جب بانی بنگلہ دیش شیخ مجیب الرحمان میانوالی جیل سے رہا ہو کر انڈیا پہنچے

بی بی سی اردو  |  Jan 11, 2024

دلی میں اُس دن بہت سردی تھی۔ سرد ہوا چل رہی تھی۔ 10 جنوری 1972 کی صبح دلی پولیس کے کانسٹیبل خاکی اوور کوٹ پہنے خُصوصی ڈیوٹی پر پہنچے تھے۔

یہ تصویر امریکی ٹی وی چینل این بی سی کی ایک ویڈیو رپورٹ میں دیکھی گئی تھی۔

برطانوی رائل ایئر فورس کا ایک خصوصی طیارہ انڈیا کے لیے ایک خاص مہمان کو لے کر دہلی کے پرانے پالم ہوائی اڈے پر اترا تو انڈیا کی اعلیٰ سیاسی قیادت نے اُن کا استقبال کیا۔

انڈیا کے اُس وقت کے صدر وی وی گری اور وزیر اعظم اندرا گاندھی نے جب خاص مہمان کو خوش آمدید کہا تو ہوائی اڈے پر ان کے ساتھ ان کی کابینہ کے تمام ارکان، فوج اور ہزاروں عام لوگ بھی تھے۔

برطانوی طیارہ لندن سے طویل سفر کے بعد 10 جنوری کو صبح آٹھ بج کر 10 منٹ پر دلی پہنچا تھا۔ مہمان خصوصی بنگلہ دیش کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن تھے۔

Getty Imagesانڈین فوج کے دو افسران بھی اُن کے ساتھ تھے

انڈین بنگالی افسر ششانک شیکھر بینرجی اس پرواز میں ان کے ساتھ لندن سے دلی آئے تھے۔ ساٹھ کی دہائی کے وسط میں ڈھاکہ میں ایک انڈین سفارت کار کی حیثیت سے ان کی ملاقات شیخ مجیب الرحمن سے ہوئی۔

تاہم جنوری 1972 میں، ممتا بینرجی لندن میں انڈین ہائی کمیشن میں تعینات سفارت کار تھیں۔

ممتا بینرجی نے یاد دلایا کہ رائل ایئر فورس کا طیارہ لندن سے اڑان بھرنے کے بعد دو بار رکا۔ ایک بار اکروٹیری، قبرص میں اور دوسری بار عمان میں۔ یاد رہے کہ یہ دونوں برطانوی فضائیہ کے ہی ہوائی اڈے تھے۔

انڈین پولیس آفسر وید ماروا لندن سے دلی اور پھر ڈھاکہ جانے والی پرواز کے دوران شیخ مجیب الرحمٰن کی سکیورٹی کے انچارج تھے۔

انھوں نے اپنے کیریئر کا آغاز مغربی بنگال کے ڈائمنڈ ہاربر میں سب ڈویژنل پولیس آفیسر کی حیثیت سے کیا اور بعد میں دلی کے پولیس کمشنر بنے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد وہ انڈیا کے زیر انتظام جموں و کشمیر سمیت کئی ریاستوں کے گورنر رہے۔

Getty Imagesدو انڈین افسران کے بیانات میں تضاد تھا

ششانک شیکھر بینرجی اور وید ماروا شیخ مجیب الرحمان کے ساتھ لندن سے دلی اور پھر دلی سے ڈھاکہ کے سفر پر گئے۔ ان دونوں نے اس سفر کے بارے میں اپنی اپنی یاداشتیں ہمارے سامنے تو رکھیں تاہم دونوں کے بیانات میں بہت فرق تھا۔

ممتا بینرجی نے خود ایک کتاب لکھی اور انڈیا کے نیوز پورٹل دی کوئنٹ میں ایک مضمون لکھا، جس میں کچھ سال پہلے کے اس سفر کی یاد تازہ کی اور انڈین صحافی سکھرنجن سین گپتا نے اپنی کتاب ’بھنگا پتھر رنگا دھولے‘ میں اپنے اس سفر کے بارے میں ساری تفصیل لکھی۔

بنگلہ دیش کے ایک سیاسی مورخ محی الدین احمد نے کہا، ’میں نے ان دونوں کے بیانات پڑھے ہیں۔ یہ دونوں شیخ مجیب الرحمٰن کے ساتھی کی حیثیت سے اندرا گاندھی کی ہدایت پر لندن سے براستہ دلی ڈھاکہ آئے تھے۔

