الیکشن سے قبل بلے کا نشان چھن جانے سے تحریک انصاف کے لیے کیا مشکلات پیدا ہوں گی؟

بی بی سی اردو  |  Jan 14, 2024

Getty Images

پاکستان کی سپریم کورٹ نے سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریکِ انصاف سے ’بلے‘ کا انتخابی نشان واپس لینے کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے جو قانونی و سیاسی حلقوں میں بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔

سنیچر کی شب چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں عدالت عظمیٰ کے تین رکنی بینچ نے تحریکِ انصاف کو بلے کا انتخابی نشان الاٹ کیے جانے کے خلاف الیکشن کمیشن کی اپیل کو منظور کرتے ہوئے پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا۔

چیف جسٹس نے اس کیس کا مختصر فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے سنہ 2021 میں تحریک انصاف کو انٹرا پارٹی انتخابات کروانے کا کہا تھا اور یہ وہ وقت تھا جب تحریک انصاف کی وفاق اور صوبوں میں حکومت تھی چنانچہ ’یہ نہیں کہا جا سکتا کہ تحریک انصاف سے امتیازی سلوک کیا گیا۔‘

جہاں ایک سیاسی و قانونی حلقہ اس حکم کو آئینی طور پر درست قرار دے رہا ہے تو وہیں کئی لوگ اس پر تنقید کرتے ہوئے یہ مؤقف اپنا رہے ہیں کہ آٹھ فروری کے عام انتخابات سے چند ہفتے قبل کسی جماعت سے اس کا انتخابی نشان ’چھین لینا‘ اس کے ووٹروں کے ساتھ ناانصافی ہے۔ دریں اثنا بعض مبصرین کا سوال ہے کہ کیا اس اقدام کے بعد بھی انتخابات کو صاف و شفاف کہا جاسکے گا۔

EPAسپریم کورٹ کے فیصلے پر رائے منقسم

ٹی وی چینلوں سے لے کر سوشل میڈیا صارفین تک، آٹھ فروری کے الیکشن سے قبل یہ فیصلہ نہ صرف قانونی بلکہ سیاسی بحث کا بھی حصہ رہنے کا امکان ہے۔

اس فیصلے کے الیکشن پر اثرات کے حوالے سے سماجی کارکن اور وکیل جبران ناصر نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر لکھا کہ ’سپریم کورٹ کے فیصلے کے بڑے نتائج ہیں ہوں گے۔ پی ٹی آئی سے وابستہ امیدواروں کے لیے آزاد امیدوار کے طور پر انتخاب لڑنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔‘

انھوں نے لکھا کہ ’ہر امیدوار کو اپنی مرضی کے مطابق اشتہارات کے ساتھ انفرادی مہم چلانی ہوگی کیونکہ ہر ایک کا انتخابی نشان مختلف ہے۔ یہی نہیں اگر امیدواروں کو حراست میں لیا گیا یا انھیں ہراساں کیا گیا اور انھیں مہم چلانے کی اجازت نہ دی گئی تو یہ الیکشن پر اثر انداز ہوگا۔‘

جبران کی رائے میں اس فیصلے سے ’حلال ہارس ٹریڈنگ‘ ہوگی کیونکہ ’جو امیدوار پی ٹی آئی ووٹرز کی حمایت سے جیت سکتا ہے وہ دباؤ، اثر و رسوخ یا ذاتی فائدے کے لیے انتخابات کے بعد کسی بھی سیاسی جماعت کا حصہ بن سکے گا۔‘

وہ اسے افسوسناک قرار دیتے ہیں کیونکہ یہ ’پاکستان بھر میں لاکھوں ووٹروں کو حق رائے دہی سے محروم کرنے کے مترادف ہے۔‘

دوسری جانب بیشتر سوشل میڈیا صارفین کا یہ ماننا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے آنے والا فیصلہ قانون کے مطابق درست ہے۔

جیسے صحافی غریدہ فاروقی کہتی ہیں کہ ’جسٹس عیسیٰ کے اس فیصلے نے آئندہ کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کے لیے سٹینڈرڈ مقرر کر دیا ہے۔

