پاکستان میں خواتین کی مخصوص نشستوں پر ’پیراشوٹرز‘ اور ’رشتہ داروں‘ کو ترجیح کیوں ملتی ہے؟

بی بی سی اردو  |  Jan 09, 2024

پاکستان میں آٹھ فروری کے عام انتخابات میں خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے سیاسی جماعتوں کی جانب سے جمع کرائی گئی فہرستوں نے یہ بحث چھیڑ دی ہے کہ آخر ایسی کیا وجہ ہے کہ بار بار ان سیٹوں پر وہی نام چُنے جاتے ہیں جو یا تو کسی جوڑ توڑ کا حصہ ہوتے ہیں، یا پھر کسی اہم رہنما کے رشتہ دار۔

الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں پر خواتین کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع کروانے کی تاریخ میں دو ہفتے کی توسیع کی جن کی جانچ پڑتال 13 جنوری کو ہو گی اور اِن مخصوص نشستوں کے امیدواروں کی حتمی فہرست 23 جنوری کو جاری کی جائے گی۔

اب تک جمیعت علمائے اسلام فصل الرحمن گروپ نے قومی اسمبلی کے علاوہ صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان اسمبلی کے لیے خواتین اور اقلیتوں کی مخصوص نشستوں کے لیے ترجیحی فہرست شائع کی ہے جس میں زیادہ تر چہرے وہی ہیں جو گذشتہ اسمبلی میں بھی موجود تھے۔

سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کا انتخابی نشان الیکشن کمیشن نے اس کا انٹراپارٹی الیکشن کالعدم قرار دے کر واپس لیا، جو پشاور ہائیکورٹ نے بحال کیا تھا۔ اب پشاور ہائیکورٹ کے ہی ایک اور بینچ نے اپنے ساتھی ججز کی طرف سے دیے گئے حکم امتناع کو خارج کر دیا ہے اور الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف نے پشاور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کر رکھا ہے اور اس اپیل پر بینچ تشکیل دے دیا گیا ہے۔

انتخابی نشان سے متعلق حتمی فیصلہ نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان تحریک انصاف نے ابھی تک مخصوص نشستوں پر خواتین امیداواروں کے ناموں کا اعلان نہیں کیا کیونکہ چیئرمین بیرسٹر گوہر کا کہنا ہے کہ انھوں نے اس فہرست کے حوالے سے سابق وزیر اعظم اور پارٹی کے بانی عمران خان سے جیل میں مشاورت کرنی ہے۔

ملک کی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی نے ابھی تک قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں کے لیے مخصوص نشستوں پر خواتین کے ناموں کا اعلان نہیں کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے صرف سندھ اسمبلی کے لیے مخصوص نشستوں کے حوالے سے ترجیحی فہرست جاری کی ہے تاہم ان کے ترجمان نذیر ڈھوکی کا کہنا ہے کہ یہ فہرست ابھی حتمی نہیں اور اس پر مزید سوچ بچار ہو سکتی ہے۔

مخصوص نشستوں پر خواتین اور اقلیتی نمائندوں کا انتخاب کس طرح ہوتا ہے؟

قومی اسمبلی کی جنرل نشستیں 266 ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشستیں 60 ہیں، یعنی قریب ساڑھے چار سیٹیں جیتنے پر خواتین کی ایک مخصوص نشست ملتی ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں اقلیتوں کی دس مخصوص نشستیں ہیں، یعنی ساڑھے چھبیس سیٹیں جیتنے پر ایک اقلیتی نشست۔

آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں جنرل نشستیں 297 ہیں جبکہ خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 66 ہے اور اقلیتیی سیٹیوں کی تعداد آٹھ ہے۔ اس طرح ساڑھے چار نشستیں جیتنے والی جماعت کو خواتین کی ایک مخصوص نشست ملے گی جبکہ 37 نشستیں جیتنے والی جماعت ایک اقلیتی سیٹ کی حقدار ہوگی۔

اسی طرح صوبہ خیبر پختونخوا کی صوبائی اسمبلی میں خواتین کی مخصوص نشستوں کی تعداد 26 ہے جبکہ صوبہ سندھ میں 29 اور صوبہ بلوچستان میں 11۔

پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں مخصوص نشستوں پر حتمی لسٹوں کی منظوری کا اختیار پارٹی کے چیئرمین کو دیا گیا ہے اور اس قانون کے مطابق پارٹی کے چیئرمین کے اختیار کو کہیں بھی چلینج نہیں کیا جاسکتا۔

