لگ بھگ ڈیرھ سال قبل جون 2022 کو ختم ہونے والے مالی سال میںپاکستان میں گاڑیوں کی مجموعی فروخت میں ریکارڈ 55 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا تھا اور صرف جون 2002 میں ساڑھے 23 ہزار سے زائد کاریں فروخت ہوئی تھیں۔
تاہم ڈیڑھ سال بعد 31 دسمبر 2023 تک اس شعبے کی کارکردگی بالکل برعکس منظر پیش کرتی ہے۔ جون 2022 میں صرف ایک مہینے میں ساڑھے 23 ہزار سے زائد گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں تاہم اگر موجودہ مالی سال کے پہلے چھ مہینوں میں کاروں کی فروخت کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ملک میں مجموعی طور پر صرف ساڑھے 39 ہزار کے لگ بھگ کاریں فروخت ہوئی ہیں۔
دسمبر 2023 میں ملک میں فروخت ہونے والی کاروں کی تعداد محض 5800 تھی۔
گاڑیاں بنانے والا شعبہ، جو آٹو سیکٹر کہلاتا ہے، کی کارکردگی میں بھی گذشتہ ڈیڑھ سال کے دوران بہت تیزی سی تنزلی دیکھی گئی۔ آٹو سیکٹر کے ماہرین ملک کی مجموعی معاشی صورتحال کو آٹو شعبے کی اِس بُری کارکردگی کی وجہ قرار دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس شعبے میں فروخت 20 سال کی کم ترین سطح تک آ گئی ہے۔
یہ ماہرین سنہ 2024 میں بھی آٹو سیکٹر کی کارکردگی کے بارے میں بھی زیادہ پُرامید نہیں ہیں اور اس شعبے کے مزید متاثر ہونے کی پیش گوئی کر رہے ہیں۔
پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت کے اعداد و شمار کیا ہیں؟Getty Imagesرواں مالی سال کا مقابلہ گذشتہ مالی سال سے کیا جائے تو پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 53 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے
پاکستان میں گاڑیوں کے فروخت کے اعداد و شمار پاکستان آٹو مینوفیکچررز ایسوسی ایشن (پاما) جاری کرتا ہے، جو ملک میں گاڑیاں بنانے والے کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ہے۔
پاما کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے چھ ماہ، یعنی جولائی 2023 سے دسمبر 2023 تک، کے دوران ملک میں کاروں کی مجموعی فروخت 39454 رہی جو گذشتہ مالی سال کے ابتدائی چھ ماہ میں 84116 کی سطح پر تھی، یعنی سادہ الفاظ میں اگر رواں مالی سال کا مقابلہ گذشتہ مالی سال سے کیا جائے تو گاڑیوں کی فروخت میں 53 فیصد کی کمی واقع ہوئی ہے۔
اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں چھوٹی (1000 سی سی سے کم) اور بڑی (1000 سی سی سے زیادہ) دونوں گاڑیوں کی فروخت میں کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ اسی طرح ملک میں موٹر سائیکلوں اور رکشوں کی فروخت میں بھی ان چھ مہینوں میں 14 فیصد کی کمی دیکھی گئی جو 627835 سے گر کر 541821 رہ گئی ہے۔
اسی طرح ملک میں ٹرکوں اور بسوں کی فروخت بھی اسی چھ ماہ کے دورانیے میں 1947 سے کم ہو کر 982 رہگئی ہے۔ آٹو شعبے میں صرف ٹریکٹر کی فروخت میں اضافہ دیکھا گیا اور ان کی فروخت سو فیصد سے زائد اضافے کے بعد 11513 سے بڑھ کر 23411 ہو گئی ہے۔
گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی بڑی وجوہات کیا ہیں؟
آٹو سیکٹر سے منسلک ماہرین اس کی بڑی وجہ ملک کی مجموعی معاشی کارکردگی کو قرار دیتے ہیں۔
آٹو شعبے کے ماہر مشہود علی خان نے اس سلسلے میں بی بی سی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس شعبے کی کارکردگی میں تنزلی کی سب سے بڑی وجہ تو ملک میں زرمبادلہ ذخائر کی کمی تھی کیونکہ درآمدات کے لیے ڈالرز ہی نہیں تھے تو اس شعبے کے لیے بیرون ملک سے خام مال کی درآمد شدید متاثر ہوئی ہے اور ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے ملک میں گاڑیوں کی پیداوار بُری طرح متاثر ہوئی ۔
