ہے اور وہاں سے گزرنے والے سیاح طویل عرصے پہلے مرنے والوں کے باقیات کے ساتھ چھیر چھاڑ کر سکتے ہیں۔
مثال کے طور پر مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں قائم مصری تہذیب کے نیشنل میوزیم کو دیکھنے کے لیے ہر سال 10 لاکھ سے زیادہ سیاحقطار میں کھڑے ہوتے ہیں اور فرض شناس طریقے سے زیر زمین چیمبر میں جمع ہوتے ہیں جہاں رمسیس دوم (فرعون) اور ملکہ نیفرتیتی کی حنوط شدہ لاشیں ان کے تابوت میں کھلی رکھی ہیں۔
اسی طرح بیجنگ میں چین کے سابق چیئرمین ماؤ زے تنگ، ہنوئی میں ہو چی منہ اور ماسکو میں ولادمیر لینن کے مقبروں میں ہزاروں لوگ ان کی میتوں کو دیکھنے کے لیے پہنچتے ہیں۔
اسی طرح فلاڈیلفیا کا میوٹر میوزیم ہے جو 19ویں صدی کے بچ جانے والے طبی عجائب گھروں سے ایک ہے اور دنیا بھر سے آنے والے ہزاروں لوگوں کی دلچسپیوں کا مرکز رہا ہے۔ہر سال یہاں تقریبا 135,000 زائرین آتے ہیں اور وہ وکٹورین دور کی کھوپڑیوں کی قطاروں کے درمیان معروف سائنسداں البرٹ آئن سٹائن کے دماغ کے حصے، صدر گروور کلیولینڈ کے جبڑے سے نکالے گئے ٹیومر کے ساتھ ساتھ شکم مادر میں جڑے ہوئے بچے کی انتہائی حیرت انگیزباقیات کو دیکھنے آتے ہیں۔
یورپیوں کا جوش
کینبرا کی آسٹریلین نیشنل یونیورسٹی کے ڈپارٹمنٹ آف ہریٹیج اینڈ میوزیم اسٹڈیز کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر مائیکل پکرنگ نے کہا کہ ’مغربی معاشرے کو مہیب اور خوفناک اشیا کا شوق رہا ہے۔ ہم پہلی دنیا میں موت سے بہت دور ہو چکے ہیں، اس لیے لوگ صدمے پر پرجوش ہوتے ہیں جو کہ ایک قسم کا ایڈرینالین رش ہے۔'
اس کے برعکس حالیہ برسوں میں جسم کے اعضا کی نمائش کے پورے مفروضے یا خیال کو ہی غیر اخلاقی قرار دیا گیا ہے۔ اور شاید اسی لیے نیویارک میں موجود امریکن میوزیم آف نیچرل ہسٹری (اے ایم این ایچ) کے نئے ڈائریکٹر شان ایم ڈیکاٹر نے اپنی کوتاہیوں کا بڑا اعتراف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آخری انسانی باقیات کو عوامی نمائش سے ہٹا لیا جائے گا۔
میوزیم نے اعتراف کیا کہ ان میں سے بہت سی باقیات کا تعلق 'پرتشدد سانحات کے متاثرین یا گروہوں کے نمائندوں سے ہے جن کے ساتھ بدسلوکی کی گئی اور جن کا استحصال کیا گیا، اور عوامی نمائش کا عمل اس استحصال کو بڑھاتا ہے۔' ان کے خیال میں رضامندی کے بغیر حاصل کی گئی باقیات کو اشیا کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس سے ان کی توہین ہوتی ہے۔
ہٹانے کا یہ عمل اب مکمل ہو چکا ہے۔ سینٹرل پارک کے اس پار جانے والے مسافر یا سیاح اب وہاں ایک ہزار سال پرانے منگول جنگجو کا ڈھانچہ یا انسانی ہڈیوں سے بنا 19ویں صدی کا تبتی تہبند نہیں دیکھ سکتے ہیں۔