’جماعتوں کے اندر جمہوریت ہو گی تو ہی ملک میں جمہوریت آ سکے گی۔‘

تحریک انصاف کو بلے کا نشان چھن جانے سے کیا نقصان ہوگا؟

یہ بھی زیرِ بحث ہے کہ بلے کا نشان چھن جانے سے تحریک انصاف کے لیے مزید کیا رکاوٹیں پیدا ہوسکتی ہیں۔

تاہم بی بی سی گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ’ہم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا کیونکہ عوام اور ووٹرز جانتے ہیں کہ اس ملک میں کیا ہو رہا ہے۔ آنے والے الیکشن میں پاکستان تحریک انصاف کو روکنے کے لیے ہر حد پار کی جا رہی ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ یہ لوگ جو مرضی کر لیں، ہم الیکشن کا بائیکاٹ نہیں کریں گے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’ہم ہر صورت میں الیکشن میں حصہ لیں گے اور آخری گیند تک لڑیں گے۔ یہی عمران خان کی ہدایات ہیں۔ ابھی جو چل رہا ہے، وہ لڑائی نہیں جہاد ہے۔‘

’ہمارے لوگوں کو پکڑا جا رہا ہے۔ ہر قدم پر ہمارے لیے مشکلات کھڑی جا رہی ہیں۔ اس ملک کے طاقتور ادارے قدم قدم پر ہمارے لیے روکاوٹیں کھڑی کر رہے ہیں۔ اور اس ملک کی اعلی عدلیہ کو یہ سب نظر نہیں آرہا ہے۔‘

رؤف حسن نے اسے ’پری پول دھاندلی‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’ابھی تو آپ دیکھیں گے کہ الیکشن والے دن یہ لوگ کتنی دھاندلی کریں گے۔ اور ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ الیکشن جیتنے کے بعد بھی ہمارے لوگوں کو تنگ کیا جائے گا، پریشر ڈالا جائے گا۔ وفاداریاں تبدیل کروانے کے کوشش کی جائے گی۔ بس ہمیں ثابت قدم رہنا ہے۔‘

ہم نے تحریک انصاف کے ترجمان سے پوچھا کہ بلے کا نشان بیلٹ پیپر پر نہ ہونے سے الیکشن میں آپ کے امیدوار کی جیت کیسے ممکن ہو پائے گی۔

ان کا جواب تھا کہ ’ہمیں تھوڑی زیادہ محنت ضرور کرنی پڑے گی لیکن ہم اس بات کو تقینی بنائیں گے کہ جو لوگ آزاد لڑ رہے ہیں، ان کے علاقے کے لوگوں کو پتا ہو کہ یہ تحریک انصاف کا امیدوار ہے۔‘

دوسری طرف آئینی ماہر احمد محبوب بلال کی رائے ہے کہ ’میرے خیال میں تحریک انصاف کو بلے کا نشان چھن جانے سے زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔ البتہ ان کے ووٹرز کو زیادہ محنت کرنی ہو گی کہ وہ معلوم کر سکیں کہ ان کے علاقے میں تحریک انصاف کا امیدوار کون ہے۔‘

انھوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف کا سوشل میڈیا اور ان کی اپنے سپووٹرز تک رسائی اور رابطے خاصے مضبوط ہیں۔ ’وہ یہ پیغام با آسانی پہنچا سکیں گے کہ ان کے ووٹر کو کسے ووٹ کرنا ہے اور ان کے امیدوار کا انتخابی نشان کیا ہے۔‘

ان کا خیال ہے کہ تحریک انصاف اپنے پارٹی آئین کے تحت انٹرا پارٹی الیکشن کروانے میں ناکام رہی۔ ’چلو پارٹی چیئرمین کا انتخاب چھوڑ کر کم از کم دیگر صوبوں میں تو صحیح انداز میں الیکشن کرواتے۔ الیکشن کمیشن نے انھیں بیس دن کا وقت دیا۔ لیکن انھوں نے گیارہ دن میں الیکشن کروا کر نتائج بتا دیے۔ وہ کچھ اور نہ کرتے سب سوشل میڈیا پر ہی اشتہار کر دیتے کہ اس تاریخ کو انٹرا پارٹی الیکشن ہیں اور آپ کاغذات جمع کروا سکتے ہیں۔ اس جگہ پر الیکشن کا انعقاد ہوگا۔ لیکن وہ یہ سب کرنے میں ناکام ہوئے۔‘