انھوں نے کہا ایک جانب ایل سیز نہ کھلنے سے پیداوار متاثر ہوئی تو دوسری جانب سٹیٹ بینک نے آٹو فنانسنگ کے لیے بھی ایک حد مقرر کر دی۔ مرکزی بینک نے گاڑی کی بینک سے خریداری کے لیے صرف تیس لاکھ روپے کی فنانسنگ کی اجازت دی جس نے اس شعبے میں فروخت کو متاثر کیا کیونکہ پاکستان میں ایک بڑی تعداد میں گاڑیاں بینکوں سے قرض لے کر خریدی جاتی ہیں۔
مشہود علی کے مطابق دوسری جانب سٹیٹ بینک کی جانب سے شرح سود میں اضافے نے بھی اس شعبے کو بُری طرح متاثر کیا کیونکہ سٹیٹ بینک کی جانب سے 22 فیصد شرح سود کے بعد بینکوں کا مجموعی شرح سود 25 فیصد ہو جاتا ہے، اور اتنے زیادہ شرح سود کے بعد صارفین کے لیے بینک سے گاڑی خریدنا مشکل ہو گیا جس نے فروخت کو متاثر کیا۔
مشہود نے کہا دوسری جانب گذشتہ ایک، ڈیڑھ سال میں ملک میں مہنگائی کی شرح تواتر کے ساتھ بڑھی جس نے عام آدمی اور متوسط طبقے کے لوگوں کی قوتِ خرید کو متاثر کیا۔ انھوں نے کہا کہ ان وجوہات کے باعث ہی آج حالات یہ ہیں کہ ملک میں گاڑیوں کی فروخت کا حجم بیس سال کی نچلی ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ایکسچینج ریٹ کے زیادہ ہونے اور ڈالر کی قلت نے اس شعبے کو سب سے زیادہ متاثر کیا کیونکہ ایک جانب خام مال درآمد کرنا مسئلہ بنا رہا تو دوسری جانب ڈالر کی قیمت بھی بہت زیادہ رہی۔
پاکستان میں کار ساز شعبہ 2023 میں کن مسائل کا شکار رہا؟
پاکستان میں 2023 گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانے اور یونٹ بہت سے مسائل کا شکار رہے جس میں اِن پلانٹس کی بار بار بندش یا ان کا اپنی پیداواری صلاحیت سے کم پر کام کرنا تھا۔
پاما کے ڈائریکٹر جنرل عبد الوحید خان کہتے ہیں کہ سب سے بڑا مسئلہ درآمد پر پابندیاں تھیں جس کی وجہ سے گاڑیاں تیار نہیں ہو رہی تھیں، کیونکہ انھیں تیار کرنے کے لیے درکار خام مال ہی دستیاب نہیں تھا، اور اس کی وجہ سے پلانٹس میں کام شدید طور پر متاثر ہوا۔
سال 2023 میں پاکستان میں کام کرنے والی کار ساز کمپنیوں جیسا کہ انڈس موٹرز، پاک سوزوکی اور ہنڈا اٹلس کی جانب سے وقفے وقفے سے پلانٹس بند کرنے کے اعلانات کیے گئے اور اس کی بنیادی وجہ درکار خام مال کی کمی کو قرار دیا گیا۔
مشہود علی خان نے ا س سلسلے میں بتایا کہ پلانٹس کی بندش سے ان کمپنیوں کی پیداواری صلاحیت کیسے منفی طور پر متاثر ہوئی اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پورے سال 2023 میں ان کارخانوں نے صرف 136 دن یعنی ساڑھے چار مہینے کام کیا جبکہ بیشتر اوقات یہ بند رہے۔
آٹو سیکٹر میں کام کرنے والی پاکستانی ملازمین اور یومیہ اجرت والے کیسے متاثر ہوئے؟Getty Images
کراچی میں رہنے والے چالیس سالہ عظیم بیگ کار کمپنیوں کو آٹو پارٹس فراہم کرنے والی ایک فیکٹری میں گذشتہ دس سال سے ملازم تھے۔ چھ مہینے پہلے انھیں اس وقت ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑے جب فیکٹری انتظامیہ کی جانب سے 70 کے قریب ملازمین کو اس بنیاد پر نکالا گیا کیونکہ فیکٹری کی ’سیلز کم ہو گئی تھیں‘اور کام کا حجم بہت کم رہا گیا۔
عظیم بیگ نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ کوالٹی چیکنگ کے شعبے میں کام کرتے تھے اور ان کی پوری فیکٹری میں ملازمین کے تعداد ڈیڑھ سو سے زائد تھی، جن میں تقریباً آدھے یعنی ستر کے قریب ملازمت سے فارغ ہو گئے۔
سال 2023 میں گاڑیاں تیار کرنے والے کارخانوں کی بندش اور کم گاڑیوں کی فروخت نے اس شعبے اور اس سے منسلک دوسرے شعبوں کو بھی بری طرح متاثر کیا جس میں آٹو ونڈرز کا شعبہ بھی ہے جو گاڑیاں بنانے کےلیے پرزے اور دوسرا خام مال فراہم کرتا ہے۔
مشہود علی خان نے بتایا کہ آٹو شعبے کی منفی کارکردگی کا سب سے پہلا اثر تو ان کارخانوں میں کام کرنے والے ان ملازمین پر پڑا جو ڈیلی ویجز (یومیہ اجرت) پر کام کر رہے تھے۔ پلانٹس کی بار بار بندش سے ان ڈیلی ویجز ملازمین کا کام ٹھپ ہو گیا کیونکہ جب گاڑیاں تیار ہی نہیں ہو رہی ہوں گی تو انھیں روزانہ کی بنیاد پر اجرت کیسے مل سکتی تھی۔