اس کی وجہ سے عمومی طور پر یہی دیکھا گیا ہے کہ وہی خواتین دوبارہ اسمبلیوں میں آتی ہیں جو پارٹی کی قیادت کے زیادہ قریب سمجھی جاتی ہیں یا پھر ایسے بااثر خاندانوں کی خواتین مخصوص نشستوں پر منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں جاتی ہیں جن کی جانب سے پارٹی کو کروڑوں روپے کے فنڈز دیے جاتے ہیں۔

EPA’بعض پیراشوٹرز خواتین کو مخصوص نشستوں کے ٹکٹ دیے گئے‘

گذشتہ انتخابات کی طرح اس بار بھی اِن خواتین نے آواز اٹھائی ہے جنھیں پارٹی سے طویل وابستگی کے باوجود قیادت کے قریب نہ ہونے یا مالی طور پر مستحکم نہ ہونے کی وجہ سے مخصوص نشستوں کے لیے نہیں چُنا گیا۔

رقبے کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان میں ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ نون اور پاکستان پیپلز پارٹی کی خواتین کارکنان نے قومی و صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم پر تحفظات کا اظہار کیا۔

پیپلز پارٹی کی ناراض خواتین عہدیداروں اور کارکنان نے پارٹی کے صوبائی دفتر کے باہر دھرنا دے کر احتجاج ریکارڈ کرایا۔

ناراض کارکنان کا دعویٰ تھا کہ پیپلز پارٹی نے طویل عرصے تک جدوجہد کرنے والی خواتین کو نظرانداز کیا۔ ناراض ارکان میں سے ایک ثنا درانی کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے سابق وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نواب ثنا اللہ زہری کی صاحبزادی اور سابق صوبائی وزیر میر صادق عمرانی کی اہلیہ کے نام دیے گئے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’بڑے لوگ ویسے تو اپنی خواتین رشتہ داروں کو گھروں میں بٹھاتے ہیں لیکن جب اسمبلیوں کی ٹکٹوں کا معاملہ ہوتا ہے تو وہ ان کے لیے اپنی رشتہ دار خواتین کو ترجیج دیتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ پارٹی کے بعض عہدیداروں کے رشتہ دار خواتین کے ناموں کو شامل کرنے کے علاوہ اس فہرست میں ایسے ناموں کو شامل کیا گیا جو چند ہفتے قبل ہی پارٹی میں شامل ہوئیں۔ ’ان میں سے بعض ایسی پیراشوٹرز خواتین بھی شامل ہیں جن کو پارٹی میں لوگ جانتے نہیں۔‘

اس احتجاج کے بعد پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت نے احتجاج کرنے والی ناراض خواتین سے رابطہ کیا اور ان کو کراچی طلب کر لیا۔

ثنا درانی نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ پارٹی کی مرکزی قیادت کی جانب سے رابطہ کرنے پر انھوں نے اپنے احتجاج کو موخر کیا۔

انھوں نے بتایا کہ ’ہمیں توقع ہے کہ پارٹی کی مرکزی قیادت ہماری بات سنے گی اور مخصوص نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے پارٹی کے لیے قربانی اور جدوجہد کرنے والی کارکن خواتین کو نظرانداز کرنے کے حوالے سے ہمارے جو تحفظات ہیں ان کو دور کرے گی۔‘

پارٹی چیئرمین کے اختیار کو ’کوئی چیلنج نہیں کر سکتا‘

سابق حکمراں جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکرٹری جنرل احسن اقبال نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ صرف من پسند اور پارٹی سربراہ کے قریب سمجھی جانے والی خواتین کو مخصوص نشستوں کے لیے منتخِب کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس ضمن میں ایک طریقہ کار وضع کیا گیا ہے جس کے مطابق مخصوص نشستوں کے لیے خواتین امیدواروں کا انتخابات کیا جاتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس مرتبہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مخصوص نشستوں پر تجربہ کار اور نوجوان خواتین کو موقع دیا گیا ہے۔

احسن اقبال کے دعوے کے برعکس ابھی تک جن خواتین کو ناموں کو حتمی شکل دی گئی ہے، ان میں سابق وفاقی وزیر اطلاعات مریم اورنگزیب، ان کی والدہ طاہرہ اورنگزیب، سابق وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کی اہلیہ اور ان کی بھتیجی شامل ہیں جبکہ یہ خواتین پچھلی اسمبلی میں بھی موجود تھیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن نے سابق حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی منحرف کارکن وجیہہ قمر کو بھی ٹکٹ دیا ہے جس کے بارے میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ چونکہ وہ بہتر انداز میں اپنا نکتہ نظر بیان کرتی ہیں اس لیے انھیں ٹکٹ دی گئی ہے۔