جبکہ اس کے ناقدین کا کہنا ہے کہ ایسی نمائشوں کو چھپانے سے عوام سے ان کی قیمتی تعلیمی بصیرت چھین لی جاتی ہے۔ لیکن میوٹر سمیت دیگر ادارے دباؤ کو محسوس کر رہے ہیں۔ پھر بھی یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ کیا ہم انسانی باقیات سے سیکھ سکتے ہیں، یا کیا ہم محض ایک عجیب تجسس میں مبتلا ہیں، جس میں عجائب گھر قبروں کے حملہ آوروں اور جسم کے غیر قانونی سمگلروں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں؟
دنیا کے پہلے سیاحتی مقامات
انسانی باقیات زمانۂ قدیم سے سیاحوں کی دلچسپی کا سامان رہی ہے۔ قرون وسطیٰ میں مسیحی زائرین جان دی بپٹسٹ کے کٹے ہوئے سر (یہ اب بھی کیپیٹ میں روم کے باسیلیکا آف سان سلویسٹرو میں دیکھا جا سکتا ہے)، مصر کی سینٹ میری کی زبان (کروشیا کے ووڈنجان میں سینٹ بلیز کے چرچ میں نمائش کے لیے ہے)، اور حضرت عیسی کے گوشت کا واحد ٹکڑا 'مقدس چمڑی' جو ان کے آسمان پر اٹھائے جانے کے بعد باقی رہ گیا تھا، کو دیکھنے کے لیے یورپ بھر کا سفر کرتے تھے۔
ان قدیم آثار نے دنیا کے پہلے سیاحتی مقامات بنانے میں مدد کی۔ جسم کے اعضاء بھی اس زمانے میں بڑے کاروبار تھے۔ کیتھولک چرچ نے شاہانہ سامان تعمیر کیا اور ان کے ارد گرد مہمان نوازی کی صنعت بنائی اور امیر کبیر زائرین ان باقیات کو قریب سے دیکھنے کے لیے بڑی رقم خرچ کرتے تھے۔
جدید دور میں توجہ پادریوں، سنتوں اور اولیا کی باقیات سے ہٹ کر مشہور شخصیات پر دی جانے لگی۔ رومانوی تحریک سے متاثر ہو کر انیسویں صدی کی دہائی کے اوائل میں سیاحوں نے 'سیکولر آثار' کو ترجیح دی۔ تخلیقی ذہانت کے حاملین کے جسمانی اعضا (مثال کے طور پر معروف انگریزی شاعر شیلی کا دل اور موسیقار بیتھوون کے کان کی ہڈیاں) ان کے لیے وہبی صلاحیتوں کا بصری تعلق پیش کرتے نظر آتے ہیں۔ آج اٹلی میں فلورنس کے ہسٹری آف سائنس میوزیم میں گلیلیو کی درمیانی انگلی بیضوی شکل والی شیشے کی گیند میں دیکھی جا سکتی ہے۔
میرا پسندیدہ سلیبریٹی آثار نپولین کا عضو تناسل ہے، جسے مبینہ طور پر ایک اطالوی ڈاکٹر نے انتقامی جذبات سے مغلوب ہو کر سنہ 1821 میں پوسٹ مارٹم کے دوران ان کے جسم سے الگ کر دیا تھا۔ شہنشاہ نپولین کے اس عضو کو 1977 میں امریکہ کے اعلیٰ یورولوجسٹ جان کنگسلے لیٹیمر نے خریدا تھا اور انھوں نے اسے دہائیوں تک امریکی ریاست نیوجرسی کے اینگل وڈ شہر میں اپنے بستر کے نیچے رکھا ہوا تھا۔ ان کے خاندان نے اسے صرف سنجیدہ محققین کو دکھایا اور تقریبا ایک دہائی یا اس سے زیادہ عرصہ قبل مجھے بھی اس کا شرف حاصل ہوا تھا۔
انیسویں صدی میں ایک اور زیادہ خوفناک تبدیلی نظر آتی ہے جب سائنس کے نام پریورپ اور امریکہ کے عجائب گھروں کے لیے دنیا بھر سے مردہ اجسام کو جمع کرنے اور نمائش کرنے کا جواز پیدا کیا گیا اور اس کے لیے خاص طور پر دنیا کے دور دراز کونے سے مقامی لوگوں کے باقیاتکو حاصل کیا گیا۔