مشہودنے بتایا کہ گاڑیاں بنانے والے کارخانوں کے ساتھ ایک پوری ونڈر انڈسٹری وابستہ ہے۔ انھوں نے کہا اس انڈسٹری میں چھوٹے چھوٹے صنعتی یونٹس ہوتے ہیں جو پرزے اور دوسرا سامان فراہم کرتے ہیں جو گاڑیاں کی تیاری میں استعمال ہوتے ہیں۔مشہود نے بتایا کہ کئی چھوٹی کمپنیوں کو گذشتہ سال کام بند کرنا پڑا اور وہاں سے ملازمینفارغ ہوئے ۔ مشہود نے بتایا کہ اچھے وقتوں میں آٹو شعبے اور اس سے منسلک صنعتی شعبوں میں برسرروزگار افراد کی تعداد پچیس لاکھ ہوتی تھی جو اب کم ہو کر سولہ لاکھ رہ گئی ہے۔
کار پلانٹ بند ہونے اور گاڑیوں کی کم فروخت کے باعث کیا پاکستانی معیشت کو کسی قسم کا نقصان پہنچا؟
پاکستان کے آٹو شعبے کی گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے کے دوران خراب کارکردگی کے ملکی معیشت پر کیا اثرات مرتب ہوئے اس کے بارے میں مشہود علی خان نے کہا یہ شعبہ مینوفیکچرنگ کے شعبے میں چند بڑے شعبوں میں آتا ہے اور جب اس میں مندی کا رجحان غالب ہو تو سب سے بڑا نقصان تو ملکی معیشت کی گروتھ میں ہوا کہ جی ڈی پی میں اس حصہ کم ہو گیا جبکہ دوسری جانب حکومت کو اس شعبے سے ملنے والے ریوینیو میں بھی کمی ہوئی۔
مشہود نے کہا اس کا سب سے زیادہ نقصان بیروزگاری کی صورت میں پیدا ہوا کہ جہاں گاڑیاں بنانے والی کمپنیوں میں کام کرنے والے ملازمین خاص کر ڈیلی ویجرز کام سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ اس سے منسلک صنعتی یونٹس بند ہو گئے۔
معاشی امور کے ماہر شہریار بٹ نے معیشت کو پہنچنے والے نقصانات کےبارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس شعبے میں منفی گروتھ سے سب سے بڑا نقصان تو بیروزگاری کی صورت میں ہوا کہ بہت سارے لوگ جو ناصرف کار پلانٹس اور آٹوپارٹس فیکڑیوں میں ملازمتوں سے ہاتھ دھو بیٹھے بلکہ اس کے ساتھ ایسے افراد جو نئی گاڑیوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں ان کے لیے معاشی نقصانات بے پناہ ہوئے۔
انھوں نے کہا کہ اگرچہ اعداد و شمار تو دستیاب نہیں مگر انڈسٹری میں کام بند ہونے سے اس کا ملکی اکانومی کی ترقی پربھی منفی اثر پڑا۔
Getty Imagesآٹو سیکٹر کی اس صورتحال کے باعث اس شعبے سے منسلک بہت سے پاکستانیوں کی نوکریاں ختم ہوئیں (فائل فوٹو)کیا 2024 میں گاڑیاں تیار کرنے کے شعبے میں کوئی بہتری پیدا ہو سکتی ہے؟
سال 2023 میں آٹو شعبے کی کارکردگی منفی رہی اور نئے سال یعنی 2024 میں اس شعبے کی کارکردگی کے بارے میں بھی آٹو سیکٹر کے ماہرین زیادہ پُرامید نہیں ہیں۔
عبد الوحید نے اس سلسلے میں کہا اس شعبے کی کارکردگی پوری معیشت سے جڑی ہوئی ہے اور اگر رواں برس پاکستانی معیشت میں کوئی بہتری نمودار ہوتی ہے تو ہو سکتا ہے کہ یہ شعبہ بھی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے۔ انھوں نےکہا بین الاقوامی سطح پر شپنگ کمپنیوں کے کرائے بڑھ گئے ہیں جو خام مال کو مہنگا بنا رہے ہیں، تو دوسری جانب ملکی سطح پر ڈالر مہنگا ہے جو گاڑیوں کی لاگت میں اضافہ کر رہا ہے، ایسے میں اس شعبے کے لیے صورتحال کوئی زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آتی ہے۔
مشہود علی خان بھی سال 2024 کو آٹو شعبے کے لیے مشکل قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا حکومت کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ شرح سود دسمبر 2024 تک نیچے آئے گا جب سال نکل چکا ہو گا، ایسی صورتحال میں آٹو فنانسنگ مہنگی رہے گی اور دوسری جانب ملک میں زرمبادلہ ذخائر کی صورتحال بھی زیادہ اچھی نہیں کہ کسی بہتری کی امید کی جا سکے۔