لیکن ششانک شیکھر بینرجی کی تحریروں میں اعتبار کا فقدان ہے۔ وہ دراصل انڈین خفیہ ایجنسی را کے افسر تھے اور وید ماروا انڈین پولیس سروس کے افسر تھے۔ مجیب الرحمٰن نے طیارے میں تصاویر لیں جس میں دونوں اُن کے قریب بیٹھے تھے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’بینرجی ساٹھ کی دہائی کے وسط میں ڈھاکہ میں انڈین سفارت خانے میں کام کر رہے تھے۔ اس وقت ان کی ملاقات مجیب الرحمن سے ہوئی اور انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ ان سے ملنے والے پہلے انڈین افسر ہیں۔‘

محی الدین احمد نے کہا ’ایک بار پھر انھوں نے دعویٰ کیا کہ وہ لندن کے ہوائی اڈے پر مجیب الرحمان کا استقبال کرنے آئے تھے۔ یہ مکمل طور پر غلط ہے۔ مجھے وید ماروا کا بیان زیادہ قابل اعتماد لگتا ہے۔‘

تاہم، انڈیا میں، ممتا بینرجی کا بیان زیادہ عام ہے لیکن وید ماروا کا نہیں۔ ایک بار پھر بنگلہ دیش عوامی لیگ نے اپنی ویب سائٹ پر ماروا کے بیان کو نمایاں کیا ہے۔

بھٹو نے شیخ مجیب الرحمان کو الوداع کہا

شیخ مجیب الرحمٰن کو میانوالی جیل سے رہا کیا گیا اور حکومت پاکستان نے پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز کے خصوصی طیارے کے ذریعے روانہ کیا۔ بنگلہ دیش کی سیاست کے ایک اور بڑے نام ڈاکٹر کمال حسین کو بھی اُسے دن رہا کیا گیا تھا۔

ڈھاکہ کے سینئر صحافی سلیم صمد کا کہنا ہے کہ ’ذوالفقار علی بھٹو خود شیخ مجیب الرحمان کو رخصت کرنے کے لیے ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ یہ بات مجھے ڈاکٹر کمال حسین نے 2004 میں مونٹریال، کینیڈا میں بتائی تھی۔‘

مجیب الرحمٰن نے لندن میں ایک پریس کانفرنس کی۔ جہاں انھوں نے بتایا کہ ’بھٹو کو میں نے ایک سے زیادہ بار ’خوش قسمت‘ کہتے سنا۔‘

صحافی سلیم صمد کے مطابق ’جنگ بنگلہ دیش میں بڑے پیمانے پر نقصانات کا باعث بنی تھی۔ اس بارے میں مجیب الرحمٰن کوعلم نہیں تھا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انھوں نے لندن میں ذوالفقار علی بھٹو کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا لیکن جب وہ ڈھاکہ واپس آئے اور ملک کے حالات کو اپنی آنکھوں سے دیکھا تو ان کا رویہ بدل گیا۔‘

گرے رنگ کا سوٹ، براؤن اوور کوٹ

اس دن پالم ایئرپورٹ پر شیخ مجیب الرحمٰن کی آمد سے متعلق نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ ’جب شیخ مجیب نے طیارے سے باہر ریڈ کارپٹ پر قدم رکھا تو ان پر گلاب اور گیندے کے پھولوں کی پتیاں نچھاور کی گئیں تھیں۔‘

نیو یارک ٹائمز نے لکھا کہ ’انھوں نے دلی کی ٹھنڈی ہوا سے بچنے کے لیے سرمئی رنگ کا سوٹ اور بھورے رنگ کا اوور کوٹ پہن رکھا تھا۔

این بی سی ویڈیو میں انڈین صدر وی وی گری، وزیر اعظم اندرا گاندھی اور ان کی کابینہ کے ارکان بنگلہ دیش کے بانی کے لیے طیارے کے سامنے لگائی جانے والی سیڑھیوں کےپاس اُن کا انتظار کرتے نظر آرہے تھے۔ ویڈیو کے پس منظر میں ’جوئے بنگلہ‘ اور’جوئے بنگا بندھو‘کے نعرے سنائی دے رہے ہیں۔

10 جنوری کی شام کو کولکتہ آکاش وانی نے ایک خصوصی خبر ’ویچترا‘ نشر کی۔ جنگِ آزادی کے دوران یہ پروگرام بنگلہ دیش اور مغربی بنگال کے لوگوں کو بہت عزیز ہو گیا۔ دیگر دنوں کی طرح، دیب دولال بندوپادھیائے نے بھی 10 جنوری کی خصوصی خبر ویچترا پڑھی۔

