سینیٹ کی ’فوج مخالف پروپیگنڈا کرنے‘ پر سخت سزاؤں کی تجویز: ’جو لائن سے ہٹے گا، اسے ہم دیکھ لیں گے‘

بی بی سی اردو  |  Jan 02, 2024

Getty Images

پاکستان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ سے ایک قرارداد کثرت رائے سے منظور کی گئی ہے جس میں پاکستانی فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر ’منفی پروپیگینڈا‘ کرنے والوں کو سخت سزائیں دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

ابتدائی طور پر اس قراداد میں ایسے افراد کو 10 سال کے لیے پبلک آفس سے نااہل قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا تھا جسے بعد میں چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حذف کر کے ’سخت سزا‘ سے تبدیل کر دیا۔

یہ قرارداد پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے خیبر پختونخوا سے تعلق رکھنے والے سینیٹر بہرامند تنگی نے پیش کی جس میں انھوں نے ’فوج مخالف پروپیگنڈا‘ پر سخت سزا کا مطالبہ کیا۔

قرارداد میں کہا گیا کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور ملکی سرحدوں کے تحفظ و دفاع میں مسلح افواج اور دفاعی ایجنسیوں نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔

اس قرارداد میں ’متعدد سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر مسلح افواج اور سکیورٹی فورسز کے خلاف منفی اور بد نیتی پر مبنی پروپیگنڈا پر‘ گہری تشویش ظاہر کی گئی ہے۔

ویب سائٹ پر اس قرارداد کی ایک کاپی کے مطابق ’سینیٹ نے حکومت کو تجویز دی ہے کہ مسلح افواج اور دیگر سکیورٹی ایجنسیوں کے خلاف منفی اور بدنیتی پر مبنی پروپیگنڈا کرنے والوں کے خلاف 10 سال کے لیے پبلک آفس سے نااہلی سمیت سخت سزائیں دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔‘

یہ کوئی پہلی بار نہیں کہ سینیٹ یا قومی اسمبلی سے اس قسم کی قرارداد یا بل منظور ہوا ہو۔ اس سے قبل اپریل 2021 کے دوران سابق وزیرِ اعظم عمران خان کی حکومت میں قومی اسمبلی سے ایک بل منظور کیا گیا تھا جس میں فوج کے خلاف سوشل میڈیا پر تنقید کے الزام میں دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی تھی۔

’ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے‘

بی بی سی نے مبصرین سے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ آخر ہر سال سینیٹ سے اس قسم کی قراردادیں منظور کرنے کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے۔

صحافی نصرت جاوید نے طنزیہ انداز میں کہا کہ اس کی وجہ یہی ہے کہ ’اور کوئی کام نہیں۔‘

’عام طور پر جب سینیٹرز کے پاس کچھ اور کرنے کو نہیں ہوتا تو وہ اس قسم کی قراردادیں منظور کراتے ہیں۔ اس سے نوکری پکّی ہوجاتی ہے۔‘

انھوں نے زور دیا کہ ’ہمیں تاریخ سے سبق حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔‘

پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو کی مثال دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ ’بھٹو صاحب نے اپنے دور میں قانون پاس کروایا کہ کوئی غیر ملکی وکیل کسی سیاستدان کا مقدمہ نہیں لڑسکے گا۔ اور جب ان کو پھانسی کی سزا ہوئی تب اسی قانون کے تحت ان کو غیر ملکی وکیل نہیں کرنے دیا گیا حالانکہ اس وقت دنیا بھر سے کئی وکلا نے ان کا مقدمہ لڑنے کی حامی بھری تھی۔‘

نصرت جاوید کے مطابق بھٹو دور میں ولی خان کی جماعت (نیشنل عوامی پارٹی) پر پابندی کے بعد یہ قانون متعارف کروایا گیا کہ کوئی غیر ملکی وکیل پاکستان کی کسی عدالت میں لائے کسی ملزم کا وکیل صفائی نہیں ہوسکتا، مگر بعد میں بھٹو کے خلاف قتل کے مقدمے میں یہی قانون ’ان کے آڑے آگیا۔‘