سابق حکمراں اتحاد کی جماعت جماعت علمائے اسلام ف کے ترجمان اسلم غوری کا کہنا ہے کہ چونکہ ان کی جماعت زیادہ تر صوبہ خیبر پختونخِوا اور بلوچستان سے نشستیں حاصل کرتی ہے، اس لیے انھیں قومی اور صوبائی اسمبلی کے لیے بھی مخصوص نشستوں پر وہی خواتین چاہییں جو ’بولنا اور اپنی جماعت کا موقف بہتر طریقے سے ایوان میں پیش کرنے کا ہنر جانتی ہوں۔‘

انھوں نے کہا کہ اس معیار کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی جماعت نے زیادہ تر انھی خواتین کو مخصوص نشستوں کے لیے اپنا امیدوار نامزد کیا جو پہلے بھی قومی یا صوبائی اسمبلیوں میں رہ چکی ہیں۔

اسلم غوری کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں پر ان خواتین کو نامزد کرنے سے متعلق پارٹی میں کوئی اختلاف نہیں۔

پاکستان پیلز پارٹی کے ایک ترجمان نذیر ڈھوکی کا کہنا ہے کہ ان کی جماعت ملک کی واحد جمہوری جماعت ہے جہاں پر ایک کارکن بھی پارٹی کے سربراہ سے سوال کرسکتا ہے۔

انھوں نے کہا کہ ان کی جماعت میں تمام فیصلے کثرت رائے سے کیے جاتے ہیں اور پارٹی کی قیادت کثرت رائے سے کیے جانے والے فیصلوں کا احترام کرتی ہے۔

انھوں نے کہا کہ مخصوص نشستوں سے متعلق خواتین امیدواروں کی فہرست کو حتمی شکل دے دی جائے گی۔

Getty Images

سیاسی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ نگار سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں کوئی تنطیم سازی نہیں اور نہ ہی کوئی مؤثر نظام ہے۔

انھوں نے کہا کہ کمزور ڈھانچے کی وجہ سے پارٹی چیئرمین مضبوط سے مضبوط تر ہوتا جا رہا ہے اور اس کے اختیارات کو کوئی چیلنج بھی نہیں کرسکتا۔

سہیل وڑائچ کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتوں سے متعلق پولیٹیکل پارٹی ایکٹ میں خواتین کی نشستوں کے حوالے سے ترمیم کی ضرورت ہے جس میں یہ طے کیا جائے کہ نچلی سطح پر یا مالی طور پر غیر مستحکم خواتین ورکر کا بھی مخصوص نشستوں میں حصہ رکھا جائے۔

انتخابی امور پر نظر رکھنے والے ادارے پلڈاٹ کے سربارہ احمد بلال محبوب کا کہنا ہے کہ قانون کے مطابق مخصوص نشستوں پر خواتین کے انتخاب کا اختیار پارٹی قیادت کے پاس نہیں بلکہ سیاسی جماعت کے پاس ہوتا ہے لیکن پاکستان میں سیاسی جماعتیں شحصیات کے گرد گھومتی ہیں، اس لیے یہ اختیار بھی پارٹی کے چیئرمین کے پاس ہے۔

انھوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں میں انٹرا پارٹی الیکشن بھی ایک مذاق بن کر رہ گیا ہے جس پر کوئی ایکشن نہیں لیا گیا اور یہی وجہ ہے کہ ’پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں ڈکٹیٹر شپ زیادہ ہے۔‘

پلڈاٹ کے سربراہ پوچھتے ہیں کہ ’جنرل نشستوں پر ٹکٹوں کی تقسیم کا فیصلہ بھی پارٹی چیئرمین ہی کرتے ہیں تو پھر خواتین کی مخصوص نشستوں پر خواتین امیدواروں کی نامزدگی کیا حثیت رکھتی ہے؟‘

’جب تک ہمارا معاشرہ جمہوری نہیں ہوتا اور پارٹیوں کے اندر انتخابات کا عمل صحیح معنوں میں پورا نہیں ہوتا، اس وقت تک یہ نام نہاد جمہوری نظام اسی طرح ہی چلتا رہے گا۔‘

انھوں نے کہا کہ پارٹی کے اندر سے اس سلسلے میں آوازیں اٹھنا شروع ہوگئی ہیں لیکن ان آوازوں کو بااثر ہونے میں ایک عرصہ درکار ہے۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More