لاہور میں انگریزوں کو قتل کرنے والے فوجی جن کی باقیات 157 سال بعد ملیںقدیم زمبابوے کے عظیم شہر کے آثارِ قدیمہ جنھیں یورپ نے مٹانے کی کوشش کیمایا لوگوں نے اپنے مردہ حکمرانوں کی راکھ کو کھیل کی گیندوں میں کیوں بدل دیاآثار قدیمہ کے حصول کے لیے بے دریغ خرچ
وکٹورین عہد میں قومی اداروں نے چین کے ریگستانوں، الاسکا کے برفیلے فضلوں اور پیرو کے پہاڑوں میں تاریخی تدفین کے مقامات کو لوٹنے کی آثار قدیمہ کی مہمات کے لیے بڑے پیسے خرچ کیے۔
اینتھروپولوجی یعنی علم بشریات کے شعبے نے تو تمام حدیں پار کردیں اور انھوں نے ٹیکسس سے تسمانیہ تک مرنے والے مقامی لوگوں کے ڈھانچے کی باقیات حاصل کرنے کے لیے ٹیمیں بھیجیں، مقابر سے یا قتل عام کی جگہ سے ہڈیوں کو لوٹ لیا، یا انھیں خانہ بدوش پیشہ ور 'ہڈی جمع کرنے والوں' سے خریدا۔
اس کا اصل مقصد عجیب و غریب 'جعلی سائنس' کو فروغ دینا تھا جسے فرینولوجی کہا جاتا ہے۔ اس کے تحت یہ کہا گیا کہ ہڈیوں کے مطالعہ، خاص طور پر کھوپڑیوں کے مطالعے، سے ذہانت سے لے کر محنت کی موروثی نسلی خصلتوں کو سمجھا جا سکتا ہے۔
سنہ 1859 میں دی اوریجن آف دی سپیسز کی اشاعت کے بعد چارلس ڈارون کے گمراہ پیروکاروں نے یہ ثابت کرنے کے لیے فرینولوجی کا استعمال کیا کہ مقامی لوگ ارتقائی پیمانے پر اینگلو سیکسن سے کم تھے، اور اس طرح ان کی سامراجی فتح کا جواز پیش کیا گيا۔
مغربی دنیا کے عجائب گھروں کے کیوریٹرز چاہتے تھے کہ 'نسلی اقسام' کا مکمل مجموعہ ظاہر کریں اور اس کے لیے مقامی کنکالوں کی دنیا بھر میں بیس بال کارڈ کی طرح تجارت کی جانے لگی۔ ایسا لگتا تھا کہ ہر کیوریٹر ڈکوٹا سے سیوکس، نمیبیا سے ہریرو اور جاپان کے ہوکائیڈو جزیرے کے لوگوں کی کھوپڑی چاہتا ہو۔
انسانی باقیات کی نمائش متنازع کیوں؟
ایسا نہیں تھا کہ مغرب میں ہر کوئی مردوں کی نمائش کو اخلاقی طور پر جائز سمجھتا تھا۔ یہاں تک کہ کچھ وکٹورین بھی مصر کی حنوط شدہ لاشوں (ممیوں) کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق آنے والے گھڑسواروں کی پریڈ سے بے چین تھے، اور مصر کے ماہرین کو کچھ لوگ قبر کے ڈاکوؤں سے ایک قدم اوپر سمجھتے تھے۔
لیکن حال ہی میں میوزیم کی دنیا میں انسانی باقیات کو قبروں سے نکالنے، مطالعہ کرنے اور دکھانے کی اخلاقیات سے متعلق مباحثوں میں ایک وسیع تبدیلی آئی ہے۔ عجائب گھروں کی اخلاقیات سے متعلق نظریات پر نظر ثانی کی قیادت مقامی گروہوں نے کی ہے، جنھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ان کے آباؤ اجداد کی باقیات کو میوزیم کی نمائش سے ہٹا کر ان کی اولادوں کو واپس کیا جائے۔
امریکہ میں مقامی امریکی کارکن کئی دہائیوں سے عجائب گھروں پر اس طرح کے اقدامات کرنے کے لیے زور دے رہے ہیں۔