BBC

لاہور سے تعلق رکھنے والے وکیل اور سماجی کارکن معین حیدر نے کہا کہ اس طرح کی قرارداد کو منظور کروانے کے پیچھے وجہ ایک ہی ہے۔ ’اداروں کی یقین دہانی کے لیے اس قسم کی قرارداد منظور کروائی جاتی ہے۔ حالانکہ اس وقت پاکستان میں اگر کوئی ایسی قوّت یا ادارہ ہے جس کا احتساب نہیں ہوسکتا تو وہ فوج ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ہر سال کے شروع میں ’ایسی مہم چلائی جاتی ہے‘ جس میں ’حبّ الوطنی کا ثبوت مانگا جاتا ہے۔ اور سینیٹرز خوشی خوشی وہ ثبوت دیتے ہیں چاہے پھر یہی قانون ان کے آڑے آجائے۔‘

لاہور سے ہی تعلق رکھنے والے ایک اور سماجی کارکن نعیم مرزا نے کہا کہ ایسی روایت ہر ملک میں نہیں ہے۔ ’پاکستان میں ایسا ہونے کے پیچھے وجہ کافی واضح ہے کہ کوئی بھی سیاسی جماعت نہیں چاہتی کہ وہ فوج کو غصہ دلائے۔ اسی لیے ان کو سینیٹ سے اس قسم کی یقین دہانی کرائی جا رہی ہے۔‘

نعیم نے کہا کہ اگر اقتدار میں آنے والی تین بڑی سیاسی جماعتوں کا جائزہ لیا جائے تو اس میں ہر بار پاکستان کے اداروں اور فوج کی عزت کرنے جیسی قراردادیں اور قوانین منظور کی گئی ہیں۔ ’اس کی بنیاد گھوم پھِر کر ایک ہی ہیں۔ لیکن حیران کن طور پر اس وقت کوئی ایسی سیاسی جماعت نہیں ہے جو اداروں کے احتساب کی بات کرے جس کی وجہ سے آج تک لاپتہ افراد کے معاملے پر کوئی خاطر خواہ پیشرفت نہیں ہو پا رہی ہے۔‘

نعیم نے کہا کہ ’مجھے یاد نہیں پڑتا کہ سیاستدانوں نے مل کر ایسی کوئی قرارداد منظور کروائی ہو کہ سیاستدانوں کی تذلیل نہ کی جائے یا ان کے خلاف کوئی آن لائن مہم نہ چلائی جائے۔‘

جبکہ نصرت جاوید نے کہا کہ ’میں اس قسم کی باتوں کو سنجیدگی سے نہیں دیکھتا کیونکہ قرارداد منظور کروانے کے پیچھے وجہ یہی ہے کہ ایک خاص ادارے کو بارہا یاد دلانا کہ آپ کے ناموس کی پاسداری کی جا رہی ہے۔ اور جو لائن سے ہٹے گا اسے ہم دیکھ لیں گے۔‘

دریں اثنا سینیٹر بہرامند تنگی نے گذشتہ روز ایوان میں اس قرارداد کی حمایت میں کہا تھا کہ افواج پاکستان اور سکیورٹی فورسز کے خلاف جو گندی زبان استعمال کرتے ہیں، ان کی زبانوں کو ’کاٹنا چاہیے‘ کیونکہ یہی ادارے دہشتگردی کے خلاف قربانیاں دیتے ہیں۔

سینیٹرز نے پیر کو لاپتہ افراد کے مسئلے کے حل کے حوالے سے اپنی اپنی آرا کا اظہار ضرور کیا مگر اس قرارداد کی منظوری سے متعلق کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

مزید خبریں

Disclaimer: Urduwire.com is only the source of Urdu Meta News (type of Google News) and display news on “as it is” based from leading Urdu news web based sources. If you are a general user or webmaster, and want to know how it works? Read More