اس تنقید پر پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کا کہنا تھا کہ ’ہم نے الیکشن کروائے ہیں، مسئلہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ ان کو تسلیم نہیں کر رہی۔‘

Getty Images’ماضی کی غلطیاں آج کی غلطیوں کا جواز نہیں‘

اگر پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد حیثیت میں جیت جاتے ہیں تو پھر کیا ہوگا؟ کیا ان پر پارٹی قانون لاگو ہوگا؟ کیا پی ٹی آئی مخصوص نشستیں کھو دے گی؟ یہ وہ تمام سوالات ہیں جو ماہرین کے مطابق خاصے اہم ہیں۔

ان سوالات کے بارے میں بات کرتے ہوئے پلڈاٹ کے سربراہ احمد محبوب بلال کا کہنا تھا کہ ’آئینی اور قانونی طور پر آزاد حیثیت میں جیتنے والے امیدوار پر کسی سیاسی جماعت کا قانون لاگو نہیں ہوگا۔ اس لیے ان پر دباؤ ڈال کر وفاداریاں بھی تبدیل کرائی جا سکتی ہیں۔‘ یعنی اس سے ہارس ٹریڈنگ کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔

مخصوص نشستوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہاں بھی تحریک انصاف کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ تاہم پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن کے مطابق ان کی جماعت الیکشن جیتنے کے بعد کسی دوسری جماعت کے ساتھ الحاق کر کے مخصوص نشستیں حاصل کر سکتی ہے۔

دوسری جانب سیاسی ماہرین کے مطابق یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ تحریک انصاف کس جماعت کے ساتھ الحاق کرے گی کیونکہ ان کے کسی سیاسی جماعت کے ساتھ اچھے تعلقات نہیں ہیں۔

گذشتہ روز سپریم کورٹ میں ہونی والی سماعت میں الیکشن کمیشن کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ دیگر 15 سیاسی جماعتوں کے انتخابی نشانات واپس لیے گئے ہیں۔ ان کے بقول اس لیے یہ کہنا کہ ایک مخصوص جماعت کو نشانہ بنایا گیا، غلط ہے۔

تاہم پاکستان تحریک انصاف اس سے متفق نہیں۔ ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن کے مطابق ان کی جماعت کو ’طاقتور اداروں کے دباؤ میں آ کر دیگر ادارے سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہے ہیں۔ ملک میں کوئی بھی ادارہ آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ نہیں کر رہا۔‘

اس فیصلے کے تاریخی پہلوؤں کی طرف روشنی ڈالتے ہوئے تجزیہ کار وجاہت مسعود بتاتے ہیں کہ 1988 میں پیپلز پارٹی سے تلوار کا نشان لے لیا گیا تھا۔ ’ان سے تلوار کا نشان لے کر تیر کا نشان دیا گیا تھا اور وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ تھا، اس لیے ماننا پڑا۔‘

وہ بتاتے ہیں کہ اسی طرح 2018 میں سینیٹ کے الیکشن سے پہلے مسلم لیگ ن سے شیر کا نشان لے لیا گیا تھا اور نواز شریف کے امیدواروں کو آزاد حیثیت سے آگے آنا پڑا۔

سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے پر ان کا کہنا ہے کہ اس سے ’آنے والے انتخابات کی ساکھ کو نقصان پہنچے گا۔ قانونی طور پر فیصلہ درست ہے لیکن سیاسی طور پر یہ فیصلہ شاید اتنا مناسب نہ ہو کیونکہ سیاست کے فیصلے عدالتوں میں نہیں ہونے چاہییں۔‘

’ہمیں عمران خان سے جتنا مرضی اختلاف ہو لیکن اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ ان کا ووٹ ہے۔ اس لیے سیاسی طور پر اس ووٹر کو عزت ملنا ضروری ہے۔‘

وجاہت مسعود کی رائے میں یہ پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہے کہ الیکشن سے قبل اور بعد میں کچھ نہ کچھ ہوتا ہی رہتا ہے۔ ’ہم نے ماضی کی جو غلطیاں کی ہیں، وہ آج کل میں کی جانے والی غلطیوں کا جواز نہیں ہونا چاہییں۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More