شمالی ڈکوٹا میں ٹرٹل ماؤنٹین انیشینابے کی رکن، آرٹسٹ اور میوزیولوجی کی سکالر ہلیری کیمپینیچ کا کہنا ہے کہ کہ 'سائنس دانوں، آثار قدیمہ کے ماہرین اور ماہرین بشریات کو یہ حق کیوں کر حاصل ہے کہ وہ قبرستان میں جائیں اور جو چاہیں اٹھا کرلے جائیں؟' 10 سال سے آثار قدیمہ کی طالب علم کے طور پر کیمپینیچ کو معلوم ہوا کہ ان کے قبیلے کے افراد کی باقیات ابھی بھی نارتھ فورک میں یونیورسٹی آف نارتھ ڈکوٹا کے بکسوں میں رکھی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ 'وہ دہشت زدہ ہیں' کیونکہ اس طرح کی نمائش مقامی امریکیوں کے لیے روحانی خلاف ورزی ہے۔ 'ہو سکتا ہے کہ لوگ اب یہاں اپنے جسم کو استعمال کرنے کے لیے نہ ہوں، لیکن ہمیں پھر بھی ان کا احترام کرنا چاہیے۔'
بہت سے عجائب گھر اپنے یہاں سے دیسی جسم کے اعضاء کی نمائش کو ہٹا رہے ہیں۔ ان میں واشنگٹن ڈی سی کا سمتھسونین میوزیم، شکاگو کا ہیوم کارنیگی میوزیم، آکسفورڈ کا پٹ ریورز میوزیم، مانچسٹر میوزیم اور ایڈیلیڈ کا جنوبی آسٹریلیائی میوزیم شامل ہے۔
کینبرا کے آسٹریلین نیشنل میوزیم میں دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک بطور کیوریٹر کام کرنے والے پکرنگ نے کہا: 'یہ ہمارے نوآبادیاتی ماضی کے ساتھ ہم آہنگی کی کوشش ہے۔ اگر ہماری باقیات اہم ہیں تو دوسرے کی بھی ہیں۔ یہاں کوئی بھی پہلے اور دوسرے درجے کی انسانی باقیات نہیں ہیں۔'
کیا اخلاق کاروبار پر سبقت لے جا سکتا ہے
تاہم اس سے بھی بہت سا بنیادی مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ پکرنگ نے وضاحت کرتے ہوئے کہا: 'مغربی دنیا میں بشریات کے ہر بڑے ادارے، لندن کے برٹش میوزیم سے لے کر پیرس کے میوزیم آف مینکائنڈ تک اور واشنگٹن ڈی سی میں امریکن انڈین کے نیشنل میوزیم تک باقیات رکھنے والے کمرے مقامی لوگوں کی ہڈیوں سے بھرے ہوئے ہیں جنھیں 20ویں صدی میں 'فصل کی طرح سے کاٹا' گيا ہے۔'
مثال کے طور پر نیچرل ہسٹری کے امریکی میوزیم میں اب بھی تقریباً 12,000 افراد کی باقیات موجود ہیں جبکہ اس نے سنہ 1990 سے لے کر اب تک وفاقی مقامی امریکیوں کے مقابر کے تحفظ اور بحالی کے قانون کے تحت تقریبا ایک ہزار باقیات کو ان کی اولادوں کو واپس کر دیا ہے۔اس کے باوجود اس کے پاس اب بھی 2,200 دیسی امریکی افراد کے ڈھانچے موجود ہیں۔
بہر حال عجائب گھر کی دنیا میں اخلاقی مباحثوں کا جاری رہنا یقینی امر ہے کیونکہ دنیا بھر کے کیوریٹر اپنے انسانی ذخائر کو بے ترتیب انداز میں چلاتے ہیں۔ لیکن ماہیت قلب کی انتہائی مخلصانہ تبدیلی کے باوجود بھی مصری ممیوں جیسی منافع بخش نمائشوں کو بند کرنے یا پیرس کے زیر زمین مقابر میں ٹک ٹاکروں کے غیر قانونی طور پر داخل ہونے کے بہاؤ پر لگام لگانے کا امکان نہیں ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ زندہ لوگ اپنے مردوں کے ساتھ سختی کے ساتھ جڑے ہیں۔
اٹلی کے ایک غار سے قدیم دور کے انسانوں ’نینڈیرتھل‘ کی باقیات برآمدانسانوں کے قدیم ترین 'اجداد کی باقیات' دریافتقدیم دور میں بنی اسرائیل بھنگ جلا کر عبادت کرتے تھےلاہور میں انگریزوں کو قتل کرنے والے فوجی جن کی باقیات 157 سال بعد ملیں