یہ پروگرام پرسار انڈیا کے آرکائیو میں رکھا گیا ہے، جو انڈیا کے سرکاری میڈیا اداروں آکاش وانی اور دوردرشن کو کنٹرول کرتی ہے۔

’میں سونار بنگلہ واپس جا رہا ہوں‘

انڈیا نے بنگلہ دیش کے پہلے صدر اور ساڑھے سات کروڑ بنگالیوں کے غیر متنازعہ رہنما شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کیا۔ 21 بندوقوں کی سلامی دی گئی اور انڈین فوج نے بنگلہ دیش کے صدر کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔‘

تقریب میں اس وقت کے انڈیا کے صدر وی وی گری کا استقبالیہ خطاب ہوا۔

اس کے جواب میں شیخ مجیب الرحمٰن نے کہا کہ ’میں نے بنگلہ دیش جاتے ہوئے آپ کے اس عظیم ملک کے عظیم دارالحکومت میں رکنے کا فیصلہ کیا۔ میں اپنے لوگوں کے سب سے پیارے دوست، انڈیا کے عوام اور ہماری عظیم وزیر اعظم اندرا گاندھی کی قیادت والی حکومت کو خصوصی خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے کم از کم اتنا ہی کر سکتا ہوں۔‘

بنگلہ دیش کے بانی نے کہا کہ ’میں آخر کار سونار بنگلہ واپس جا رہا ہوں۔‘

’میں شیخ صاحب کو جیل سے نکلواؤں گا‘

پالم ہوائی اڈے پر شیخ مجیب الرحمٰن کا استقبال کرنے کے بعد قریبی دلی چھاؤنی کے پریڈ گراؤنڈ میں ان کا استقبال کیا گیا۔

آکاش وانی کے سنگ باد ویچترا پروگرام کے بارے میں دیب بندوپادھیائے کے بیان کے مطابق، ہزاروں لوگ وہاں جمع ہوئے۔

پریڈ گراؤنڈ میں 10 جنوری کو وزیر اعظم اندرا گاندھی کی تقریر چلائی گئی تھی۔

اندرا گاندھی نے کہا، ’یہاں انڈیا میں، ہم نے اپنے لوگوں سے تین وعدے کیے تھے۔ سب سے پہلے،جو پناہ گزین یہاں آئے ہیں وہ واپس جائیں گے۔ دوسرا، ہم مکتی باہنی اور بنگلہ دیش کے عوام کی ہر طرح سے مدد کریں گے۔ اور تیسری بات یہ کہ ہم شیخ صاحب کو ضرور جیل سے باہر نکالیں گے۔‘

اندرا گاندھی نے کہا کہ ہم نے تینوں وعدوں کو پورا کیا ہے اور اب شیخ صاحب ایک بڑے چیلنج کا سامنا کرنے کے لیے اپنے خاندان اور اپنے پیارے لوگوں کے پاس واپس جا رہے ہیں۔

ہندی میں اپنی تقریر کے اختتام پر اندرا گاندھی نے ’جئے بنگلہ‘ کا نعرہ لگایا۔

بنگلہ زبان میں شیخ مجیب الرحمٰن کی تقریر

بنگلہ زبان میں شیخ مجیب الرحمٰن نے تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ’میں سیکولرازم پر یقین رکھتا ہوں، میں جمہوریت پر یقین رکھتا ہوں، میں سوشلزم پر یقین رکھتا ہوں۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ آپ کے نظریات اندرا گاندھی سے اتنے ملتے جلتے کیوں ہیں؟ میں کہتا ہوں، یہ نظریات کی مماثلت ہے، یہ اصولوں کی مماثلت ہے، یہ انسانیت کی مماثلت ہے،یہ عالمی امن کا اتحاد ہے۔

اُن کا مزید کہنا تھا کہ ’میں آج تھوڑا جذباتی ہوں، آپ سمجھ سکتے ہیں، مجھے معاف کر دیں۔ ایک بار پھر، میں آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں اور چلا جاتا ہوں۔ شیخ مجیب الرحمٰن نے اپنی تقریر کا اختتام ’جئے بنگلہ، جئے ہند‘ کہہ کر کیا۔

چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد انہوں نے کہا، ’جئے اندرا گاندھی۔‘

’شیخ مجیب الرحمن زندہ باد کہو،‘ اندرا گاندھی کو مائیکروفون میں کہتے ہوئے سنا گیا۔‘

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More